تمدنی ترقی میں عقل اور وجدان کی کشاکش
از، پروفیسر محمد حسین چوہان
تمام علمی اور سائنسی تھیوریوں اور نظریات کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کا تعلق تہذ یبی و تمدنی ترقی سے وابستہ ہے جن کے ذریعے نوع انسان نے مادی اور روحانی ترقی کا سفر طے کیا۔ تجربی سائنس نے فطری جبر پر قابو پانے کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا۔
انسان کو قعرِمعزلت سے نکالنے اور جنتِ ارضی بسانے میں معاونت کی۔ جبلت اور فطرت کی خاطر خواہ غلامی سے اس کو نجات دلائی۔ اسی طرح عملیت پسندی، جدلیاتی مادیت، تجزیاتی فلسفہ، مارکسی فلسفہ،جدیدیت اور مابعد جدیدیت،تصوریت اور روحانیت پر مبنی فلسفوں نے انسان کی نجات اور مقدر سنوارنے کے لیے تاریخِ عالم کے مختلف ادوار میں فکری اور عملی سطح پر تبدیلیاں لانے کی کوششیں کیں اور انقلاب برپا کیے۔
ان تمام فلسفوں کا براہ راست مخاطب انسان تھا،اور کم و بیش تمام تر نظریات اور افکار کا تعلق معاشرتی ترقی اور حرکت سے جڑا ہوا تھا۔ داخلی اور خارجی زندگی میں مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کرکے تضادات اور تناقصات کو رفع کرنا مقصود تھا۔ بالخصوص تجربی سائنس اور مادی جدلیات نے فکر و نظر اور تجربات کی دنیا میں ایک انقلاب بپا کیا۔ علمیات کی روز افزوں ترقی کے ساتھ ساتھ بہت سے مثالیت پسند فلسفوں اور کلیت پسندی کے اثرات کی جمی ہوئی تہہ ترقی پسندی کے سیل رواں کے آگے ٹھر نہ سکی۔ علمیات اور جدلیات کٹر پسندی کا مطلع صاف کرنے میں کوشاں رہیں، مگرپھر بھی ادعائی فلسفوں اور نظریات کے نقوش انسانی ذہنوں پر قائم رہے۔
ان تمام مذکورہ نظریات اور افکار میں وجدان جو ایک غیر تجربی، غیر عقلی، غیرمستند اور غیر ترکیبی تصدیقات کا حامل نظریہ ہے کی موجودگی اور کارفرمائی فکر و فلسفہ، شعر و ادب، مذ ہب و تصوف حتٰی کہ سائنس کے تمام شعبوں میں بھی دیکھنے میں آرہی ہے۔ وجدان کا اطلاق خارجی زندگی پر ہو نہ ہو، مگر اس کا متصوفانہ اظہار طبعیات اور فلکیات کی دنیا میں بھی ہو رہا ہے۔ اب ہم وجدان کی علمی صحت اور اس کے معاشرتی ترقی اور زندگی پر اثرات و اطلاق کا جائزہ لیں گے۔
کسی قضیہ،عیون ،معروض، تصور یا حقیقت اولٰی کا عقل و حواس کے واسطے کے بغیر روحانی واردات یا مکاشفے کے ذریعے ادراک کرنے کے عمل کو وجدان کہتے ہیں، جس میں عقل اور حسی ادراک اور معطیاتِ حس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا جس میں شعور ذات، خودآگہی و خود نگری اور گدازی بصیرت کے ذریعے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کانٹ کے فلسفے میں وجدان ایک تجربی شکل میں اپنا اظہار کرتا ہے،جو اشیاء کا ادراک ایک معقول طریقے سے کرتا ہے،اور خالص وجدان وہ ہے جس میں حسیات زماں و مکاں میں اشیاء کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر تجربے کی مدد سے تمثالی پیکر تخلیق کرتی ہیں۔
وجدان ایک ایسی استعداد ہے جو فوری اور براہ راست اشیاء کا وقوف کرتی ہے جس میں معروضات نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آجاتے ہیں، جو تصوریت سے زیادہ واضح ہو تے ہیں۔ یہ معروضات سے اپنا علاقہ قائم کرنے کے باوجود اپنی جگہ تنہا رہتا ہے، جبکہ دانشورانہ وجدان کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔
