استاد کی عزت ضرور۔۔”مگر“۔۔
از، مہدی حیات
ہمارے حکمرانوں کا تعلیم سے ”محبت“ کا رشتہ تو ایسا ہی ہے جیسا اکثر پاکستانی ڈراموں میں ”ساس بہو“ کا ہوتا ہے۔روزِ اول سے ہمارے حکمرانوں کا تعلیم کے ساتھ وہی سلوک رہا ہے جو ”سوتیلی ماں“ اپنے بچوں کے ساتھ رکھتی ہے۔ حکمرانوں کا رونا، رونا تو خیر بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے مگر ا ب تو تعلیم کے نام پہ”ہول سیل ریٹ“پر ”ڈگری“ بیچنے والے تعلیمی اداروں، ان کے سربراہان اور کچھ اساتذہ کرام پر بھی رونا آ رہا ہے۔ میں استادوں کے پاؤں کی خاک برابر بھی نہیں مگر پچھلے چند سالوں سے تعلیمی ادارے اور کچھ اساتذہ معاشرے میں اپنی ساکھ اور عزت بر قرار رکھنے میں مسلسل ناکام نظر آتے ہیں۔ میری اس تحریر کا مقصد کسی بھی عزت دار استاد کی عزت اچھالنا ہر گز نہیں کیوں کہ یہی وہ طبقہ ہے جو انسان کو زمین سے آسمان تک پہنچاتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں پھیلے بے حیائی اور بے راہروی کے ”گندے چھینٹوں“ سے وقتِ حاضر کے کچھ ”اساتذہ“ کا دامن بھی ”پاک“نظر نہیں آتایا پھر یوں کہیں کہ کوئی ایک”گندی مچھلی“ پورے تالاب کو گندہ کرنے میں مسلسل کامیاب نظر آتی ہے۔ایسی ہی کچھ گندی مچھلیوں کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
ابھی چند دن پہلے سرگودھا یونی ورسٹی بھکر کیمپس کے میتھ ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس میں اس نے بتایا اور دکھایا تھا کہ اس کے ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ ڈاکٹر ساجد اقبال اس سے کس طرح کے مطالبات کر رہا تھا۔ کیا اس کے بعد وہ اس قابل ہے کہ اسے استاد کہا جائے۔۔؟ وقت سے پہلے پیپر دکھانے کا لالچ دے کر جو حرکات ان صاحب نے کی ہیں ان کا دفاع ان جیسی ”گھٹیا سوچ“ والا کوئی شخص ہی کر سکتا ہے اور تھانے میں رپورٹ درج ہونے کے بعد کیا بھی۔ ویسے یہ ہمارے معاشرے کا ننگا استاد ہے جسے ہم نے ”طبقے کی عزت“کے نام سے کپڑے پہنا رکھے ہیں۔مو صوف میڈیا کے سامنے فرما رہے تھے کہ ان پرگریڈ نہ بڑھانے کی وجہ سے یہ الزام لگایا گیا ہے۔ اب باقی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا تو ہمارے عدالتی نظام کا کام ہے لیکن وہاں بھی ایک مسئلہ ہے کہ جب تک بندہ مر کے نہ دکھائے ان کو سچائی کا ثبوت ہی نہیں ملتا۔
9 فروری 2019 کی خبر ہے کہ ملتان کے گورنمنٹ ایم اے جناح اسکول کے ایک میٹرک کے طالب علم (ار) پر پرنسپل آفس میں استاد سجاد لاشاری، یاسین اور پرنسپل صاحب نے تشدد کیا۔ تینوں اساتذہ نے کان پکڑوا کے ڈنڈے مارے، اب ذرا وجہ بھی سن لیں کہ کیوں مارے، اس طالب علم کو سالانہ تقریب کے لیے 500 روپے فنڈ نہ دینے پر مارا گیا۔ بے ہوشی کی حالت میں جھاڑیوں میں پھینک دیے گئے (ار) کا ضمیر یہ سوال تو ضرور کرے گا کہ یہ استاد ہیں یا جلاد۔۔؟ اسے کہتے ہیں استاد۔۔؟ ایسے ہوتے ہیں قوم کے معمار۔۔؟ایسے ”قومی معماروں“ کے ہاتھوں بننے والی قوم تو”دورانِ تعمیر“ ہی ”بے شرمی“ میں ڈوب کے ”بے حیائی“ اور ”بے راہروی“ کی نظر ہو جائے گی۔
ابھی چند دن پہلے میرے آبائی علاقے لیہ میں استاد کی عزت کو تارتار کرنے والا ایک اسکینڈل سامنے آیا۔یہ گھناؤنا واقعہ فیصل آباد کی ایک یونی ورسٹی کے سب کیمپس میں پیش آیا۔ اس کیمپس کو لیہ کا ایک مشہور سیاسی خاندان ”بھٹی“چلا رہے ہیں۔مرکزی کردار کیمپس کے چیرمین خود ہیں۔
