راولپنڈی کی کالج روڈ
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
راولپنڈی کی کالج روڈ سے میری آشنائی اس وقت ہوئی، جب میں سات برس کا تھا اور جب مجھے کالج روڈ پر واقع ڈاکٹر رضا کے کلینک پر زندگی کا پہلا انجکشن لگا تھا۔ ڈاکٹر رضا بہت ہی نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ بہت دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے اپنے کمپاؤنڈر حبیب اللہ کو آواز دیتے، تو ان کی دھیمی آواز کو صرف حبیب اللہ ہی سن سکتا تھا۔ کالج روڈ مری روڈ کے متوازی سڑک تھی، جس کا ایک سرا لیاقت باغ کے قریب مری روڈ سے ملتا۔ اس کا پرانا نام ڈی اے وی کالج روڈ تھا، کیوں کہ یہاں راولپنڈی کی قدیم درس گاہ گورڈن کالج واقع تھی، جو ڈی اے وی سکول کی extension تھی۔
لیاقت باغ کی طرف سے کالج روڈ کی طرف آئیں، تو دائیں ہاتھ سٹی ہوٹل آتا تھا، جس کے مالک نقشبندی صاحب تھے۔ بعد میں سڑک کی دوسری طرف ہمارے دیکھتے دیکھتے پاکیزہ ہوٹل بنا۔ ذرا آگے آئیں تو کیپٹل کالج کی عمارت تھی۔ اس سے آگے بائیں ہاتھ گورڈن کالج کی عمارت شروع ہو جاتی اور اسی سڑک پر کالج کا عقبی دروازہ بھی تھا۔
کالج روڈ سے میرا اصل تعارف تب ہوا، جب میں نے کیپٹل کالج میں شام کی کلاسز میں داخلہ لیا۔ میرے راولپنڈی کے گھرسے یہاں تک کا سفر قریباً 10 کلو میٹر تھا۔ میں یہ سفر سائیکل پر طے کرتا۔ اتفاق سے ایک ہی علاقے سے ہم تین دوست شام کی کلاسز کے لیے کالج روڈ آتے تھے۔ واجد شیرازی بعد میں صحافت سے وابستہ ہوا اور سنا ہے، آج کل کینیڈا کے کے ایک شہر میں رہتا ہے۔ شکیل نے اب ڈاڑھی رکھ لی ہے اوراپنے آبائی گھر میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہا ہے، لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم تینوں جوان تھے۔
ہم گرمیوں کی سہ پہروں میں سائیکلوں پر سفر کرتے، ایک دوسرے سے گپ لگاتے، کالج پہنچتے تھے۔ یوں رستہ کٹنے کا احساس تک نہ ہوتا۔ کیپٹل کالج کے مالک شیخ اشرف صاحب تھے، جن کا اپنا مضمون انگلش تھا۔ ان کی کلاس کو پردے سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ایک طرف لڑکیاں اور دوسری طرف لڑکے بیٹھتے تھے اور دونوں کے کلاس میں آنے جانے کے راستے بھی الگ الگ تھے۔
شیخ صاحب کا طریقۂِ تدریس بہت دل چسپ اور مؤثر ہوتا، وہ کوئی نظم پڑھاتے، تو اس کے شاعر کی زندگی کے دل چسپ پہلوؤں سے آگاہ کرتے۔ اسی کلاس میں میں نے اپنی زندگی کے دو اہم فیصلے کیے: اعلیٰ تعلیم کے لیے انگریزی کے مضمون کا انتخاب اور پیشہ ورانہ زندگی میں شعبۂِ تدریس کا چناؤ۔ بی اے کے رزلٹ اور ایم اے کے داخلوں کے درمیان تین چار مہینوں کا وقفہ تھا۔
