ایک گم شدہ لوری کی باز یافت
کہانی از، محمد عاطف علیم
’’پانی۔۔۔‘‘
یہ پہچان میں واپسی کے بعد پہلا اسم تھا جو اس پر تب اَلقا ہوا جب اس کی پیاس سے پتھرائی زبان نے ریت میں موجود نمی سے ٹھنڈک پائی۔
یہ گزرے جنموں کی بات تھی یا شاید لمحہ بھر پہلے کا ماجرا تھا کہ وہ ایک ننھا مُنا گل گوتھنا اپنے ننگے کھلکھلاتے وجود کے ساتھ ماں کی گرم آغوش میں سمٹا اس کے نرم ہاتھوں کی تھپکیوں اور ایک ریشمی، خواب آگیں لوری کے کیف میں مست نیند کے ہلکورے لے رہا تھا کہ اچانک وقت کی اچھال نے اسے لمحۂِ موجود میں لا پٹخا۔ نیند ٹوٹنے پر اس نے دیکھا کہ وہ ریگستان کے بیچوں بیچ لوہے کے ایک تپے ہوئے بنچ پر پڑا تھا اور بے رحم دھوپ اس کے نو مولود ننگے پنڈے کو جلائے دے رہی تھی۔ ریت کے ٹیلے کا وہ سایہ جو گذرے جنموں تک دراز اس پر چھاؤں کی ٹھنڈک کو تانے ہوئے تھا اپنی چھاؤں کو سمیٹے سرکتے ہوئے کہیں دور جا چکا تھا۔
اس نے اپنے ننگے بدن کو ٹٹول کر اپنے ہونے کو جانا اور انگارہ سے دھکتے ہوئے بنچ پر اپنی سوختہ جلد کی چیپیاں چھوڑ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا۔
اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے وقت کی لا انتہا مسافتوں تک ریگستان پھیلا ہوا تھا جس میں بنتے بگڑتے ٹیلوں کے سرکتے سائے تحرک کی واحد علامت تھے۔
وہ جو لا وقت کی قید سے نکل کر وقت کی قید میں منتقلی کے دوران علم الاسماء سے کٹ گیا تھا اور جس کی پسلیوں سے جنم لینے والا وجود باغِ عدن کے جھاڑ جھنکار بیچ کہیں کھو گیا تھا، اس کی پشت پر جگہ جگہ سے جلد اکھڑنے کے باعث بننے والے زخموں پر ریت کے ذرے چمٹے اسے کاٹے دے رہے تھے لیکن وہ بے پروا سا اپنے بدن پر جلن اوڑھے، زبان پر پیاس اور پیٹ میں بھوک کی چبھن لیے اٹا ٹوٹ تنہائی اور سناٹے میں دور سرکتے سایوں کے تعاقب میں چست قدموں چلتا رہا تھا۔ کچی نیندوں جاگنے کی اذیت ناک بوجھلتا کے با وجود اس کی ٹانگوں میں چستی کا سبب سامنے جھلملاتا منظر تھا۔ تا حدِ نگاہ پھیلا سراب جس میں سے اٹھتی ہوئی نمی کی ٹھنڈک پر اشتہا باس سے بوجھل تھی اور اس کے بِھیتر سے گم گشتہ لوری کی مدہم سی ڈوبتی ابھرتی گنگناہٹ اسے اپنی اور کھینچے جاتی تھی۔
وہ یہ تو نہیں جانتا تھا کہ نخلستان نام کی بھی کوئی چیز ہوا کرتی ہے جہاں اس کے لیے پانی اوراس کے زخموں کا درمان موجود ہو لیکن اس کے دماغ کے عقب میں کوئی دلاسا ضرور موجود تھا۔ جو اسے سراب پر نگاہیں جمائے چلتے چلے جانے پر مجبور کیے جا رہا تھا، کسی ایسے منظر کا دلاسا کہ کسی بڑے ٹیلے کے دور تک پھیلے ہوئے سائے تلے ٹھنڈے ٹھار بے رنگ سیال کا بہاؤ، کھانے کی ڈھیروں ڈھیر لذت بھری چیزیں جن میں بے تاب دانت گاڑ کر انہیں پیٹ میں اتارا جا سکے اور پھر وہیں کہیں لوری گنگناتے کسی وجود کے ہاتھوں کی نرم، نیند آور تھپک۔
