توبہ توبہ، عالم دین ہو کر کمپیوٹر رکھا ہوا ہے: رہیں گے ہم متصلب ہی
از، مولانا مفتی محمد زاہد
میں نے سب سے پہلا کمپیوٹر ۱۹۹۸ میں خریدا تھا۔ عربی مکتبات اور پروگراموں پر مشتمل سی ڈیز یا فلاپیز بہت کم اور خاصی مہنگی ملتی تھیں۔ لیکن کتابوں کی خریداری کے مقابلے میں سودا پھر بھی سستا تھا۔
دینی حلقوں میں کمپیوٹر کافی حد تک نئی چیز اور فحاشی کے مترادف تھی۔ ایک معاصر عالمِ دین نے اپنے متعلقین کے ذریعے خاصا شوشا چھوڑا کہ عالمِ دین ہو کر انہوں نے کمپیوٹر رکھا ہوا ہے، توبہ توبہ۔ بھلا کمپیوٹر اور ٹی وی میں فرق ہی کیا ہے۔
خیر ہم سمجھتے رہے کہ ہم کمزور ایمان والے ہیں اور وہ ہمارے مقابلے میں مضبوط دینی حمیت کے مالک اور زیادہ درویش صفت ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی کمزور غیرت پر شرمندہ شرمندہ سا رہنا پڑتا تھا۔
یہی کوئی پانچ سال کے لگ بھگ وقت گزرا ہو گا۔ کسی تعزیت یا عیادت کے سلسلے میں موصوف کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر اپنا احساسِ کم تری دور ہوا کہ ان کے گھر میں بھی جدت پسندی کی یہ علامت موجود تھی۔
مزید دیکھیے: ایسے انصاف یا احتساب جانے کتنی بار ہوئے از، مولانا مفتی محمد زاہد
اقامے، باسٹھ تریسٹھ اور موجودہ ڈرامے از، مولانا مفتی محمد زاہد
ایک دفعہ ایک آدھ دوستوں سے اس واقعے کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے ان حضرات کی سوچ اتنی سست رفتار کیوں ہوتی ہے، اور وقت پر سمجھ کیوں نہیں آتی۔ میں نے عرض کیا کہ مسئلہ سمجھ آنے یا نہ آنے کا نہیں ہے، یہ تو ہر ایک کے ساتھ ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں بات سمجھ میں نہ آئے، دوسرے وقت میں سمجھ میں آجائے۔ مسئلہ ذہن میں یہ احتمال رکھنے کا ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ہماری سمجھ میں ہی کوئی کسر ہو، اور دوسرا ٹھیک ہو۔
غیرت و حمیت کے جوش میں یہ امکان ذہن سے بھاپ بن کر اُڑ جاتا ہے۔ پھر یہ نہیں کہ ان کے اپنے گھر میں وہ چیز آ گئی تو رویہ تبدیل ہو گیا ہو۔ اس کے بعد وہ کسی اور معاملے میں اسی طرح کی بہ زُعمِ خویش دینی حمیت اور سلف کے طریقے پر کار بند رہنے کا زعم لے کر دوسروں کو اسی طرح کے نظر سے دیکھ رہے ہوں گے۔
پانچ سال بعد اس میں بھی تبدیلی آئے گی تو دینی تصلب کے اظہار کے لیے کوئی اور ایشو حاضرِ خدمت رہے گا۔ رہیں گے بہ ہر حال پکے متصلب کے متصلب ہی۔