واپس نہ جا وہاں کہ ترے شہر میں، راول پنڈی کی بینک روڈ

Dr Shahid Siddiqui

واپس نہ جا وہاں کہ ترے شہر میں، راول پنڈی کی بینک روڈ

از، ڈاکٹر شاہد صدیقی

میں راول پنڈی کی بینک روڈ سے پہلے پہل اپنے کالج کے دنوں میں آشنا ہوا۔ وہ بھی کیا دن تھے جب شام کے رنگوں کے ہمراہ ہم دوست بنک روڈ پر پہروں بے مقصد گھوما کرتے تھے۔ بینک روڈ کی بہت سی عمارتیں ہمارے سامنے تعمیر ہوئیں اوربہت سی جگہیں دیکھتے ہی ہماری نگاہوں کے سامنے معدوم ہوگئیں۔

اب سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے اگر صدر راول پنڈی کا دل تھا تو بینک روڈ اس دِل کی شاہ رگ تھی جہاں زندگی ہمارے دلوں کے ساتھ دھڑکتی تھی۔ نیشنل بینک کی وسیع و عریض عمارت کی وجہ سے یہ بینک روڈ کے نام سے جانی جاتی تھی اب تو بہت سے بینکوں کی برانچیں اس کے دائیں بائیں واقع ہیں۔

راول پنڈی اور لال کرتی سے آتے ہوئے مال روڈ سے صدر کی طرف مڑتے ہوئے دائیں جانب پوسٹ آفس کی عمارت تھی ایک وسیع وعریض عمارت خان اینڈ سنزوائن شاپ تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ابھی وائن پر پابندی عاید نہیں ہوئی تھی۔ اسی جگہ پرمشہور شالیمار ریستوران تھا جہاں شاعر اور ادیب جمع ہوتے تھے یہیں ایک بار اردو کے بے مثل نظم گو شاعر اخترحسین جعفری سے میری طویل ملاقات ہوئی تھی۔ اُردو ادب میں اُن کے شعری مجموعے، ” آئینہ خانہ‘‘ کی خاص اہمیت ہے۔

پوسٹ آفس کی عمارت کے با لکل سامنے شیزان ریستوران تھا۔ یہ راول پنڈی کا بہت ہی خوب صورت ریستوران تھا، جو کافی کے لیے مشہور تھا مجھے یاد ہے ایک بار ہم شیزان میں کافی پی رہے تھے، معروف مرثیہ خواں مرحوم ناصر جہاں بھی شریکِ محفل تھے۔ وہ جس محفل میں ہوتے اپنی دل چسپ گفتگو سے جانِ محفل بن جاتے قصہ گوئی کوئی اُن سے سیکھے۔ انگریزی شعرا کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی جب میٹا فزیکل شاعر Donne کا ذکر آیا تو کہنے لگے بھئی ہم Donne ) ڈن) کو ڈنی پڑھا کرتے تھے پھرخود ہی قہقہہ لگایا اورکہنے لگے یہی فرق ہوتا ہے پرائیویٹ اور ریگولر سٹوڈنٹ میں۔

اب نہ وہ شیزان کا شجر رہا اور نہ اس شجر پر بیٹھنے والے پرندے۔ شیزان سے آگے جائیں تودائیں طرف امریکن سینٹر کی وسیع و عریض عمارت تھی جہاں گرمیوں کی دوپہروں میں ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں کتابیں پڑھنے کی سہولت موجود تھی۔ امریکن سینٹر کے با لکل سامنے لنڈن بک کمپنی تھی۔ اب نہ شالیمار ریستوران رہا نہ شیزان کیفے، نہ امریکن سینٹر اور نہ ہی لنڈن بُک کمپنی۔

واپس نہ جا وہاں کہ ترے شہر میں، راول پنڈی کی بینک روڈ
بینک روڈ راول پنڈی کی موجودہ ایک تصویر

شیزان سے ذرا آگے آئیں تو بائیں طرف ایک نیا ریستوران بن رہا تھا جس کا نام برلاس تھا اس کی تکمیل پر یہ ہمارا مستقل ٹھکانہ بن گیا۔ سڑھیاں چڑھ کر اُوپر والی منزل پر جائیں تو گلاس وال سے باہر کا منظر، چلتے پھرتے لوگ، سڑکوں پر بھاگتی آتی جاتی گاڑیاں۔ سب کچھ صاف نظرآتا تھا۔ یہیں پہ اُردو کے صاحبِ طرز شاعر نثار ناسک نے ایک محفل میں اپنا خوب صورت شعر سنایا تھا۔ ؎

