مذھب و ثقافت کے درمیان حد فاصل
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
مذھب و ثقافت کے فرق کو نظر انداز کرنے سے سماج کی بنت ادھڑ کر رہ جاتی ہے۔ ثقافتی مظاہر مقامی ہوتےہیں، ان کی تشکیل اور تعیین کسی آفاقی نظریے سے کرنا غیر فطری اور غیر عملی ہے جس کے نتائج منافرت کی صورت میں نکلتا ہے۔
ابتدائے اسلام کے مسلمان اتنے غیر متعصب بہرحال تھے کہ خالص مذھبی اصطلاحات جیسے صلوة اور صوم وغیرہ کے لیے بھی فارسی متبادلات، نماز اور روزہ اختیار کر لینے کو غلط نہیں سمجھتے تھے۔ مسلمان ہونے والوں کے ناموں اور لباس کو تبدیل نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے برعکس اپنی مساجد کی تعمیر میں بھی ان کی عبادت گاہوں کے ڈیزائن سے استفادہ کرنا معیوب نہ سمجھتے تھے۔ مساجد کے مینار کا خیال گرجا گھروں کے میناروں سے لیا گیا تھا۔ مینار کا مقصد دیکھا گیا کہ وہ لوگوں کو عبادت گاہ کی موجودگی پر توجہ دلاتا ہے، یہ نہیں دیکھا گیا کہ یہ گرجا گھروں میں یہ استعمال ہوتا ہے تو مسجد کےلیے درست نہ ہوگا۔
مذھب سے ثقافت کو تبدیل نہ کرنے کا یہ نتجہ تھا کہ لوگ تبدیلی مذھب کے باوجود اپنے سماج سے نہیں کٹتے تھے۔ وہ مندر کی بجائے مسجد جانے لگتے تھے مگر بولی وہی بولتے تھے جو ان کے لوگ بولتے تھے، لباس وہی پہنتے تھے جو ان کے لوگ پہنتے تھے، نام ان کے وہی رہتے تھے جو ان کا پیدایشی ہوتا تھا جس کے ساتھ ان کی ثقافتی اور نفسیاتی وابستگی ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کرنے کے باوجود وطن کی حفاظت میں ہندو راجپوتوں کے ساتھ مل کر بیرونی حملہ آوروں کے خلاف لڑا کرتے تھے۔ لیکن جب ثقافتی امتیازات برتے جانے لگے، نماز کو پوجا کہنے نہ دیا گیا، روزہ کو بھرت کہنے پر آمادہ نہ پائے، اپنا مذھب چھوڑ کر کےمسلمان ہونے والوں کے نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا، بلکہ اس کے آگے بڑھ کر ان کے لیے مخصوص لباس اور حلیہ اختیار کرنے کی شرائط بھی عائد کر دی گئیں، تو لوگوں میں باہمی طور پر اجنبیت اور پھر نفرت پھیلی۔
ثقافت مقامی ہوتی ہے یہ اسلامی اور غیر اسلامی نہیں ہوتی۔ “اسلامی ثقافت “کے نام پر ہونے والی امتیازی کار روائیوں نے درحقیقت ایک سماج کے لوگوں کو علیحدہ کیا، جس نے آگے بڑھ کر سیاسیت کی سطح پر گروہ بندی اختیار کر لی۔ اقتدار کی رقابت، سیاسی گروہ بندی کا لازمہ ہے۔ سیاسی رقابت کی منافرت نے مذھبی منافرت کا عنوان اختیار کر لیا۔ الزام پھر مذھب پر آیا کہ مذاھب انسانوں کو لڑاتے ہیں۔ سیاسی رقابت بنام مذھب سے پھر وہ نفرت پید ہوئی جس کا ایک المناک نتیجہ تقسیمِ ہند اور اس دوران ہونے والے خون خرابے میں سامنے آیا، جس کے اثرات ایک صدی ہونے کو آئے، اب بھی جاری ہیں۔
تاریخ سبق سیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کی یاد دہانی کرائی جائے کہ مذھب، ثقافت کو تبدیل کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ پرویز، ڈیوڈ اور آکاش جیسے نام ایسے ہی قابل قبول ہے جیسے محمد یوسف، عبد اللہ ور عبد الرحمان؛ صلوۃ کے لیے ورشپ اور پوجا کا لفظ بھی ایسے ہی درست ہے جیسے نماز؛ کرتا پائے جامہ اور پینٹ شرٹ بھی ایسے ہی درست لباس ہیں جیسے عربی چغہ۔ ثقافتی اور موسمی تہوار بھی اسلامی اور غیر اسلامی نہیں ہوتے۔
دین میں ان چیزوں کو موضوع نہیں بنایا گیا۔ کسی مذھب کو اختیار کرنا کسی سیاسی پارٹی کو اختیار کرنے کی طرح نہیں ہے جس میں الگ بیج اور جھنڈے لگا کر اپنا امتیاز ظاہرکرنا ضروری ہو۔ مسلمان کی پہچان نماز اور زکوۃ کی ادائیگی بتائی گئی ہے نہ کہ کوئی مخصوص حلیہ۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائے اسلام کے دور میں کسی نا معلوم فرد کی میت دیکھ کر معلوم نہ ہوتا تھا کہ مسلمان تھا یا مشرک۔ یہ امتیازات کا تصور تب پیدا ہوا جب اہل مذھب نے خود کو سیاسی اور سماجی گروہوں میں سے ایک گروہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ضروری ہے کہ مذھب و ثقافت کے درمیان حد فاصل کا شعور اجاگر کیا جائے اور لوگوں میں منافرت کی خود ساختہ بنیادوں کو ختم کیا جائے۔