لبرل ازم کسی کو مذہب سے دور تو نہیں کرتا
از، نصیر احمد
ایسے نوجوان ہیں کہیں؟ یہ تو ققنوس، عنقا، اور ہُما والا معاملہ ہے کہ خیالوں میں تو ہیں، حقیقت میں نہیں ہیں۔ اشتراکی حلقوں میں شاید ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں لیکن ماحول ایسا ہے کہ بے زار ہوں تب بھی بے زاری کا اظہار کرنے کے لیے بھی رمز و کنایہ بھی اتنا لطیف کرنا پڑتا ہے کہ پیرانِ جاہل اور شیخانِ گم راہ یا تو سمجھیں ہی ناں اور اگر سمجھیں تو بھی نظر انداز کر دیں کہ یہ مُبہم سی لطیف سر گوشیاں صراطِ مستقیم…. ارے نہیں دائرے میں لٹُّو بنے وجدی اور حالی کو دائرے سے کہاں ہٹا پائیں گی۔
اگر یہ بے زاری فسانہ و فسُوں نہیں ہے تو جس بات سے وہ بے زار ہیں، وہ مذہب تو ہے نہیں۔ وہ مذہب کی فاشسٹ تفسیریں ہیں اور ان سے بے زاری تو بہت بڑی نیکی ہے۔
مذہب کی فاشسٹ تفسیروں سے مہربان، عظیم و نیک خالق یا خالقین کا جواز ختم ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مذہب کے جواز کا مقدمہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔
اور اگر واقعی کچھ ایسے نو جوان ہیں جو فاشسٹ تفسیروں کی بہ جائے مذہب سے بے زار ہیں تو اس کا حل لبرل ڈیموکریسی ہے۔
در خرابات مغان نور خدا می بینم
وین عجب نوری از کجا می بینم
لبرل جمہوریتوں میں مذہبی حقوق اور آزادیوں کا تحفظ افراد، معاشرے اور ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔
زندگی اور قوانین میں اس برداشت کی موجودی بے زاری کم کر دیتی ہے۔
مذہبی ہے تو کیا ہوا، اس کا حق ہے اور اس کے اس حق کا احترام کرنا ہمارا فرض ہے؛ اور مذہب کی بنیاد پر ہم اس کے ساتھ روزگار، اشیاء، سہولتوں اور سلوک کے حوالے سے اس کے ساتھ نہیں کر سکتے اور اگر کرتے ہیں تو ہمیں جمہوریت کا مِعیار بہتر کرنا ہو گا۔
اور اگر ہم میں سے کوئی مذہب سے نفرت میں مبتلاء ہے تو اسے بھی مذہبیوں کے حقوق اور آزادیاں ختم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
دوسری طرف مذہبیوں کے لیے بھی یہ لازم ہے کہ وہ اپنے سے مختلف سوچنے والوں کو برداشت کریں۔ کسی کے مذہبی ہونے پر کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہونے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔
اور پھر لبرل رویے بھی ہوتے ہیں۔ لبرل ازم پر آغاز سے ہی عقل و الہام کے سمجھوتے کے بہت اثرات ہیں: عقل کے ذریعے بھی حقائق سے واقف ہو سکتے ہیں؛ الہام کے ذریعے بھی۔ اس تفہیم کے یورپ کی احیائے علوم تحریک پر بہت اثرات ہیں۔
گلیلیو، نیوٹن، کوپر نِکس، برونو اور فرانسس بیکن جیسے فلسفی اور سائنس دان بھی اسی تفہیم کے تحت کام کر رہے تھے۔ جان لاک اور امریکی آباء پر بھی اس تفہیم کے بہت اثرات ہیں۔ امریکہ کے آئین اور آئین سازی کی دستاویزات میں ‘خدا نے انسانوں کو برابر تخلیق کیا،’ جیسے اظہارات موجود ہیں۔
