مجھ ایسے ریٹائرڈ رپورٹروں کو گمراہ نہ کیا جائے
نصرت جاوید
سپریم کورٹ کے عزت مآب ججوں کے ہاتھوں نواز شریف محض سیاست میں حصہ لینے کےلیے”نااہل“ ہی قرار نہیں پائے ہیں۔انہیں عدالتی فیصلے نے ”گاڈ فادر“ بھی کہا اور ان کا پورا خاندان جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ”سسیلین مافیا“ ٹھہرا۔
یہ دونوں القاب ایک اُردو محاورے والے ”سو جوتے“ ہیں۔ یہ جوتے کھانے کے بعد انہیں کسی نام نہاد dealکے ذریعے کھانے کو سو پیاز ہی مل سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ میڈیا کی اکثریت مگر دُہائی مچائے چلی جارہی ہے کہ ” deal ہوگئی ہے“۔ نواز شریف نے اس کی تکمیل کے بعد ہی وطن لوٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔
برسوں سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تقریباً ترجمان مانے کئی جید صحافی جنہیں رائے ونڈ، شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان تک یکساں رسائی حاصل ہوتی ہے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہوئے وزیر اعظم کافی الوقت لندن سے وطن لوٹنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ان کی وطن سے عدم موجودگی میں شہباز شریف صاحب کے pragmaticذہن نے اپنے دوست چودھری نثار علی خان کی فراست سے رجوع کیا۔ ان دونوں نے ایک حکمت عملی تیار کی جس پر عمل کرتے ہوئے نواز شریف ”اداروں“ کے سامنے ”نیویں نیویں“ رہتے نظر آئیں گے۔ ان کا ”نیواں“ ہوجانا ”اداروں“ میں ان کے لیے رحم کے جذبات پیدا کرے گا۔
جب تک رحم کے یہ جذبات کھل کر ہمارے سامنے نہیں آتے شہباز شریف صاحب مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کے بعد اس کے اتحاد کو یقینی بنائیں گے۔ شاہد خاقان عباسی کی حکومت لوڈشیڈنگ کے خاتمے پر تل جائے گی۔ احتساب عدالتوں میں نواز شریف کے وکیل قانونی نکات کی بھرمار سے اپنے مؤکل کو فوری سزاﺅں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ دریں اثناء نئے انتخابات آجائیں گے اور نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ کسی نہ کسی طرح ان کے ذریعے مرکز اور پنجاب میں کم از کم سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت اختیار کرلے گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
میرے متجسس ذہن میں سوالات کی نوعیت اگرچہ مختلف ہے۔ جاننا میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ نواز شریف کو سو جوتوں کے بعد سو پیاز سے بچانے والی حکمت عملی کس کو sellکی گئی ہے۔ میرے اس سوال کے جواب میں ”آپ اتنے بھی بھولے نہیں ہیں“ کہہ کر جان چھڑالی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں فرض کرلیا گیا ہے کہ اس ملک کا نظام چلانے والی اصل قوت کوئی اور نہیں صرف عسکری قیادت ہے۔ اس کا نام لینے سے مگر ہم مشرقی بیویوں کی طرح شرماتے ہیں۔
اب عسکری قیادت کے رویے پر غور کریں تو اپریل 2016 سے، جب پانامہ دستاویزات منظر عام پر آئیں، وہ خود کو نواز شریف پر آئی مصیبت سے دور رکھے ہوئے ہے۔ عمران خان، سراج الحق اور راولپنڈی سے اُٹھے بقراطِ عصر نے نظر بظاہر اپنی جہد مسلسل سے وہ ماحول بنایا جس نے سپریم کورٹ کو ازخود اختیارات کے تحت پانامہ دستاویزات میں آئی کہانیوں کی تصدیق یا تردید کرنے پر مجبور کردیا۔ نواز شریف کے وکلاء معزز ججوں کو اس ضمن میں مطمئن نہ کر پائے تو ریاست کے 6 اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک JIT بنی۔ اس کمیٹی نے نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مبینہ طورپر چند مستند ثبوت جمع کر لیے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ان ثبوتوں کی روشنی میں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کےلیے نااہل قرار دیا۔ احتساب بیورو کو یہ حکم بھی جاری ہوا اس کے پاس شریف خاندان کے خلاف موجود مواد کو JIT کے ذریعے حاصل ہوئے تازہ ثبوتوں کے ساتھ ملا کر عدالتوں کے روبرو رکھا جائے۔ اس پورے عمل کی نگرانی کےلیے سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کو ذمہ داری بھی سونپ دی گئی۔
نواز شریف اور ان کے بچوں کا احتساب کا عمل گویا شروع ہوچکا ہے۔ عسکری قیادت اس میں کوئی رکاوٹ کیوں ڈالے؟ اس سوال کا جواب مجھے ڈیل کی دہائی مچانے والے دینے کو تیار نہیں ہورہے۔ اس سوال کے بعد بھی کہ پاک فوج ”مودی کے یار“ کو عدالتی آفتوں سے بچانے کےلیے کوئی کردار ادا کرنے کو تیار کیوں ہوںگی۔
”سسیلین مافیا“ کے ”گاڈفادر“کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد انہیں طویل احتسابی عمل اور اس کے نتیجے میں ہوئی ممکنہ سزاﺅں سے صرف عدالتی نظام ہی کے ذریعے بچایا جاسکتا ہے اور ہماری عدالتیں آزاد ہیں۔ عسکری قیادت ان کی آزادی کے تحفظ اور احترام کی پابند اور دعوے دار ہے۔ وہ کسی deal کے ذریعے احتسابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کو تیار کیوں ہوگی؟
نواز شریف کی مصیبتیں آسان کرنے والی مبینہ ڈیل کے خالق جناب شہباز شریف بذاتِ خود عدالتی شکنجے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حدیبیہ پیپرز والے کیس کو دوبارہ کھولنے کی درخواست سپریم کورٹ کے روبرو پیش کی جاچکی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک بنچ نے یہ حکم بھی دے رکھا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی بابت عزت مآب جج نجفی صاحب کی تیار کردہ رپورٹ کو شائع کیا جائے۔ وہ رپورٹ عدالتی حکم کے مطابق شائع ہوگئی تو شہباز شریف صاحب پر قتل کے مقدمات قائم کرنے کےلیے سیاسی ماحول گرم ہوجائے گا۔ نواز شریف کےلیے ڈیل کے مبینہ خالق کے ساتھ ”نماز بخشوانے گئے تھے روزے بھی گلے پڑگئے“ والا ماحول بن جائے گا۔
شریف خاندان کو اپنی بقاء کے لیے ایک طویل عدالتی اور سیاسی جنگ لڑنا ہے۔ اس سے مفر ممکن ہی نہیں۔ نواز شریف سے کوئی ایک ملاقات کیے بغیر بھی یہ بات میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ یہ جنگ فیصلہ کن مرحلے تک پہنچانے کےلیے پوری طرح تیار ہیں۔ ان کی وطن واپسی بھی اسی مقصد کے تحت ہوئی ہے۔ ڈیل شیل کی کہانیاں سنا کر مجھ ایسے ریٹائرڈ رپورٹروں کو گمراہ نہ کیا جائے۔
روزنامہ نوائے وقت پر شائع ہوا۔