میں سازشوں میں گھرا اک یتیم شہزادہ
یہیں کہیں کوئی خنجر میری تلاش میں ہے

بعد میں اس کی شہرت اس کے تحریر کردہ گیت، ” دِل دِل پاکستان‘‘ سے ہوئی جسے جنید جمشید کے وائٹل سائنز نے اَمر کر دیا۔ اب مجھے بھی راول پنڈی سے جدا ہوئے ایک عرصہ بیت گیا ہے۔ ایک مدت ہوئی نثار ناسک سے ملاقات نہیں ہوئی۔ کچھ عرصہ پہلے میرے گورڈن کالج کے دنوں کے دوست شکیل انجم (سیکرٹری پریس کلب ) نے بتایا کہ نثار ناسک کی صحت اچھی نہیں رہتی خدا اسے طویل عمر عطا فرمائے۔


مزید دیکھیے: کیا لاہور مر گیا ہے؟

قصہ چناب و جہلم کی مہمان نوازی کا


برلاس کے نیچے ایک گلی نُما مارکیٹ تھی جس میں لَیدر کی جیکٹیں ملتی تھیں۔ برلاس سے ذرا آگے جائیں تو ہم بینک روڈ کو چھولیتے ہیں یہاں سے بائیں ہاتھ مڑیں تو کونے میں ریڈی میڈ کپڑوں کی دکان تھی۔ اس سے ذرا آگے ڈھاکہ بک سٹال تھا یہ دو بھائیوں کی ملکیت تھا۔ یہاں دکان کے باہرایک لکڑی سے بنے سٹال پر رسالے اور اخبار رکھے ہوتے تھے دونوں بھائی ادھیڑ عمر تھے اور آپس میں نوک جھونک کرتے رہتے دونوں بھائیوں کے بال برف کی طرح سفید تھے بڑے بھائی کا موسیقی سے خاص تعلق تھا۔ کبھی کبھی وہ مجھے موسیقی پر لیکچر دیتے اب نہ وہ ڈھاکہ بک سٹال رہا اور نہ ہی وہ دو بھائی۔

ڈھاکہ بک سٹال کے برابرمیں راول پنڈی میں سموسوں کی قدیم جگہ کریم ہوٹل تھا۔ اس کے سموسوں کی خاص بات اس کی (shape) تھی اور حیرت انگیز طورپر یہ dry ہوتے۔ سموسوں کے ہمراہ گاڑھی براؤن رنگ کی چٹنی اور لسی نما رائتہ ہوتا تھا۔ میں نے کئی بار دوستوں کے ہمراہ نیم تاریک کمرے میں ٹوٹی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر یہاں کے سموسے کھائے تھے۔ سناہے اب بھی کریم ہوٹل اپنی جگہ قائم ہے مگر سموسوں کی شکل بدل گئی ہے۔

کریم ہوٹل کے پہلو میں ایک تنگ سی گلی تھی جہاں سے نکل کرہم داتا ریستوران پہنچ جاتے یہ ریستوران ابھی نیا نیا بنا تھا اور بہت جلد شاعروں اور ادیبوں کا اڈہ بن گیا۔ مجھے یاد ہے ایک بار گرمیوں کی چلچلاتی دوپہرمیں معروف شاعراور کالم نگار اجمل نیازی سے سرِ راہ ملاقات ہو گئی تھی۔ نیازی صاحب کسی زمانے میں گورڈن کالج میں اُردو پڑھاتے تھے۔ ہم چائے پینے کے لیے داتا ریستوران میں آ بیٹھے۔ یہیں چائے پیتے ہوئے انہوں نے اپنا شعر سنایا۔ کیا خوب صورت شعر تھا۔ ؎

منزلوں پر بھی پہنچ کر وہ ابھی تک منزلوں جیسا نہیں
اس کی آنکھوں میں نہیں ہیں راستوں کے منزلوں کی حیرتیں

