آصف فرخی صاحب کچھ یادیں، کچھ ملاقاتیں
عرفان جاوید کے مطابق آصف فرخی صاحب گلشن والے کرایے کے گھر میں بے چینی محسوس کرتے تھے۔ دل نہیں لگتا تھا۔ اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ وقت یونی ورسٹی میں رہنے کی کوشش کرتے۔ دیر تک بیٹھ کر پڑھتے رہتے تھے۔ آج انعام ندیم فون پر کہہ رہے تھے کہ اگر یونی ورسٹی بند نہ ہوتی، تو مجھے یقین ہے کہ آصف فرخی صاحب ہمارے درمیان ہوتے۔
از، رفاقت حیات
بعض رخصت ہونے والے، ہمارے وجود کا کچھ حصہ نہیں، بل کہ پورا وجود ہی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ تحریر، ایک ایسے ہی شخص کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کے وجود سے نتھی اپنا وجود کھوجنے کی ایک سعئِ لا حاصل بھی ہے، جو اس کے جانے کے بعد گم ہو چکا ہے۔
اُنیس سو پچانوے چھیانوے میں کراچی وارد ہوا تو، فکشن، شاعری اور دیگر سنجیدہ موضوعات کےمطالعے کی چاٹ پہلے سے لگی ہوئی تھی۔ اگر چہ شاعری ترک کر کے افسانہ نگاری کی طرف مائل ہو چکا تھا اور چند خام سے افسانے چھپ بھی چکے تھے، لیکن یہاں کے ادیبوں سے ابھی ذاتی جان پہچان نہیں تھی۔ مگر اتنی تھی کہ ان میں سے بہت سوں کی تحریریں اور کتابیں راول پنڈی قیام کے دوران پڑھ چکا تھا، اسی لیے فطری طور پر سب سے ملنے کی خواہش تھی۔
اب سوچتا ہوں توان برسوں کے کراچی کا ادبی (خصوصاً نثری) منظر نامہ خاصا دل چسپ اور وقیع لگتا ہے۔ غلام عباس، عسکری صاحب اور سلیم احمد آسودۂِ خاک ہو چکے تھے۔ ادب میں جدیدیت آخری سانسیں لے رہی تھی اور اب ما بعد جدیدیت کا دور شروع ہو رہا تھا۔
جدیدیت کے سرخیل، قمر جلیل صاحب کی بیٹھک اور ان کا پرچہ بند ہو چکے تھے اور وہ اپنی صحت اور یاد داشت کے مسائل سے نبرد آزما تھے۔
حمید نسیم مرحوم شاعری پر دو تنقیدی کتابیں لکھنے کے بعد اب نثر پر ایک طویل تنقیدی کتاب لکھنے میں رات دن مصروف تھے، جو بَہ وجوہ آج تک شائع نہ ہو سکی۔ افسانے کی دنیا میں کہانی کی واپسی کا چرچا تھا، لیکن جو حقیقت پسند افسانہ لکھا جا رہا تھا، وہ واقعاتی سطح سے بلند ہی نہیں ہو پاتا تھا اور دوسری جانب جو لوگ علامتی اور تجریدی افسانہ لکھ رہے تھے، وہ ابہام کے ساتھ ہیئت کے مسائل سے بھی دو چار تھے۔
افسانہ نگاروں کی اکثریت کا تعلق ساٹھ اور ستر کی دھائیوں میں نمایاں ہونے والے فکشن نگاروں سے تھا۔
انیس سو اَسّی کے بعد منظرِ عام پر آنے والے افسانہ نگار چند ایک ہی تھی۔ اس عرصے میں، ایک طرف فہیم اعظمی صاحب صریر نکالنے کے ساتھ تجریدی فکشن بھی لکھ رہے تھے، دوسری طرف احمد ہمیش کے جریدے تشکیل اور ان کے افسانے مکھی کا بھی شور تھا۔
محمود واجد صاحب نے افسانہ نگاری نے تائب ہو کر سہ ماہی آئندہ نکالنا شروع کر دیا تھا۔