وہ بے تاب طلب کے ساتھ یگوں چلتا رہا اور تھکن اس کی پنڈلیوں کو پتھراتی رہی مگر سامنے والا منظر بھی ایک چالاک تھا جو اس پر ترس کھائے بغیر اسے اپنے پیچھے لگائے رہا۔
وہ بھولا نہیں تھا کہ ابھی تو اسے اپنے ہونے کی نوعیت جاننے جیسا ادق مسئلہ بھی حل کرنا تھا مگر پیاس سے پتھرائی زبان اور بھوک سے کٹتے شکم کے ہوتے ہوئے فیلسوف تو نہیں بنا جا سکتا تھا سو اس نے اپنی فکری احتیاج کو تب تک کے لیے اٹھا رکھا جب تک وہ اس کم بخت ہاتھ نہ آنے والی جھلملاہٹ کو پورم پور حلق سے نہ اتار لے۔
’’تب لوری کی نرم تھپکیوں میں نیند کے ہلکورے لیتے جسم کے بارے میں ذرا جم کر سوچا جائے گا۔‘‘ وہ چلتے ہوئے نہایت سیانپ کے ساتھ الفاظ سے تہی خیال سے خود کو بہلاتا رہا۔
خود کو بہلاتے پھسلاتے بہت سے جیون، کئی جنم اور کتنے ہی یگ اسی بھاگم دوڑ میں بیت چکے تب کہیں جا کر اسے ریتلے افق پر کیکٹس نما ایک جھاڑی نے جو ابتدائے آفرینش کی سفاک وسعتوں بیچ زندہ ہونے میں اس کی واحد ساجھے دار تھی، جھک کر اپنے چاندی سے چمک دار پتوں اور نرم کانٹوں کے ساتھ اس کے جسم کو ایک پُر ترغیب مسکان سے سہلایا۔ اس جنسی لذت میں بھیگی کھلی ترغیب پر اس نے مشکلوں سے پپوٹے کھول کر ہاتھ بڑھایا اور پھر بچی کھچی تمام تر بے تابی کو سمیٹتے ہوئے جھپٹا سا مار کر کیکٹس نما کو کچر کچر پیٹ میں اتارنے لگا۔
وہ اس کیکٹس نما کے زہر کو جڑوں تک پیٹ میں اتار چکا تھا۔ بھوک کی جلن ابھی باقی تھی تب اس نے جڑوں کی جگہ رہ جانے والے گڑھے میں سر ڈال دیا اور پتھر زبان سے ریت کو چوسنے لگا۔
’’پانی۔۔۔‘‘
اس نے ریت میں موجود نمی سے ٹھنڈک کو زبان پر سرسراتے محسوس کیا تو ایک شیزوفرینک ہنسی ہنسا اور اپنے ہونے کے بعد کا پہلا اسم ادا کیا۔
اس کے دماغ کے عقبی پھیلاؤ میں وقت کی لا انتہا وسعتوں تک پھیلے ریگستان میں یہ مدارات کا پہلا لمحہ تھا۔ وہ اس لمحے میں اپنے انداز کی خوشی سے بے حال دونوں ہاتھوں سے ریت اڑاتا اور بے تاب زبان سے گڑھے کو گہرے سے گہرا کرتا رہا۔ تب بہت سی ریت کو پیٹ میں اتار چکنے پر اس نے دیکھا کہ بہت گہرائی میں وہ پگھلی ہوئی عیار چاندی جھلملارہی تھی جس میں گھلی ہوئی لوری کے تعاقب میں وہ بھٹکتا پھرا تھا۔
کیکٹس نما اور ریت سے اپنے معدے کو بھر لینے کے بعد یہ وقت تھا کہ وہ آسن جما کر اپنے ہونے کی نوعیت جاننے میں جُت جاتا مگر یہ آواز۔۔۔؟