گویا کانٹ کے نزدیک عقلیت اور تجربیت کے ہم آہنگ ہونے سے علم جنم لیتا ہے۔ کانٹ زمان ومکان کے اندر رہ کر وجدان کی کارگزاری کا قائل ہے جو کہ عقلی ہے نہ کہ جبلی۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم ظواہر کا علم حاصل کر سکتے ہیں، اشیائے حقیقیہ تک ہماری رسائی نہیں ہو سکتی جس سے ظاہر ہوا کہ حقیقت غیر زمانی اور غیر مکانی ہے جس کا ادراک تجزیہ و تحلیل سے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا سراغ لگانا وجدان کا وظیفہ ہے۔
تاریخ فلسفہ میں بہت سے فلاسفہ نے وجدان اور تصوف سے اپنا علاقہ قائم کیے رکھا، افلاطون کے ہاں بھی وجدان اور گیان کی باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں اور حقیقت ظاہری اور حقیقت مطلقہ کو اس نے دو الگ خانوں میں تقسیم کر رکھا تھا جس کے نزدیک یہ دنیا حقیقت مطلقہ کا عکس ہے۔ فلاطنیوس ایک باطن پرست فلسفی تھا مگر وہ وجدان سے زیادہ عقل پر یقین رکھتا تھا اس کا کہنا تھا۔ صرف عقل کی زندگی جادو کے اثرات سے آدمی کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔
سپائی نوزا کے مطابق وجدان علم کا اعلٰی درجہ ہے جسے خدا اور اشیاء کا ادراک حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جدلیاتی مادیت کے مخالف اکثریتی فلاسفہ سائنس ،فلسفہ ،ادب اور مذ ہب میں تخلیق ،ایجادات،انکشافات،نروان اور قرب الٰہی میں وجدان کو اپنا مرشد و رہبر مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک جبلت ہی وہ واحد شے ہے جو انسان کو تخلیق پر ابھارتی اور جوش حیات پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے۔ اس سلسلے میں فرانسیسی حساب دان پاؤن کیر کہتا ہے۔ کوئی بھی اصلی تخلیق سائنس وحساب میں وجدان کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اس کا یہ قول بہت مشہور ہے,it is by logic we prove ,it is by intuition that we invent۔
وجدان کا عمومی تعلق مشا ہدے سے ہوتا ہے مگر یہ تجربے کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اشیا اور معمولات کے ساتھ جتنی زیادہ آموزش ہوگی یہ اتنا ہی سرعت انگیزی کا مظاہرہ کرے گا جس میں ارتکاز توجہ کے عمل دخل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،جیسے اسٹاک ایکسچینج کے ماہرین کو اسٹاک ایکسچینج کے اتار چڑھاؤ کا پیشگی علم ہوتا ہے۔اور ایک عاشق کو محبوبہ کے تمام معاملات اور حرکات و سکنات کی اشاروں میں آگہی ہو جاتی ہے۔ اس طرح کا وجدان اپنے اندر تجربیت اور آموزش کا حامل ہوتا ہے اس کو ہم زماں و مکاں سے ماورا وجدان کا نام نہیں دے سکتے۔ یہ فکر کی راہ میں بکھرے ہوئے کانٹوں کو ہٹانے کا کام کرتا ہے۔
اسی طرح زندگی کے دیگر شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے حضرات وکلا، اساتذہ، سائنسدان،ڈاکٹر انجنیر اپنے معاملات کو شفافیت بخشنے کے لیے وجدان سے کام لیتے ہیں،مگر اس کا تعلق ماضی کے تجربات،یاداشتوں اور آموزش سے ہوتا ہے اس میں حس و عقل کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ وجدان جمالیات کی حس کے ساتھ ہمیشہ جڑا رہتا ہے۔بینی ڈیٹو کروس جمالیات اور وجدان کے باہمی تعلق کے بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہے۔
حسن فطرت کا خاصہ نہیں یہ مخصوص قسم کا انتخاب اور ترکیب ہے جس کی تکمیل انسانی ذہن وجدان کے زریعے کرتا ہے،، اسی بنا پر وجدان متنوع اظہار کے پہلوؤں کے ساتھ اپنی وحدت قائم رکھتا ہے۔
