خاتمے سے پہلے ، ایک نظم کا تجزیاتی مطالعہ
از، فرحت اللہ کشیب
پہلے کاشف شاہ کی مبینہ نثری نظم ملاحظہ کیجیے گا۔
خاتمے سے پہلے (Before the end)
وَحشَت سے حامِلہ تَنہائی
مُردہ مَعبُود جَنتی ہے
مجھے سارے ضروری کام نِمٹا لینے چاہییں
جیسے یہ نظم،
یا تم سے محبت، یا شاید بے زاری!
جیسے کافی کا کپ اور بُک مارک کے طور پر کتاب میں رکھی گئی
ایک چپٹی ہوئی سگرٹ!
یا جنگ کی تازہ ترین صورتِ حال کے بارے میں آگاہی
اور لاشوں کی گِنتی!
یا آخِری فیصلہ
“کَون سی لاش گَل رہی؟
میری؟ تمھاری؟ مُردہ مَعبُود کی؟ یا سب کی؟”
مجھے یہ سب کرنا چاہیے
اِس سے پہلے کہ سَڑاند زمین کے نَتھنوں میں گُھس جائے
اور وہ وحشت زدہ جان ور کی طرح سورج کی کھونٹی سے بَندھی اپنی طَناب تُڑوا لے
اور بزرگ چرواہا اُس کو قریبی بلیک ہول کی طرف ہانک دے
راقم ذاتی طور سے اس فنی ہیئت سے اجنبیت محسوس کرتا ہے، پھر بھی زیرِ نظر فن پارہ اپنے اندر کثیر پہلو امکانات رکھنے کے سبب توجہ کا مرکز بنا۔ اس فن پارے کے بارے میں اپنا موضوعی (کسی حد تک معروضی) اور تأثراتی نقطۂِ نظر کئی اجزاء میں بیان کرنا مناسب رہے گا۔ پہلا پیرا ملاحظہ ہو!
1_ وحشت سے حاملہ تنہائی
مُردہ معبود جنتی ہے
خاتمے سے پہلے کے نام سے اِس تخلیقی نثر پارے کا پہلا جملہ پڑھتے ہُوئے، مجھے نطشے کا دھوکا ہوا۔ نِطشے نے کہا تھا کہ خدا مر چکا ہے اور اَب یہاں کوئی خدا نہیں۔ (یعنی کوئی مذہبی خدا تھا مگر جسے مار دیا گیا!)
اِس سے مجھے، شوپنہار کا ”خدا بَہ طورِ ایک اَندھا اِرادہ“ یاد آیا۔ بعد میں اِن یک ساں اور مُتَلازَم خیالات کو برگساں کے Elan vital نے مہمیز کیا۔
کیسے؟
مذکورہ خیالات کو زمانی ترتیب سے لایا جائے تو…
(۱) آرتھر شوپنہار (1860-1788) کا خدا ایک اَندھا اِرادہ (blind will) ہے، جو خود کو تین مختلف صورتوں میں ظاہر کرتا ہے۔ طبیعی (physical) صورت میں خود کو کششِ ثِقل، برقی ہیجانات اور کیمیاوی توانائیوں کے روپ میں سامنے لاتا ہے۔ حیوانی مظاہر کی صورت میں یہ اِرادہ خود کو جِبِلّی تحریکات (instinctive impulses) کے روپ میں ظاہر کرتا ہے اور انسانی صورت میں، یہ اِرادے کی بعض دوسری قوتوں کے ساتھ شُعوری خواہش کے روپ میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔
لیکن جیسے ہی اِس اِرادی قُوّت میں شُعور بَیدار ہونے لگتا ہے، تو اُسی وقت احساسِ رَنج و الم و احساسِ اَذِیّت پَیدا ہونے لگتے ہیں… شوپنہار کے مطابق، جِتنی بَلند شُعور و طَباعی کی سطح ہو گی، اُتنا ہی فرد اندرونی کُڑھن اور داخلی کرب کا شِکار ہو گا…
(۲) فریڈرِک نِطشے (1900-1844) کا ماننا تھا کہ خدا مر چکا ہے اور اب کوئی خدا نہیں ہے۔ یہ کہ اب خدا کی غَیر موجودگی میں تمام اَقدار کی اَز سَرِ نو جانچ پڑتال کی جانی چاہیے اور اِسی سِلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے، نِطشے اخلاق کو طاقت ور اور حاکم طبقات کے اخلاق اور کم زور و مَحکوم طبقات کے اخلاق میں بانٹتا ہے۔ یوں وہ خدا کی موت سے پَیدا ہونے والے خَلاء میں معنویت بَھرنے کی سَعی کرتا ہے۔
