ہمیں سوشل انجینئرنگ کی ضرورت ہے
از، خضرحیات
کیا حالات اس طرح کا کوئی اشارہ نہیں کر رہے کہ کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے کا کوئی لائسنس ہونا چاہیے؟
جو لوگ مطلوبہ معیار پر پورے اتریں صرف انہی کو مذہب منتخب کرنے اور مذہبی ہونے کا لائسنس دیا جائے۔ لوگ برسوں پُرامن رہتے ہوئے اس ریاضت میں گزار دیں کہ انہوں نے مذہبی ہونے کے لیے کوالیفائی کرنا ہے۔
کم از کم اس طرح سے ایک ایسی فضاء کا خاتمہ ہو جائے گا جس میں ہر کوئی مذہبی بنا پھرتا ہے اور ہر کوئی مذہب کو ہتھیار اور آلہء قتل کے طور پر استعمال کرنا اپنا جائز حق سمجھتا ہے۔ ہر عام مذہبی آدمی مذہب کی آڑ میں دوسرے ہم نفسوں کی گردنیں اڑانیں پر نا صرف نادم نظر نہیں آتا بلکہ وہ اس کے انعام کے طور پر جنت الفردوس میں پہنچنا اپنا جائز حق سمجھتا ہے۔
یہ روایت کمزور ہونی چاہیے کہ جس کا جو دل چاہتا ہے مذہب کے نام پہ کرتا پھرے۔ اس صدی میں موجودہ وقت تک دنیا کی تقریباً نصف آبادی اسی مذہبی جنون میں مبتلا ہے اور آدھی سے زیادہ لڑائیاں جو اس وقت دنیا میں چل رہی ہیں ان کی بنیاد کہیں نہ کہیں یہی مذہبی اختلافات ہی ہیں۔ کسی ایک مذہب یا عقیدے کو مقدس سمجھ کر اختلاف کرنے والوں کا مسلسل خون بہایا جا رہا ہے۔
عالمی منظرنامے پر ایک سرسری سی نگاہ دوڑائیں تو نظر آتا ہے کہ بھارت کی سماجی فضاء مذہبی تعصب کی وجہ سے جس قدر مکدّر موجودہ دور میں ہے شاید ہی پہلے کبھی رہی ہو۔ وہاں مذہبی انتہاء پسند پہلے بھی رہے ہوں گے مگر انہیں جو سازگار ماحول دورِ حاضر میں ملا ہے وہ 1947ء کے بعد کبھی نہیں ملا تھا۔ مسلمانوں اور دلّتوں کے لیے اس قدر مشکلات پیدا کی جا چکی ہیں کہ اکثر تو انہی مشکلات کے بوجھ تلے دب کر ہی مر کھپ جائیں گے اور جو بچ رہیں گے وہ نفسیاتی مریض بن کے زندہ لاشوں کی طرح دھرتی پہ بوجھ بنے رہیں گے۔
اقلیت کی اصطلاح ہی ایسی ہے کہ اس سے مثبت کی بجائے منفی معانی ہی منسلک ہو کے رہ گئے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہر جگہ جیسا سلوک کیا جاتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ جن انسانوں کو محض اس بناء پر اقلیت سمجھ کر کہ ان کا عقیدہ یا مذہب اکثریت سے مختلف ہے، امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان عام انسانوں کا کیا قصور ہے؟ کیا ان کے پیدا ہونے میں کوئی مسئلہ ہے؟ کیا وہ بھی اکثریتی عقیدے والے انسانوں کی طرح کے گوشت پوست سے بنے اور ویسی ہی جسمانی و ذہنی ساخت کے ہی انسان نہیں ہیں؟ کیا یہ جائز ہے کہ انہیں محض ان کے عقیدے کی وجہ سے نہ صرف تضحیک کا نشانہ بنایا جائے بلکہ ان پہ زمین ہی تنگ کر دی جائے اور انہیں تیسرے چوتھے درجے کا شہری بنا کر ایک مستقل اذیت اور احساس کمتری میں مبتلا کر دیا جائے؟