سخی حسن کے قریب علی حیدر ملک کے ہاں فکشن گروپ (جسے بہاری گروپ بھی کہا جاتا تھا) کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے۔ پی ایم اے ہاؤس میں انجمن ترقی پسند مصنفین بھی فعال تھی، جس کے اجلاسوں میں حسن عابدی، نعیم آروی، ڈاکٹر شیر شاہ سید اور دیگر ترقی پسند لکھنے والے با قاعدگی سے شرکت کیا کرتے تھے۔
آواری ہوٹل کے کونے پر واقع “بیک اینڈ ٹیک” نامی ریسٹورنٹ میں بھی چند معتبر ادیبوں کا اکٹھ ہوا کرتا تھا، جن میں سے چند ایک کے علاوہ اکثر مردم بے زار محسوس ہوتے تھے۔ اجمل کمال صاحب اپنا اشاعتی ادارہ سٹی پریس بک شاپ قائم کرچکے تھے اور اکثر وہاں پر محمد خالد اختر بھی آ نکلتے تھے۔
اجمل صاحب نے فلم کلب بنایا تو وہاں پر فہمیدہ ریاض، افضال احمد سید، تنویر انجم، سعید الدین اور کبھی کبھار ذی شاحل سے بھی ملاقات ہو جاتی۔ پیرا ڈائز پیلس میں، ایک طرف عذرا عباس نثری نظمیں لکھ رہی تھیں، ان کے ساتھ انور سِن رائے ناول، افسانہ، شاعری ، تینوں میں مصروفِ عمل تھے اور دوسری طرف افتخار جالب مرحوم بھی اپنی بھاری بھرکم تنقیدی بصیرت لیے ہوئے موجود تھے۔
آرٹس کونسل کراچی پر یاور مہدی اور ان کے یاروں کا اجارا تھا۔ اس کے سوا اور بھی بہت کچھ ہو رہا تھا۔ کئی ادبی پرچے نکل رہے تھے۔ کئی ادبی تنظیموں اور انجمنوں کے اجلاس باقاعدگی سے ہو رہے تھے۔
ابتدائی برسوں میں بہت سی جگہوں پر جانا ہوا، لیکن اس کے بعد اچانک ملاقات، ایک چھتیس سینتیس سالہ خوب رُو اور وضع دار صاحبِ علم و ادب سے ہو گئی، جن سے ملنے کے بعد یہ ضرور محسوس ہوا تھا کہ ادبی آوارہ گردی اب اپنا ثمر لے آئی ہے۔ یاد نہیں آ رہا کہ کب، کیسے اور کہاں، پہلی بار ان سے مِلا تھا لیکن اتنا یاد ہے کہ گلشنِ اقبال کے بلاک نمبر چار میں واقع ان کے آبائی گھر میں ہی ملا تھا۔
ان کے تین افسانوی مجموعے اور کئی ناولوں اور افسانوں کے تراجم شائع ہو چکے تھے، اور میں نے کچھ ہی تراجم، مضامین اور ایک افسانوی مجموعہ چیزیں اور لوگ پڑھ چکا تھا، جسے میں آج بھی ان کا بہترین افسانوی مجموعہ خیال کرتا ہوں۔ اگر چہ اس کے بعد ان کے افسانوی مجموعے میں شاخ سے کیوں ٹوٹا، شہر ماجرا، شہر بیتی، ایک آدمی کی کمی اور میرے دن گزر رہے ہیں شائع ہوئے۔
اپنے مجموعے ایک آدمی کی کمی میں انھوں نے کچھ سندھی لوک کہانیوں کو کام یابی سے اردو میں ڈھالتے ہوئے انھیں ہم عصر زندگی کے پیچیدہ واقعات سے، کام یابی کے ساتھ جوڑا ہے۔ شاید کچھ لوگ جانتے ہوں کہ انھوں نے ایک ناول لکھنے کا آغاز بھی کیا تھا، جس کا صرف ایک ہی باب رقم کیا جا سکا اور وہ آگے نہ بڑھ سکا۔
آصف فرخی صاحب انتظار حسین سے مرعوب و متاثر ضرور تھے لیکن انھوں نے افسانے میں اپنے لیے الگ راہ نکالنے کی بھر پُور کوشش کی اور وہ اس میں کام یاب بھی ہوئے۔
وہ نئے ماخذات کی تلاش میں سندھی زبان کی لوک روایات میں اندر تک چلے گئے، اور صرف سندھی پر ہی کیا موقوف، نا جانے کتنی زبانوں کی پوری پوری روایات وہ گھول کر پیے ہوئے تھے۔ ان کا فکشن اور نان فکشن پڑھ کر کم از کم مجھے تو یہی لگتا ہے۔