(۳) ہنری برگساں (1940-1859) سمجھتے ہیں کہ زندگی ایک اَیسا خود کار تَفاعل (function) ہے کہ جس کے طبیعیات اور کیمیا کی بَہ جائے اپنے قوانین ہوتے ہیں اور یہ اُن ہی قوانین کے تحت آگے بڑھتی ہے… حقیقت کوئی ساکت و جامد چیز نہیں ہوا کرتی بل کہ یہ تو ”گُزرانِ مُسلسَل“ (world of continuity) کا ایک اَیسا دائمی عالَم ہے، جو ہر لمحہ حالتِ تَکوین (state of becoming) میں رہتا، نئے سے نئے خواص و کیفیات سے ہوتا ہُوا، اپنے تخلیقی سفر میں اعلیٰ سے اعلیٰ تر امکانات کو چُھو رہا ہے۔ اور جس کا سب سے اہم تشکیلی وَصف جوشِ حیات (Elan vital) ہے۔ جس کا ہم ”زندگی اور شُعور“ کی صورت میں اِدراک کرتے رہتے ہیں۔
حقیقت کو ریاضیاتی یا منطقی طور سے گرِفت نہیں جا سکتا… مستقبل کی دنیا کے ٹھیک ٹھیک اِرتقائی جہات کے تَعیُّن کی پیش گوئی ممکن نہیں، تاہم بَعید ترین ماضی میں Elan vital کی قُوّت نے عالمی اِرتقاء کی سَمتیں اِس طَور مُتَعَیّن کی تھیں کہ جِبِلّت (instinct) سے تَعقُّل (reasoning) کے مرحلے، اور جِبِلّت و تَعقُّل، دونوں کے مراحل سے وَجدان (intuition) تک سفر آپ ہی آپ طے ہوتا چلا گیا… عین ممکن ہے کہ یہ انسان کی لافانیت (immortality) کے مراحل میں داخل ہو جائے۔
برگساں دنیا کو ”خداؤں کو ساخت کرنے کی مَشین“ خیال کرتے ہیں، کیوں کہ جوشِ حیات کے لیے کچھ بھی کر گزرنا، نا ممکن نہیں ہے۔ یہ کسی بھی اِمکان کو اظہار و واقعیت کے پَیکر میں ڈھالتے رہنے کا دائمی عمل ہے۔
اِسی طرح لفظ وَحشَت کا لغوی معنیٰ ”جنگلی جان وروں کی سی نا مانوسِیت،“ کہ وہ انسانوں کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ لفظ پہلے جُملے اور اپنے بعد، ”ضروری کام“ والے جُملے کا مَرجع ہے۔
اَب یہ اندازہ لگایا جانا ممکن ہے کہ ”وحشَت کا زائیدہ، مُردہ خدا“ کے الفاظ سے، سب سے پہلے نِطشے ہی ذہن میں کیوں آیا؟
نِطشے ایک عورت سالومی کے محبت میں، اُس کے پیچھے پیچھے پورا یورپ گُھوم آئے۔ مگر وا حسرتا! اِسی طرح آخری عمر میں نِطشے دیوانگی میں مُبتَلا ہوئے اور اِسی حالت میں دنیا سے رُخصت ہوئے۔ میرے خیال کے مطابق، یہاں معنویت اور تَفتیشِ اَقدار کے مسئلے سے نَبرد آزماء، نِطشے کےلیے ایک عورت “اپنی پسند کی کتاب میں پھول“ کی حیثیت رکھتی تھی۔ مگر جِس کے نہ ہونے اور ”ما فَوق الانسان“ (super man) کے فی الوقت مُیسّر نہ آنے کا حادِثہ اُسے دیوانگی کے بلیک ہول کی طرف لے گیا۔
کم و بیش، یہی حالات و معنویت کی جُستُجو سے نَبرد آزمائی شوپنہار کے حِصّے میں بھی آئی، مگر تَجرّد کے با وجود، عمر کے آخری حصّے میں ملنے والے اِکرام و ستائش شاید وحشَت سے طَنابیں توڑ کر دیوانگی کے بلیک ہول کی طرف جانے کے بَہ جائے مَعمول کی طرف آنے میں مدد گار ثابِت ہُوا ہو!