وہ چہرے پر بچے کی سی حیرانی سجائے نا معلوم سے آتی مدہم گنگناہٹ کو سنتا پانی پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ اسے لگا جیسے اس گنگناہٹ کا منبع کہیں پانی کے اندر ہی موجود ہے۔ اور پھر خود کو نرم ہاتھ سے آہستہ آہستہ تھپتھپائے جانے کی بے پناہ خواہش نے اس پر غلبہ پا لیا۔ اس جھاڑ جھنکار ڈاڑھی والے شیزوفرینک نو مولود نے جو لوہے کے ایک دہکتے ہوئے بنچ پر جنما تھا اور جس کی صحرائی سورج سے جھلسی اور کٹی پھٹی جلد میں ریت کی کاٹ بھری تھی، ماں کی چھاتیوں کے ساتھ چمٹ کر سو جانے کی خواہش سے بے حال ہوکر ایک بے تاب کلکاری بھری اورایک اضطراب کے عالم میں پانی میں ہاتھوں سے چپو چلاتے ہوئے بلاوے بلاتی اس آواز کے تعاقب میں سِحَر زدہ سا گہرائیوں میں اتر گیا۔
وہ ایک نا پید کنار اور نا معلوم اتھاہ کے سمندر میں تھا اورگنگناہٹ کی نغمگی میں بے خود بازوؤں اور ٹانگوں کی پُر زور حرکات سے زیریں لہروں کو کاٹتا مزے سے گہرائیوں میں اترتا جا رہا تھا۔ سورج کی روشنی نے تھوڑی دور تک اس کا ساتھ دیا پھر پانی کی نیلاہٹ میں دھیرے دھیرے سیاہی گھلنے لگی۔ یہ ایک زیرِ زمین سمندر تھا جہاں وہ اتنی گہرائی میں اتر چکا تھا کہ سورج کی روشنی کو پیچھے چھوڑ آیا تھا اور اب اسے گھپ اندھیری گہرائیوں سے واسطہ تھا۔ ہوتے ہوتے جب سمندر مکمل طور پر ایک عظیم سیاہ سیال میں بدل گیا تو اس کے سامنے سے گزرنے والی قسم قسم کی چیزیں، چٹانوں پر لہروں کی حرکت کے ساتھ لہراتے پودے، مچھلیاں اور جانور اپنے اندر کی مدہم روشنی سے نیم تاریک سایہ سا تیرتے دکھائی دینے لگے۔ راستے میں کتنے ہی ڈریگون، آکٹوپس، شارکیں اور جنے کون کون نسل کے گوشت خور اس کی جانب لپکے مگر اسے کھایا ہوا وجود جان کر محجوب سے پلٹ گئے، فقط جگنو سی روشن چھوٹی چھوٹی رنگا رنگ مچھلیوں کا ایک غول تھا جو گنگناہٹ کی راہ پر اسے گھیرے میں لیے رہا۔
محمد عاطف علیم کی ایک روزن پر دیگر تحریروں کا لنک
اس کی راہ میں اونچے نیچے پہاڑوں کا ایک سلسلہ آیا تو اس کی روانی میں خلل پڑا۔ وہاں سے گزرتے ہوئے اس نے چٹانوں میں پھنسے ہوئے ایک غرقاب جہاز کو دیکھا تو ذرا کی ذرا دم لینے کو اس پر اتر گیا۔ اس کائی اور قدیم غلاظت سے لتھڑے عظیم الجثہ جہاز میں افزائش نسل کی فکر میں غلطاں اور وجود کی گرم باس سے مستائے ہوئے آکٹوپس کے ایک جوڑے کے سوا کوئی ذی روح موجود نہ تھا جب کہ اس قدیم جہاز کا ریڈیو یوں ہی بے کار میں ایس او ایس کے سگنل نشر کیے جارہا تھا۔ اس نے وقت اور پانی کی مار کھائے اس گلے سڑے جہاز کو گھوم پھر کر دیکھنا چاہا مگر وہاں دیکھنے کو کیا رکھا تھا۔ بجز یہ کہ ہر کہیں جوڑا جوڑا جانوروں اور پرندوں کی حنوط شدہ لاشیں تھیں جن سے جھڑتے حنوط کرنے والے ناقص مصالحے سے جھانکتے ہوئے گلے گلائے ماس سے تعفن پھوٹ رہا تھا۔ انہی سوختہ نصیب لاشوں بیچ ایک طویل قامت برہنہ شخص ٹانگیں کھولے اوندھے مُنھ پڑا تھا۔ اپنی موت سے لے کر اس لمحے تک مسلسل بڑھتی اس کی گھنی ڈاڑھی لا انتہا وسعتوں تک پھیل کر ماداؤں کے لیے انڈے بچے دینے کی ایک خفیہ اور محفوظ پناہ گاہ کا کام دے رہی تھی۔