ان کا گلشنِ اقبال والا وہ گھر اور اس کا ڈرائنگ روم، کبھی فراموش نہیں کیے جا سکتے، جہاں آصف صاحب سے ہونے والی پہلی ملاقات ہی ملنے ملانے کے ایک طویل سلسلے میں تبدیل ہو گئی۔ اس گھر کے گراؤنڈ فلور پر آصف صاحب کے والدین اور پہلی منزل پر وہ خود رہتے تھے۔
گھر کی گھنٹی بجانے پر کبھی آصف صاحب تو کبھی ان کی اہلیہ اور کبھی ڈاکٹر اسلم فرخی مرحوم (جن کے چہرے پر ہمیشہ ایسی سنجیدگی، متانت اور رعب دکھائی دیتا کہ علیک سلیک کے سوا ان سے کوئی بات کرنے کی ہمت کبھی نہ ہو سکی) آ کر گیٹ کا پھاٹک کھولا کرتے اور پھاٹک سے اندر آنے کے بعد مہمان کے لیے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول دیا جاتا۔
مہمان اندر بیٹھ کر انتظار کرتے ہوئے سامنے کی دیوار پر نصب شمس العلماء، ڈپٹی نذیر احمد کی تصویر دیکھتا رہتا۔ پھر کچھ دیر بعد ڈرائنگ روم کے کونے پر بنا ہوا دروازہ کھلتا اور کج مج سی بھوری آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے، طویل قامت، ہلکے سے گھنگھریالے بالوں والے آصف صاحب برآمد ہوتے اور دیکھتے ہی پوچھتے:
ہاں، بھئی کیا حال ہے؟
کیسے ہو؟
کیا لکھا اور پڑھا جا رہا ہے؟
ان سوالوں کے جوابوں کے ساتھ ہی سلسلۂِ کلام دراز ہوتا چلا جاتا۔ اردو ادب کے ساتھ عالمی فکشن نگاروں کا تذکرہ چل نکلتا۔
یہ ان کی اپنی شخصیت کا طمطراق تھا کہ والد صاحب کا اثر، ابتدا میں آصف صاحب سے مل کر میں ایسا مرعوب ہوا تھا کہ ان سے بات کرنے سے پہلے مجھے کئی بار سوچنا پڑتا تھا کہ کیا بات کی جائے اور اس پر مستزاد یہ کہ میری زبان میں لکنت بھی ہے، لیکن ان کا رعب داب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زائل ہو کر برابر کی دوستی میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔
ایک مرتبہ ان سے اس کا اظہار بھی کیا کہ جب آپ سے شروع میں ملتا تھا تو آپ کے رعب میں رہتا تھا، لیکن اب وہ ختم ہو گیا۔ جواب میں انھوں نے ہنستے ہوئے کہا تھا: یہ تو بہت برا ہوا۔
جب تک آصف صاحب گلشن والے گھر میں رہے، ہم سے ادب کے پیاسے بار بار اس گھر کا طواف کرتے رہے، اور کیوں نہ کرتے۔ اس گھرکے ڈرائنگ روم میں کیسی کیسی شان دار ادبی اور فکری محفلیں برپا ہوتی تھیں، جو شہر بھر میں ہونے والی تمام ادبی تقریبات پر بھاری تھیں۔ اکثر محفلوں کے روحِ رواں وہ خود ہی ہوا کرتے تھے۔
میں نے وہیں پر پاکستان انڈیا کے ایٹمی دھماکوں سے حوالے سے لکھا گیا انتظار حسین کا تازہ افسانہ مور نامہ سنا۔ اسد محمد خان نے جب اپنا طویل افسانہ رگھوبا اور تاریخ ِ فرشتہ مکمل کیا تو آصف صاحب نے اسے اسد صاحب کی زبانی سننے کے لیے اپنے گھر میں با قاعدہ اہتمام کیا۔
اس افسانے کی قرأت دو گھنٹے سے زیاد دیر تک جاری رہی۔ سب سنتے رہے اور اسد صاحب کی اعلیٰ نثر سن کر اپنا سر دھنتے رہے۔ اردو کے مایہ ناز شاعر محبوب خزاں، جو شہر میں کسی جگہ نظر نہیں آتے تھے، انھیں بھی یہیں دیکھا اور ان سے ان کا کلام بھی سنا۔