پچھلے چار ماہ سے جناب کی آڈیو ریکارڈنگز مختلف سوشل میڈیا گروپس میں زیرِ گردش ہیں۔ان ریکارڈنگز کے الفاظ اتنے گھٹیا ہیں کہ ان کو لکھنے کی اجازت نہ میرا ضمیر دیتا ہے نہ میرا قلم، بس اتنا ہے کہ جناب نے لڑکیوں کے ساتھ لڑکوں کو بھی ورغلا رکھا ہے۔طالب علموں کے مطابق جناب پرانے”عاشق مزاج“ہیں۔ چونکہ بھٹی خاندان لیہ کی سیاست میں ایک بڑا مقام رکھتا ہے اس لیے معاملہ مقامی سطح پر مکمل دبا دیا گیا ہے جبکہ فیصل آباد مین کیمپس کے وائس چانسلر صاحب نے انکوائری کا حکم دے رکھا ہے۔ سوال تو ہے کہ یہ سب سچ نکلنے کے بعد استاد کے نام پر ”دھبہ نما“ ان انسانوں کو واقعی کوئی سزا بھی ملے گی۔۔؟ ایسا لگتا تو نہیں کیوں کہ تاحال ا س معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اس تحریر کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے میں کچھ ”گڑھے مردے“ بھی اکھاڑ رہا ہوں جس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ میں استاد کی عزت مجروح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں تو بس چند ایک”گندی مچھلیوں“ کو منظرِ عام پہ لا رہا ہوں تاکہ ان کو دیکھ کے باقی حضرات بھی”اپنے گریبانوں“ میں جھانکیں۔
شہید بے نظیر بھٹو یونیو رسٹی میں سالِ آخر کی طالبہ (ف ہ) نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے انگریزی کے استاد پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔ طالبہ نے بتایا کہ استاد کو وائس چانسلر کی پشت پناہی حاصل ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ استاد کے خلاف کچھ نہ کچھ کاروائی تو ہوئی ہو گی۔۔۔ہر گز نہیں، الٹا لڑکی کے والد اعجاز جمالی کو جیل میں ڈال دیا گیا۔”ادا سائیں“کاروائی ہوتی بھی کیسے وائس چانسلر (سابق پی ٹی ٹیچر) ارشد سلیم کو ”ادی“(یاد تو ہو گا لوگوں کو کہ یہ نام کس کا ہے) کی پشت پناہی حاصل تھی۔اس سے قبل سندھ یونیو رسٹی میں طالبہ نائلہ رند کی خود کشی کے پیچھے بھی کسی”درندہ صفت“ استاد کی درندگی چھپی تھی۔عرصہ بیت گیا جب ایک وائس چانسلر اور ایک وزیرِ تعلیم سمیت ایک ٹولہ جامشورو انجینئر نگ یونیورسٹی کے ریسٹ ہاؤس میں ایک غیر ملکی طالبہ کے ساتھ جنسی ہراسگی کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔مگر کیا بگاڑ لیا کسی نے ان ”حیوان صفت“ انسانوں کا۔۔؟
پاکستانی یونیورسٹیز میں ساری طاقت اساتذہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے، جسے چاہیں کئی کئی سال تک ایک ہی مضمون میں فیل کرتے رہیں اور جسے چاہیں اچھے نمبروں سے پاس کر دیں۔اس بے جا طاقت کے نشے میں کچھ”گھٹیا ذہنیت“ کے لوگ اپنی ”جھوٹی انا“ کو برقرار رکھنے، ”باہمی سیاست“ کو ہوا دینے اور اپنے ”راستے کے روڑے“ ہٹانے کے لیے بچوں کو کھلونوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ لاہور کی کچھ بڑی درس گاہوں میں ”ان کھلونوں“ کے ذریعے کچھ بڑے بڑے لوگ دل چسپ”کھیل“ کھیلتے رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک کھیل پنجاب یونیورسٹی کے ایک سینئر پروفیسر افتخار بلوچ کے ساتھ بھی کھیلا گیا تھا۔ کھیل کے مرکزی کردار (سابق وائس چانسلر) کے بارے میں اسی یونی ور سٹی کے طالب علموں نے نعرے لگائے تھے کہ،(۔۔۔۔۔)تیری زندگی۔۔۔ شرمندگی شرمندگی۔