ترقی یافتہ جمہوریتوں کی قانون سازی میں مذہبی آزادیوں اور حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی بھی موجود ہے۔
لبرل رویوں میں تحمل اور برداشت کو ایک اساسی درجہ حاصل ہے۔ اگر چِہ کارپوریشنز کی پروموٹ کی ہوئی خِرد کے خلاف بغاوت میں تحمل اور برداشت سے متعلق رویوں کو بہت نقصان پہنچا ہے، لیکن اگر اینٹی لبرل کیمپوں سے موازنہ کریں، تو اینٹی لبرل کیمپوں سے ہزار ہا درجے بہتر ہے۔
اور اگر کسی کی مذہبی آزادیوں اور حقوق چھینے جاتے ہیں وہ بات نہ لبرل رہتی ہے اور نہ جمہوری۔ مذہب سب سے زیادہ محفوظ لبرل جمہوریتوں میں ہی ہوتا ہے کہ کوئی جبری طور پر آپ کا مذہب چھین نہیں سکتا۔
رضا اور گفت گو تو معاملہ ہی دوسرا ہوتا ہے۔ رضا اور گفت گو ختم کر کے مذہب کی بہ جائے مذہب کی بناوٹ ہی بچائی جاتی ہے۔ اور یہ بناوٹ مذہبی فاشزم میں مدغم ہو جاتی ہے اور مذہب ختم ہو جاتا ہے۔
لبرٹی ہی مذہب کو فاشزم سے بچا سکتی ہے۔ اب ترقی یافتہ جمہوریتوں میں کچھ عرصہ پہلے تک مذہبی پیشوا کتنی ایمان افروز گفت گو کیا کرتے تھے کہ اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھو، معاشی عدمِ مساوات میں کمی لاؤ، خواتین اور بچوں کے حقوق کے حقوق کا تحفظ کرو، مذہبی انتہاء پسندی سے گریز کرو، خدا تمھارا حامی و ناصر ہو۔ ایسی گفت گو کہ وجہ سے پادری روون ولیمز کو ہم بہت پسند کرتے تھے۔
اب کچھ عرصے سے حالات خراب ہیں کہ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی مذہبی فاشزم کی ترویج ہو رہی ہے۔
برازیل تو اتنی زیادہ ترقی یافتہ جمہوریت نہیں ہے، لیکن بہت کم ترقی یافتہ بھی نہیں ہے۔ مگر ان کے ہارنے والے صدر سپین کے جنرل فرانکو جیسی گفت گو کر رہے تھے۔
اٹلی میں بھی اس طرح کی بات چیت ہو رہی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی اقلیتوں میں مذہبی فاشزم کا رجحان بھی موجود ہے۔ لیکن سب رجحانات لبرل نہیں ہیں اور نہ جمہوری۔
اور رہی مذہبی فاشزم سے بے زاری؟
اصولی طور پر مذہبیوں کو سب سے زیادہ بے زار ہونا چاہیے۔ بنیادی طور پر تو یہ ان کا مذہب ہے جس کے نام پر انسان خیر و تہذیب سے ناتا توڑتا ہے۔ ان کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ یہ ناتا وہ قائم رکھیں۔
اور خیر و تہذیب کی عدم موجودی میں مذہبی ہونے کا کیا فائدہ؟ یہ لبرل ازم سے الحاد کو منسلک کر دینا تو بس جہالت، عیاری اور مکاری ہے۔ لبرل ازم کسی کو مذہبی ہونے سے نہیں روکتا؛ اور جو مذہبی نہ ہونا چاہے، اسے بھی نہیں روکتا۔
اور کیا چاہیے؟
اور اگر خواتین کو ستّی کرنا ہے اور کفّار کو ذبح… تو مذہب مذہب نہیں رہتا۔ مذہب کو مذہب رکھنے کے لیے لبرل جمہوری ہونا ضروری ہے۔ کیس تو یہی بنتا ہے۔