جمہوریت میں سانحوں کا ہر کوئی ذمہ دار ہوتا ہے
(نصیر احمد)
صحت و تحفظ کے حوالے سے پاکستان میں چند قوانین موجود ہیں اگرچہ کافی پرانے ہیں اور ان کو اپڈیٹ کر نے کی ضرورت ہے بہرحال بحری مزدوروں کا ایکٹ 1934 ہے، کانوں کا ایکٹ 1923 ہے، ماحولیاتی تحفظ کا ایکٹ 1997 بھی ہے۔ اس قانون سازی میں خطرناک اشیاء سے تحفظاتی منصوبوں سے لے کر ان کے محفوظ استعمال کی ہدایات پر قوانین میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں صارفی قوانین بھی موجود ہیں جن میں اشیاء کے خطرے سے تحفظ کے لیے اقدامات کو یقینی بنانے کے احکامات دیے گئے ہیں۔
لیکن اگر عوام نے قوانین پر عمل درآمد اگر مشاہدہ ہی نہیں کیا تو وہ قوانین پر عمل پیرا کیسے ہوں گے؟ اور جن ارباب اختیار نے قوانین پر عمل در آمد یقینی بنانا ہے، ان کی ترقی کا وجہ ہی لاقانونیت ہے، اور جب لاقانونیت ترقی کی وجہ بن جائے تو قانون پر عمل کرنے سےمعاشی اور معاشرتی فوائد تک رسائی ممکن نہیں رہتی۔ قانون ایک اقلیت کی اخلاقی وابستگی تک محدود رہ جاتا ہے۔ قانون سے اخلاقی وابستگی عوام کے لیے بنیادی مسئلہ نہیں رہتا۔ اس کے لیے قانون پر عمل در آمد سے معاشی اور معاشرتی فوائد کی وابستگی بہت ضروری ہے۔
صحت و تحفظ کے حوالے سے آگاہی کی عدم موجودی پاکستان میں بار ہا کئی سانحوں کی وجہ بن چکی ہے لیکن کوئی سانحہ صحت و تحفظ کے حوالے سے قوانین میں بہتری اور قوانین پر عمل درآمد کی ترویج کی طرف رہنمائی نہیں کر پاتا کہ گریے میں ڈراما ہے اور کام ایک بے کیف عمل ہے۔ رنگوں کی ہولی ہو یا خون کی اس میں حصہ لینا کام کرنے سے کہیں زیادہ دلچسپ ہے۔
امید ہے کہ شاید بہاولپور کا سانحہ حکومت اور عوام کو شاید صحت و تحفظ پر توجہ دینے پر آمادہ کر پائے۔ چند اشتراکی دوستوں کی طرف سے تو اس سانحے پر عجیب سا رد عمل سامنے آیا ہے۔ جیسے لوگ تیل چوری کرنے کی بجائے کوئی انقلابی قدم اٹھا رہے تھے۔ سانحے کی اندوہناکی کا حل صداقت میں ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں غدر سے لے کر دہشت گردی تک ہر سانحے کے اسباب سے صداقت کو غائب کر کے دروغ پر مبنی جذباتیت کو اس قدر فروغ دیا جاتا ہے کہ سانحے کے اسباب تک رسائی ہو ہی نہیں پاتی، پھر حل کہاں سے آئے؟ یہ رسائی ہو بھی جائے تو حل شور شرابے میں اس قدر متنازعے ہو جاتے ہیں کہ ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔
مذہبی لوگوں کا رد عمل بھی سانحے پر مشیت الہی سے آگے بڑھنے سے انکاری ہے۔ لیکن یہ طعن و تشنیع، یہ گالی گلوچ، یہ زار زار گریہ صحت و تحفظ کے قوانین پر تو عمل در آمد کے لیے مفید نہیں ہے۔
ہمارے ہاں بے کار ہی سہی لیکن جمہوریت کے معانی فیصلوں اور ذمہ داری سے منسلک ہیں جن جگہوں کو ظالم سامراج اور ستم کار استعمار کہا جاتاہے ان میں صحت و تحفظ کے حوالے سے قوانین پر عمل در آمد ہوتا ہے اور قوانین کے احترام کا کلچر بھی موجود ہے۔
یہ مضمون بھی ملاحظہ کیجیے: یہ معیشت نہیں ہے ، مشیّتِ ایزدی ہی ہے
بہاولپور میں ایک حادثہ ہوا ہے، ایک حادثہ سانحہ لوگوں کے فیصلوں کی وجہ سے بنا ہے۔حادثے کے بعد ہنگامی سہولیات سے رابطہ بھی ایک فیصلہ ہے اور تیل جیسی خطرناک شے کی لوٹ مار بھی ایک فیصلہ ہے۔تیل کے خطروں سے عوام تک آگاہی نہ پنچانا اور صحت وتحفظ کے قوانین پر عمل درآمد نہ کروانا حکومتی ناکامی سہی لیکن تیل کے خطرناک ہونے کا علم تو شاید لوگوں کو ہوتا ہے۔