چندرا شیکر جس نے بلیک ہول کی موجودگی کی پیش گوئی کی اس نے سائنس اور حساب میں جس جمال کا اظہار کیا وہ وجدانی کیفیات کا حامل ہے آئن سٹائن بھی وجدان کا قائل تھا اور تخلیق میں ایک گونہ بے خودی کا حامل تھا۔ اسٹیفن ہاکنگ نے وقت کی مختصر تاریخ رقم کرتے ہوئے بگ بینگ اور اکائیت کے موقع پر وجدانی انداز فکر اختیار کر لیا تھا۔جمالیات کے بر عکس وجدان کو سادہ اخلاقی حقائق کا نام بھی دیا گیا ہے جس سے عقل عامہ کی اخلا قیات کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
دائمی صداقتوں، خیر وشر۔عیون اور جمالیات کی تشریحات میں انسانی فکر کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر جائے یہ معاملات وجدان کے دائرہ کار میں رہیں گے۔ان کا تعلق عقل سے نہیں ،کیونکہ انسان نیکی اور برائی کے بارے میں عقل کی موجودگی کے بغیر بھی ان کا بہتر ادراک رکھتا ہے۔
امام غزالی کو ابن رشد نے مرتد فلسفہ کے نام سے موسوم کیا۔ امام غزالی نے بھی حقیقت اولٰی تک رسائی کے لیے وجد وحال اور کشف و اشراق کو ضروری قرار دیا۔ جسے مسلم دنیا میں عقل و استدلال کی روایت ماند پڑ گئی اور وجدان کے زیر سایہ مسلم امہ تصوریت کی سسکیاں لینے پر مجبور ہو گئی۔
یورپ میں احیاالعلوم کی ترقی اور نشوونما میں روڑے اٹکانے میں روسو وہ واحد مفکر ہے جس نے جدید سائنسی اور عقلی ترقی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ انسان کو عقل و خرد نے فطری دنیا سے دور کر دیا ہے انسان کے تمام مسائل اور عقدوں کا واحد حل یہ ہے کہ وہ دوبارہ فطرت سے اپنا تعلق قائم کر لے اور بدوی و صحرائی زندگی اختیار کرلے۔ رومانویت اور جبلت کے تحت ز ندگی گزارے اور عقل و فکر کو خیر آباد کردے مجھے یہ بات کہنے میں چنداں باک محسوس نہیں ہوتا کہ تفکر و تدبر خلاف فطرت ہے اور مفکر ایک ذلیل انسان ہے۔
اسی قبیل کا دوسرا بڑا مفکر برگساں ہے جس نے وجدان کو باقاعدہ عقل پر فوقیت دی اس کا کہنا تھا کہ عقل سرحد ادراک سے پرے دیکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ وجدان ہی وہ واحد استعداد ہے جس سے انسان حقیقت کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
برگساں وجدان کو جبلت کے معنوں میں استعمال کرتا ہے۔ سید علی عباس جلالپوری اپنے مضمون، اقبال اور تقابل عقل و وجدان، میں اس کے بیان کو یوں درج کرتے ہیں:
وجدان وہ جبلت ہے جسے اپنا شعور ہو گیا ہے۔اور جو اپنے مقصد سے آگاہ ہو کر اس کی تو سیع کا باعث ہو سکے، آگے مزید چل کر اس کی زبانی وجدان کی تعریف کچھ اس طرح کرتے ہیں:
یہ ایک قسم کی عقلیاتی ہمدردی ہے جس کی مدد سے ایک شخص کسی چیز کے بطون میں جگہ پا لیتا ہے۔ تا کہ وہ اپنے آپ کی مطابقت اس چیز کے بے نظیر عنصر سے، جو ناقابل اظہار ہے کر سکے۔
دوسری جگہ وجدان کی تعریف کچھ اس طرح سے کرتا ہے:
ایک قسم کی عقلیاتی ہمدردی جس کی مدد سے ایک شخص کسی شے کی کنہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اور اس کی اس انفرادی خصوصیت کو پا لیتا ہے جو ناقابل بیان ہوتی ہے۔
