نو آبادیاتی دور کی تاریخ کیسے پڑھی جائے؟ ٹھگوں کی مثال
از، قیس انور
برطانویوں کے خیال میں ٹھگوں نے دھوکا دہی، ڈاکا زنی اور قتل کا ایک نظام بنا رکھا تھا جو سترھویں صدی اور اٹھارہویں صدی کی ابتداء میں دس لاکھ اموات کی وجہ بنا۔ میڈوز ٹیلر نے سنہ 1839 میں اس موضو ع پر ایک ناول ایک ٹھگ کے اعترافات لکھا جو بہت مقبول ہوا۔ اس ناول نے مغرب میں ہندوستان کے ٹھگوں کے ایک مخصوص تصور کی بنیاد رکھی۔
بعد میں یہ موضوع بہت سی کہانیوں، ناولوں اور فلموں میں نظر آیا۔ اب کچھ عرصے سے یہ بات زیرِ بحث ہے:
کیا واقعی ایسے ٹھگّوں کا کوئی وجود تھا؟
اگر نہیں تو ایسا تصور بنانے کا ذمے دار کون ہے؟
زیادہ تر لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک ٹھگ کے اعترافات کو تحریر کرنے کا مقصد ہندوستانیوں کو پسِ ماندہ اور اور مجرم ثابت کرنا اور برطانویوں کی توسیع پسندی کو جواز مہیا کرنا تھا۔
سنہ 1819 میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں ٹھگوں کے ایک نام پھانسی گر کو استعمال کرتے ہوئے بتایا گیا کہ پھانسی گر پہلے اپنے شکار کا گلا گھونٹ کر مارتے تھے جس کے بعد اس کے سامان کو قبضے میں لیتے تھے۔ ایک گروہ میں دس سے پچاس لوگ شامل ہوتے تھے، جن میں اکثریّت مسلمانوں کی ہوتی تھی۔
ان کا شکار ہمیشہ مسافر ہوتے تھے۔ وہ کالی کی پوجا کرتے تھے اور شگون کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ سلیمین نے کلکتہ لٹریری گزٹ میں شائع ہونے والے ایک خط میں لکھا کہ پورے ہندوستان سے یہ قاتل بنداچل کے کالی کے مندر میں اکٹھے ہوتے ہیں، جہاں یہ ٹھگی سے حاصل ہونے والے مال سے چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔
ان لوگوں کا ایمان ہے کہ اگر وہ اپنا کام سر انجام دیتے ہوئے مارے جائیں گے تو انھیں جنت میں جگہ ملے گی۔
ٹھگوں کی خفیہ زبان راماسی پر اپنی کتاب میں سلیمین نے چھ سو کے قریب وہ الفاظ لکھے جنھیں ٹھگ خفیہ پیغام رسانی اور بول چال میں استعمال کرتے تھے۔
ہیرا لال گپتا کے نزدیک ٹھگوں کے متعلق بہت سی باتوں سے اتفاق کیا جا سکتا ہے، لیکن ٹھگوں کو ایک خاص عقیدے کے حامل افراد قرار دینا اور ٹھگی کو انتہائی قدیم قرار دینا غلط ہے۔ اس طرح کی تشریحات سے برطانوی اس حقیقت سے انکار کرنا چاہتے تھے کہ ٹھگی کی ابتداء برطانوی دور میں ہوئی۔ ٹھگی عبوری سیاسی دور کی پیداوار تھی جو کہ پرانے سیاسی نظام کی تباہی کے بعد بَہ حالی اور آباد کاری میں نا کامی کی وجہ سے ہوئی۔
سٹورٹ گورڈن بھی تقریباً اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سلیمین نے مقامی طور پر منظم، چھوٹے گروہوں کو ہندوستان کی فطرت میں پائی جانے والی ایک نا پسندیدہ مذہبی سازش بنا دیا۔
ٹھگ کسی بھی طرح ایک علیحدہ ثقافتی گروہ نہیں تھا۔ ان میں جو رسمیں پائی جاتی تھیں ویسی ہی رسمیں دوسرے مجرموں کی زندگی کا حصّہ تھیں۔ ملکی سطح پر پھیلی ہوئی برادری کی بَہ جائے زیادہ تر ٹھگ جزو وقتی، مقامی اور طاقت کے مقامی ڈھانچے سے منسلک لوگ تھے جو مغلیہ دور کے خاتمے، مراٹھوں کی شکست اور پنڈاری کی جنگوں سے پیدا ہونے والی افرا تفری کے دور میں ٹھگی کو ذریعے معاش بنائے ہوئے تھے۔
امل چٹرجی کے خیال میں برطانویوں نے جس انداز میں ٹھگی کو بیان کیا ہے اس کا مقصد ‘ترقی یافتہ’ یورپیوں کو ‘اوّلین’ دور کے ہندوستانیوں سے بر تر، اور ‘سچے’ مسیحی خدا کو ‘جھوٹے’ ہندوستانی خدا سے بر تر ثابت کرنا ہے۔
وان ورکنس ، واگنر اور ڈیش ٹھگی کو ایک طرح کی تاریخی حقیقت تو قرار دیتے ہیں، لیکن اس میں اوریئنٹلزم کی مبالغہ آرائی، تعصب اور مَسخ کرنے کے عُنصر کو بھی شامل سمجھتے ہیں۔
Macfie, A.L., 2008. Thuggee: an orientalist construction? Rethinking History, 12(3), pp.383-397