مذہب کی ساختیات
سورۂِ آلِ عمران کی آیت نمبر 85 سے پہلے جو کچھ بھی کہا گیا ہو، لیکن خود اس آیت میں کیا کہا جا رہا ہے؟ یہی نہ کہ وہ لوگ نقصان اٹھائیں گے جو اسلام کو اپنا دین نہیں بنائیں گے۔ اس میں سب مذاہب کے لوگ آ گئے، چاہے وہ یہود ہوں یا نصاریٰ، یا کسی اور مذہب کے ماننے والے۔
اسلام کا ایک بنیادی پیغام یہی ہے کہ شرک نہ کیا جائے۔ لیکن دنیا میں ایسے مذاہب اور عقائد بھی ہیں جو شرک اور توحید کے جھگڑے میں نہیں پڑتے، مثلاً بدھ مذہب۔
ہم اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ دنیا میں بعض مذاہب ایسے ہیں جو ایک دوسرے سے اصولی مماثلت رکھتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایک دوسرے سے اصولی اختلاف رکھتے ہیں۔ لیکن مذاہب خواہ کتنے ہی ایک دوسرے سے مختلف ہوں یا مماثل، وہ چند مشترک اصولوں کی بنا پر مذہب ہی کہے جائیں گے۔
خدا کو ایک ماننا ایک مذہبی نقطۂِ نظر ہے، خدا کو ایک ماننے کے ساتھ یہ کہنا کہ خدا نے کچھ اور خداؤں کو اپنا ساجھی دار بنا لیا ہے، یہ دوسرا مذہبی نقطۂِ نظر ہے،
خدا کو ایک نہ مان کر بہت سے خداؤں کو ماننا، یہ تیسرا مذہبی نقطہ نظر ہے۔
خدا کو نہ ایک ماننا اور نہ بہت سے ماننا، بلکہ صرف خدا کو ماننا، یہ چوتھا مذہبی نقطۂِ نظر ہے۔ خدا کے لیے کسی لفظ کو خاص کرنے اور اس کے عدم و وجود پر بحث کرنے سے خود بھی رکنا اور دوسروں کو بھی روکنا، یہ پانچواں مذہبی نقطۂِ نظر ہے۔
سِرے سے کسی خدا کو نہ ماننا، یعنی اس کا انکار کرنا، یہ چھٹا مذہبی نقطۂِ نظر ہے۔ اور اس طرح بہت سارے مذہبی نقطہ ہائے نظر ہیں۔ اسلام مذہب کا صرف ایک نقطۂِ نظر ہے، کل مذہب نہیں۔
ہر ایک مذہب دوسرے مذہب سے کسی نہ کسی درجہ، یا کسی نہ کسی طرح مختلف ہے۔ اسی اختلاف کے سبب ان میں تمیز ممکن ہے۔ شرک کے بَہ غیر توحید کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے، تو ایسا کہنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ لوگ پہلے سے بہت سے خداؤں کو مانتے ہوں۔ اگر ہم بہت سے خداؤں کو نہ مانتے ہوتے تو یہ کہنے کا کیا مطلب رہ جاتا ہے کہ خدا ایک ہے؟ تب تو صرف یہی کہنا ٹھیک ہوتا ہے کہ خدا ہے۔ ایک کی بحث تبھی ممکن ہے جب کہ انیک کا تصور موجود ہو۔ جب تک ہم بہت سے خداؤں کو نہ مانیں، تب تک کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ایک خدا کو مانو؟
البتہ اگر ہم کسی خدا کو نہ مانتے ہوں، کسی خدا کا تصور ہمارے ذہن میں نہ ہو، تب ہم بے شک کہہ سکتے ہیں، خدا کو مانو۔ اور اس صورت میں ایک یا کئی کا سوال زیرِ بحث ہی نہیں آ سکتا۔
اور جب ہم کہتے ہیں کہ خدا کو مانو تو اس کا مطلب یہی ہے کہ پہلے سے ہم خدا کو نہیں مان رہے ہیں۔ یعنی بے خدا ہیں۔ اس طرح خود خدا کا تصور بے خدائیت پر قائم ہے۔
غرض کوئی بھی مذہبی عقیدہ خود مختار نہیں ہے۔ اس کا وُجود کسی اور عقیدہ پر قائم ہے، یعنی کوئی بھی عقیدہ قائم بِالذّات نہیں، بَل کہ قائم بِالغیر ہے۔ پس جب ایک مذہی عقیدہ ہی قائم بِالذّات نہیں تو پھر اس کے متعلق یہ کہنا صحیح نہیں کہ وہی پہلی اور آخری حقیقت ہے، اور صرف وہی سچ ہے، اور بقیہ سب جھوٹ اور باطل ہیں۔
اگر ایک عقیدہ تنِ تنہا حق و صداقت ہے تو اپنے مخالف عقیدہ پر کیوں قائم ہے؟ اس کا وجود اپنے اثبات کے لیے دوسرے عقیدے کا محتاج کیوں ہے؟
اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ مذہبی صداقت کو سمجھنا ہو تو کسی ایک مذہب کے نقطۂِ نظر سے نہیں، بَل کہ مذاہب کو ان کی کُلی حیثیت سے دیکھیے کہ کس مذہبی عقیدہ کا دوسرے مذہبی عقیدہ سے کیا رشتہ اور تعلق ہے۔
از، طارق احمد صدیقی