یہاں بھی برگساں جبلت کو عقل پر فوقیت دیتا ہوا نظر آتا ہے اس کے نزدیک جبلت خرد وعقل کی تکمیل کرتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جبلت عقل کی تکمیل کرے بلکہ انسانی عقل جبلت کو اپنے تابع رکھ کر اس کی تطہیر و تکمیل کرتی ہے،کیونکہ جبلی لحاظ سے انسان اور حیوان ایک جیسے ہیں ان میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ عقل کا ہے جو انسان کے پاس ہے جس کے تابع رہ کر جبلت وجدان سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔
کنفیوشش نے شاید اسی موقع کی مناسبت سے کہا تھا:
انسان حیوان سے تھوڑا سا مختلف ہے اور اکثر انسان اس تھوڑے سے فرق کوضائع کر دیتے ہیں۔ یعنی وہ جبلی یا وجدانی بن جاتے ہیں۔ نٹشے نے بھی جبلت کی حمایت میں یہی کچھ کہا تھا کہ وہ تمام ذہانتوں سے ذہین ہے جبلت اور عزم بالیقین کو سامنے رکھتے ہوئے برٹرینڈ رسل نے کہا ہمیں عزم بالیقین کی ضرورت نہیں بلکہ دریافت کرنے کی خواہش کی ضرورت ہے جو عزم للیقین کی ضد ہے۔
برگساں کے فلسفے میں باطنیت اور تصوف کا عنصر نمایاں ہے جو خرد دشمنی اور فکر و استدلال کے تمام راستے مسدود کر دیتا ہے۔ سید علی عباس جلالپوری نے فرینک تھیلی کی رائے جو اس نے تاریخ فلسفہ میں دی اس کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہییں:
خرد دشمن تحریک کا سب سے دلچسپ اور ہر دل عزیز مفکر برگساں ہے رومانیوں، نتائجیت پسندوں اور صوفیوں کی طرخ اس کا عقیدہ ہے کہ سائنس اور منطق ادراک حقیقت سے قاصر ہیں۔ زندگی اور حرکت وتغیر کے مقابلے میں عقلی استدلال بے کار ہے۔ سائنس صرف میکانکی ، بے حس اور جامد اعمال و اشیا کا جائزہ لے سکتی ہے، عقل جوشش حیات کے ہاتھ میں ایک آلے کی حیثیت ر کھتی ہے، وجدان زندگی ہے،حقیقی زندگی،وجدا ن خود آگاہ شائستہ اور روحانیت آمیز جبلت ہے۔
برگساں کا فلسفہ جبلت اور وجدان کے باہمی ربط سے تشکیل پذیر ہوتاہے۔حقائق کا ادراک لمحاتی سطح پر کرتا ہے جو اظہار و ابلاغ سے عاجز ہے جس کے لیے عقل کو وجدان و جبلت کے اندر ضم کرنا پڑتا ہے۔ تا کہ جوشش حیات، ندرت اور تازگی کو عقل کی یکسانیت اور میکانیت کے مقابلے قائم رکھ سکے اور ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کا مشاہدہ کر سکے۔
مگرکیا تازگی،ندرت،تعمیر وتخلیق عقل کی کار گزاری کے رہین منت نہیں ہیں۔ جبلت اور وجدان اپنے اظہار کے لیے اگرعقل کے محتاج ہیں تو پیچھے کیا رہ گیا ہے۔ جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے، کیونکہ صوفی اپنی واردات قلبی کو دوسروں تک پہنچانے سے قاصر ہے، دوسرا اس کا تجربہ لمحاتی ہوتا ہے،جو کسی بھی تائید و تصدیق کے قابل نہیں ہوتا جس میں انسان لامرکز ہوجاتا ہے اس کے یہ ذاتی کیفیات اور احوال ہوتے ہیں جن میں عمومیت نہیں ہوتی ایک بے بسی نا رسائی اور فریب کا سا ماحول ہوتا ہے جو انسانیت کی کسی بھی سطح پر رہنمائی نہیں کرسکتا تو ایسے میں اس کا وجدانی فلسفہ سر کے بل چلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
سید علی عباس جلالپوری عقل و خرد پر وجدان اور جبلت کی سیادت قائم کرنے کو تہذ یبی اور انسان ترقی کے لیے انتہائی مہلک قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، علمائے ارتقا وحیاتیات ہمیں بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے مادے سے حیاتیات کا ارتقاء ہوا۔ پھر حیات سے جبلت کا، پھر جبلت سے ذہن کا اور ذہن میں تعقل وتفکر کی صلاحیت پیدا ہوئی۔
