احمد جاوید صاحب، “دین اور موجودہ سوشل سائنسز”، علم اور ایمان کا رشتہ
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
محترم احمد جاوید نے اپنے ایک لیکچر جو بہ عنوان، “دین اور موجودہ سوشل سائنسز” دانش ڈاٹ پی کے پر شائع ہوا، سر سید احمد خان کی تعلیمی تحریک کو مغرب کی وارد کردہ مغربی علم و فلسفہ کی غلامی کی تحریک باور کراتے ہوئے، اسےسید احمد شہید کی تحریک جہاد کا رد عمل قرار دیا اور اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ سید احمد کی تحریک مجاہدین نا کام ہو گئی جس کے نتیجے میں مسلمان مغربی علوم اور مغربی تصورات علم کے اسیر ہو کر دین کی روح سے بے گانہ ہو گئے۔
انھوں نے کہا کہ پوسٹ ماڈرن ازم اور اس کے تحت لسانیاتی فلسفے میں فطری شعور کو لا شعور، بدیہات عقل و فطرت کو مفروضات قرار دے دیا گیا اور لفظ و معنی کے درمیان ابہام پیدا کر دیا گیا جس کے بعد ایمانیات کے لیے کوئی بنیاد ہی نہیں بچتی۔ مسلمانوں کو ایمانیات پر مبنی دینی تصوراتِ علم کو سماجی اور سائنسی علوم کی اساس بنانا اور ان تصورات غالب کرنا ہو گا، اس لیے کہ “یہ دین وجود کے تمام دائروں میں بھی غالب رہنے کے لیے آیا ہے۔” ورنہ وہ نام کے مسلمان رہ جائیں گے۔
راقم کے فہم کے مطابق احمد جاوید صاحب کے لیکچر کے یہ قابلِ تبصرہ نکات ہیں۔
پوسٹ ماڈرن ازم اور لسانیاتی فلسفے پر ان کی تنقید سے ہمیں کافی حد تک اتفاق ہے، لیکن دیگر نکات پر شدید تحفظات ہیں۔ احمد جاوید صاحب کا یہ سارا ڈسکورس ان کے اس جملے پر کھڑا ہے کہ “یہ دین وجود کے تمام دائروں میں بھی غالب رہنے کے لیے آیا ہے۔” دین کے غلبے کا شاید یہی تصور ہے جو انھیں سید احمد شہید کی جہادی تحریک کی حمایت اور سرسید احمد خان کی تعلیمی تحریک کی مخالفت پر ابھارتا ہے۔
مزید دیکھیے: سر سید، شبلی اور حالی فکرِ نو کے معمار از، ڈاکٹر صغیر افراہیم
سر سید کی مستقبل شناسی از، معراج رعنا
سید جو کام کرتا تھا از، نصیر احمد
سید احمد شہید کی تحریک جہاد کوئی علمی و تعلیمی تحریک نہیں تھی۔ یہ نِج کے (پرائیویٹ) گروہی جہاد کے جواز پر قائم، اپنے ماحول کی نفی پر مبنی ایک سلبی تحریک تھی۔ یہ شرک و بدعت کی آمیزش، اور شیعیت کے اثرات سے مسلمانان ہند کو پاک کرنے کے لیے برپا کی گئی تھی۔ اگلے مرحلے میں اس نے حکومت الٰہیہ کے قیام کے نام پر متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی عالم گیر حکومت قائم کرنے کی اپنی سعی میں خود مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کی برپا کر دی۔ یہاں مذھبی اور سیاسی بَل کہ جہادی قیادت کا منصب خدا نے براہ راست ایک شخص سید احمد کو عطا کیا تھا جن کے اس دعویٰ کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ کسی دوسرے کے پاس نہیں تھا، مگر اس کو تسلیم کرنا سب مسلمانوں کے لیے واجب ٹھرایا گیا تھا۔
سرحدی قبائلی علاقے کےمسلمان پٹھانوں کی طرف سے سید احمدکے اس منصبِ امامت کی مخالفت، قادیان کے متنبی کے دعوئِ نبوت کی مخالفت کی طرح ہی، گُم راہی اور منافقت قرار پایا۔ شریعت کے نفاذ میں بے تدبیری، جلد بازی اور عمال کے بے لچک رویوں نے انھی مقامی لوگوں کو ان سے متوحّش کر دیا تھا، جنھوں نے بڑی گرم جوشی سے ان لوگوں کا اپنے علاقے میں استقبال کیا تھا۔
پٹھانوں کی اس مخالفت کی پاداش میں مجاہدین کے لیے ان کا خون بہانا حلال ٹھہرا دیا گیا تھا اور ان کے ہزاروں لوگوں کو تہِ تیغ کیا گیا تھا۔ یہ تحریک اگر کام یاب ہو جاتی تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ردِ شرک کے نام پر بریلوی مکتب فکر اور اہل تَشَیُّع کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا۔ نیز غیر مسلم کو محکوم بنا لینے کے تصور پر مبنی یہ تحریک ہندو اکثریت کے اس ملک میں مسلمانوں کے لیے نفرت تخلیق کرتی جو دونوں قوموں درمیان مستقل چپقلش بنائے رکھتی۔
اس تحریک کے لواحقین نے یہ نفرت بعد میں بہ ہر حال پیدا کر لی جس کے نتائج ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ اس تحریک کی نا کامی پر احمد جاوید کا افسوس، خود قابلِ افسوس ہے۔ نہیں معلوم کہ ان کی رائے احیائے خلافت کی موجودہ تحریکوں کے بارے میں کیا ہے، تاہم اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اصولاً وہ ایسی تحریکوں کے حامی ہوں گے۔
