ریپ انسانی رضا، consent کے آدرش پر رذیل مجرمانہ حملہ ہے
ریپ اور انسانیت دو اضداد ہیں۔ ریپ انسانی رضا، consent پر حملہ ہے؛ سیکس کا تو یہی ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر سے زیادہ افراد کی باہمی رضا مندی کے ساتھ ہونے والے سیکس کے بَہ غیر افراد کے درمیان سیکس کی ہر شکل جرم ہے۔ اس رضا مندی کی بھی اخلاقیات ہیں جس میں کسی قسم کی بلیک میلنگ کی گنجائش نہیں ہے۔ رضا، consent کی پامالی فردیَّت، انسانیت اور شہریت کی پامالی ہے۔
از، نصیر احمد
لاہور رنگ روڈ اور سیال کوٹ لاہور موٹروے پر ریپ ہوتا ہے۔ ریپ صرف واقعہ نہیں المیہ بھی ہے۔ اس المیہ کی خاکستری اور سیال گھڑیوں کی تقسیم کیا ہے؟ یہ سطریں رقم ہونے تک ان جڑی ہوئی گھڑیوں کی کچھ ایسی ترتیب ہے:
●خاتون کی گاڑی خراب ہوتی ہے۔
●وہ کسی عزیز کو فون کرتی ہیں۔
●عزیز موٹروے پولیس سے مدد لینے کا مشورہ دیتے ہیں اور خود بھی خاتون کی مدد کو چل پڑتے ہیں۔
●خاتون تک پہنچتے ہیں تو ان کے کپڑے خون آلود ہوتے ہیں اور وہ پریشان حال ہوتی ہیں۔
●معلوم کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ دو افراد انھیں اور ان کے بچوں کو گَن دکھا کر انھیں ایک قریبی کھیت میں لے گئے تھے اور خاتون کا گینگ ریپ کیا گیا تھا۔
خبر کی بنیاد ہر چند باتیں سامنے آتی ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ان گینگ ریپ کرنے والوں میں اپنے افراد ہونے کا احساس نہیں۔ انھیں ان خاتون اور ان کے بچوں کے بھی افراد ہونے کا احساس نہیں ہے۔
فرد کی زندگی میں افعال، اعمال اور جرائم کرنے سے پہلے کچھ سوال سامنے آتے ہیں۔ فرد تو کسی کو تنہا پا کر وحشیوں کی طرح اس پر ٹوٹ نہیں پڑتا۔ وہ اپنے ضمیر کو جواب دِہ ہوتا ہے۔ وہ دوسرے افراد کو جواب دِہ ہوتا ہے۔ وہ ملکی قوانین کو جواب دہ ہوتا ہے۔ اس کا زندگی کے بارے میں ایک اخلاقی نقطۂِ نظر ہوتا ہے۔ وہ اپنے اعمال کے دوسروں کے لیے نتائج پر سوچتا ہے۔ وہ دوسروں کو اپنے جیسا انسان سمجھتا ہے۔
گینگ ریپ کرنے والوں میں یہ سب باتیں موجود نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ گینگ ریپ کرنے والوں کو اپنے شہری ہونے کا شعور اور احساس نہیں ہے۔
شہری کے لیے شہری ذمے داریاں اہم ہوتی ہیں۔ کسی جگہ کسی کو مصیبت کا شکار دیکھ کر اس کا فوری ردِ عمل مدد کرنے کا ہے۔ اپنی نگاہوں میں اپنے شہری ہونے کا ایک وقار ہوتا ہے۔ بَہ طور شہری دوسرے شہریوں کی نگاہوں میں مرتبت کی آرزو ہوتی ہے۔ کبھی کسی کی مدد نہ ہو سکے تو شہری افسردہ اور آزُردہ بھی ہوتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ یہ گینگ ریپ کرنے والوں کو انسان ہونے کا بھی شعور اور احساس نہیں ہے۔
انسان کے لیے بھی اپنی اور دوسروں کی انسانیت اہم ہوتی ہے اور انسان بھی کسی کو مشکل میں دیکھ کر مدد ہی کرتا ہے۔ مدد نہ کر سکے تو مشکل میں اضافہ نہیں کرتا۔ مشکل کا استِحصال نہیں کرتا۔ انسان کے لیے بھی فردیت اور شہریت اہم ہوتی ہے اور یہ اہمیت اس کی انسانیت گرنے نہیں دیتی۔
یہ گینگ ریپ کرنے والے حیاتیاتی معنوں میں انسان ہیں۔ قانون کی نگاہ میں بھی انسان ہیں۔ اخلاقیات کی نگاہ میں بھی انسان ہیں۔ لیکن ان سب خوبیوں سے تہی صفا ہیں جن سے انسانیت، فردیت اور شہریت کا معیار بہتر ہوتا ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ہماری نظر میں ریپ انسانی رضا، consent پر حملہ ہے کہ سیکس کا تو یہی ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر سے زیادہ افراد کی باہمی رضا مندی کے ساتھ ہونے والے سیکس کے بَہ غیر افراد کے درمیان سیکس کی ہر شکل جرم ہے۔
اس رضا مندی کی بھی اخلاقیات ہیں جس میں کسی قسم کی بلیک میلنگ کی گنجائش نہیں ہے۔ رضا, consent کی پامالی فردیَّت، انسانیت اور شہریت کی پامالی ہے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ اس بربریت کا شکار ایک خاتون اور ان کے بچے ہیں۔ جن کی فردیت، انسانیت، شہریت، ان کے جسم، ان کی رضا، ان کی زندگی پامال ہوئی ہے۔
