بے چینی اچھی کہ سکون؟
از، نصیر احمد
ایسی بانی بولیے، من کا آپا دھوئے
اورن کو سیتل کرے آپ بہوں سیتل ہوئے
کبیر داس
جس سال بھگت کبیر پیدا ہوئے، اسی سال صاحبقران (امیر تیمور) ہندوستان میں بہت ساروں کو سیتل کرچکے تھے، اور صاحبقران کے اردو (لشکر) بھی سیتل کرنے سے پہلے صوفیا کی برکات سے فیض یاب ہونا نہ بھولتے تھے۔
ایک تو ہم بھی نا، سیتل کرنے والی بانی کہہ ہی نہیں سکتے۔
لیکن بھگتی تحریک جس میں راما نند، میرا بائی، گرو نانک، فرید گنج شکر، سور داس اور رام نند جیسے اولیا اور بھگت موجود ہیں جنھوں نے ہندوستان میں فرقوں، قوموں، ذاتوں، مذاہب اور کمیونیٹیز کے درمیان ہم آہنگی کے لیے ایک کوشش ضرور کی اور بادشاہ اکبر کو آپ اس ہم آہنگی کی قدرے کامیاب کو شش کہہ سکتے ہیں لیکن منگولوں میں مذہبی رواداری کا ایک رجحان خاقان اعظم چنگیز خان کے زمانے سے موجود تھا، مطلب ہے کہ سیتل کرنے میں منگول کوئی امتیاز نہیں برتتے تھے۔ جہاں جو ملا، اسے سیتل کر دیا۔
خاقان اعظم نے آغاز ہی بھائی کو سیتل کرنے سے کیا تھا۔پھر مرکیت ، کرائت، ایغور، خوارزمی، ایرانی، چینی، افغانی ، روسی، اور جو بھی کوئی سامنے آیا اس کو بھی سیتل کیا لیکن کسی قوم پر مذہبی پابندیاں نہیں لگائیں۔
خاقان اعظم تو ہیرالڈ ولیمز کے مطابق مسلمانوں کی قدر بھی کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی چینی نے مسلمانوں کے بارے میں کوئی تضحیک آمیز تصویر دکھائی تو خاقان اعظم نے کہا کہ بھائی چینی یہ رویہ کچھ مناسب نہیں ہے، ہم ایک مسلمان بہادر کے قتل کے بدلے دس سونے کے سکے دیتے ہیں اور کسی چینی کے بدلے میں کبھی ایک گدھا تک نہیں دیا(اس واقعے کے باوجود خاقان اعظم چنگیز خان کے دربار میں چینی اعلی وزارتوں پر مقرر تھے)۔ وہ چینی تو ضرور سیتل ہو گیا ہوگا لیکن خاقان اعظم بھی شاید مسلمانوں کی ان کی جنگی قابلیت کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی سیتل کر گئے لیکن مذہبی رواداری منگولوں کی بادشاہیوں کے ہمیشہ ایک اہم حصہ رہا ہے۔ اسی وجہ سے صوفیا سے ان کے اچھے تعلق بن گئے تھے، جب بھی منگول بادشاہ کسی کو سیتل کرنے جاتے اس سے پہلے صوفیا سے اپنا من ضرور سیتل کرا لیتے تھے۔
اسی وجہ سے تو ابن تیمیہ کو منگولوں سے بہت شکایت تھی۔ایل خانی غازان خان سے تو انھیں یہی گلہ تھا کہ کیسے مسلمان ہو، ہمیں سیتل کرنے لیے آرمینیا کے عیسائیوں سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے ، یہ تب کی بات ہے جب کعبے کو صنم خانے سے پاسبان مل چکے تھے یعنی اس وقت تک ایل خانی، چغتائی اور زریں لشکر والے منگول مسلمان ہونا شروع ہو گئے تھے۔ تبدیلی مذہب میں بھی منگولوں نے اتنا امتیاز نہیں کیا، خاقان اعظم قبلائی خان کے ساتھ جو منگول تھے، وہ کنفیوشس کے اخلاقی ضابطوں کو ماننے لگے تھے اور خاقان اعظم اوغدائی کی اولاد میں سے کافی لوگوں نے بدھ مت اختیار کر لیا تھا۔