2- مجھے سارے ضروری کام نمٹا لینے چاہییں جیسے یہ نظم
یا تم سے محبت، یا شاید بے زاری!
جیسے کافی کا کپ، اور بُک مارک کے طور پر کتاب میں رکھی گئی
ایک چپٹی ہوئی سِگرٹ!
اِس نثری فَن پارے کی حدود میں، اِن ضروری کاموں کی فہرست سے کس طرح کی شخصیت ذہن کے پَردے پر اُبھرتی ہے؟
اَیسے کام، جِن کا عوام یا ہُجوم سے بَہ راہِِ راست کچھ لینا دینا نہیں۔ اَیسے کام جو پہلے جُملے میں موجود لفظ ”وَحشَت“ کی طرف راجِع ہیں۔ اَیسے کام، جو قطعاً ذاتی ہیں۔ یہاں تک کہ اخبار بینی، جو مَعنویت کے ابو الہول (Sphinx) کو بھُول کر، روز مَرّہ کی سطحی مصروفیات میں لِتھڑے عوام/ہُجوم کے اَحوال کی خبر پانے کے لیے، اَخبار کی ایک بے رنگ اور معمول کی کِھڑکی سے دیکھنے کے مُترادِف ہے، اور لاشوں کی گِنتی کا غَیر انسانی شغل بھی!
اِسی طرح جب لفظ ”بے زاری“ پر غور کیا جاے تو انسان کسی بھی چیز یا مظہر کے تسلُسل یا تواتُر سے تنگ آ کر اُوبھ جاتا ہے، اور اِسی اُوبھ جانے کی انتہائی صورت کو ”وُجودیت“ کے فَلسفے میں ”مَتلی“ (nausea) کہتے ہیں۔
اپنے ایک دوست کے اس فن پارے پر بحث ہوئی، تو ہمارے دوست کی رائے کچھ یوں تھی:
”ظاہری طور پر تو یہی لگ رہا ہے کہ اِس فن پارے کا مَرکزی کِردار کچھ پڑھ رہا ہے۔ ایک اَیسی کتاب، جو تا حال ادھوری ہے، کافی کا کپ آدھا پیا جا چکا ہے اور باقی رہتا ہے۔ ساتھ ساتھ نظم لکھنے کی مَشق بھی ہو رہی ہے۔ شاید تحتِ شعور میں کوئی اور نظم بھی ہے، جو اب تک لکھی نہیں جا سکی۔“
جب کہ مجھے کچھ یوں سمجھ آیا کہ…
کافی کا کپ _ اشرافیہ سے متعلق، نَو آبادیاتی عَلامت ہے۔ جیسا کہ اورحان پاموک کے ناول سرخ میرا نام میں کافی کو مذہبی آزاد خیالی، وسیعُ المشربی اور سکون کی عَلامت ٹھہرایا گیا ہے۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں مغرب سے آنے والے خیالات و مصنوعات کو کفر اور مشرقی تہذیب پر حملہ سمجھا گیا۔
بُک مارک _ اِلتوا میں رکّھے ہُوئے کام کو دوبارہ سے شُروع کرنے کی نشانی ہے۔
کتاب، جُستُجو کی عَلامت ہے۔
ایک چپٹی ہوئی سِگرٹ _ لا اُبالی پن اور تَشویش، دونوں کی نُمائندگی کرتی ہے۔
اِسی طرح معنویت کی جُستُجو کو لا اُبالی پَن سے اِلتواء میں رکّھ کر تشویش کو کافی سمجھا گَیا ہے۔
اِس سے پہلے، مرکزی کردار اپنے مخاطب سے کَہہ رہا ہے کہ مجھے تم سے مَحبت کا تعلق اُستوار کرنا ہے۔ پھر کہتا ہے کہ ”یا شاید بے زاری!“ گویا وہ مَحبت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہُوئے، اِس کو ضروری کاموں کی فہرست میں ڈالنے کے با وُجود یہ جانتا ہے کہ اُسے جلد ہی بے زاری یا اُکتاہَٹ کا شکار ہونا ہے۔
[آیا کیے جانے کے قابِل مَحبت کے انتظار میں پھول کے بَہ جائے سِگرٹ، تَشویش کا باعث نہیں؟]