برگساں کہتا ہے کہ جب جبلت عقل کے دخیل ہونے سے آگاہ ہوتی ہے تو وجدانی کوائف ظہور پذیر ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس صورت میں جبلت اورعقل سے علحیدہ وجدان کا کوئی وجود نہیں ہو سکتا اور وجدانی کیفیات کو عقل وخرد ہی کی تخلیق تسلیم کرنا پڑے گا۔ نظر بر آیں یہ دعوٰی کرنا کہ وجدان عقل کی تکمیل کرتا ہے ناقابل فہم ہے،حقیقت یہ ہے عقلی تحقیق اسی نسبت سے معروضی ہو گی جس نسبت سے وہ جبلت و وجدان کے عناصر سے پاک ہوگی۔
اس کے بر عکس وجدانی کیفیات بروئے کار آنے کے ہر مرحلے پر عقل کی محتاج ہیں۔ لویز کہتا ہے:
۔۔۔if nothing is self evident nothing can be proved
اگر بدیہیت موجود نہیں تو اس کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔اور وجدان اپنے تئیں کیسے معروضات کا وقوف حاصل کرسکتا ہے جب عقل کی کارفرمائی کے بغیر یہ فریضہ سر انجام نہیں دیا جاسکتا۔اس سے ظاہر ہوا وجدان عقل ہی کی ایک متحرک اور فعال صورت ہے جو اپنی ترقی کی منہاج پر فائز ہو کرقضیوں کی عقدہ کشائی کرتی ہے۔ صوفی کا یہ کہنا کہ وہ ہر شے کو باطن کی آنکھ سے دیکھتا ہے، ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ باطنی آنکھ سے کیا دیکھتا ہے کیونکہ اپنے احوال اور مشاہدات کا ڈسکورس نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس میں دوسروں کو شریک کر سکتا ہے۔اس سے مترشح ہوتا ہے کہ اس کا تخیل اور وجدان زماں و مکاں سے ماورا ٹامک ٹوئیاں مارنے پر مجبور ہے۔حالانکہ انبیا ئے کرام بھی دوسروں تک پیغام الٰہی پہنچانے کے مکلف تھے۔ان کی کوئی بھی باطنی کیفیات اور وجدانی تجربہ عمومیت،دانش وحکمت اور عقل فعال کے بر عکس نہیں ہوتا تھا۔ سید علی عباس جلالپوری برٹرینڈ رسل کا اقتباس اس حوالے سے د رج کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عقل وجدان پر کس لحاظ سے فوقیت رکھتی ہے۔ برگساں کہتا ہے کہ عقل ماضی کے تجربات کی بنا پر اشیاء کی مشترک خصوصیات کا جائزہ لے سکتی ہے جب کہ وجدان میں ہر تازہ لمحے کی ندرت اور عجوبگی کا ادراک کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
یہ صحیح ہے کہ ہر لمحے میں ندرت اور تازگی پائی جاتی ہے۔یہ بھی صحیح ہے کہ عقل اس کے فہم سے قاصر ہے۔صرف بالواسطہ واقفیت سے ہی اس ندرت اور تازگی کا ادراک کیا جا سکتا ہے لیکن اس نوع کی بالواسطہ واقفیت مکمل طور پرحس بہم پہنچاتی ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے اس کے ادراک کے لیے وجدان جیسی کسی خصوصی کیفیت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی عقل و وجدان نہیں بلکہ حسن نیا مواد فراہم کرتی ہے لیکن یہ مواد نمایاں طور پر نیا ہوتا ہے تو وجدان کی نسبت عقل بدرجہا زیادہ اس کے قابل ہوتی ہے کہ اس کا جائزہ لے سکے۔۔۔۔درحقیقت وجدان جبلت کا ہی ایک ترقی یافتہ پہلو ہے او جبلت کی طرح ان معتاد حالتوں میں بروئے کار آسکتا ہے جنہوں نے حیوانات کی عادت کو سانچے میں ڈھالا ہے۔
جہاں تک اردو فکر و فلسفہ کا معاملہ ہے اس پر تصوف و وجدان کا اثر گہرا ہے برصغیر کے کم بیش تمام صوفیاء ،صوفی شعر و ادباء کی تخلیقات وجودی فلسفے، وجدانیت و روحانیت سے مملو نظر آتی ہیں ۔اردو ادب پر مغربی فکرو فلسفے و ادب کے اثرات بہت کم پڑے ہیں۔ جن میں ڈ اکٹر علامہ محمد اقبال کی شاعری اور نثر اس کی گواہ ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں وجدان کو ہر کہیں عقل پر فوقیت دی ہے ۔اس سلسلے میں اقبال نے برگساں کے وجدانی فلسفے کی پیروی کی ہے،حتٰی کہ وہ روسو کی رومانویت اور بدویت کو بھی بنظر استحسان دیکھتے ہیں۔