اس زمانے میں گورڈن کالج کے انگریزی کے معروف پروفیسر وکٹر مل کالج سے ریٹائر ہو چکے تھے، لیکن کالج کے کمپاؤنڈ میں ہی اپنی وسیع رہائش گاہ میں ایم اے انگلش لٹریچر کی کلاس لیتے تھے۔ میں نے بھی وکٹر مل صاحب کی کلاسز اٹینڈ کرنا شروع کر دیں۔ ان کی کلاس میں دل چسپی شروع سے آخر تک برقرار رہتی۔ لیکچر کے دوران خوب صورت انگلش بولتے بولتے اچانک وہ کوئی جملہ پنجابی میں ادا کرتے، تو ہمیں حیرت ہوتی انہیں پنجابی بھی آتی ہے۔ لیکچرکے دوران کبھی کبھار کوئی قصہ کوئی لطیفہ سناتے، جس سے کلاس کا ماحول خوش گوار رہتا۔
وکٹرمل صاحب کی کلاسز نے گورڈن کالج میں ایم اے انگلش کے داخلے میں میری بہت مدد کی۔ یہیں سے کالج روڈ سے شناسائی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ گورڈن کالج ایک عام تعلیمی ادارہ نہیں تھا، بل کہ یہ طالب علموں کی ہمہ گیر تربیت کا مرکز تھا۔ جہاں نصابی سر گرمیوں کے علاوہ ہم نصابی سر گرمیوں پر اتنا ہی زور دیا جاتا۔ ڈرامے، تقریریں، کھیل یہاں کی زندگی کااہم حصہ تھے۔
اس زمانے کے اساتذہ میں سجاد شیخ، سجاد حیدر ملک، آفتاب اقبال شمیم، خواجہ مسعود، توصیف تبسم اور نصراللہ ملک شامل تھے۔ ان میں ہر شخص اپنی ذات میں انجمن تھا۔ کالج کے عقبی گیٹ کے قریب پروفیسرز میس تھا اور اس کے سامنے ایک چھوٹا سا لان۔ ایم ا ے کا سٹوڈنٹ ہونے کے ناتے ہمیں پروفیسرز کی ان محفلوں میں شرکت کاموقع ملتا تھا اور سچی بات یہ ہے کہ ہم نے ان محفلوں سے بہت کچھ سیکھا۔ اب استاد اور شاگرد کے درمیان فاصلے اور دوریاں ہیں، نہ اساتذہ اورنہ ہی طالب علموں کے پاس وقت ہے کہ وہ کلاس کے علاوہ ایک دوسرے سے interact کر سکیں۔
کلاس کے بعد ہمارا زیادہ وقت کالج روڈ پر گزرتا، جہاں آتے جاتے شناسا چہرے مل جاتے۔ مجھے گرمیوں کی ایک ایسی ہی چلچلاتی سہ پہر یاد آ رہی ہے؛ کالج روڈ پر گھومتے ہوئے پروفیسر سجاد حیدر ملک مل گئے۔ مجھے کہنے لگے: ایک جگہ جانا ہے، تم بھی چلو میں بغیرسوال کیے ان کے ہمراہ چل دیا۔ اس زمانے میں کمیٹی چوک سے اسلام آباد کے لیے ویگنیں چلتی تھیں۔ ہم بھی ایک ویگن میں بیٹھ گئے اور نیفڈک کے سینما کے پاس اترے۔ پتا چلا کہ سجادملک صاحب سنسر بورڈ کے ممبر بھی تھے۔ ایک فلم کو سنسرکے عمل سے گزارنے کے لیے آئے ہیں۔ مجھے یادہے یہ فلم The Sound of Music تھی، جس میں جولی اینڈریوز اور کرسٹوفر پلمر نے اپنی ادا کاری کے جوہر دکھائے تھے۔