اس کے بعد ایک اچھے معاشرے کا تو یہی فرض بنتا ہے کہ ان کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دے اور اس الم انگیز واقعے کے بعد ان کی تا حیات دل داری اور غم گساری کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ گینگ ریپ کے واقعات میں کمی آئے۔
چھٹی بات ایک سوال ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے گینگ ریپسٹ کیوں ہیں اور اتنی زیادہ تعداد میں کیوں ہیں؟ (ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ترانوے فیصد خواتین جنسی تشدد کا شکار ہیں۔)
مسئلہ یہ ہے کہ ہماری معاشرتی تعلیم میں فردیت، انسانیت، شہریت، قانون کی عمل داری، جمہوری اخلاقیات پر توجُّہ ہی نہیں ہے۔ توجہ ہے تو مذہب کی محدود تر تصویر و تصور پر؛ لیکن اس توجہ کا پسِ منظر بھی مذہب نہیں، مذہبی اور ثقافتی فاشزم ہے۔ اس طرح کے فوکس سے اچھے انسانوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو رہا، بَل کہ لمحہ بَہ لمحہ، ماہ بَہ ماہ، سال بَہ سال ،شہر بَہ شہر، قریہ بَہ قریہ اچھے انسانوں میں کمی آ رہی ہے۔
اور یہ کمی کیوں نہ آئے؟ چار پانچ سال پہلے ایک آدمی کے گرد مَجمعے میں سے کچھ اوباش__ اس فرد کا مجمع جس نے قانون کا تحفظ کرنا تھا__ اسے سرِ عام پیٹ رہے تھے کہ وہ آدمی اس مجمعے کو مسلسل قانون کی خلاف ورزی پر اکسا رہا تھا۔
وہ آدمی اب معاشرے میں پہلے سے بھی معتبر ہے۔ (کیا شاہ راہِ دستور پر پولیس افسر عصمت اللہ جونیجو پر ہجومی تشدد یاد آیا ہے؟)
مسئلہ یہ ہے کہ جتنا جتنا قانون اور اخلاقیات کی پامالی میں اضافہ ہوتا ہے اتنے اتنے یہ پامالی کرنے والے دولت مند، طاقت ور اور مشہور ہوتے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں__ اگر ہم دیانت سے رابطہ رکھیں تو__ جتھے بنا کر رضا کی ہر شکل کو پامال کرنے کا رواج ہے اور اس رواج کی حمایت میں فاشزم بنیاد ثقافت کھڑی ہوئی ہے۔
ایک قدیم مثالیہ ہے کہ گیانی دھیانی پر قوانین اور اخلاقیات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اچھے بھی مثالیے ہوں گے۔ مگر معاشرے میں اسی مثالیے کا رواج ہے۔ اور بڑا آدمی ہونے سے اکثر یہی مراد لی جاتی ہے کہ بڑے آدمی پر قوانین اور اخلاقیات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر گُرو قوانین اور اخلاقیات کا احترام نہیں کرتا تو چیلے چانٹے بھی نہیں کریں گے۔
اب فردیت، انسانیت، شہریت، جمہوریت، قوانین، اخلاقیات، فطانت اور دیگر انسانی اوصاف سے معاشرتی پسندیدگی تک ہٹا دیں گے تو ایسے افراد، انسانوں اور شہریوں کی تعداد میں کیسے اضافہ ہو گا؟
اگر فردیت، شہریت اور انسانیت کو معاشرتی تعلیم پر توجہ نہ دیں گے تو ایسے افراد کی تعداد میں کیسے اضافہ ہو گا جو ایک مصیبت میں گرفتار خاتون اور اس کے بچوں کی مدد کریں گے؟
ایسے میں تو غول و وُحُوش، اخلاق وَراء سادُھو، بگڑے ہوئے قلندر، بد معاش، اوباش اور نَخوَت میں مبتلا فاشسٹ ہی بڑھتے رہیں گے۔ جن کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ افراد، انسانوں اور شہریوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے، انھیں بس اپنی نخوَت بھری بربریت کی تسکین ہی چاہیے۔
واقعے کی نوعیت جذباتی تو کر دیتی ہے لیکن جذبات کا کیا؟ ایک جوار بھاٹا ہے تھوڑی دیر میں ختم ہو جائے گا۔ اک طوفان ہے تھم جائے گا۔ ان معاملات پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ جنون میں مبتلا کر دینے والے نظریات نے فکر کے خلاف ایک مسلسل بغاوت کی ترویج کر دی ہے۔ اس رجحان کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے۔
معاشرتی تعلیم کو جمہوریت، انسانیت، شہریت، فردیت، قانون کی عمل داری، خلاقی، آزادی اور جمہوری اخلاقیات سے منسلک کر کے ہی اس حوصلہ شکنی کی طرف سفر کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