انڈیا سے تشریف لانے والے شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی، سید محمد اشرف، ساجد رشید اور محسن خاں سے بھی یہیں ملاقات ہوئی۔ وہ گھر اردو ادب کا ایسا مرکز و مِحوَر تھا کہ بہت سے ادبی ستارے وہاں آ کر اپنی آب و تاب دکھاتے۔ کس کس کا نام لوں۔
وہ مجھے ہمیشہ تاکید کرتے رہتے کہ لکھتے اور پڑھتے رہو۔ پڑھنے کے لیے وہ ہمیشہ نت نئی کتابیں تجویز کرتے اور اپنے کتب خانے سے بھی فکشن کی بعض کتابیں نکال کر پڑھنے کے لیےمستعار دے دیا کرتے۔
ایک بار ان کے آگے ترگنیف کے طویل افسانوں کے اردو ترجمے جھونکے بہار کے کی تعریفوں کے پل باندھے تو وہ سنتے ہی بے چین ہو گئے اور کہنے لگے: کیسی شان دار کتاب ہے لیکن وہ کتاب مجھ سے کہیں کھو گئی ہے۔ اگر تم اپنی وہ کتاب مجھے دے دو، تو اس کے بدلے تمھیں چیخوف کے تراجم دے سکتا ہوں۔ چند روز بعد جھونکے بہار کے ان کے حؤالے کر دی۔
دھیرے دھیرے میرے افسانوں کے متعلق ان کی رائے بہتر ہونے لگی تھی۔ جب میں نے افسانہ خوامخواہ کی زندگی لکھا، تو اسے پڑھنے کے بعد کہنے لگے:
اس کا ماحول ایڈگر ایلن پو کے افسانوں کی طرح گھمبیر اور تاریک ہے، لیکن افسانہ بن گیا ہے۔
بہت بعد میں یہی افسانہ جب لاہور میں زاہد ڈار کو پڑھنے کے لیے دیا تھا، تو ان کا جواب تھا:
مجھے لگتا ہے، تم نے یہ افسانہ مجھ پر لکھا ہے۔
کتابوں کی اشاعت کا کام وہ بہت پہلے سے شروع کر چکے تھے۔ پہلے احسن مطبوعات کےنام سےکچھ کتابیں چھاپیں، جن میں افسانہ نگار ضمیر الدین احمد کی اردو شاعری کے جنسیاتی مطالعے پر مبنی کتاب خاطرِ معصوم بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ ان کے اپنے ایک دو افسانوی مجموعے بھی اسی ادارے سے چھپے۔
اس کے بعد انہوں نے سین پبلی کیشن کے تحت کچھ کتابیں شائع کیں، جن میں مصطفیٰ ارباب، اکبر معصوم اور امر محبو ب ٹیپو کی کتابیں مجھے یاد ہیں۔
ان دنوں امر محبوب ٹیپو اور عرفان خان نے ریگل چوک کے بیچوں بیچ ایک قدیم عمارت نرائن داس بلڈنگ میں سماوار نامی تنظیم کے بینر تلے ہفتہ وار ابی بیٹھک کا آغاز کیا۔ اس عمارت کا نام سین پبلی کیشن کے پتے کے طور پر بھی لکھا گیا۔
وہاں کچھ عرصے تک با قاعدگی سے تنقیدی نشستیں منعقد ہوئیں۔
ممتاز رفیق مرحوم نے اپنے ابتدائی خاکے وہیں پڑھ کر سنائے۔ ایک افسانہ میں نے بھی پیش کیا تھا۔ آصف صاحب، فہمیدہ ریاض، فاطمہ حسن، مبین مرزا اور کچھ احباب نےبھی وہاں اپنی نگارشات تنقید کے لیے پیش کی تھیں۔ لیکن یہ سلسلہ چند ماہ بعد ہی ختم ہو گیا۔
ایک شام کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔ پیراڈائز پیلس میں چوتھی منزل پر واقع انور سِن رائے اور عذرا عباس کے گھر میں احمد فواد، وسعت اللہ خان، آفتاب ندیم کے ساتھ میں بھی موجود تھا۔