کالج روڈ کا ایک اہم مرکز زم زم کیفے تھا۔ یہ کیفے ایک ہال نما بڑے کمرے پر مشتمل تھا۔ اس کے علاوہ اوپن ایئر میں بھی کرسیاں رکھی ہوتیں۔ قریب ہی ایک قدیم درخت تھا۔ یہاں چائے شیشے کے چھوٹے گلاسوں میں ملتی۔ کیفے کی خاص بات گیتوں کے گرامو فون ریکارڈ تھے۔ ہم اپنی فرمائش، ایک چٹ پر لکھ کر دیتے اور کیفے کا مالک بٹ ریکارڈوں کے ڈھیر سے فوراً مطلوبہ ریکارڈ نکالتا اور فرمائش پوری کرتا۔ ہم زم زم کیفے بلا ناغہ آتے اور پسند کے گیت سنتے۔
کالج روڈ کا یہ سماجی مرکز مدت سے اجڑ گیا ہے۔ زم زم سے ذرا آگے، لاہوری سموسے کی دکان تھی۔ سموسے کے ہمراہ چنے اور کھٹی میٹھی چٹنی ہوتی۔ اب یہ دکان سڑک کے دوسرے طرف چلی گئی ہے، لیکن اتنے برس گزرنے کے بعد بھی وہی ذائقہ باقی ہے۔
کالج روڈ پر بڑے سے محرابی دروازے کے اندر اخبار مارکیٹ تھی۔ جہاں پر ہاکرز کا رش لگا رہتا۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جائیں تو سلطان رشک کی ادارت میں چھپنے والے رسالے نیرنگ خیال کا دفتر تھا۔ قریب ہی ہمارے گورڈن کالج کے دوست عبدالودود قریشی کے رسال روش کا دفتر تھا۔ یہی دن تھے، جب ہمارے گورڈن کالج کے ساتھی شکیل انجم نے بات کے نام سے ایک منفرد اور معیاری رسالے کا اجرا کیا تھا۔
رسالوں کے دفاتر کے بالکل سامنے سڑک پر رسالوں اور اخبارات کی دکان تھی۔ سڑک کے دوسری طرف کونے میں سٹا رہوٹل تھا، جو بیٹھنے کی بہت اچھی جگہ تھی۔ کالج روڈ کاایک اور ٹھکانہ قیصر ہوٹل بھی تھا، جو محفلوں کا مرکز تھا۔
کالج روڈ پر سیور مرغ پلاؤ ہمارے سامنے شروع ہوا، جو گورنمنٹ کالج کے اکنامکس کے جواں سال پروفیسر شاہد کے ذہنِ رسا کا نتیجہ تھا۔ اب تو اس کی کئی برانچیں بن گئی ہیں، لیکن اب اس کی ملکیت کسی اور کے پاس ہے۔ اخبار مارکیٹ سے آگے سٹار ہوٹل تھا، جو بیٹھنے کی بہت اچھی جگہ تھی۔ کالج روڈ کا ایک اور مشہور ٹھکانہ قیصر ہوٹل تھا، جو محفلوں کا مرکز تھا۔
کالج روڈ کی نکڑ پر بائیں ہاتھ پرستار کبابیا تھا، جس کے کباب دور دور تک مشہور تھے۔ شاید یہ دکان اب بھی ہے۔ دائیں ہاتھ چڑیوں اور طوطوں کی دکانیں تھیں رنگ برنگے پرندے۔ لو گ پرندوں کو خریدتے اور آزاد کر دیتے۔ خوش رنگ پرندوں کی بلند ہوتی اڑان فضاؤں میں کتنے ہی رنگ بکھیر دیتی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ رنگ آسماں کی وسعتوں میں گم ہو جاتے۔
آج ایک مدت کے بعد میں کالج روڈ گیا، تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ کالج روڈ پروہ ٹھکانے ختم ہو چکے تھے، جہاں ہماری سہ پہریں اور شامیں گزرتی تھیں اور ان ٹھکانوں سے ساتھ جڑے دن بھی خوش رنگ پرندوں کی طرح وقت کی سرمئی چادر میں کھو چکے تھے۔