حضرت کو یہ کھیل کھیلتے ہوئے تو شرم نہیں آئی ہو گی مگر آج مجھے ان کا نام لکھتے ہوئے شرم آ رہی ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے اسی سابق وائس چانسلر کو کچھ عرصہ قبل ”ہتھ کڑیاں“ لگانے پر ”عزت مأب میڈیا“ نے آسمان سر پہ اٹھا لیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے حضرت کو پیدائش سے آج تک ماہِ رمضان میں 36 روزے رکھنے کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا ہو۔ میڈیا کے لوگ جناب کو ”پیکرِ شرافت“ ثابت کرنے کی کوشش تو کرتے رہے لیکن یہ نہ بتا سکے کہ جناب کی بے ضابطگیوں کے باعث کتنے بچوں کا مستقبل تباہ ہوا۔ میڈیا نے اس سوال کا جواب بھی نہ دیا کہ ”حاجی صاحب“ کی اپنی یونی ورسٹی کے بچوں نے ان کے خلاف ”چور، چور“ کے نعرے کیوں لگائے تھے۔۔؟کوئی دانش ور یہی بتا دیتا کہ اس جناب نے کیسے میرٹ کی دھجیاں اڑا کے اپنی دوسری بیگم کو لاء کالج کا پرنسپل لگا دیا تھا جب کہ اس کے خلاف Plagiarism کا کیس ابھی تک عدالت میں چل رہا ہے۔
اسی یونی ورسٹی کے متعلق سید سردار احمد پیر زادہ نے ایک ”کالم“ میں سوال اٹھایا تھا کہ سبھی مضامین میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے والے طالب علموں کو ایم اے اسلامیات پارٹ ۲ میں فیل کیوں قرار دیا گیا۔۔؟ معاملے کی تحقیق کے دوران انتظامیہ کی نا اہلی پکڑی گئی مگر پھر وہی معصومانہ سا سوال باقی ہے کہ کاروائی کیا ہوئی۔۔؟
”اقبال کے شاہین“ ہونے کے ناطے ”پلٹ کے جھپٹ کے، جھپٹ کے پلٹ کے “میں استاد کی عزت کا دعویٰ گرج دار انداز میں پھر کر رہا ہوں مگر 16 جنوری 2019 کی ایک خبر سے یہ دعویٰ ہچکولے کھاتا دکھائی دیتا ہے۔ خبر یہ ہے کہ خیر پور سادات کے ایک ہیڈ ماسٹر رانا منصور نے اپنے ایک دوست ”غ م“ کی بیوی کو حوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ مقدمہ درج ہونے پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا مگر عزت کے ”قطب مینار“ رکھنے والے ہیڈ ماسٹر کو چھڑانے کے لیے اہم ہستیاں میدان میں آ گئیں کیوں کہ ”رانا صاحب“ کو علاقے کے مشہور سیاسی خاندان (گ) کی پشت پناہی حاصل ہے۔
میرے استاد کی عزت کے دعوے کا دم تو تب بھی گھٹتا ہے جب کراچی کے ایک ہومیو پیتھک میڈیکل کالج کے پرنسپل(ڈاکٹر محمد علی) کے دفتر کے ساتھ جڑے کمرے میں موجود بیڈ کی اصلی کہانی تب سامنے آئی تھی جب ایک ”مجبور لڑکی“ اخبار میں ”پرسنل سیکرٹری رکھنے“ کا اشتہار دیکھ کر اس درندہ صفت انسان کے پاس جا نکلی تھی۔
اس سے پہلے کہ میرا کیا گیا پچھلا دعویٰ وفات پا جائے میں استاد کی عزت کا دعویٰ پھر کر رہا ہوں کیوں کہ اب تو میری تحریر کے بھی آخری ”دم“ چل رہے ہیں۔ میں بحیثیتِ طالب علم ”استاد کے جوتوں“ کے برابر بھی نہیں مگر استاد کے نام پر معاشرے میں موجود”بد نما دھبوں“ کے ”کڑوے سچ“ کو اکٹھا کر کے بنائی گئی یہ ایک تصویر ہے جسے دیکھ کر سب میرے اوپر ”تھو،تھو“ تو ضرور کریں گے لیکن میرے معصوم سوالوں کا جواب نہیں دیں گے۔ استاد کی عزت ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور موجود رہے گی مگر اساتذہ کو اپنے گریبانوں میں ضرور جھانکنا چاہیے اوراپنے ارد گرد موجو د”گندی مچھلیوں“کی نشاندہی کرنی چاہیے اس سے پہلے کہ وہ سارا تالاب گندہ کر دیں۔