ریٹائرڈ اساتذہ کی دوبارہ تعیناتیاں اورتعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری

ایک روزن لکھاری
ڈاکٹر عرفان شہزاد، صاحبِ مضمون

ریٹائرڈ اساتذہ کی دوبارہ تعیناتیاں اورتعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری

 (ڈاکٹر عرفان شہزاد)

یونیورسٹی کے مرّوجہ  قوانین کے مطابق  یونیورسٹی کے  کسی  استاد  یا ملازم کی  ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی  دوبارہ  تعیناتی کرنے کے لیے دو شرائط  رکھی گئی ہیں:  ایک یہ کہ اس کا متبادل میسر نہ ہو اور دوسرا یہ کہ ریٹائر ہونے والے استاد کی عمر 65 سال سے زائد نہ ہو۔ جب کہ صورت ِ واقعہ یہ ہے کہ 80 سال سے زائد  عمر کےپروفیسر حضرات اپنے عہدوں  پر برقرار ہیں اور  ان کے متبادل  نوجوان نوکری  کی تلاش میں  مارے مارے  پھر  رہے ہیں یا    ملک سے باہر جا رہے ہیں،   کہیں کم تر درجے کی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں  یاناقدری  کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کر رہے ہیں۔ بزرگ اساتذہ ریٹارئرمنٹ کے بعد بھی اپنے عہدوں  پراپنے  ذاتی تعلقات کی بنیاد پر، یونیورسٹی کےقوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلسل  براجمان ہیں، پنشن اور دیگر مراعات وصول کرنے کے باوجود بھی وہ  اگلے مستحق کے لیے عہدہ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ فرشتہ اجل کے علاوہ کسی کے کہنے پر وہ اپنی سیٹ خالی کرنے والے نہیں ۔   شرعی لحاظ سے دیکھیے تو 65 سال سے زائد عمر کے اساتذہ کی ان کے عہدوں پر  بلاجواز اور غیر قانونی  تقرری سے حاصل ہونے والے مالی فوائد اور دیگر مراعات شاید ان کے لیے جائز ہی نہیں  ہیں۔

حال ہی میں ہم نے یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم اور فارغ التحصیل محققین کی تعلیمی اور تحقیقی مشکلات پر ایک سروے کرایا، جس کے نتیجے میں معلوم ہوا بزرگ اساتذہ اپنے شعبے کے چاہے کتنے  ہی ماہر کیوں نہ  ہوں، طلبہ کو مطلوبہ  علم و ہنر منتقل کرنے کے لیے  ٖضروری توانائی سے تہی ہوتے ہیں،  خصوصاً،تحقیق کے میدان میں نئے رجحانات سے ناواقف  ہوتے ہیں ۔ طلبہ کی اسائنمنٹس چیک  کرنے اور وقت پر  واپس دینے میں عموماً تساہل برتتے ہیں، خاص طور پر  یہ کہ  سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتے،  بلکہ طلبہ کے سوالات   کو حالات کے بدلتے تناظر میں درست طریقے سے سمجھ ہی نہیں پاتے،  ان کے سوالات کو  اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، نصاب سے زیادہ اپنے ماضی کے قصے دہرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور اگر اصل تدریس کی طر ف آتے ہیں تو طلبہ کی ذہنی سطح  کا لحاظ عموماً نہیں رکھ پاتے۔  طلبہ اور بزرگ اساتذہ کی عمر ، سوچ اور مزاج کے فرق کی وجہ سے طلبہ کھل کر ان سے بحث نہیں کرسکتے۔ یوں تعلیم  اور تحقیق کا بنیادی مقصد ،یعنی  تحقیق اور تنقید کی صلاحیت پیدا کرنا، ہی فوت ہو جاتا ہے۔  طلبہ شکوہ کناں ہیں کہ بزرگ اساتذہ ان کا وقت اور صلاحیت ضائع کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