سرسید احمد خان کو انگریزوں نے وارد نہیں کیا تھا جیسا کہ احمد جاوید صاحب نے باور کرانے کی کوشش کی، نہ مغربی علوم کی دین بے زاری کسی سوچی سمجھی سکیم کا شاخسانہ ہے۔ علم کی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ تاریخی جبر ہے، انسان کا سفرِ ارتقاء ہے۔ بے شمار سیاسی اور سماجی عوامل تھے جنھوں نے مغرب کے سماجی اور سائنسی علوم کا مغربی ڈسکورس مرتب کیا ہے۔ ہر غالب تھذیب کی طرح یہ فکر اور علوم بھی دنیا کواسی طرح متأثر کر رہے ہیں جیسے ہر غالب تھذیب نے کیا ہے۔
خود احمد جاوید صاحب دینی تصورات علم کو غالب کرنے کی تمنا رکھتے ہیں جس کا اظہار انھوں نے اپنے اسی لیکچر میں کیا۔ یہ مسئلہ سازش کا نہیں، غالب اور طاقت اور مغلوب اور کم زور تھذیب کے درمیان تعامل کا ہوتا ہے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر اس میں کچھ غلط لگ رہا ہے تو جوابی بیانیہ تشکیل دے لیجیے۔ علم کی دنیا میں اس کی وقعت اس کے قبول یا رد کا فیصلہ سنا دے گی۔ یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہو رہا ہے۔
پوسٹ ماڈرن ازم اور لسانیاتی فلسفے کے جن پہلووں پر احمد جاوید صاحب نے نقد کیا وہ ہمارے نزدیک بھی بَہ جا ہے۔ ان تصورات علم کی بنا پر دین اور ایمانیات کی بیخ کنی کا جو شکوہ انھوں نے کیا وہ بھی بالکل درست ہے۔ لیکن اس میں راقم اتنا اضافہ کرنا چاہتا ہے کہ زبان کے ابلاغ معنی کی صلاحیت پر عدم اعتماد کی روایت ہماری علمی روایت میں بہت پہلے سے موجود ہے۔ زبان کی ظنیت کا فلسفہ ہمارے علمی ڈسکورس کا تسلیم شدہ تسلیم شدہ حصہ ہے۔
اس پر البتہ حیرت کی جا سکتی ہے کہ اس فلسفے کو علمی سطح پر تسلیم کر لینے کے با وجود لوگ انکارِ خدا تک کیوں نہ پہنچ سکے جو اس کا نتیجہ ہو سکتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اس دور میں انکارِ خدا کا فلسفہ مقبولیت نہ پا سکا تھا۔ اس لیے لفظ و معنی کا یہ عدم ثبوت انکارِ خدا پر منتج نہ ہوا۔ مغرب کے لسانیاتی فلسفے پر احمد جاوید صاحب کا تبصرہ ہماری اپنی دینی علمی روایت میں زبان کی ظَنّیت کے فلسفے پر بھی اسی طرح صادق آتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ضروری نہیں یہ سب کسی بد نیتی کے جذبے کے تحت ہی کیا گیا ہے۔
انسان کو جب عقل سے نواز دیا گیا ہے تو ایسے حقائق کے بر خلاف فلسفے کسی بھی صدی میں مشرق و مغرب کی تقسیم سے قطع نظر کسی بھی قوم کی طرف سے پیش کیے جا سکتے ہیں جو علم کے میدان میں سر گرم ہو۔
احمد جاوید صاحب نے تصوراتِ علم کی تشکیلِ نو ایمانیات کی بنیاد پر کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے، ہمارے نزدیک یہ قطعاً غیر ضروری ہے۔ تصورات علم کے تحت نہیں، عقل و فطرت کے مقدمات کے تحت ہی تشکیل پاتے ہیں، جن کی تفہیم میں البتہ تفاوت ہوتا ہے۔
مقدمہ یہ قائم کرنا چاہیے کہ پوسٹ ماڈرن ازم کے تصوراتِ علم کے بر خلاف، تصوراتِ علم کو بدیہات فطرت کے تابع ثابت کیا جائے، یہ دوسرا مرحلہ ہے کہ دین کے مقدمات عقل و فطرت کے بدیہات پر قائم ہوتے ہیں۔ چُناں چِہ احمد جاوید صاحب کی اس تعبیر سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ علوم اور شعور کو ایمانیات کے تابع کیا جائے۔
اس کا مطلب گویا یہ نکل سکتا ہے ایمانیات کو بلا کسی مقدمے کے پہلے تسلیم کر لیا جائے تو پھر علوم اور شعور کو اس کے تابع کیا جائے۔ درست تعبیر یہ ہونی چاہیے کہ عقل و فطرت کے بدیہات کو عقلی دلائل سے ثابت کیا جائے، جن پر علم و اور ایمانیات کے مقدمات قائم ہوتے ہیں۔
تصورات علم کی تشکیل نو کی اس بحث میں مغرب سے مخاصمت اور نفرت کے بیانیے قائم کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہ انسانیت کے علم کا سفر ہے جو کبھی ایک پڑاؤ پر رکتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر دوسرے پڑاؤ کی طرف عازمِ سفر ہو جاتا ہے۔ ہمارا اپنا علمی ڈسکورس بھی ایسے ہی نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ علم کی دنیا میں انسان کے مشترکہ علمی سرمایے کو مشرق و مغرب میں تقسیم کر کے تھذیبوں کے تصادم کے نظریہ کو تقویت دینا بد قسمتی کی بات ہے۔