ادھ ادھورے لوک
از، محمد تیمور
محمد حفیظ خان ایک محقق نقاد اور مترجم ہیں۔ ادھ ادھورے لوک انھوں نے پہلے سرائیکی میں لکھا اور پھر خود اس کا ترجمہ کیا۔ یہ ناول 2018 میں شائع ہوا، جلد ہی اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ محمد حفیظ خان نے اس ناول میں معاشرتی جبر، فرقہ واریت عورتوں کے حقوق کی پا مالی انتہا پسندی، تقسیم کے بعد ہونے والے فسادات اور ون یونٹ کے قیام کے بعد کے پیدا ہونے والے مسائل کو بیان کیا ہے۔
پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، یہاں ذات پات اور رنگ نسل سے بالا تر ہو کر انسانیت کی بھلائی کی بات کرنی تھی جب کہ یہاں خود غرضی اور مفاد پرستی نے سارے سماج کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ انھوں نے ذات پات اور برادریوں کے نام پر عوام کو استعمال کیا سماجی اخلاقی قدروں کو پا مال کیا غنڈہ گردی،اور منفی سیاست نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہر طرف نفرت ہی نفرت پھلا دی گئی۔ ون یونٹ کا قیام ایسا سیاہ باب تھا جس کے ذریعے حکمرانوں نے عوام سے ان کاحق چھینا ان سے لسانی ثقافی اور جغرافیائی پہچان چھین لی مقامی لوگوں کو نظر انداز کیا گیا اور اقتدار محض چند لوگوں کے پاس چلا گیا جس سے عوام کا استحصال کیا گیا۔ اس پر مصنف نوحہ کناں ہے۔
مصنف لکھتے ہیں۔ جہاں بہاولپور کے باسی اس کی پیدا وار اور اپنے دریاؤں کے پانی اور اپنی لسانی توقیر کو بھی ترس جاہیں گے یقیناً یہی وجہ ہے کہ نواب صاحب اپنی رعایا سے شرم سار ہو کر ولایت جا کر بیٹھے اور اب ان کا جنازہ ان کی ریاست میں واپس آ رہا ہے۔ فیاض نے تصور کی نگاہ سے دیکھا تو نواب صاحب اس سے نظریں نہیں ملا رہے تھے فیاض نے پھر سوچا کہ مرے ہوئے کے ساتھ ایسا بھی کیا جھگڑا میں تو نواب صاحب کو معاف کرتا ہوں ،دس برس بے قصور قید بھی معاف کرتا ہوں مگر ون یونٹ کا گناہ معاف نہیں کر سکتا کیوں کہ اس کے لیے نواب صاحب مجھ اکیلے کا نہیں بلکہ پوری ریاست اور ریاستیوں کا گنہگار ہے۔
ناول کا آغاز بہاولپور کے ایک گاؤں احمد پور کے دو کرداروں وادھو اور دھچر سے شروع ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اگر نیا ملک پاکستان بن گیا تو ریاست بہاولپور کس کے ساتھ جائے گی پاکستان یا ہندوستان، کے ساتھ الحاق کرے گی۔ دھچر کہتا ہے یا میرا تیرا کیا واسطہ بہاولپور ہندوستان میں رہے یا پاکستان ہم نے تو لونی تیلی ہی کرنی ہے یہ رولا ان کے لیے ہے جو بہت سارا مال جمع کیے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک حکیم رام لعل بھی ہے جو چار چوباروں والی اونچی ماڑی بنا کر بیٹھا ہوا ہے یہ سب کچھ یہی چھوڑ کر بھاگے گا۔
حکیم رام لعل کی حکمت کی دُکان ہے جو اپنے گھر سے بے خبر حکمت کے پیشے سے جڑا ہوا ہے۔ تلسی رام لعل کی اکلوتی بیٹی جو بیس اکیس برس کی نرم و نازک اور خوب صورت ہے، جس کو پانچویں جماعت کے بعد سکول سے ہٹا دیا گیا تھا۔ وشنو تلسی کا منگیتر جو بالکل نکما اور گیا گزار انسان ہے۔ سوڈی مل وشنو کا باپ چاہتا ہے کہ جلد سے جلد تلسی کی شادی کر دی جائے۔ لیکن تلسی وشنو کو بالکل پسند نہیں کرتی نا اس قابل سمجھتی ہے وہ فیاض سے محبت کرتی ہے اور اپنا سب کچھ اس کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔
فیاض اس ناول کا مرکزی کردار ہے فیاض کا باپ نواب آف بہاولپور کا باڈی گارڈ ہے وہ فیاض کو بھی باڈی گارڈ بنانا چاہتا ہے لیکن فیاض اس سے انکار کر دیتا ہے اور حکیم رام لعل کی دکان پر حکمت سیکھنے چلا جاتا ہے اور بہت جلد وہ حکیم بن جاتا ہے۔ رام لعل اس پر مکل اعتماد کرتا ہے اور دکان اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ 47 کی تقسیم کے بعد دو الگ الگ ملک ہندوستان اور پاکستان بن جاتے ہیں اور ریاست بہاولپور پاکستان کے ساتھ شامل ہوتی ہے۔
اس کے بعد اقلیتوں کے وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا ہے بہت سے فسادی رام لعل کے گھر اور دکان کو بھی آگ لگانا چاہتے ہیں اور بعض قبضہ کرنا چاہتے ہیں حکیم رام لعل اپنی دکان اور مکان فیاض کے نام کر دیتا ہے اور ہندوستان چلا جاتا ہے۔ فیاض پوری دیانت داری سے رام لعل کی دکان اور مکان کی حفاظت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا چچا اور باپ بھی اس سے ناراض ہو جاتے ہیں وہ اس کی پروا کیے بغیر ثابت قدم رہتا ہے۔