دنیا کا اصول ہے کہ ہر شعبہ زندگی ایک خاص وقت کے بعد نئی نسل اور تازہ توانائی  کی طلب کرتا ہے۔ ہمارے ہاں جس طرح شعبہ تعلیم کے جسم میں نئے خون کی آمد پر روک  لگی ہوئی ہے ایسا  ہی اگر دیگر شعبہ جات میں بھی  روا رکھا  جائے تو سوچئے کہ کیا حالات  بنیں۔ آپ بوڑھے سپاہی کے ہاتھ میں بندوق تھما کر سرحد پر کھڑا کر دیں یا 80 سال کے مکینک سے اپنی گاڑی کی ٹیوننگ کروانے پر مجبور ہوں تو ملک اور گاڑی کا کیا حال ہوگا؟ یہی حال تعلیم کا حقیقتاً ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کا نام تعلیمی حلقوں میں کسی شمار میں نہیں آتا،لیکن ادھر اساتذہ کے ذاتی کوائف دیکھیں تو تعلیم، تجربہ ، مقالات اور تصنیفات کی طویل فہرستیں موجود ہوتی ہیں۔ ان پر اساتذہ کا فخر قابلِ دید ہونے کے ساتھ  ہمارے لیے ناقابلِ فہم بھی ہے کہ یہ علم و ہنر ان کے طلبہ میں کیوں منتقل نہیں ہو پاتا۔یہ عمومی حالت کا بیان ہے، چند خاص قابل لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہی ہیں۔ لیکن یہ خاص غیرمعمولی صلاحیتوں کے افراد کسی نظام کی افادیت جانچنے کا پیمانہ نہیں ہوا کرتے،  یہ نظام  کی پیداوار نہیں ہوتے، نہ اس کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ جب کہ  ملک اور نظام اکثریت کے بل بوتے پرچلا کرتے ہیں اور اکثریت اوسط درجے کی صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہے۔  کسی نظام کی افادیت اور کامیابی تب تسلیم کی جا سکتی ہے جب اس میں  اوسط درجے کی صلاحیت رکھنے والے   بہترین قابلیتوں کے حامل ہوں ،  نیز،اوسط درجے کے طلبہ کو بہترین طور پر تیار بھی کیا جاتا ہو۔ اس معیار پر آپ اپنے نظامِ تعلیم کو جانچ کر کے فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آیا ہمارا نظام  اتنی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں۔

پاکستان میں نوجوان آبادی    60 فیصد سے زائد  ہیں ۔ جب کہ نوجوانوں میں  عمومی بے روزگاری کی شرح  8.2 فیصد ہے ۔  بے روزگاری کی تقریباً یہی شرح    اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔ اس صورتِ حال میں ہونا تو  یہ  چاہیے کہ ان کے لیے ملازمت کے نئے مواقع پیداکرنے کے  علاوہ ریٹائرمنٹ کی عمر مزید کم کر دی جائے تاکہ نوجوانوں کی بے روزگاری کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے۔ اگر یہ نہیں تو کم از کم یہ تو ہو کہ  یونیورسٹی  کے مرّوجہ قوانین پر عمل درآمد کرتے ہوئے ریٹائر ہونے والوں  اساتذہ ور دیگر ملازمین کو احترام کے ساتھ گھر بھیج دیا جائے یا  پھرایسے کاموں   میں لگا دیا جائے جہاں ان کے علم اور تجربے سے استفادہ بھی ہوتا رہے اور مستحق نوجوانوں کی حق تلفی بھی نہ ہو، مثلاً نگران کمیٹیوں، مشاوراتی کمیٹیوں، تھنک ٹینک وغیرہ میں  ریٹائر ہونے والے تجربہ کار لوگوں کو لگایا جاسکتا ہے۔