اس نے جانا کہ وہ اس وقت غرقاب شدہ کوہ ارارات کے نواح میں ہے اور وہ گلا سڑا عظیم الجثہ ڈھانچہ در اصل نوح کی کشتی ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے مِتھ کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ سیلاب عظیم جس سے نوح نے بچ نکلنا چاہا تھا، اس کے ارادے پر غالب آ گیا تھا۔ اس نے رسم نبھاہنے کو تمام محترم مرحومین کے لیے یک لحظہ گریہ کیا اور اپنی مادہ کے ساتھ مصروفِ عمل آکٹوپس کی خشمگیں نگاہ کے جواب میں اسے آنکھ ٹکا راہنما مچھلیوں کے جلو میں پھر سے گنگناہٹ کی راہ پر روانہ ہو گیا۔
وہ بیچ راہ حائل کشتی کے عظیم الجثہ ڈھانچے سے اکھڑے ہوئے آوارہ تختوں اور چکرائی پھرتی لاشوں سے بچتا الجھتا مزید گہرائی میں اترا تو ایک مقام پر اس کی ہمراہی جگنو سی چمکتی ننھی مچھلیوں نے اس کے گرد الوداعی طواف کیا اور واپس پلٹ گئیں۔ اب وہ سمندر کی لا محدود گہرائیوں کی تاریکی میں موجود ایک تنہا آدمی تھا اور اس کے سامنے ایک زیر آب شہر پھیلا ہوا تھا۔
اس نے سخت تعجب کے عالم میں دیکھا کہ اس کے عین سامنے اپنی اوٹ میں شہر کے بھید چھپائے ایک دیو قامت پھاٹک ایستادہ تھا جو کبھی پر ہیبت رہا ہو گا اور جس کے سائے میں کبھی داستان گو بیٹھا کرتے ہوں گے لیکن اب اس پر جمی کائی کی دبیز تہہ نے اسے کہن سالہ مسکینی کا ٹیکسچر دے رکھا تھا۔ اس نے بڑھ کر بند پھاٹک کو کھولنا چاہا تو ذرا سا زور لگانے پر وہ ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ کیلوں قبضوں سمیت نیچے آ رہا اور پھر پانی کے دوش پر تیرتا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ پھاٹک کھولنے کے دوران اپنی جھونک میں وہ لڑ کھڑا کر گرا اور پھر مُنھ سَر سے کائی پونچھتا اٹھ کھڑا ہوا۔ اب اس کے پاؤں تلے پانی نہیں بَل کہ اس زیر آب شہر کی پھسلواں زمین تھی۔ اس نے نگاہ کی تو اس کے سامنے بے در مکانوں اور ایک دوسرے کو کاٹتی گلیوں کی پیچیدگی پھیلی ہوئی تھی۔ وہ شہر کا طول و عرض تو نہ جان پایا مگر دیکھا کہ اس قدیم شہر کی دیواروں، دہلیزوں، چھتوں اور گلیوں میں جمی کائی نے اس کے تمام نقوش بے کیف یک رنگی تلے چھپا دیے تھے یوں کہ کسی ایک مکان یا کسی ایک گلی کو الگ سے پہچاننا ممکن نہ رہا تھا۔
