شہروں پلاٹ اُگے رہے ہیں
از، رشید چودھری
پہلے مشہور تھا کہ اسلام آباد میں یا تو پراپرٹی ڈیلرز رہتے ہیں، یا پھر ان کے متأثرین۔ اب کہا جاتا ہے کہ تخت شہر میں ہر دوسرا شخص پراپرٹی ڈیلر ہے چاہے وہ بَہ ظاہر کوئی بھی کام کر رہا ہو۔
2018 کے بعد اسلام آباد اپنے تعمیراتی رقبے میں کم از کم تین گنا بڑھ گیا ہے۔ شہر سے 65 اور 70 کلومیٹر دور کالونیاں بھی شہر کا حصہ ہونے کی دعوے دار ہیں۔ نیا ایئر پورٹ کیا چالُو ہوا، شہر کے اطراف زرعی زمینوں پر کنکریٹ کی شبانہ روز یلغار شروع ہو گئی۔
اب اتنی بلڈنگیں اور کالونیاں اُگ آئی ہیں کہ گھاس کے تنکے کے لیے بھی جگہ نہیں بچی۔ شہر کی آبادی میں اضافے کے باوجود جتنی کالونیاں، گھر، اپارٹمنٹس اور پلازے تعمیر کر لیے گئے ہیں وہ موجودہ آبادی کی ضروریات سے کہیں زیادہ اور اس کی زمین اکثریت کی استطاعت سے کوسوں دور ہیں۔
اب خالی کالونیوں، پلازوں اور گھروں کو نیلی پیلی بتیوں سے آباد دکھانے کا دکھاوا کیا جاتا ہے تا کہ کچھ گاہک پھنسیں۔ ایک واقفِ حال دوست کے بَہ قول نئے پلازوں میں بِلڈروں نے دکانوں کے جعلی بورڈ لگا کر رونق میلے کا بندوبست کیا ہے۔ اپارٹمنٹس کی بالکونیوں کی الگنیوں پر چند ٹی شرٹیں اور ایک تولیہ لٹکا کر آباد ہونے کا جھانسا دیا جا رہا ہے۔ نام ور ترین کالونیوں میں گھروں کے کرایے شہر کی نسبت کافی کم ہو گئے ہیں، مگر وہاں رہ کر صرف رہا جا سکتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ ہے کوئی نہیں اور کام کے لیے روزانہ سو ڈیڑھ سو کلومیٹر گاڑی کے چلانے کا خرچہ اور ٹریفک کا عذاب برداشت کرنا آسان نہیں۔
یہ نام نہاد ہاؤسنگ سیکٹر لوگوں کی رہائشی ضروریات کے لیے تشکیل پاتا تو اس کا ارتقاء آرگینک ہوتا، مگر یہ تو محض انویسٹمنٹ سیکٹر ہے، سٹاک ایکسچینج کی طرح کا انویسٹمنٹ ادارہ۔
پراپرٹی کے علاوہ کوئی بزنس ایسا نہیں ہے جس کی آمدنی پر پلاٹ اور گھر بن سکیں۔ ریٹ آف ریٹرن ایسا کہ مِل مالکان نے ملیں بیچیں اور کالونیوں کا دَھندا شروع کر دیا۔ ملوں کی زمینوں پر کالونیاں پروڈیوس ہوئیں۔
مڈل کلاس کے جن لوگوں نے بھلے وقتوں میں پلاٹ اڑائے یا سرکار سے کسی نہ کسی بہانے لے لیے اور اس کے بعد خود جُزو وقتی یا کل وقتی ڈیلر بن گئے، وہ اس سیکٹر کی کام یابی کا چلتا پھرتا اشتہار بن گئے کیوں کہ انھیں زندگی میں نوکری یا کاروبار کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اب ان کے جیسا بننے کے خواہش مند باقی ماندہ مڈل کلاسیوں کی اربوں کی بچتوں اور چھ ہزار ارب کی سرکاری سبسڈی سے وجود میں آنے والے اس شدید غیر پیداواری سیکٹر نے پوری معیشت کو منجمد کر دیا ہے۔
پاکستان میں ہاؤسنگ یونٹس کی اصل کمی کتنی ہے، جیسے سوالوں سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نو سربازوں کے ہتھے چڑھا یہ سیکٹر کیا لوگوں کو گھر فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے؟ آئی ٹی کے ایک ماہر دوست نے بتایا کہ انھوں نے کسی کلائنٹ کے لیے نئے پلاٹوں کی میپنگ کی۔ پچھلے چند برس میں پینتالیس لاکھ پلاٹ کاٹے گئے جس میں سے بائیس لاکھ پر کوئی تعمیرات نہیں کی گئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پلاٹوں کا لین دین حقیقی گاہکوں کی بجائے محض انویسٹرز کے درمیان ہوتا ہے۔ تعمیرات بھی زیادہ تر انویسٹرز کی جانب سے کی جاتی ہے۔ اگر ان پلاٹوں اور ان کے لیے درکار سڑکوں کا رقبہ نکالا جائے تو شاید پنجاب کے دو اوسط زرعی اضلاع کے کل رقبے سے بھی بڑھ جائے۔
سکڑتی مڈل کلاس، تن خواہ دار طبقے پر بڑھتا بوجھ اور ارب پتی انویسٹرز کی انتظار کی استطاعت اور ان کا بے مثال سیاسی اثر و رسوخ ایسے فیکٹرز ہیں جن سے لگتا ہے کہ سرمایہ کاری کے اس سیکٹر کو بہت جلد پھر سرکاری سبسڈی کا انتظار ہے۔
اس سیکٹر کے سیاسی رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ چاروں صوبائی حکومتیں زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے پر تو متفق ہو گئیں، وفاقی حکومت نے تن خواہ داروں کو کولہو کی آخری گھانی کی طرح نچوڑا، مگر سَٹّے بازی جیسے منافعوں والے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا سوچا بھی نہیں گیا۔