ہم اپنی حقیقتیں خود طے کر سکتے ہیں
(اصغر بشیر)
ہم شخصی حقیقتوں کی دنیا میں زندہ ہیں۔ جہاں ہر حقیقت اپنے میزبان ذہن کے مرہون منت ہوتی ہے۔ ہر انسان یا تو اپنی زندگی کو اپنے اصولوں پر گزارتے ہوئے اپنی حقیقتیں خود تراشتا ہے یا پھر دوسروں کی تراشی ہوئی حقیقتوں کو اپنا کر اپنی زندگی گزارتا ہے۔ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو دوسروں کی حقیقتوں کو اپنانے کے بجائے اپنی حقیقتوں کی بنیاد پر اپنے بیانیے خود تراشتی ہیں۔ ہم اپنی حقیقتیں کیسے تراشتے ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے سوچ اور اس کے عمل کو سمجھنا ہو گا۔
انسانی سوچ حقیقت تراشنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ہر انسانی فعل کی بنیاد سوچ میں ہوتی ہے۔ خود نوم چامسکی انسانی اعمال کے ذہنی پروسیس کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ نوم چامسکی کی وضاحت ویسے تو زبان کے متعلق ہے لیکن اس کو عمومی اعمال کو سمجھنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ذہن کا پہلا پروسیس صلاحیت ہے جس سے مراد وہ تمام اصول اور علم ہے جو کہ زبان کے بارے میں انسان کے ذہن میں موجود ہوتا ہے۔ ان اصولوں کو مشق اور ریاضت سے شعوری طور پر عمل میں لا یا جا سکتا ہے۔ زبان کا دوسرا حصہ کارکردگی ہے جس سے مراد انسان کی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ ہے۔ انسان کی صلاحیت اس کے شعور، تحت الشعور اور لا شعور میں موجود معلومات کی بنیاد پر ہوتی ہے جب کہ انسان کی شعوری سوچ کارکردگی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جس عمل کو ہم بار بار ایک ہی طریقے سے کرتے رہتے ہیں۔ انسانی ذہن اس کو بنیادی طریق قبول کر کے اس کے مطابق آٹو میٹک انداز میں ردعمل کرنے لگ جاتا ہے۔ اس سے انسانی عمل کی کارکردگی طے ہونے لگ جاتی ہے۔ مخصوص حالات میں کسی بھی کام کو بہتر انداز میں کرنے کے لیے کارکردگی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس عمل نے انسانی بقاء میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
بظاہر فائدہ مند یہ عمل فیصلہ سازی کا باریک نقطہ نظر انداز کر جاتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے معاشی ، معاشرتی ، سماجی، اخلاقی اور سیاسی محرکات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ بدلتے تناظر سے نپٹنے کے لیے تخلیقی سوچ اور تخلیقی طریق کار کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم اس تناظر سے روایتی انداز میں نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو دو صورتوں میں سے ایک وقوع پذیر ہوتا ہے۔ پہلی صورت میں ہم مکمل طور پر ناکام ہو کر اپنے آپ کر مکمل اعتماد کھو بیٹھتے ہیں ۔ دوسری صورت میں ہم جزوی طور پر کامیاب ہوتے ہیں جس سے ہم اپنا کمپی ٹیٹو ایڈوانٹیج (competitive advantage) کھو بیٹھتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں کا جلد یا بدیر تنزل کی صورت میں نتیجہ نکلتا ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہوتا ہے کہ انسان روایتی انداز سے ہٹ کر سوچے۔
ہم اپنی غلطیوں کو اسی وقت جان سکیں گے جب ہم ان کے بارے میں سوچیں گے اور ان کو وقت دیں گے۔ انسانی سوچ کے دو انداز ہیں۔ ڈائیورجنٹ سوچ کا ایسا انداز ہے جس کے تحت ہم کسی چیلنج کے زیادہ سے زیادہ ردعمل سوچتے ہیں۔ کنورجنٹ سوچ کا ایسا انداز ہے جس کے تحت ہم بہترین ردعمل کو چنتے ہیں۔ سوچ کا انسانی ذہن اور انسانی زندگی میں کتنا اہم کردار ہے اس کا اندازہ آئن سٹائین کے جواب سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران ان سے سوال کیا گیا کہ اگر دنیا کو بچانے کے لیے ان کے پاس ایک گھنٹا ہو تو وہ کیا کریں گے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ پچپن منٹ اس خطرے کی نوعیت کو سمجھیں گے اور آخری پانچ منٹ میں اس کو حل کریں گے۔