اس نے ایک گلی کے پھسلواں فرش پر ایڑیاں گاڑے اپنا توازن درست کیا اور ایک فاتحانہ طمانیت سے جانا کہ جس بلاوے بلاتی لوری نے اسے تھکا مارا تھا وہ یہیں کہیں سے ٹرانسمٹ ہو رہی تھی۔ اس نے ایک گہری اور آسودہ سانس کھینچی۔ اس کا سفر تمام ہوا اور اب وہ اپنا تھکا ماندہ نوزائیدہ وجود اس لوری کو سونپ کر شانت نیند سو سکتا تھا۔
وہ لوری کی ٹھیک ٹھیک جائے موجودگی کی تلاش میں گلیوں گلیوں پھسلتا چلا گیا۔ دن بھر کی شہر نوردی کے دوران اس نے دیکھا کہ وہاں گلیوں کے اندر اورہر بے درمکان کی اوٹ میں زندگی نا قابل شناخت شبیہوں، مبہم علامتوں، مسخ شدہ امیجری اور بد وضع ہیئتوں سے مل کر تخلیق کیے گئے ایک بڑے موزیک سی دکھائی دے رہی تھی۔ وہاں جو کچھ بھی تھا اس کا خوب دیکھا بھالا تھا کہ یہی سب کچھ تو تھا جو اس کے وحشی خیالوں اور بے تکے خوابوں میں ہمہ وقت مُضحکہ خیز دہشت کے حامل ناٹک کھیلا کرتا تھا۔
تبھی جانے پہچانے پیچیدہ اور بے شکل منظروں سے الجھتے اور بچتے بچاتے وہ ایک مکان کے سامنے پہنچا تو جم سا گیا۔ وہاں وہی ایک مکان تھا جو بے در نہیں تھا اور جس کی چوکھٹ سے ٹیک لگائے ایک بوڑھی عورت بت بنی کھڑی تھی اور مانو کسی کی راہ تک رہی تھی۔ یوں تو وہ مکان حقے کی گڑ گڑ، مردانہ کھنگوروں، غصیلی نفرتوں، کٹیلے لفظوں، گالیوں، سسکیوں اور ایسی ہی اَن گنت فراموش کردہ آوازوں سے بھرا پڑا تھا مگر شاید اس عورت نے ان آوازوں سے اپنا ناطہ توڑ رکھا تھا کہ وہ اپنے لوکیل سے یک سَر بے پروا دکھائی دے رہی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ کسی کھوئے ہوئے کے خیال میں خود کھو گئی ہو۔
اس سفید بالوں اور اجڑے حالوں والی عورت کی چھاتیوں میں وہ خیال کر سکتا تھا کہ وہ دودھ کب کا ہمک ہمک کر پھٹ چکا تھا جو کبھی پیا ہی نہ گیا تھا۔ اس نے اپنی تلاش کی تکمیل پر رُلا دینے والی اداسی سے بھرے وجود کے ساتھ سنا کہ اس عورت کی پور پور سے ایک اداس نغمگی میں لپٹی لوری پکار بن کر نکل رہی تھی۔
’’ماں۔۔۔‘‘
اس نے اپنے کھوئے ہوئے اور ہچکیاں لیتے وجود کو عین اس کے سامنے لاتے ہوئے آنسوؤں سے بوجھل آواز میں پکارا:
’’ماں، دیکھو تو میں آ گیا ہوں۔‘‘
اس کی پکار سنی ان سنی رہ گئی۔
’’میری طرف دیکھو ماں، مجھے پہچانو، یہ میں ہوں تمہارا بچھڑا ہوا لعل۔‘‘
ماں کی لا تعلق چپ پر وہ اندر سے ڈھ سا گیا۔
’’میں نا جیتے جیتے تھک گیا ہوں۔ آؤ مجھے چھاتی سے لگا کر لوری سناؤ اور تھپک تھپک کر سلادو۔ میں سونا چاہتا ہوں ماں۔۔۔ پلیز فار گاڈ سیک!‘‘
اس نے آنسوؤں کی دھند کے پار دیکھا کہ اس بوڑھی عورت کے چہرے پر پہچان کا کوئی رنگ نہ تھا۔