فلسطین کی سرزمین جو ہر لحاظ سے مقدس ہے وہاں مذہب کے نام پہ جو اکھاڑا چل رہا ہے اور جو سرکس چلایا جا رہا ہے اس میں آج تک کتنے انسانوں کی گردنیں کاٹی جا چکی ہیں یہ اندازہ لگانا قطعاً زیادہ مشکل نہیں ہے۔ کیا اُس سرزمین پر جان گنوانے والے ہر انسان کی موت کے پیچھے مذہبی اختلاف کارفرما نہیں رہا ہے؟ پیغمبروں کی اس سرزمین کو اب تک جو لاکھوں انسان اپنے ناحق خون سے سیراب کر چکے ہیں، ان کا خون کیا اتنا ہی ارزاں اور بے وقعت تھا؟
یہاں کھیل پہلے دن سے وہی رہا ہے بس فاعل مفعول اپنی جگہ بدلتے رہے ہیں۔ جس کے بازو میں جتنی زیادہ طاقت آئی ہے اس نے اسی حساب سے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ عیسائیوں نے آ کے یہودیوں کو بھگایا، مسلمانوں نے عیسائیوں کو بھگایا، عیسائیوں نے پھر مسلمانوں کو بھگایا اور اب یہودیوں کی باری آئی ہے اور وہ چوہدری بن کے فلسطینی مسلمانوں کو ایسے کاٹ رہے ہیں جیسے گاجر مولی کو کاٹا جاتا ہے۔
شام جیسا عظیم الشان تاریخی شہر ادھیڑ کے رکھ دیا گیا۔ مسئلہ کیا ہے کہ حکمران بشار الاسد جس مذہب کا پیرو ہے وہ اکثریت سے مختلف ہے اور مذہبی اکثریت کا مطالبہ ہے کہ اس کی جگہ درست مذہب اور صحیح عقیدے والا حکمران لایا جانا چاہیے۔ عالمی طاقتیں جو پہلے ہی ایسی ہی کسی تاک میں بیٹھی ہوتی ہیں وہ جھٹ سے صورتحال میں آ داخل ہوتی ہیں اور پھر ایک ایسی پراکسی وار شروع ہو جاتی ہے جس میں کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ کس کو مار رہا ہے اور اسے کون مار رہا ہے۔ ہر کوئی ہر کسی سے لڑ رہا ہے، سبھی مر رہے ہیں اور نقصان عام لوگوں اور تاریخی مقامات کا ہو رہا ہے۔
کوئی اہلِ دل اگر شام کے بڑے شہروں حلب، رقہ اور دیرالزور کی موجودہ صورتحال کسی ویڈیو میں دیکھ لے تو اس کی آنکھیں ویران ہو جائیں۔
سعودی عرب اور ایران نے مل ملا کے جو حال یمن کا کر رکھا ہے وہ اگرچہ میڈیا میں نمایاں مقام حاصل نہیں کر سکتا مگر اپنی جگہ وحشت ناک بھی ہے اور حقیقی بھی۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیضے سے مر رہے ہیں، خوراک کی کمی کی وجہ سے جانوں سے جا رہے ہیں۔ اب ان کی موت کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے؟ کیا پیدا ہونے سے پہلے ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ یمن میں پیدا ہونا چاہتے ہیں یا یہ کہ وہ سنی گھرانے میں پیدا ہونا چاہتے ہیں یا شیعہ گھرانے میں؟
مذہبی اور سیاسی اختلاف اگر دوسرے انسان کی جان لینے کا جواز فراہم کرنے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ان اختلافات کی تہہ میں کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ضرور کارفرما ہے۔ کیا کوئی بھی اختلاف اس قدر معتبر ہو سکتا ہے کہ اس کی بنیاد پر انسانی جان ہی لے لی جائی؟
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ میں مشال خان کو 13 اپریل 2017ء کو اس قدر دردناک طریقے سے زندگی سے رہائی دلائی گئی کہ ہر اہلِ دل انسان کی روح کانپ اٹھی۔ کچھ لوگ کہتے رہے کہ کیا ہوا جو ایک انسان مر گیا، اس طرح کے واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں پھر اتنا واویلا کیوں مچایا جا رہا ہے؟