خر د دشمنی میں اقبال کی شاعری ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک عقل زماں ومکاں کے دائرے کے اندر رہ کر اپنا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور اس کی پرواز وجدان کے مقابلے میں کم ہے۔ وجدان سرحد ادراک سے پرے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خر د وعقل کو خشک اور میکانیاتی و مادی امور و قضیوں کی گرہ کشائی سے ہی فرصت نہیں ملتی، اس بنا پر وجدان ہی وہ واحد چیز ہے جس کی پرواز عقل سے بلند، ندرت اور جدت سے معمورہے۔
اقبال کے نزدیک عشق وسرمستی اور جوشش حیات کی تخلیقی قوت سے ارض وسما میں گہما گہمی اور حرکت ہے۔وجدان سے ہی حقیقت اولٰی کا سراغ ملتا ہے۔لیکن اقبال برگساں کی پیروی میں تعقل کو وجدان سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ عقل کی شمولیت کے بغیر وجدان اپنا اظہار نہیں کر سکتا۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے پہلے خطبہ میں سید علی عباس جلالپوری نے ان کے متصوفانہ خیالات کو کچھ اس طرح درج کیا ہے:
ہمارے دوسرے احساسات کی طرح صوفیانہ احساس میں بھی تعقل کا ایک عنصر شامل رہتا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں یہی مشمول تعقل ہے جس سے بالآخر اس میں فکر کا رنگ پیدا ہو تا ہے۔ در اصل احساس کا اقتضا بھی یہ ہے کہ اس کا اظہار فکر کے پیرائے میں کیا جائے:
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
یا رب مجھے صاحب جنوں کر
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
سائنسی و تہذیبی ترقی سے اکتاہٹ اور گریزاں ہونے کا ذکر بڑے ولولے سے کرتے ہیں۔عقل و فکر نے فطرت اور جبلت کو اپنے تابع کر کے جو جنت ارضی بسائی ہے اقبال بدوی اور صحرائی زندگی کو اس پر ترجیح دیتے ہیں۔ان کے نزدیک مشینوں کی حکومت دل کی موت ہے۔جبلت و فطرت کے قدرتی و نامیاتی ماحول میں طمانیت قلب کا ساماں میسر آسکتا ہے،اس بنا پر ان کے مرد مومن کی تخلیق وافزائش ایک بدوی اور صحرائی ماحول میں ہوتی ہے،جو فطرت کے مقاصد کی ترجمانی کے قابل ہوتا ہے۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
عقل و فکر کی بنیاد پر جس تہذیب کی بنا استوار ہو گی اقبال کے نز دیک وہ جلد پاش پاش ہو جائے گی کیونکہ اس کی تعمیر میں وجدان کی آبیاری نہیں ہوئی ہے۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
برگساں کی وجدانیت اور روسو کی رومانویت اور نٹشے کے مرد مومن کے کمالات واثرات اہل یورپ نے تجربے کی صورت میں جنگ عظیم میں دیکھ لیے تھے۔ پھر مغرب کے فکر وفلسفہ ،سائنس وادب میں روسو اور برگساں کو کسی نے درخور اعتنا نہیں سمجھا،اہل مغرب کی ترقی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے جو فلسفہ تہذ یب و تمدن کی ترقی میں معاون نہ ہے یا جس کا اطلاق معاشرتی، معاشی،سیاسی اور سائنس کی دنیا میں نہ کیا جا سکتا ہو اورمعاشرتی حرکت میں سست روی پیدا کرتا ہو اس کو متروک کر دیا جاتا ہے اور اپنی درسگاہوں میں اس کو پنپنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