آصف صاحب اکبر معصوم کی کتاب اور کہاں تک جانا ہے کا مسودہ بغل میں دبائے وارد ہوئے۔ ان کے آتے ہی محفل کا رنگ بدل گیا۔ انھوں نے اکبر کی شاعری کے پل باندھنے شروع کر دیے۔ اس کے بعد آفتاب ندیم نے بیٹھے بیٹھے تقریباً پورا مسودہ پڑھ کر سنا دیا۔ تمام سننے والے تازہ کار شاعر کا کلام سن کر عش عش کر اٹھے۔ اس کے بعد وہ کتاب شائع ہوئی اور اس کی تقریبِ رُو نمائی آرٹس کونسل، کراچی میں ہوئی۔ اکبر معصوم اردو کے مین اسٹریم ادب میں شامل ہو گئے۔
شاید سِنہ دو ہزار میں آصف صاحب نے ادبی رسالہ نکالنے کا ارادہ باندھا۔ مجھے حکم ہوا کہ ایک افسانہ دنیا زاد کے لیے انھیں دوں۔ ان دنوں میں افسانے چریا ملک پر کام کر رہا تھا۔
اچانک مجھے چھوٹے بھائی کے ساتھ پشاور جانا پڑ گیا۔ وہاں ایک ہوٹل میں قیام کے دوران وہ افسانہ مکمل کیا اور پشاور سے ان کے پتے پر پوسٹ کر دیا، جو انھیں مل گیا۔ کراچی واپسی پر ان سے پوچھا، افسانہ کیسا لگا؟ کہنے لگے:
اسے پڑھتے ہوئے مارکیز کا کرنل یاد آتا رہا، مگر افسانہ اس سے مختلف ہے۔
چند ہی روز کے بعد دنیا زاد کا اجرا ہو گیا اور بہت جلد وہ اردو کے ایک وقیع رسالے کے طور شہرت پانے لگا۔ دنیا زاد شروع کرنے سے پہلے وہ ایک نیا اشاعتی ادارہ شہر زاد پبلشرز کے نام شروع کرچکے تھے۔ اس ادارے کے زیرِ اہتمام انھوں نے با قاعدہ اور مسلسل کتابیں چھاپنا شروع کیں۔
لاہور میں جب عاصم بٹ سے پہلی ملاقات ہوئی تو آصف صاحب کا تذکرہ نکلا۔ عاصم نے کہا کہ وہ جب ان کے بارے سوچتے ہیں تو ان کے سامنے ایک ایسا شخص آتا ہے، جس نے ایک بہت بڑے میز کو کئی خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک خانہ افسانہ نگاری کے لیے ہے، وہاں بیٹھ کر وہ افسانے لکھتا ہے۔ دوسرا ترجمے کے لیے مخصوص ہے، جہاں سے وہ تراجم کرتا ہے۔ تیسرا مضامین سے مختص ہے، وہاں بیٹھ کر وہ مضامین لکھتا ہے۔ چوتھا خانہ انگریزی کی تحریروں کے لیے ہے، جہاں سے وہ اپنے انگریزی تراجم اور مضامین تحریر کرتا ہے۔
دو ہزار ایک میں میری شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد ایک بار اپنی شریکِ حیات کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ تب سیمی بھابھی بھی آ کر ہمارے ساتھ بیٹھ گئی تھیں۔ انھوں نے باتوں باتوں میں آصف صاحب کی شکایت کی:
انھیں عید کے لیے کپڑے اور جوتے خریدنے کے رقم دی، تو یہ ان کے بَہ جائے ٹامس اینڈ ٹامس سے مہنگی کتابیں خرید کر لے آئے۔ بعد میں ان کے لیے کپڑے اور جوتے مجھے خریدنے پڑ گئے۔
مجھے یاد ہے کہ بھابھی کا لہجہ آصف صاحب کے متعلق کچھ تلخ سا تھا۔ اس سے پہلے تک میں یہی سمجھتا رہا تھا کہ بھابھی آصف صاحب کی ادبی قد و قامت کو نہ صرف پسند کرتی ہیں، بل کہ ان کی مدد بھی کرتی ہوں گی، لیکن اس دن کے بعد میرا یہ خیال خام ثابت ہوا۔
مجھے اپنا افسانوی مجموعہ شائع کرنے کا مشورہ آصف صاحب نے ہی دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اب تمھارا پہلا مجموعہ آ جانا چاہیے۔ ان دنوں میری کتاب کے ساتھ سید کاشف رضا کا پہلا شعری مجموعہ، محبت کا محلِ وقوع بھی زیرِ طبع تھا۔ مجھے اپنی کتاب کے لیے مناسب نام نہیں مل رہا تھا۔