اسی رواداری کی وجہ سے ابن تیمیہ تو مسلمانی پر بھی شک کیا کرتے تھے کہ یہ تو ابھی تک نیلے آسمان اور مقدس یاسا( منگولوں کا آئین) کے اسیر ہیں، بس دکھاوے کے مسلمان بنے رہتے ہیں اور منگول کہا کرتے تھے کہ مولوی ہمارا دشمن ہے، اولیا سے پوچھ لو، ہمارے تو قدرتی ختنے ہوئے ہیں۔
لیکن سیتل کرنے کے حوالے سے افسانہ طرازی بھی بہت ہے اور چونکہ سیتل ہونے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی، اس لیے کسی کو گھور کر بھی دیکھا اس نے قتل و غارت کی تہمتیں تھوپ دیں۔اب نئے زمانے کے محقق کہ بہتراوزار کے حامل ہیں کہ فلاں مورخ نے اس آبادی میں لاکھوں کے تہہ تیغ ہونے کا قصہ لکھا ہے لیکن آبادی کی شماریات کے مطابق یہاں کی آبادی تو چند سو سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
ان نئے نویلے تاریخ سازوں کا بھی ایک تعصب ہے کہ منگولیا کی حکومت انھیں اچھی سہولتیں مہیا کرتی ہے اور کچھ یہ زمانہ بھی ثقافتی اور سیاق و سباق والی صداقت پسندی کا ہے یعنی اپنا اپنا سچ اور پھر ان لوگوں نے خاقانوں کی خوبیوں میں کمپنیوں کے مالکان کے اوصاف دیکھنا شروع کر دیے ہیں۔ اور چونکہ منگولوں کے زمانے میں تجارتی رابطوں میں بہت اضافہ ہوا تھا جسکی وجہ سے دنیا کی جان پہچان بڑھ ہی گئی تھی۔ اسی وجہ سے آپ مارکو پولو کو خاقان اعظم کبلائی خان کے بیجنگ کی گلیوں کی کشادگی کی تعریف کرتے دیکھتے ہیں اور کولمبس بھی کچھ مورخ کہتے ہیں در اصل ایک ایسے خاقان کی سلطنت کی تلاش میں امریکہ جا نکلا تھا جس کے عیسائی ہونے کی یورپ میں بہت شہرت تھی ۔
ہمارا زمانہ بھی چونکہ کمپنیوں اور تجارت کے فروغ کا زمانہ ہے ،اس لیے یہ مورخ خاقانوں کے ستم زدوں کی تعداد کچھ گھٹا دیتے ہیں۔ہمارا اندازہ ہے سیتل خاقانوں نے کافی بڑی تعداد میں کیا ہوگا لیکن تاریخ نگاروں کی افسانہ نگاری کے مبالغوں سے کافی کم کیا ہوگا۔
ہمارے اندازے کی وجہ یہ ہے کہ منگول نیلے آسمان کے نیچے اپنے سوا کسی کو کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور اس کے بعد سیتل ہونا یا سیتل کرنا اس زمانے میں کافی ضروری ہو جاتا تھا۔ لیکن یہ نسلی اور سیاسی بات تھی،مذہب کے حوالے سے ایک غیر جانبدارانہ رویہ یا سلطنت میں مذہبی تفرقہ بازی کی حوصلہ شکنی کرنا ان کی روایات کا ہمیشہ حصہ رہا ہے۔
یہ دونوں بہت اہم فیکٹر تھے، صوفی اور بھگت وسطی زمانوں کے ہندوستان میں اتحاد کی ایک کوشش ضرور کررہے تھے اور مغل بادشاہ روایتی طور پر اس سلطنتی اتحاد کے حامی تھے، اس لیے مذہبی رواداری کی ایک سلطنتی پالیسی ہندوستان کے مغل دور کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔
اور رنگے بھائی جان ( اورنگ زیب عالمگیر) کو بھی ضرورت سے زیادہ بدنام کیا جاتا ہے۔ اور وہ بھی صوفی اور مولوی کے درمیان شاہی دربار میں اثر رسوخ کا نشانہ بن جاتا ہے ورنہ وہ کوئی بہت کٹر قسم کا کٹھ ملا نہیں تھا۔ اچھی خاصی عاشقانہ شاعری کرتا تھا اور بہت سارے راجبوت راو، رانے، راول اور راجے اس کے دربار سے وابستہ تھے۔ اس کا ایک مذہبی تعصب ضرور تھا لیکن ان دو نظریاتی کیمپوں نے بات بڑھا دی تھی۔
اور دشمنوں کو سیتل کرنا تو منگولوں کی زندگی کا ایک ایسا اہم پہلو تھا جو انھوں نے پر صورت میں ہی کرنا ہوتا تھا( ہم کچھ امن پسندی کا شکار ہو گئےہیں اور جمہوریت اور جمہوری اخلاقیات کی فکر میں سب کو معاف کر دیتے ہیں) اس لیے اورنگ زیب عالم گیر بھی اپنے دشمنوں کو ساری زندگی سیتل کرتا رہا اور سخی سلطان باہو اسے اپنی برکتوں سے نوازتے رہے۔
چونکہ اس کا بھائی دارا شکوہ وحدت الوجود کے ذریعے اپنے بھائیوں کو سیتل کرنے کے چکر میں تھا تو اورنگ زیب نے سوچا اس شرابی کا طریقہ کیوں اختیا ر کیے جائے، اس نے سخی سلطان باہو سے رابطہ کرتے ہوئے وحدت الشہود کے ذریعے پہلے دارا اور دوسرے بھائیوں کو سیتل کیا اور پھر منگول کلیے کے مطابق جو بھی سامنے آیا اسے سیتل کیا۔ البتہ شفقت پسری کے زیراثر اس نے شاہجہاں کو مکمل طور پر سیتل کرنے سے گریز کیا۔اور پھر شہود جب سامنے آئے تو وجودکی بات کچھ چلتی نہیں، وجود کا سارا کھیل شہود کی روک تھام سے ہی چلتا ہے۔
خیر، بھگتی تحریک اور منگول روایات کے نتیجے میں مذہبی بنیادوں پر سیتل کرنے میں کچھ کمی آگئی لیکن سیاسی اور مالی بنیادوں میں ہندوستان میں لوگ کافی تعداد میں سیتل ہوتے رہے لیکن اورنگ زیب کے بعد ہندوستان میں مغل سلطنت کچھ کمزور ہو گئی اور پھر مغلوں کی سیتل ہونے کی باری آئی تو جتنی قوموں کے لوگوں کو سیتل کیا تھا انھوں نے بدلہ لے لیا۔
کبھی سید برادران سیتل کر رہے ہیں، کبھی درانی ابدالی قتلام کر رہے ہیں، کبھی مرہٹے سیتل کر رہے ہیں اور اس روہیلے نے تو صاحب عالم کی آنکھیں ہی نکال لیں اور آخر میں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو باغی قرار دے کر سلطنت کی کچھ تصنع بچی تھی، اسے بھی سیتل کر دیا۔
ہمارا کہنے کا مقصد ہے کہ صوفی طریقے سے سیتل کرنے اور ہونے میں ہزار خوش نیتی ہو لیکن بات نہیں بنتی کہ انفرادیت کھو کر فرد کا سیتل ہونا ایک بہلاوا ہی ہے اور فرد کاملیت پرستی کی کسی پر تشدد منزل کا مسافر ہو جاتا ہے۔
اس لیے بھلے بھگت کبیر کچھ بھی کہیں،ان کے طریقے پر سیتل نہ ہوں تو اچھا ہے، کچھ بے تابی، کچھ بے چینی جگائے رکھیں کہ آرزو کا اعتراف آرزو کو ، سبز بسنتی یا کیسری چولے پہنانے سے بہت اچھا ہے۔
لو اتنی سی بات کہنے کے لیے، ہم منگولوں کی تاریخ کیوں دہرانے لگے، یوں ہے کہ خاقان اعظم نےبھی من کو سیتل کرنے کے لیے صوفی طرز کے ایک واہمے کا سہارا لیا تھا اور جب خود سیتل ہوئے تو پھر دنیا کو کیسے سیتل نہ کرتے۔