ایچ ای سی کے اعدادوشمار کے مطابق  2014 تک  11846 پی ایچ ڈی تیار ہوئے۔ ہر سال گزشتہ سال سے زیادہ ایم فل/ ایم ایس اور پی ایچ ڈی تیار ہو رہے ہیں۔   2016  تک اس تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک طرف یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں قابلِ لحاظ تعداد میں اعلی تعلیم کے حامل افراد تیار ہورہے ہیں، لیکن  دوسری طرف ان کی کھپت  کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں  کی جارہی ہے ۔ان  نوجوانوں کی اتنے برسوں کی جگر سوز محنت اور  کثیر وسائل کے خرچ کا حاصل آخر کیا ہے؟ اس ساری کدوکاوش کا  برعکس نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بے روزگاری کے باعث  نوجوانوں  میں  مایوسی اور بد دلی بڑھتی جارہی ہے، جس کے منفی اثرات  معاشرے  پر مرتب ہورہے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو بڑوں کا احترام نہ کرے اور  چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ادھرنوجوان ہیں جو  کئی سال روزوشب محنت کے بعد اپنی تعلیم پوری کرکے ڈگری ہاتھوں میں تھامے ، اپنے قیمتی وقت کو پل پل ضائع ہوتا دیکھتے ہیں مگر بزرگوں کے احترام میں  پھر بھی چپ رہتے ہیں، اور دوسری طرف ر بزرگ  ہیں  جو  کسی طور شفقت فرمانے  پر تیار نہیں ۔

یہ کتنا بڑا تضاد ہے کہ ایک طرف تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی  عمر کی آخری عمومی حد مقرر ہے  یعنی   33  سال اور بعض صورتوں میں 35 سال، اس کے بعد وہ  سرکاری ملازمت کے لیے  درخواست دینے کے بھی اہل نہیں سمجھے جاتے، ایسا اس مجبوری کے تحت کیا جاتا ہے کہ  ملازمت کے مواقع کم یاب    ہیں، اور اب جن نوجوانوں کی عمر 33 یا 35 سال سے تجاورز  کرگئی ہے، ان کی بجائے  تعلیم کے میدان میں نئے  فارغ التحصیل کم عمر نو جوانوں کو ملازمت کے مواقع مہیا کیے جائیں،  گویا  33 یا 35 سال کے تعلیم یافتہ  بے روزگار نوجوان سے یہ قربانی مانگ لی جاتی ہے کہ وہ ملازمت حاصل کرنے کی مسابقت میں شامل نہیں ہو تاکہ دوسرے  کم عمر تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے جگہ بنائی جا سکے ، لیکن دوسری طرف ملازمت کے مواقع کی اسی کم یابی کے باوجود 60 سال کی بڑھاپے کی  عمرمیں  ریٹائرڈ  ہونے والے افراد ،جس کے  قوی ٰبھی  درست  طریقے سے کام نہیں کرپاتے،  عملی طور پر کبھی زائد العمر نہیں ہوتے، اگرچہ قانون اس کی آخری حد، 65 سال مقرر کرتا ہے، لیکن  اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتاہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ تعیناتی  کی گنجائش صرف ناگزیر حالات کے تحت  رکھی گئی  تھی، یعنی کہ  سبکدوش  ہونے والے استاد یا ملازم کا کوئی متبادل میسر نہ ہو۔  اوّل تو متبادل کثیر تعداد میں بے روزگا ر گھوم رہے ہیں، لیکن اگر ایک استاد اپنے سارے تعلیمی کیرئیر میں اپنا  جانشین   تیار نہیں کر سکا تو   استاد کی قابلیت اور یونیورسٹی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا ہے کہ  باوجود  مطلوبہ تعلیمی  اہلیت کا دعویٰ رکھنے اور ضروری تعلیمی سہولیات  کے ہوتے ہوئے ایک استاد اپنا جانشین کیوں تیار نہ کرسکا ۔ اور اگر وہ اپنے  پورے تدریسی کیریئر میں  ایسا نہیں کرسکا تو ریٹائرمنٹ کے بعد  اس کی دوبارہ تعییناتی سے  کسی بہتر نتیجے کی توقع  کیسے کی جا سکتی ہے؟

یونیورسٹی کی انتظامیہ سے گزارش کی جاتی ہے کہ ملازمت کے قوانین پر عمل درآمد یقینی بنائیں اور تعلیم یافتگان کے لیے اچھی مثال قائم کریں، اور قابلِ احترام   بزرگ استاتذہ سے گزارش ہے کہ نوجوانوں کے حالات پر شفقت فرمائیں، قوانین کا احترام کریں ، پنشن پر گزارا  کریں اور مستحق  تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے سیٹ خالی فرما دیں، جس طرح بس میں سوار نوجوان اپنی سیٹ بزرگ سواریوں کے حوالے کر کے خود کھڑے ہو جاتے ہیں۔