اس دوران ایوب خان کا مارشل لا آتا ہے اور ون یونٹ کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے اس دوران اینٹی ون یونٹ تحریک اٹھتی ہے۔ فیاض بھی اس تحریک میں شامل ہوتا ہے اس تحریک کے مختلف کارکنوں کی گرفتاریاں ہوتی ہیں۔ ان میں فیاض بھی گرفتار ہو جاتا ہے اور دس سال بغیر کسی جرم کے جیل میں قید رہتا ہے۔ وہاں سے ایک دن سلمیٰ بدرالدین جو ایک ویلفیئر سوسائٹی چلاتی ہے نکلوا کر اپنے گھر لے آتی ہے جب فیاض کو جنسی تعلقات پر مجبور کرتی ہے تو وہاں سے بھاگ جاتا ہے اور ٹرکوں پر آڑھتیوں کا کام کرتا ہے۔
ایوب خان کے خلاف مختلف شہروں گلیوں محلوں میں جلسے جلوس نکلتے ہیں مختلف رہنماؤں کے خلاف غداری کے مقدمات اگر تلہ سازش کیس وغیرہ لایا جاتا ہے۔ اس نظام نے بنگالیوں کو یقین دلایا کہ جو بھی ون یونٹ کے قیام کی مخالفت کرے گا اسے نشانِ عبرت بنایا جائے گا۔
چوبیس اپریل 1969 کو بہاولپور ریاست کے باشندوں نے بہاولپور متحدہ محاذ کی قیادت نے بہاولپور کے فرید دروازے پر بھر پور طاقت کا مظاہرہ کیا اور بہاولپور صوبہ کی تحریک شروع کی پولیس نے تمام راستوں کو بند کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی راستہ بند نہ ہوسکا اس دوران پولیس نے تمام مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی جس کا ان پر کوئی اثر نا ہوا اور اپنی طرف اتے دیکھ کر فائر کھول دیا تقریباً ساٹھ ستر ہزار لوگوں پر کتنی دیر اندھادھند گولی چلتی رہی مگر سرکاری اعلان دو کے مرنے کا ہوا 25 اپریل 1970 صبح سویرے قلعہ ڈیر اور سے ایک میل آگے ان تمام لاشوں کو قبریں کھود کر اس میں ڈالا گیا. یہ صوبہ مانگنے والے مقتولین گنتی میں شمار نہیں کیے جاتے تھے۔ ان میں سب سے پہلی لاش ساری زندگی اپنی اور ریاست کی شناخت کی تلاش میں رہنے والے فیاض کی جسے اٹھا کر پھینکا گیا کوہی نا جان سکا کہ دوسرے کئی ادھورے لوگوں کی مانند اپنی اور دھرتی کی شناخت کے متلاشی فیاض کی تلاش کا سفر یہیں تک تھا اور یہیں سے آغاز ہو رہا تھا۔
ناول میں معاشرتی جبر عورتوں پر ہونے والے مظالم، عورت کو بطور ٹیشو پیپر استعمال کر کے کیسے پھینک دیا جاتا ہے، ہمارے معاشرے میں عورت کی اپنی کوئی پہچان نہیں ہے۔
مصنف لکھتے ہیں۔ ہمارے وسیب کی دو شیزہ بھی کیا نصیب لے کر آنکھ کھولتی ہے جہاں شعور کی پہلی دید کے ساتھ انھیں اپنی زندگی آپ جینے کی بجائے جونک ہونے کا یقین دلایا جاتا ہے جس کا تصور ایک مرد کے ساتھ جڑے رہنے کے سوا کچھ بھی نہیں جونک سیانی ہو تو چمٹی رہے گی اور خون چوستی رہے گی اور اگر اپنے پاؤں پر قائم رہے گی دھج بنائے گی اکڑ دکھاے گی تو اکھیڑ کر پھینک دی جائے گی لخطہ لخطہ مرنے کے بعد اس سے اس کا اپنا وجود ہی اس کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہو جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ جو نا انصافیاں ہوتی ہیں ان کا استحصال ان تمام باتوں کو اس ناول میں زیر بحث لایا گیا ہے۔
فیاض کا کردار ایک ایسا کردار ہے جو ساری زندگی ریاست کی شناخت کے لیے لڑتا ہے اور بالآخر بے نام مارا جاتا ہے مہراں کا کردار ایک ایسا کردار ہے جو معاشرے میں اپنے حق کی تلاش میں ساری زندگی بسر کر دیتی اور اپنا حق نہیں مانگ سکتی۔ تلسی کا کردار تلسی کو معاشرے کے تمام مرد اپنے باپ اور وشنو جیسے ادھ ادھورے نظر آتے ہیں۔ سوڈی مل کا کردار معاشرے کا وہ نا سور ہے جس کو حرام حلال کی پہچان نہیں مصنف نے اس کو مردار کھانے والے جانور گدھ سے تعبیر کیا ہے۔
زبان و بیان کے لحاظ سے بھی بہت خوب صورت ناول ہے مصنف میں جس معاشرے میں ناول تخلیق کیا ہے اسی مماشرے کی زبان بھی استعمال کی ہے۔
ڈھائی سو صحفات پر مشتمل یہ ناول ملتان انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اینڈ ریسرچ نے شائع کیا ہے اس کی قیمت نہایت مناسب صرف چار سو روپے ہے۔