اسی بنا پر روسو اور برگساں کے نظریات کی ترویج واشاعت کا سلسلہ یورپ میں ختم ہوگیا۔لاک کی تجربیت، ہیگل کی تصوریت پسندی پر مشتمل جدلیات،مارکس اور اینگلز کی جدلیاتی مادیت، رسل کے تجزیاتی فلسفے اور اثباتیت پسندی اور جان ڈیوی کی عملیت پسندانہ فلسفوں کو علم و فکر اورسائنس کی دنیا میں پذیرائی حاصل ہوئی اور جدید معاشر وں کی ترقی کا سفر نیوٹن کی میکانیات سے شروع ہوا اور نشاۃ ثانیہ سے ہوتا ہوا آج ڈرون ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی منہاج پر کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ تصوف،وجودیت اور وجدان پر مبنی فلسفے آپنی موت آپ مرگئے ہیں۔اب پھر سے جدلیات کے سمندر میں دھیرے دھیرے ان دریاؤں فلسفوں، کا پانی گرنا شروع ہوگیا ہے۔جو اپنے آخری نتیجے میں انسانیت کی نجات کا ضامن ہوگا۔
عدم سے نہ ہی کوئی شے وجود میں لائی جا سکتی ہے اور نہ ہے اس سے تخلیق کیا جاسکتا ہے۔عقل واستدلال کے زریعے سے خارجی دنیا کا علم حاصل ہوتا ہے اور انسانی عقل اس کی صورت گری کرتی ہے۔جس میں جبلت اور وجدان پس پردہ رہتے ہیں جب تک عقل کے تابع ہو کر یہ اس کے حکم کی تعمیل نہ کریں،بلکہ ایک سطح پر جا کر یہ عقل کے تشکیلی عمل میں فنا ہوجاتے ہیں اورصرف عقل فعال یا اس کی ترقی یافتہ صورت اپنا کام کر رہی ہوتی ہے۔ تاریخ عالم میں تمدنی تعمیرو ترقی میں عقل و فکر کا ہی نمایاں کرداررہا ہے۔عقل نے تعمیر کی اور وجدان و جبلت نے تخریب کی جیسے انسان جبلت کے تحت شادی کرتا اور بچے پیدا کرتا ہے اور عقل کے تحت طلاق دیتا ہے اور یہ جبلت ہی ہے جوآبادی میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور بے روزگاری،جرائم اور غربت کو جنم دیتی ہے،مگر عقل اس کو کنٹرول کرنے میں کوشاں رہتی ہے۔کیونکہ وجدان اور جبلت کسی عمرانی معاہدے کے پابند نہیں اسی بنا پر انہیں بدوی اور صحرائی زندگی عزیز ہے اور فطرت سے اپنا علاقہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اسی بنا پر پسماندہ اقوام میں رہبانیت، تصوف اور وجدانیت پر مبنی فلسفے پروان چڑھتے اور عوام کو فریب دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ پسماندہ معاشروں کے عوام حقائق سے آنکھیں نہیں ملا سکتے وہ پراسراریت اور تجرد گزینی کو پسند کرتے ہیں اور وجدان وتصوریت کی آغوش میں پناہ لینے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ تہذیب نفس سے عاری ہوجاتے ہیں۔
وجودی فلسفہ ان کے لیے خواب آور گولی ثابت ہوتا ہے۔روحانی شخصیات سے قربت و عقیدت اور ماہرین علمیات سے گریز پا ہونا ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ فطری جبر کے زیر اثر زند گی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ان کے نزدیک عقل قوائے نفس کی رئیس نہیں رہتی بلکہ وجدان، قلبی واردات و کیفیات ہی راہنمائی کے لیے کافی ہوتی ہیں۔
ان تصورات کے حامل معاشروں پر جب عقل و فکر کی حامل قوتوں کی یلغار ہوتی ہے تو اپنے وجدان و جبلت کی قوت پر خود کش بمبار بن جاتے ہیں۔ ان کو اپنی کاوش کے مطابق وہی ملتا ہے جس کی انہوں نے سعی کی ہوئی ہوتی ہے۔مگر اقبال نے وجدانیت کے ہی صرف راگ نہیں الاپے، اس نے عمل وجدوجہد کا فلسفہ بھی پیش کیا اور تجرد و رہبانیت کے خلاف بھی آواز بھی بلند کی کیونکہ اقبال کو ایک شاعر کی حیثیت سے دیکھا جائے تو بہتر ہے ورانہ ایک فلسفی کی نظر سے دیکھے جانے سے اس کی فکر میں تضادات و تناقصات کی بھر مار نظر آئے گی۔ اس کی فکر کو اجاگر کرنے کے لیے نمونے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