اب ہم واپس بینک روڈ پرآ جاتے ہیں۔ کریم ہوٹل سے آگے جائیں تو بائیں طرف نیشنل بینک کی عمارت تھی اوراس سے مُتصِل سیروز سینما۔ سیروز سینما انگلش فلموں کے لیے جانا جاتا تھا یہاں میں نے دوستوں کے ہمراہ کئی یاد گار فلمیں دیکھیں۔ انہیں میں ایک فلم سمرآف42 (Summer of 42) تھی جو Herman Raucher کے ناول پر مبنی تھی۔ اس کہانی کا تاثر میرے دل و دماغ میں ابھی تک تازہ ہے۔

سینما کے با لکل سامنے چاٹ اور دہی بھلوں کی ریڑھی ہوتی تھی۔ سیروز سینما کے با لکل سامنے ایک ریستوران تھا جس کا نام Vogues تھا۔ سیروز سینما کے ساتھ سڑک کے اس پار اوڈین سینما تھا وہاں بھی انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ یہیں پہ میں نے انگریزی کی ہارر فلم (Exorcist) دیکھی تھی۔ بہت سالوں بعد جب مجھے امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں وہ جگہ دیکھی جہاں اس فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی۔

اوڈین سینما کے مَحلِ وقوع میں برٹش کونسل لائبریری تھی۔ ایم اے انگلش کے دوران میں اکثر یہاں آتا تھا۔ ان دنوں لائبریری کے قریب ہی Lansdown لائبریری تھی، جہاں آتے جاتے معروف ادیب عزیزملک صاحب سے ملاقات ہو جایا کرتی۔ نیشنل بنک کے سامنے سڑک کے پار نظام واچ ہاؤس گھڑیوں کی مشہور دکان تھی۔

بینک روڈ پر ذرا آگے جائیں تو کتابوں کی دکان ورائٹی بک سٹال تھی۔ ورائٹی بک سٹال کے با لکل سامنے ہمارے دیکھتے دیکھتے گگھڑ پلازہ بن گیا۔ بینک روڈ کے آخری سرے پر میٹروپولیٹین ہوٹل تھا۔

اب ہم بینک روڈ پر واپس مرکزی چوک پر آ جاتے ہیں اور چوک کے دوسری طرف بینک روڈ پرچلتے ہیں۔ با لکل کونے میں ہمارے سامنے ہی ایک نئی بیکری کھلی تھی جس کانام Unique Bakery تھا۔ یونیک بیکری کے ساتھ ہی کیسٹوں کی دکان تھی جہاں سے اکثر نئے اورپرانے گیتوں کے cassettes دستیاب ہوتے تھے۔

ذرا اور آگے بڑھیں تو کامران ہوٹل تھا۔ یہ بھی بیٹھنے کی اچھی جگہ تھی اس سے آگے سپر کیفے تھا جس کامالک ‘فارغ البال’ تھا، اور لڑکے بالے فون کر کے اسے تنگ کرتے تھے۔ سپر کیفے اور چیزوں کے علاوہ اپنی ٹوٹی فروٹی آئس کریم کے لیے مشہور تھا۔ اس کے سامنے ادریس بک کمپنی ہمارے سامنے شروع ہوئی ادریس کمپنی کے ساتھ کپڑوں کی کچھ دکانیں تھیں اوران دکانوں کے سامنے کون آئس کریم کا ایک سٹال تھا۔

عید کا چاند دیکھ کر ہم بینک روڈ کا رخ کرتے چاند رات کو تو بینک روڈ پر خوب بھیڑ ہوتی۔ مجھے اب راول پنڈی چھوڑے اور بینک روڈ  گئے ایک مدت ہو گئی ہے۔ سنا ہے اب بھی وہاں گرمئی بازار کا وہی عالم ہے کبھی کبھی جی چاہتا ہے دنیا کے ہنگاموں سے ایک دِن چرا کر بینک روڈ جاؤں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پیدل چلتا ہوا بیتے ہوے دنوں کو آواز دوں پھر منیر نیازی کا یہ شعر میرے پاؤں میں زنجیر ڈال دیتا ہے۔ ؎

واپس نہ جا وہاں کہ ترے شہر میں منیر
جو جس جگہ پہ تھا وہ وہاں پر نہیں رہا

About ڈاکٹرشاہد صدیقی 57 Articles
ڈاکٹر شاہد صدیقی، اعلی پائے کے محقق، مصنف، ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں۔