3_ ”یا جنگ کی تازہ ترین صورتِ حال کے بارے میں آگاہی اور لاشوں کی گنتی!“
جَدَلیات (dialectics) کی آفاقی جنگ کے سابقے اور لاحقے میں گِھرے عوام سے وابستہ، بےحد ننگی حقیقت پر مَبنی جُملہ، جو ایک واہیات اور غیر انسانی ، تجریدی روز مرّے (اِنسان کی وُجودی صورتِ حال میں مَعنویت کی تجسیم و تحلیل) پر آفاقی طنز ہے۔
ضروری کاموں کی فہرست پر نظر ڈالنے پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ”ضروری“ کا مطلب basic needs نہیں ہے، بل کہ یہ ضروری کام خالی پَن اور معنویت کی عدم موجودگی کو پُر کرنے کے اوزار بن جاتے ہیں۔
4_ ”مجھے یہ سب کرنا چاہیے
اِس سے پہلے کہ سَڑاند زمین کے نَتھنوں میں گھس جائے“
یعنی بے زاری سے مَملُو، تنہائی کے زائیدہ مُردہ مَعبُود کی سَڑاند یا ہماری، تمھاری یا کُشتگانِ جنگ کی لاشوں کا تَعَفُّن (ہر جگہ نُفوذ کردہ، بوجھل بے معنویت!)
اِس جملے میں ”اِس سے پہلے کہ“ کا استعمال بتاتا ہے کہ اِس فن پارے کے مرکزی کِردار کو کِسی اَنہونی کا خَدشہ پیشِ نظر ہے، اور جس کے سبب چیزوں کو لپیٹ لینے کی جلدی ہے۔ اِسی طرح ”زمین کے نَتھنوں میں سَڑاند“ کے گُھسنے کا مطلب، دنیا کا کسی خدا /معنویت کی غیرموجودگی میں نا قابلِ برداشت ہونا“ ہے۔
یا یہ کہ کسی خدا یا کسی خالِق کی عدم موجودگی میں کسی نظام میں اِنتشار، وَحشَت و بد نظمی (chaos) کے دَر آنے کا غالب امکان ہے، کیوں کہ خالِق یا مالک کسی بھی مخلوق یا مِلکیت کے لیے کوئی ایک لائف پلان پر ضرور رکھتا ہےـ اگر خدا نہیں ہے تو کوئی مُطلق حقیقت نہیں ہے، اور مُطلق حقیقت کی عدم موجودگی میں کسی قسم کا کوئی پلان نہیں، اور پلان کی غیر موجودگی (کی وَحشت) میں زمین کَششِ ثِقل (gravity) سے آزاد ہو کر کسی نزدیکی بلیک ہول (black hole) میں جا گِرے گی اور کیوں کر گرے گی؟ کیوں کہ خدا کی عَدم موجودگی میں، فلسفیوں کے ”مردہ یا اِنسانی دُکھوں کو نہ سمجھ پانے والا بےحِس خدا“ یا ’نا کارگی‘ (entropy – بُوڑھے چَرواہے کا کِردار ) کے ہاتھوں میں کنٹرول چلا جاتا ہے۔
نا کارگی کائنات میں، اَشیاء و مَظاہر کا با وُجود جانِبِ تخریب جانے کا نام ہے۔ سادہ مثال گھر کی لیتے ہیں کہ جب کسی گھر کو غَیر مُعَیّنہ مُدّت تک کے لیے خالی چھوڑ دیا جائے، تو اُس گھر میں شکستگی یا بے ترتیبی ظاہر ہونے لگتی ہے۔
یہ نا کافی توانائی (لائف پلان!) کی عدم موجودگی میں، کسی بھی قسم کی نظم و ضبط کو توڑ کر تخریب کی جانب جانے کا نام ہے۔
5_ یا آخری فیصلہ
“کون سی لاش گَل رہی؟
میری؟ تمھاری؟ مردہ معبود کی؟ یا سب کی؟“
اِن سُطُور میں یہ اَندازہ لگایا جارہا ہے کہ ”آخِر میں کُل مِلا کر، نقصان کس کا ہو رہا ہے؟“
