مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ…
ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے اندر کے بہتری کے امکانات کے گلنے سڑنے، جڑ سے اکھاڑنے، اور مار دینے کا اہتمام خود کرتے ہیں۔
پر کس طرح کرتے ہیں؟
اس طرح کرتے ہیں کہ وہ خود ایسا پڑھتے، سنتے، دیکھتے، سوچتے اور عمل کرتے ہیں (افعال و خصائص، verbs and adjectives کی یہ ترتیب کسی رجحان و روَیّے کی نہ ہی کسی خاص hierarchal ترتیب کے مُدَّعی ہے، اور نا ہی ایسی کسی hierarchy، یا typology کی تردیدِ کار و مانِع یعنی، denier ہے؛ قوسَین سے باہر پیش کردہ ترتیباتِ رجحانات و اعمال کو میرا متخَیَّلہ مثالی قاری، imagined ideal reader، مشاہدۂِ کار، اَز سرِ نو ترتیبات دینے کے مُدَّعی، خود سے توڑ پھوڑ کر سکتے ہیں، اور ترتیبِ نَو دے سکتے ہیں، اور یہی کسی بھلی صورت کے ترقی پسندانہ تخلیقِ علم و تعمیرِ علم کی راہ کا اساسی سنگِ میل ہوتا ہے،) تو کہہ رہا تھا کہ ہم میں سے اکثر اپنے اندر کے بہترین امکانات و ترقئِ شعُور و فہم کو کچلتے جاتے ہیں کہ وہ ایسی تلاشوں میں رہتے ہیں جو:
▪︎انہیں لوگوں کے سامنے قبولیت دے،
▪︎جو انہیں خود، اور ان کی انانیت کو استوار کرے، اور اگر یہ وقوعہ کسی حد تک پہلے ہی وقُوع پذیر ہو چکا ہو تو اس کو استوار رکھے
▪︎ان کے مفروضوں کی تصدیق کرے
▪︎جو ان کے پہلے سے بن چکی تشکیل پا چکی تفہیم کی پذیرائی کرے
▪︎جو ان کے تصورِ کائنات (worldview) کی صداقت و حقانیت کی شہادت دے
یہ وہی ہوتے ہیں جو ترقی پسندوں میں بھی فیشن کے طور پر گُھسے ہوتے ہیں، لیکن کا ان کا تصورِ وقت دائروی ہی ہوتا ہے، اور کسی نا کسی ایسے وقت و محل، spatialty and temporality، کا حصول، تشرف اور ہم کناری ہوتی ہے۔
ایسے خود بھی، اپنے وجودی امکانات، شعوری بڑھوتری آموز ذخیرے کو کرم زدہ کرنے میں لگے رہتے ہیں، اور دوسروں کے اندر بھی ایسے رویّوں اور رجحانات کے فروغ و ترویج کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
اپنے اندر کے چھوٹے پن سے بچنے کے سبیلیں نکالیے، اپنے اندر کے خوب صورت کو ہَمہ دم خوراک دیجیے، اس کی پرورش کیجیے، اس کی پذیرائی کیجیے۔ وقت کو روکنے کی کوشش مت کیجیے۔ یہ نہیں رکے گا، لیکن اس کوشش میں آپ ضرور رُل اور رُک جائیں گے۔
دیکھیے کہیں آپ کسی دائرے میں تو نہیں پھنس گئے، یا اپنے آپ کو پھنسا تو نہیں لیا؟
اپنے آپ کو پرکھیے کہیں آپ کو کوئی اپنے شکنجے اور حصار میں لے کر آپ کو خود اپنے امکانات سے بے بہرہ تو نہیں کر دیا؟ اپنے آپ کو تقسیم کر کےخود اپنے نگہ بانی کیجیے کہ کہیں آپ اپنے آپ کے، اپنی ارزل خودی کے اسیر تو نہیں ہو گئے؟
▪︎کیا آپ تیار ہیں؟
▪︎کیا یہ آپ کے سوال تھے؟
▪︎کیا یہ آپ کے سوال ہو سکتے ہیں؟
…مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ… میں نے اس شعر سے وابستہ مفاہیم و توقعات کی شعوری طور پر ریخت کر کے اِسے عنوان کے طور پر رکھا۔
از، یاسر چٹھہ