ایک روز آصف صاحب کے ہاں انعام ندیم بھی موجود تھے۔ جب اس مسئلہ کا انہیں پتا چلا تو انہوں نے افسانوں کے عنوانات دیکھتے ہوئے کتاب کا نام، خوامخواہ کی زندگی تجویز کیا، جو مجھے اور آصف صاحب دونوں پسند آیا۔ اس طرح کتاب کا نام طے ہو گیا۔
کچھ عرصے بعد آصف صاحب کا فون آیا کہ تمھاری اور کاشف کی کتابیں چھپ گئی ہیں۔ میں چند کاپیاں لے کر آ رہا ہوں، کس جگہ ملا جائے؟ میں نے جبیس ہوٹل، صدر میں ملنے کے لیے کہا۔ آصف صاحب نے وہاں مجھے اور کاشف کو شائع ہونے اولین کتابیں پیش کیں۔
ہمیں محسوس ہوا کہ ہم سے زیادہ خوشی آصف صاحب کو ہو رہی ہے۔ وہ بہت پُر جوش تھے۔ انھوں نے کتابوں کی تقریب کروانے کے لیے کہا۔ کاشف کی دو کتابوں، محبت کا محل وقوع اور نوم چومسکی کے تراجم والی کتاب اور میری افسانوں کی کتاب کی تقریبِ رُو نمائی ایک ساتھ ہوئی تھی، جس کے بینر پر لکھا ہوا تھا: دو ادیب، تین کتابیں۔
شُرَکائے گفتگو میں آصف صاحب کے علاوہ، افضال احمد سید، غازی صلاح الدین، پروفیسر سحر انصاری اور دیگر لوگ شامل تھے۔ تھیٹر کے مایہ ناز ادا کار خالد احمد نے میری ایک کہانی اور کاشف کی چند نظمین پڑھ کر سنائیں۔
ایک بار آصف صاحب کے چچا انور احسن صدیقی مرحوم کی کتاب، ایک خبر، ایک کہانی کی تقریبِ اجرا کراچی پریس کلب میں جاری تھی۔ میں، انور سن رائے صاحب کے ساتھ آخری رو میں بیٹھا تھا۔ آصف صاحب اپنا مضمون پڑھ چکنے کے بعد ہمارے پاس ہی آخر بیٹھ گئے۔ انور صاحب نے انہیں جملہ دیا تھا:
یار تمہارے ہر مضمون میں محاوروں اور اشعار کی بھرمار ہوتی ہے، کبھی سیدھی بات بھی کر لیا کرو۔
اپنے نان فکشن میں آصف صاحب کی نثر کا انداز کچھ ایسا ہی تھا۔
ان دنوں آصف صاحب اقوامِ متحدہ کے ادارہ بہ راہِ اطفال سے، یونیسف سے وابستہ تھے۔ ایک بار انھوں نے بتایا کہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ہاؤس جاب کے دوران انھوں نے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملے میں جو بے حسی، منافع خوری، حرص و طمع دیکھی تو پھر اس کے بعد انھوں نے زندگی بھر پریکٹس نہ کرنے کا تہیہ کر لیا اور اپنی ملازمت کے لیے بالکل الگ راستہ منتخب کیا۔
ایک سے زائد بار انھوں نے مجھ سے ایک بات کہی، جو میرے ذہن میں اٹک کر رہ گئی۔ انھوں نے کہا:
زندگی میں کبھی سرکاری نوکری مت کرنا۔
وہ جانتے تھے کہ میں پی ٹی سی ایل میں ملازمت کرتا ہوں۔ دوہزار آٹھ میں، مَیں نے وہ جاب چھوڑ دی اور فری لانس ڈرامہ رائٹر کے طور پر کام کرنے لگا اور آج تک یہی کچھ کر رہا ہوں۔ دشواری تو پیش آتی ہے، لیکن آزادی بڑی چیز ہوتی ہے۔
بعد میں آصف صاحب گلشنِ اقبال سے نقلِ مکانی کر کے ڈیفنس میں منتقل ہو گئے۔ جب میں وہاں ان سے ملنے کے لیے گیا تو باتوں باتوں میں میرے مُنھ سے نکلا، شادی کے بعد جوائنٹ فیملی میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آپ نے مسائل کا سامنا کیا ہو گا؟ یہ سن کر وہ مخصوص انداز میں مسکرائے اور کہنے لگے:
