سائنس کا تعقل، وبا کا خوف اور ہزارہ شیعہ مذہبی اقلیت کے مذہبی شناختی اظہار کی اہمیت
خطرات کے باوجود کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے لیے عاشورہ کا جلوس اتنا اہم کیوں؟
از، فروہ بتول
محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر میں ایک بار پھر شیعہ مجالس اور عاشورہ کے ماتمی جلوسوں کے تحفظ اور ملک میں مذہبی آزادی سے متعلق سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
گزشتہ بیس سالوں سے مذہبی شناخت کی بنیاد پر ہزاروں لوگ لقمۂِ اجل بنیں۔ اور عموماً محرم الحرام کے مہینے میں پُر تشدد واقعات میں خاطر خواہ تیزی دیکھنے میں آئی ہے لہٰذا ہر سال کی طرح اس سال بھی ملک کے بیش تر حصوں کو دہشت گردی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ رہی سہی کسر کرونا وائرس نے پوری کر دی ہے۔
مئی سے جولائی کے مہینوں میں اس وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیشِ نظر ہر طرح کے ہجوم، بَہ شُمول مذہبی اجتماعات پر پابندی لگائی گئی تھی، لیکن پچھلے ایک مہینے میں پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ تاہم گورنمنٹ اب بھی عالمی طبی ماہرین کی طرف سے جاری شدہ ہدایات (ایس او پیز) پر عمل پیرا رہنے کی ہدایات جاری کیے ہوئے ہیں۔
اسی لیے پاکستان میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہدایات کے مطابق محرم میں ہونے والی تمام مجالس اور جلوسوں کو اسی روایت سے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تمام تر خطرات کے با وجود پاکستان کی شیعہ کمیونٹی کے لیے عاشورہ کا جلوس اور مجالس اس قدر اہم کیوں ہیں؟
کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ برادری کے لیے اس طرح کے حالات سے نمٹنا یقیناً انتہائی مشکل امر ہے۔ چوں کہ کوئٹہ کی یہ اقلیت پہلے ہی کافی انسانی جانوں کا خمیازہ بھگت چکی ہے، لیکن پھر بھی ان کو محرم کے جلوسوں میں پورے جوش و خروش سے شرکت کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
آئیں اس مسلک سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد کی رائے جان کر کسی نکتے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بلوچستان شیعہ کانفرنس کے جنرل سیکریٹری حاجی جواد سے جب شیعہ ہزارہ برادری کے لیے عاشورہ کے جلوس کی اہمیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ کوئٹہ میں عاشورہ کا جلوس کم از کم سنہ 1850 سے انھی راستوں پر آج تک نکالا جا رہا ہے اور کوئٹہ کی شیعہ کمیونٹی یہ روایت یونھی قائم رکھنا چاہتی ہے۔ یہ ماتمی جلوس اور مجالس محض ہماری مذہبی رسومات کا حصہ نہیں، بل کہ یہ اس ملک میں ہماری بقا کے لیے سیاسی اہمیت کے حامل بھی ہیں۔
ہزارہ ٹاؤن میں واقع امام بارگاہ ولئِ عصر کے صدر، ہیّت محمد کاظم کا کہنا ہے کہ ہر سال بڑی تعداد میں کوئٹہ کے اہلِ تشیُّع جن کی اکثریت کا تعلق ہزارہ کمیونٹی سے ہے، جلوس لے کر بازار میں ماتم داری اور امام حسینؑ کو ان کی لا زوال قربانی پر پُرسہ دینے جاتے ہیں۔ کسی سنی اکثریتی شہر میں اہلِ تشیُّع سے تعلق رکھنے والے عزاداروں کے لیے پورے سال میں محض ایک دن اپنے عقیدے کو بھر پُور طریقے سے منانا نہایت ہی اہم ہے۔ اگر اس سال کسی بھی دباؤ کے تحت یہ جلوس ہمارے علاقے تک محدود رہا تو بعد ازاں اہلِ تشیُّع کے مذہبی اظہارِ آزادی کا حق یونھی چھینے جانے کا امکان ہے۔
ان بیانات کے بر عکس محرم الحرام میں سیکیورٹی انتظامات اور کرونا ایس او پیز کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر اورنگ زیب بادینی کا کہنا ہے کہ محرم کے جلوسوں کی اجازت دے کر بلوچستان حکومت شہر کی سنی اکثریت کی طرف سے عدمِ اعتماد کا شکار ہوئی ہے۔ چوں کہ رمضان میں تراویح اور نمازِ جمعہ پر پابندی عائد کردی گئی تھی، لیکن اب محرم الحرام کے جلوسوں کی نہ صرف اجازت دے چکے ہیں، بل کہ انہیں با قاعدہ سیکیورٹی بھی فراہم کر رہے ہیں۔ کیا اقوام میں مساوات اور برابری کو فروغ دیتے ہوئے اور کرونا کے پھیلاؤ کے وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بار محرم کے جلوسوں کو خاص مقامات تک محدود نہیں رکھ سکتے؟
انھوں نے ایران کے شیعہ عالم مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی کی کرونا کے متعلق ہدایات کو از رہِ مثال پیش کیا کہ پاکستان میں اہلِ تشیُّع سے تعلق رکھنے والے افراد اگر ان کے فتوے پر عمل کر کے حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے تو حکومت کو بھی انتظامات میں آسانی ہو گی۔