یہ نُکتہ قابلِ ذکر ہے کہ ”حقیقتِ اُولیٰ و حقیقتِ اَشیاء کیا ہے؟“ کا سوال علم کی مختلف شاخوں میں مختلف طرح سے سامنے آتا ہے۔ اِسے سائنس سے بھی حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، عِلمیات، نفسیات، دیو مالا، فوک لور، اَدبی مُتون کے اُسلوبی جِہات و نظریات اور فلسفیانہ طور پر اسے ایک کئی ایک نظریاتی ماڈلز کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
فلسفے کے میدان سے سادہ ترین مثال “وُجودیت“ کے فلسفے کے ”معنویت اور بےمعنویت“ اور ”وُجود و عدم“ کے مرکزی اِصطلاحی جوڑوں کے ذریعے “حقیقت کیا ہے؟“ کے جواب تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اور تخریب کےلیے بلیک ہول کو بَہ طورِ عَلامت لانا، فن پارے میں ایک اور تخلیقی جہت کی حیثیت رکھتا ہے۔ چوں کہ ایک بلیک ہول مشروط طور پر، سورج سے کم از کم بھی دس گُنا کمیّت کے حامِل ستارے کے پَھٹنے (Super Nova) سے بنتا ہے۔ تو ہمارے سورج کے مقابلے میں، بلیک ہول والے ستارے کی مَعنویت کیا ہو گی؟
سَیّارہ زمین کو اگر مرکزی کردار مانا جائے، تو اِسے سَیّارہ ہونے کی نسبت سے سورج (نظامِ حیات) کے گرد گھومنا یا زندگی کرنی ہے۔
اب، اگر زمین وَحشت (تَشکیک، بے معنویت) کے سَبب اپنے مرکز (سورج) سے رُو گردانی کر کے اپنے مَدار کو چھوڑ دے، تو پھر اُسے کِسی نزدیکی بلیک ہول میں گِرنا ہو گا۔ سورج سے دس گُنا بڑے ستارے سے بننے والے بلیک ہول کو اگر اِستعارتاً دیکھا جائے تو ایک بلیک ہول اپنے ہی ستارے کی قبر ہوتی ہے۔
اِسی طرح ہمارا مرکزی کردار اپنی زندگی کے پُر حرارت اور روشن نظام کو چھوڑ کر، اپنی ذات کی بےمعنویت کے دُھندلے سایوں میں، بلیک ہول کی فَنا بَھری تاریکیوں کو قُبول کرنے پر مائل نظر آتا ہے۔ اور یہ پورا عمل نا کارگی (entropy) کے سائنسی تصوُّر میں مَلفوف ’جِبِلّتِ مَرگ‘ (death instinct) کے ”بوڑھے چَرواہے“ کے اِستعارے سے اَنجام تک پہنچایا جاتا ہے۔
اِس عَلامت کو اِس طرح سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارا سورج، کسی بعد میں بلیک ہول بننے والے ستارے کے مُقابِل کہیں چھوٹا ہے۔ اور یہ نا اُمّیدی کی وہ توانا عَلامت ہے کہ کسی بھی خدا کی عدم موجودگی میں اَندھے اِرادے (blind will, Elan vital, dead God, entropy) کے ہاتھوں ہماری مَعنویت سے تَہی زندگیاں اسی طرح فنا کے بے رَحم ہاتھوں دستِ بُرد کا شکار ہو سکتی ہے، جِس طرح ہم سے کہیں زیادہ علم و دانِش کی حامِل ہَستیاں (بلیک ہول والا ستارے) خاک ہُوئیں، راکھ ہُوئیں، پاک ہُوئیں۔
اِسی طرح ایک لا اَدری کے مَوہُوم اُمّید کے مطابق، اگر ہمارے وُجود کو ’معنویت‘ حاصل ہو جائے تو شاید ”جوشِ حیات“ کے ہاتھوں ’ہماری معنویت‘ اِرتقاء کے اگلے پڑاؤ میں کام آ کر دوام کی دِہلیز چُھو سکے۔ یا نِطشے کے مطابق،”ما فَوقُ الانسان“ (Super man) کی تشکیل کے لیے خام مواد یا ایک سیڑھی کا کام دے۔