میں صرف ایک انسان بن کے سوچوں تو میرے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ ایسا کوئی بھی محرک جو میرے ایک ساتھی انسان کی جان لینے کا باعث بنے وہ سخت ترین الفاظ میں قابل مذمت ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف ایک سازش ہے، انسانوں کے لیے ایک جال ہے جس نے انہیں پھنسا کے رکھا ہوا ہے۔ اتنا خطرناک استعمال اگر آئے روز ہونا شروع ہو گیا ہے تو پھر اس کے استعمال کے لیے کوئی طریقہ کار ہی وضع کر لیں۔ کیونکہ مشال کو بھی بے دردی سے مارنے کے پیچھے جو تحریک تھی وہ یہی تھی کہ اس نے ایک مذہب کی توہین کی ہے۔ اس نے کسی ایک مذہب یا مذہب کی کسی ایک شکل یا کسی ایک مخصوص شاخ سے اختلاف کیا ہے اس لیے یہ ملعون بھی ہے اور مرتد بھی۔ ایسے انسان کو ختم ہی کر دینا چاہیے اور اسی تحریک پہ پھر کئی درجن انسانوں نے ہی اپنے ہم نفس انسان کو گِدھوں کی طرح نوچ ڈالا۔ اتنی جنونیت اگر کسی چیز کے استعمال میں پنہاں ہے تو پھر کوئی فلٹر ہی لگا لیں کہ صرف مخصوص لوگ ہی اس چیز کو استعمال کرنے کے اہل قرار دیے جا سکتے ہیں، ہر کسی کو ٹھیکے دار نہیں بننے دیا جا سکتا۔ اسلحے پر بھی تو اسی وجہ سے پابندی لگائی جاتی ہے کہ اس کا ناجائز استعمال روکا جا سکے۔
اس کیس کا مرکزی ملزم عمران علی جو مالاکنڈ ایجنسی سے تعلق رکھتا ہے ایک مذہبی گھرانے کا چشم و چراغ تھا اور جماعتِ اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ کالج کے دنوں سے منسلک تھا، جمعیت کے پروگراموں میں بھی شرکت کرتا رہا ہے۔ اس کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے بھی رہا اور اس نے عسکری تربیت بھی حاصل کر رکھی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران علی پیدائشی طور پہ ہی اس طرح سوچنے والا تھا یا بعد میں اس کی تربیت جن اداروں اور جس ماحول میں ہوئی انہوں نے اسے ایک خاص طرز پر سوچنے پہ مجبور کیا؟ کیا ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہی ادارے اور یہی تربیت ہی پہلے ایک معصوم انسان کی موت کا باعث بنے اور پھر عمران علی کو بھی پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیا؟
اگر تو دوسرا آپشن درست ہے تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ان اداروں یا ان جیسے دیگر اداروں میں کچھ تو خرابی ہے کہ یہاں کی فضاء میں گھومنے پھرنے والے عام انسان کسی کی جان لیتے ہوئے ذرا سا بھی تردد نہیں کرتے۔ عمران علی نے مشال پر گولی چلائی، مگر کیا اس نے ایک دفعہ بھی نہیں سوچا ہوگا کہ میں غلط کر رہا ہوں؟ میں جس بنیاد پہ کسی کی جان لے رہا ہوں وہ کمزور نہیں ہے؟ مشال پہ جو الزام لگائے گئے ہیں پہلے انہیں ثابت نہیں ہو جانا چاہیے؟ مگر مذہبی اختلاف کا بھنور ذہن کو ایک مرتبہ دبوچ لے تو کون منطقی ہو کے سوچ سکتا ہے؟ مشال کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا جیسا ہوا کیونکہ اس ہجوم کی ذہن سازی ہی اس طرح کی ہو چکی ہے کہ یہاں فرقہ، عقیدہ اور مذہب پہلے دیکھا جاتا ہے اور انسان ہونا کہیں بہت بعد میں۔