بلوچستان یونی ورسٹی میں بَہ طورِ ایسوسی ایٹ پروفیسر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر عبد الرحیم چنگیزی عاشورہ کے جلوس اور متعلقہ راستوں میں کسی بھی تبدیلی کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 2004 کے عاشورہ حملے کے بعد بھی جمعیتِ عُلَمائے اسلام نے جلوسوں کو امام بارگاہوں تک محدود رکھنے کا مشورہ دیا تھا، لیکن اگر مسجد اور امام بارگاہوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تو کیا انھیں بھی بند کر دیں؟
ان کا ماننا ہے کہ ملک میں کسی بھی مذہب اور فرقہ کے پیروکاروں کی مذہبی آزادی کو یقینی بنانا حکومت کی ذمے داری ہے اور کوئی آسان راستہ بتا کر وہ اس آئینی ذمے داری سے سبک دوش نہیں ہو سکتی۔
“کوئٹہ میں آباد ہزارہ کمیونٹی کا قتل عام کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارہ، ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس کمیونٹی کے سینکٹروں افراد دہشت گرد تنظیموں کے تشدد کا شکار ہو چکے ہیں۔ دو دھائیوں سے جاری رہنے والے ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے ان حملوں میں سے کئی مذہبی رسومات کے ادائیگی کے دوران ہوئے ہیں مثلاً، عاشورہ کا جلوس، نمازِ جمعہ یا پھر عید کے دن عید گاہ پر دھماکا۔ اس کے باوجود متأثر ہونے والے خاندان اپنی مذہبی آزادی کے اظہار کے لیے ثابت قدمی سے کھڑے ہیں۔
“اگر میرے سات اور بیٹے بھی ہوتے تو انھیں بھی راہِ شہادت سے نہیں روکتی،” یہ کہنا ہے رخسانہ آپا کا جو 2013 کے دہشت گرد حملے میں اپنے تین بیٹے گنوا چکی ہیں۔
ایک اور ہزارہ خاتون خراق بیگم کہتی ہیں: “جب میرے شوہر زندہ تھے تو وہ ہمارے بچوں کو دہشت گردی کے خدشات کے باعث کسی بھی مذہبی اجتماع میں شرکت کرنے سے روکتے تھے، لیکن جب وہ میزان چوک دھماکے میں شہید ہوئے تب سے میں اپنے بچوں کو عاشورہ کے جلوسوں کے لیے خود تیار کرتی ہوں۔”
“محرم ہم شیعوں کے لیے بہت مقدس مہینہ ہے۔ یہ پاکستان میں ہماری پہچان کا سبب ہے، لہٰذا ہم گورنمنٹ کے جلوسوں پر پابندی کے کسی بھی فیصلے کی سخت مخالفت کریں گے،” یہ کہنا ہے رقیہ کا جن کے شوہر 2004 کے عاشورہ حملے میں شہید ہوئے تھے۔
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے بلوچستان اسمبلی کے ممبر قادر نائل کا کہنا ہے کہ ہم عاشورہ کے جلوس کے انتظامات کے لیے سر جوڑے ہوئے ہیں۔ ہم جلوس اور جلوس کے راستوں پر اعتراض کرنے والوں سے بالکل اتفاق نہیں کرتے اور ہم اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ جلوس خیر و عافیت سے اختتام پذیر ہو کیوں کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی خطرات موجود ہیں۔
جامعۂِ بلوچستان کے پروفیسر رحیم چنگیزی کا کہنا ہے کہ مذہبی نقطۂِ نظر سے الگ عاشورہ کے جلوس کا سیاسی اور سماجی پہلو بھی اہم ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ایک سماجی اقلیت اور مظلوم گروہ شہر میں اپنے وجود کا اعلان کرتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی بھی سماجی گروہ جس قدر احساسِ عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے، وہ اسی قدر زور و شور سے اپنی ثقافت اور مذہبی یا لسانی علامتوں کے ذریعے اپنے وجود کا اظہار کرتا ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق کرونا وائرس سے متأثرین کی تعداد مارچ سے لے کر اب تک کم ترین سطح پر ہے۔ لیکن خطرہ بہ ہر حال ٹلا نہیں۔
کرونا کی وبا نے اس سال بہت سے نئے مسائل جنم دیے ہیں کوئٹہ میں آباد ہزارہ کمیونٹی کو ایک طرف ممکنہ دہشت گرد حملوں اور کرونا وائرس سے خطرہ ہو سکتا ہے تو دوسری طرف اپنے مذہبی، ثقافتی اور سماجی وجود کے اظہار کا بھی سوال درپیش ہے۔
اس پسِ منظر میں اس محرم الحرام میں شیعہ کمیونٹی کی طرف سے روایتی عزا داری کا جاری رکھنا جہاں ہمارے معاشرے میں سائنسی رویوں کے فقدان کی طرف اشارہ کرتی ہے وہیں معاشرے میں اقلیتوں کے سماجی احساسِ عدم تحفظ کی بھی علامت ہے۔
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂِ زوال نہ ہو
فروہ بتول کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکن ہیں۔ وہ گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، (GCU F) فیصل آباد میں ادبیات کی طالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی سماجی اداروں میں بَہ طور رضا کار خدمات سر انجام دیتی ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل farifarwaa@ ہے۔