’’تو کیا ماں مر گئی۔۔۔؟‘‘، اس نے لرز کر سوچا کہ بڑھ کر ماں کو جھنجوڑ کر اس کے اور اپنے ہونے کا یقین حاصل کرے۔ سو اس نے بڑھ کر جیسے ہی ماں کو چھوا ترِبک کر کائی میں لپٹی دیوار کے ساتھ جا لگا۔ وہ اس کے چھوتے ہی اپنے قدموں پر ریزہ ریزہ بکھر گئی تھی۔
وہاں، جہاں زندگی اپنی مضحک ترین صورتوں میں موجود اپنے ہونے پر شرمندہ پتھرائی پڑی تھی، وہ برہنہ بدن بیٹھا اپنے وجود پر چمٹی ریت اور کائی کو کھرچے جا رہا تھا اور عالم حیرت میں کسی انجانے خیال کو اپنے ذہن کے بکھراؤ میں سمیٹنے کے جتن کیے جا رہا تھا۔
وہ بلند دیواروں میں گھری جگہ کہ جسے پاغل خانہ کہا جاتا تھا، وہاں مختصر وقفوں میں کہیں قریب سے کوئی شیزوفرینک چیخ یا جنونی قہقہہ بلند ہوتا اور کوئی ڈنڈہ بردار محافظ یا کوئی سفید پُل اوور والا ڈانٹنے پھٹکارنے کے فریضے سے فراغت پا کر نگران نگاہوں اسے گھورتا ہوا گزر جاتا تھا مگر وہ اپنے لوکیل کی وحشت ناکی سے بے پروا اور کٹے پھٹے منظروں میں الجھا کوئی انجان خیال سوچتا خود کو کھجلاتا رہا۔
تبھی آسمان پر سیاہ بادلوں کی روشن جھالروں کی اوٹ سے پورن ماشی کا پورا چاند نکل کر عین اس کے سامنے آ گیا۔ وہ پورے قدموں کھڑا اس عظیم الشان اور پر ترغیب چاند کو مبہوت سا تکنے لگا۔ وہ چاند بھی اسے تکنے کو نیچے اتر آیا تھا یہاں تک کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل آ گئے۔ پورن ماشی کے اس چاند سے نکلتی مقناطیسی لہریں اس کے لہو کو بلو رہی تھیں۔ تب اس نے سِحَر زدگی کے دوران غور سے دیکھا کہ وہی بوڑھی عورت وہاں بیٹھی چرغے پر پُونیاں کات رہی تھی اور ایسا کرتے ہوئے ایک اداس نغمگی کے ساتھ ناگزیر بلاوے بلاتی لوری گنگنا رہی تھی۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ اس بوڑھی عورت کی آنکھیں تکلے میں پروئی ہوئی تھیں اور جانا کہ اس کی چھاتیوں میں بے مصرف دودھ پھٹ چکا تھا۔
وہ ہر بار کی طرح اس بار بھی پورے چاند کے مقابل لوری کی لپیٹ میں لپٹا مسحور سا کھڑا نگاہ جمائے تکتا رہا اور سنتا رہا اور پھر یوں ہی دیکھتے سنتے اس کے بلوئے ہوئے لہو نے یکا یک ایک پاگل خواہش اچھالی۔ اس پر وہ آسمان کی طرف منھ کیے ایک شیزوفرینک ہنسی ہنسا اور پھر چاند کی اور دوڑ لگا دی۔
جب وہ جکڑا جکڑایا پیشی کے لیے پیش کیا گیا تو وہ اپنی پاگل خواہش کے نشے میں مست لوری کی تال کے ساتھ زمین پر پاؤں تھپتھپائے جا رہا تھا۔
وہ کھونٹے سے باندھے جاتے وقت بھی اپنے انداز کی خوشی سے بے تحاشا خوش تھا۔ اسے گیان ہو چکا تھا کہ اب زیادہ دیر اسے ماں کی آغوش میں لوری سنتے ہوئے میٹھی شانت نیند سونے سے نہیں روکا جا سکتا۔
* * * *