اگر میں الگ ہو کر یہاں نہ آتا تو بڑے مسائل ہو جاتے۔
آصف صاحب، ہمہ وقت متحرک رہنے والے ادیب تھے۔ ان کی دل چسپی ادب کے کسی ایک شعبے سے مخصوص نہیں تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ انہیں زیادہ لگاؤ فکشن سے تھا، لیکن غزل، نظم، تنقید، ترجمہ، آپ بیتی، خاکے وغیرہ سب چیزوں کو وہ اہم سمجھتے تھے۔
انھوں نے نثری نظم کے سات بہترین شاعروں کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا، جو آکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے شائع کیا تھا۔ ادب کے تمام شعبوں کے حوالے سے ایسا پُر جوش، سرگرم اور مستعد فرد میری نگاہوں سے نہیں گزرا۔
آکسفرڈ ادارے کے لیے انھوں نے بہت سی کتابیں ترتیب دیں اور ترجمہ کیں۔
امینہ سید صاحبہ سے تعلق کی بناء پر ان کے ساتھ مل کر آصف صاحب نے کراچی لٹریچر فیسٹول کی بنیاد رکھی اور کئی برس اسے کام یابی سے منعقد کر کے ملک بھر میں ادبی میلوں کی نئی روایت قائم کی، جس سے ادب اور ادیبوں دونوں کا بھلا ہوا۔
میرا ناول میر واہ کی راتیں آج میں شائع ہوا تو فون کر کے پُر جوش انداز میں مبارک باد دی۔ انھیں مجھ سے ایک شکایت تھی، ناول کی تقریب کے دوران بھی انھوں نےجس کا برملا اظہار کیا تھا، اور وہ یہ کہ مجھے زیادہ فکشن لکھنا چاہیے جو شاید میں اب تک نہیں لکھ سکا ہوں۔
اسی تقریب میں اجمل کمال صاحب بھی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کاشف رضا کا ناول چاردریش اور کچھوا شائع ہوا تو سب سے زیادہ خوشی کا اظہار ان کی جانب سے کیا گیا اور وہ اس کی تعریف کرتے رہے۔
خالد جاوید صاحب کا ناول نعمت خانہ انھوں نے شہر زاد سے شائع کیا تھا۔ ایک جوش کے ساتھ انھوں نے مجھے پڑھنے کے لیے دیا۔ میں نے پڑھ مکمل کیا تو ان سے اور کاشف رضا سے بہت تعریف کی۔ کاشف نے ناول پڑھنے کے لیے مانگ لیا اور میں نے بھی انھیں دے دیا۔ بعد میں وہ کہنے لگے کہ آپ دوسرا لے لینا۔ میں نے جب آصف صاحب سے اس بات کا ذکر کیا تو اگلی ملاقات میں انھوں نے مجھے ناول کی نئی کاپی دے دی۔ لیکن وہ کاپی، عاصم بٹ کراچی آئے تو وہ لے اڑے۔
آصف صاحب جیسا پبلشر دنیا میں شاید ہی گزرا ہو جو اپنے ادارے کی کتابیں دوستوں، پڑھنے والوں میں مفت بانٹتے کرتے تھا۔
میں اور اکثر دوست اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ آصف صاحب کے ہاں سب بہت اچھا چل رہا ہے۔ وہ شہر کے پوش علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ یونیسیف کی ملازمت چھوڑ کر وہ حبیب یونی ورسٹی جوائن کر چکے تھے۔ وہاں جانے کے بعد ان کی شوخئِ گفتار میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔
وہاں کبھی اسد محمد خاں، باسودے کی مریم سنا نے کے لیے آ رہے ہیں، کبھی حسن منظر اپنا کوئی افسانہ پڑھنے۔ کبھی عذرا عباس کی نثری نظموں کا ترجمہ کیا جا رہا ہے اور کبھی شمیم حنفی صاحب لیکچر دینے کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔
افضال صاحب، تنویر انجم صاحبہ اور انعام ندیم یونی ورسٹی میں ہمہ وقت ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ ہم سمجھے بیٹھے تھے کہ آصف صاحب ہمیشہ رہیں گے اور ایسے ہی رہیں گے۔ پھر فیس بک پر ان کی بعض تصویریں دیکھ کر میں ششدر رہ گیا اور سوچنے لگا کہ آصف صاحب کو اچانک کیا ہو گیا؟
ان کےچہرے کی شادابی، آنکھوں کی مخصوص چمک اور لہجے کا غیر متزلزل اعتماد غائب ہو چکے تھے۔ آصف صاحب سے ملنے پر پوچھنے کی ہمت بھی نہ ہو سکی۔
ایک روز یارِ عزیز عرفان جاوید سے ملنے گیا تو باتوں میں انھوں نے آصف صاحب پر بیتنے والی قیامت کی خبر دی۔ جب یہ ذکر کاشف رضا سے کیا تو انھوں نے پُر اسرار طریقے سے اپنے دو خوابوں کے بارے میں سرسری سا بتایا، جو انھوں نے آصف صاحب کے بارے میں دیکھے تھے۔ میرے پوچھنے پر بھی انھوں نے تفصیل نہ بتائی۔
آصف صاحب دوبارہ ڈیفنس سے گلشنِ اقبال منتقل ہو چکے تھے، ایک کرایے کے گھر میں، جو ان کے آبائی گھر کے قریب ہی واقع تھا۔
اس گھر میں جب ان سے ملا تو عرفان جاوید کی سنائی ہوئی خبر کی تصدیق کرنا چاہی۔ اس کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ان پر ڈپریشن کے شدید دورے پڑ رہے ہیں۔ دو بار خُود کشی کی کوشش کر چکے ہیں۔ انھوں نے یہ سب اتنے سرسری طریقے سے بتایا کہ میں حیرت سے انھیں تکتا رہ گیا، لیکن وہ دوسری طرف دیکھنے لگ گئے تھے۔
وہ اپنے ذاتی معاملات پر کم ہی بولتے تھے اور دوسروں کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ جب ان سے آخری بار مل کر اٹھا تو سوچ رہا تھا کہ پچیس برس پہلے بھی یہی گلشن تھا، لیکن تب یہ اس طائرِ خوش الحان کی شوخی و طراری سے کیسا گونجتا رہتا تھا، لیکن اب اسے کس کی نظر لگ گئی۔
اس کے بعد تو پوری دنیا کوہی کسی کی نظر لگ گئی۔ ایک وبا جنگل کی آگ سے بھی تیز رفتاری کے ساتھ ملکوں ملکوں پھیلتی چلی گئی۔
آصف صاحب نے پبلک ہیلتھ میں ڈگری لی ہوئی تھی۔ جب کراچی میں لاک ڈاؤن کا علان ہوا تو انھوں نے دوسرے ہی دن سے تالہ بندی کا روز نامچہ لکھنا شروع کر دیا، جو عن قریب کتابی صورت میں شائع بھی ہونے والا ہے۔
عرفان جاوید کے مطابق آصف صاحب گلشن والے کرایے کے گھر میں بے چینی محسوس کرتے تھے۔ دل نہیں لگتا تھا۔ اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ وقت یونی ورسٹی میں رہنے کی کوشش کرتے۔ دیر تک بیٹھ کر پڑھتے رہتے تھے۔
آج انعام ندیم فون پر کہہ رہے تھے کہ اگر یونی ورسٹی بند نہ ہوتی، تو مجھے یقین ہے کہ آصف فرخی صاحب ہمارے درمیان ہوتے۔
لیکن ایک بڑا صدمہ ہم سب دوستوں کے لیے یہ ہے کہ وہ اب ہماری تحریریں نہیں پڑھ سکیں گے۔ ہم ہمیشہ کے لیے کتابوں پر ان کی بیش قیمت رائے سے محروم ہو گئے اور یہ محرومی چھوٹی محرومی نہیں ہے۔