تصوف، تمدن شریعت کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرا فات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
یہ مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
:عمل وحرکت کے بارے میں فرماتے ہیں
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی ، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اور ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات پر اپنے جہدو عمل کے فلسفے کو سمیٹ لیتے ہیں۔
مگر عشق و وجدان اور صحرا نشینی کے فلسفے نے عمومی طور پر عوام کی فکری سمت کو پچیدگیوں میں الجھا کر بے سمت کر دیا اور انہیں آج تک نشان منزل نہیں ملا۔ مگر فکری مغالطے رفع کرنے کے لیے اس سے بڑی کوئی فکرو استدلال کی حامل شخصیت بھی پیدا نہیں ہوئی جو قوم کو باور کراتی کہ لازم نہیں کہ ہم خضر کی پیروی کریں۔
جہاں اقبال امتِ مسلمہ کی عظمت رفتہ اور شوکت گم گشتہ کے گیت گاتے ہیں ،اس میں مسلمانوں کی تمام تر عظمت کا تعلق علمی کمالات اور تسخیر فطرت سے ہے، جہاں تجربے،عقلیت،استقرا، استخراج اور فکر واستدلال کے بنیادوں پر مسلمان فلسفیوں،سائنسدانوں،حکما اور اطباء نے ایک نئی تہذیب کی بنیاد ڈالی اور یورپ تاریکی سے نکل کر نشاۃ ثانیہ میں داخل ہوا۔ ان تمام مسلم مشاہیر نے خرد وعقل کی بنیاد پر علمی قصر کی بنا ڈالی۔ یونانی تصوف اور وجدان جب بارہویں صدی میں مسلم فکر میں داخل ہوا تو مسلمانوں کی لیبارٹریاں خانقاہوں میں تبدیل ہونا شروع ہو گئیں۔
اب اس بات میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہا ہے کہ وجدان عقل و فکر کے مقابلے میں تہذیبی اور تمدنی ترقی کے لیے مہلک ہے۔ اس سے معاشی و سیاسی ،سائنسی و فکری قضیوں کی گرہ کشائی نہیں ہوتی۔یہ حقیقی مسائل سے انسان کی توجہ ہٹاتا ہے۔انسان کو قدرتی آفات اور معاشرتی مسائل کی دلدل میں رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ طبائع کو سیاسی و معاشی جبر کے زیر سایہ رہنے پر مجبور کرتا ہے۔انقلاب کی راہیں مسدود کرتا ہے۔عقل ہی وہ واحد شے ہے جو تنقید وبغاوت کے ذریعے ہر طرح کی تبدیلی کا موجب بنتی ہے،کیونکہ تاریخ عالم میں وجدانی فکر کے حامل معاشروں میں انقلاب نہیں آئے،وجدان سمجھوتہ کرنا سکھاتا ہے اور عقل جبلت کو اپنے میں ضم کر کے بغاوت پر اکساتی ہے۔
علی عباس جلالپوری خِرد دشمنی اور تہذیب دشمنی کو لازم وملزوم قرار دیتے ہیں اور اس ضمن میں رسل کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں:
تہذ یب وتمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ وجدان میں ضعف آرہا ہے۔ وجدان بالغوں کی بہ نسبت بچوں میں اہل علم کی بہ نسبت جہلاء میں زیادہ ہوتا ہے، جو لوگ وجدان کو بہ نظر استحسان دیکھتے ہیں انہیں جنگلوں میں بھاگ جانا چاہیے اور وحوش جیسی زندگی بسر کرنی چاہیے۔
وائلڈ وجدان کے لفظ سے بھی متفق نہیں اس کے نزدیک یہ عقا ئد ،اندازے، عقل عامہ جیسے الفاظ کا متبادل ہے۔ کہتا ہے: وجدان ایسا خاردار پودا ہے جس نے فلسفے کے باغ، پودوں اور پھولوں کو زخمی کر دیا ہے اس کو سائنس کی مملکت سے نکال دینا چاہیے۔ اس کی جگہ عقائد، اندازے اور عقل عامہ جیسے الفاظ موجود ہیں۔ ہاہان کہتا ہے وجدان ایک خام خیالی ہے اس کو سائنس کے سنجیدہ دائرہ کار میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