لوگوں نے علم، عمومی ذہانت، اور شہری ذمہ داری پر توجہ نہ دی اور تیل کی لوٹ مار میں گم ہو گئے جس کی وجہ سے ایک سو پچاس کے قریب جانیں ضائع ہو گئیں۔ اب اس سارے عمل میں لالچ، لوٹ مار اور بے وقوفی موجود ہے۔ اس کو نظر انداز کریں گے تو عوام میں علم، عمومی ذہانت اور شہری ذمہ داری کے احساس کا فروغ نہیں ہو سکے گا۔
باقی ادارے کمزور ہیں، حکومت نالائق ہے، ثقافت ابتر ہے، لیکن ہر خرابی اور ہر سانحے میں انفرادی اور اجتماعی فیصلے موجود ہیں اور اگر یہ انفرادی اور اجتماعی فیصلے بہتر کرنے ہیں تو قانونی اور شہری ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ارد گرد ثقافت کی ترتیب کرنی پڑے گی۔
گناہوں کی سزا اور لینن کی تعلیمات سے روگردانی کا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اچھا ہے اشتراکی غریبوں کی حمایت میں گفتگو کرتے ہیں لیکن گفتگو کا حقائق سے تعلق نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے غریب ہونے کے باعث آدمی مقدس اور احتساب سے ماورا نہیں ہو جاتا۔ بلکہ غربت کی وجہ سے جہالت، لالچ، لوٹ مار اور حماقت میں، اضافہ ہوتا ہے۔ بہاولپور کے اس المناک سانحے میں یہ عوامل موجود ہیں، ان سے انکار کا مطلب یہی ہے کہ بات حل کی طرف نہیں بڑھ سکے گی۔
حکومت کے لیے بھی مقام فکر ہے
تعزیتی پیغامات اور انسانی جان کے معاوضوں کے اعلانات کافی نہیں ہیں اور ان سے حادثوں اور سانحوں میں کمی نہیں واقع ہو رہی۔ وہ خان صاحب کہا کرتے تھے،کہ دوستو اگر مرنے کے بعد تم نے میرا شاندار جشن ماتم کیا، مجھے اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ میرے مفدات تو میری ذندگی سے منسلک ہیں۔
امیر خسرو کا شعر بھی ہے:
بلبم رسیدہ جانم تو بیا کہ زندہ مانم
پس ازان من نہ مانم ،بچہ کار خواہی آمد
(مطلب کہ وقت نزاع ہے، تم آجاؤ کہ ابھی زندہ ہوں، مرگیا تو پھر کس لیے آؤ گے۔)
اربوں کی کرپشن کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ عام لوگ پہلے بے گت ہوتے ہیں پھر بے کس ہوتے ہیں۔سرکاری پیسوں پر بے احتساب ذاتی تصرف ہمارے جیسی ہی ثقافت کو فروغ دیتی ہے کہ حادثہ بھی لوٹ مار کی وجہ بن جاتا ہے، اور لالچ میں لوگ پاگل سے ہو جاتے ہیں، جنون کے گن گاتے گاتے لوگ عقل کی بنیادی باتیں بھی فراموش کر دیتے ہیں۔
لیکن جمہوریت میں سانحوں کا ہر کوئی ذمہ دار ہوتا ہے، حکومت بھی، عوام بھی، صحافی بھی، عدالت بھی۔ یہ بڑے بڑے ہوٹلوں میں دوستوں کے ساتھ دعوتیں اڑانے کے قصوں سے کالم بھرے ہوتے ہیں، ان کالموں میں صحت و تحفظ کی باتیں بھی کی جا سکتی ہیں۔ یہ روزانہ عدالت کے باہر کسی کی شرافت پر تند و تیز خطبے بند کر کے صحت و تحفظ کے قوانین پر عمل درآمد پر بھی گفتگو کی جا سکتی ہے۔
اوئے نواز شریف کی بجائے شہری ذمہ داری پر بھی تجاویز دی جا سکتی ہیں۔ عوام کے فیصلوں کے نتیجے میں بننے والی حکومت اور اس کے ادارے ہر وقت بے بسی کا رونا رونے یا شہامت پر فخر کرنے کی بجائے عوام کو صحت و تحفظ کے حوالے سے مفید معلومات دے سکتے ہیں۔
آدمی ہر صورتحال میں اگر مقتدر نہیں ، تو ہر صورتحال میں مجبور بھی نہیں اور فیصلے موجود رہتے ہیں۔ اس لیے گفتگو کا رخ جمہوریت، قوانین کے احترام ،آزادی، عقل اور انسانیت دوستی کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے، موڑا بھی جا سکتا ہے اور گفتگو کا رخ بھی ہمارے فیصلے ہی متعین کرتے ہیں۔