اِسی طرح سورج روشنی اور حیات بخش حَرارت کا مَنبع و ماخِذ ہے، اِسی لیے روشنی اور حَرارت کی نسبت علم و شُعور سے ہے، اور اِسی لیے ستارے (چَراغ، آگ، جُگنو وغیرہ) کو عَلامات کی دنیا میں عِلم، شُعور اور حَرارت کی مَعنویت حاصل ہے۔
دوست کے ساتھ اِس نظم کو لے کر ہونے والے مُکالمے کا لب لباب یہ تھا کہ اِس نَثری فن پارے کا کردار ہُجوم سے کٹا ہُوا، ایک “دُروں بِیں“ (introvert) شخصیت کا مالک ہے، جو لا اَدری (agnostic) ہے، اور جس کے آگے ابھی تک حقیقت کی کوئی تعریف مُعَیّن و مُقَرّر نہیں اور جِس کے سَبب،کرنے کے لیے اُس کے پاس چند اَیسے کام ہیں، جس کی اہمیت، سماجی حوالے سے بَہُت ہی کم ہے اور ایک با معنی زندگی سے کوسوں دُور، بے زاری اور تَشویش کا شِکار، اپنے یقینی اِختتام کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
جِس میں ایک طرف تو مذکورہ ضروری کاموں سے بے زاری (boredom) کو کم کرنے کی سَعی کی جا رہی ہے اور دوسری طرف زمین کی طَنابیں تُڑوانے یا زندگی کا دَورانیہ خَتم ہونے کی تَشویش ہے۔
”اور وہ وَحشَت زَدہ جان ور کی طرح سورج کی کھونٹی سے بَندھی اپنی طَناب تُڑوا لے
اور بُزرگ چرواہا اُس کو قریبی بلیک ہول کی طرف ہانک دے“
مزید:
*پہلے جملے کےلیے کہا جا سکتا ہے کہ “مایوسی کفر ہے“ مگر مایوسی اور وَحشت/بے زاری قطعاً الگ الگ کیفیات ہیں…
*وَیسے سائنسی طور سے زمین کا بَہ راہِ راست بلیک ہول میں گرنا نا ممکن ہے کیوں کہ ہمارے نظامِ شمسی کا نزدیکی بلیک ہول (Unicorn) ہم سے پندرہ سو نوری سال (1500ly) دُور ہے اور ہمیں بَہ خوبی عِلم ہے کہ پندرہ سو نوری سال کا معنیٰ، اس فاصلے میں اَن گنت ستاروں کی موجودگی ہے۔
فن پارے کی حد تک، یہ ایک اُمّید ہے کہ زمین (فن پارے کا مرکزی کِردار) کسی نہ کسی سِتارے کے شمسی نظام (solar system) کا حصّہ بن جائے گا۔ اور ایک نئے نِظام کا پس منظر استعمال کرتے ہُوئے معنویت کی جُستُجو کر سکے گا۔
بالفرضِ مُحال، اگر زمین کسی بلیک ہول کے نزدیک پَہُنچ بھی جائے، تو بھی وہ بلیک ہول میں گرنے والی نہیں، کیوں کہ زمین کی کمیّت (mass) بےحد کم ہے اور یوں وہ بلیک ہول کے گرد، تیز تر گَردِش کرتی رہے گی۔ یہ ایک ایک اور معنویت ہے اِس فَن پارے کی، جِسے ہم نِطشے کے پیرے میں مطالعہ کر چُکے ہیں۔
لفظ بُک مارک سے مجھے ”مارک ٹوین“ کا ایک مشہورِ زمانہ قول یاد آیا کہ مجھے موت سے کوئی خوف نہیں کیوں کہ پیدا ہونے سے پہلے بھی مَیں مردہ تھا۔ یہاں ”پیدا ہونے سے پہلے“ سے مارک ٹوین مذہبی آغاز سے پہلے کی لا مُتناہیت کی بات کر رہے ہیں۔