مرکزی ملزمان میں سے وجاہت اللہ کا تعلق بھی اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا ہے، اسے چار سال کی قید سنائی گئی ہے۔ یہ سیاستیں اور مذاہب کی غلط تفاہیم کیا اسی طرح انسانوں کو اپنے ساتھی انسانوں سے متنفّر کرتی رہیں گی؟
اب جبکہ واقعے کے دس مہینے بعد اس کیس کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے اور ملزمان کو سزا بھی ہو چکی ہے تو بعض لوگوں کے نزدیک یہ خوش گمانی پالنا اچھی بات ہے کہ مجرموں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ خوش فہمی بے وقوفی پر مبنی ہے۔ جسے پھانسی ہونی ہے وہ بھی یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اپنے کیے پر کوئی پشیمانی نہیں، میں نے جو کیا بالکل ٹھیک کیا۔ (یا اللہ یہ کس قسم کا جنون ہے؟)
آپ اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ یہ اگر سلسلہ تھمتا نہیں بھی تو کم از کم آہستہ ضرور ہو جائے گا مگر دوسری طرف دیکھ لیں کہ جو بندہ ایک ساتھی بے قصور انسان کو گولی مار رہا ہے وہ کہہ رہا ہے میں نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔ ان سزاؤں سے تھوڑی بہت عبرت اگر کوئی پکڑے گا تو مرنے اور قید ہونے والوں کے گھر والے پکڑیں گے، اس سے زیادہ اثر کی امید رکھنا فضول بات ہے۔ مشال کے بعد بھی یہ سلسلہ نہیں رکا اور آگے بھی یہ نہیں رک سکتا اگر سماجی حالات جوں کے توں رہے۔
کیا وہ وقت نہیں آ گیا کہ ہمیں اب بڑے پیمانے اور ہنگامی بنیادوں پر سوشل انجینئرنگ کی ضرورت ہے؟
اس میں اب کوئی ابہام یا شبہ نہیں رہ گیا کہ ہمارا معاشرہ مذہبی حوالے سے پہلے کی نسبت زیادہ جذباتی ہو چکا ہے۔ ہمیں مذہبی اختلاف پر زیادہ غصہ آنے لگا ہے اور ہم بہت سرعت میں اپنا ردعمل دینے لگ گئے ہیں۔ ہم زندہ انسانوں کو تندوروں میں جلانے لگ گئے ہیں۔ ہلکی پھُلکی نوک جھونک تھوڑی ہی دیر میں تلخ کلامی اور گالی گلوچ تک پہنچ جاتی ہے اور اکثر صورتوں میں فریقین ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ کسی ایک کی جان کے خاتمے پر جا رکتا ہے۔
جو ریاست کسی خاص صورت حال کے پیش نظر اپنے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو ذہنی طور پر تیار کرکے جہاد پہ روانہ کر سکتی ہے اسی ریاست کی اب یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک مختلف طرز کی ذہن سازی میں بھی اپنا کردار مزید واضح طریقے سے سرانجام دے۔ سوشل انجینئرنگ کے لیے سوشل سائنٹسٹس آگے آئیں اور معاشرے کی عمومی فضا کو تبدیل کرنے کے لیے تجاویز پیش کریں۔ ریاستی سطح پر ایسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے جو معاشرے کو نارمل سطح پر لے آئیں۔ عوام کو اختلاف کے حُسن کو سمجھنے کا شعور دیا جائے اور یہ باور کرایا جائے کہ کوئی بھی اختلاف چاہے وہ مذہبی ہو یا ذاتی، وہ اس قدر اہم نہیں ہوتا کہ اس کے لیے ایک جیتے جاگتے انسان کی جان ہی لے لی جائے۔ میری ناقص عقل مجھے اس وقت جو تراکیب سُجھا رہی ہے وہ میں یہاں لکھ رہا ہوں۔ اگر ان میں سے کوئی سود مند ہو سکتی ہے تو اسے اپنائیں اور رائج کریں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے تو روز جنازے اٹھائیں گے اور روز روتے پھریں گے۔ وہ کرکے دیکھ لیا ہے تو اب یہ بھی کرکے دیکھ لیں، شاید ہماری اڑان کا رخ کسی بہتر مستقبل کی طرف ہی ہو جائے۔
1۔ قومی پالیسی کے طور پر اختلاف کرنے اور برداشت کرنے کے جذبے کی تشہیر کی جانی چاہیے۔
2۔ عوام کے منتخب نمائندے، باقی سیاستدان، اساتذہ، میڈیا مالکان، صحافی، دانشور، تخلیق کار، فلم میکرز، ججز، مسلح افواج کے افسران، سرکاری ملازمین اور دیگر بااثر افراد کسی بھی ایک مذہب یا مخصوص عقیدے کی وکالت کرنے پر بھاری جرمانے اور سخت سزاؤں کے مستحق قرار پائیں۔
3۔ قومی نصاب کو تبدیل کرکے موجودہ مسائل اور حالات کے مطابق ترتیب دیا جائے۔
4۔ دینی مدرسوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض سرانجام دینے والی شخصیات کے لیے تربیتی کورسز شروع کروائے جائیں اور ہر قسم کے نفرت انگیز بیانات پھیلانے کا محاسبہ کیا جائے۔
5۔ دینی مدرسوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی لائبریریوں کو چھان پھٹک کر دیکھا جائے کہ وہاں کس قسم کا لٹریچر دستیاب ہے اور طلبہ کی رسائی کس طرح کے مواد تک ہے۔
6۔ سرکاری سرپرستی میں جہادی کیمپ کھول کر دھڑا دھڑ لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے تو اب بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کو مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرنے کے لیے تربیت دی جا سکتی ہے۔
7۔ صحافت اور میڈیا کو مذہبی رواداری کی پالیسی کو مشتہر کرنے کے لیے بہتر اور مثبت انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
8۔ جگہ جگہ کھیلوں کے میدان آباد کیے جا سکتے ہیں۔
9۔ دیہاتی قصباتی لیول پر میلے ٹھیلے شروع کیے جا سکتے ہیں۔
10۔ انسانیت کو انسانوں کے مابین تعلقات کی مضبوط بنیاد قرار دیا جائے، مذہب کو ثانوی حیثیت میں تبلیغ کیا جائے۔
11۔ بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کیے جائیں۔ جلسے جلوس منعقد کیے جائیں، ٹیلی ویژن پروگرام نشر کیے جائیں اور مختلف مسالک کے لوگوں کو اکٹھا بٹھا دیا جائے۔
12۔ عقیدے ٹیسٹ کرنے والی غیر سرکاری اتھارٹیز کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ایسی بااثر شخصیات جو اس طرح کی مہمات کی سربراہی کرتی ہیں انہیں بند کمرے میں لے جا کے ‘سمجھایا بُجھایا’ جائے۔
اگر یہ سب نہیں ہو سکتا تو پھر ایک اتھارٹی بنا دیں جو لوگوں کا طرزعمل دیکھ کے انہیں کوئی بھی مذہب اختیار کرنے، اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تبلیغ کرنے کا لائسنس جاری کرے۔ جب تک مناسب طرزعمل (جس میں رواداری، برداشت، بھائی چارے کا عملی مظاہرہ شامل ہو) کا مظاہرہ نہ کیا جائے یہ لائسنس ریاست کی طرف سے جاری نہ کیا جائے۔ لوگ برسوں انسان بن کر مطلوبہ معیار پر پورا اترنے کی مشق کریں اور پھر وہ مذہبی کہلانے کے حق دار سمجھے جائیں۔
امید ہے ناحق مرنے والے انسانوں کی شرح میں واضح کمی واقع ہو جائے گی۔