ریاست کا انتظار کیوں کرتے ہو ؟
وسعت اللہ خان
حالانکہ یہ مشہور جملہ ریاست کنیکٹیکٹ کے اس ااسکول ہیڈ ماسٹر جارج سینٹ جان کا ہے جہاں جان ایف کینیڈی نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ مگر بیس جنوری انیس سو اکسٹھ کے بعد سے یہ جملہ دنیا بھر میں ایسے مشہور ہوا اور کروڑوں بار استعمال ہوا جیسے کینیڈی کا ہی ہو۔مزے کی بات ہے کہ کینیڈی نے بھی کبھی ریکارڈ کی درستی کی کوشش نہیں کی۔حالانکہ جب کینیڈی نے یہ جملہ استعمال کیا تو اس وقت ہیڈ ماسٹر صاحب بھی زندہ تھے۔
ہو سکتا ہے کہ انھیں بھی عجیب سا لگا ہو کہ ان کا یہ ہونہار شاگرد بغیر حوالہ دیے کیسے دھڑلے سے کئی برس پہلے کا ان کا کہا گیا جملہ اپنا بنا کے پیش کر رہا ہے۔مگر وہ جو کہتے ہیں کہ استاد کا دل بڑا ہوتا ہے۔اتنا بڑا کہ اس میں ہزاروں شاگرد اور لاکھوں خطائیں سما سکتے ہیں۔اب بچے تو غلطیاں ہی کرتے رہتے ہیں۔ہر بھول چوک پر سرزنش تو نہیں ہو سکتی۔البتہ یہ ضرور ہے کہ میاں کینیڈی کوئی ننھے بچے تو تھے نہیں جب وہ امریکا کے صدر بنے اور حلف برداری کے بعد کہا ’’ یہ مت پوچھو کہ ملک تمہارے لیے کیا کر سکتا ہے۔یہ پوچھو کہ تم ملک کے لیے کیا کر سکتے ہو‘‘۔( یہ پورا قصہ آپ کرس میتھیوز کی کتاب ’’جیک کینیڈی۔الیوسیو ہیرو‘‘ میں پڑھ سکتے ہیں)۔
مذکورہ بالا قول کسی کا بھی ہو مگر ہے بہت شاندار۔کیونکہ یہ بات طے ہے کہ ترقی یافتہ ریاست بھی اپنے تمام شہریوں کو یکساں سہولتیں فراہم نہیں کر سکتی۔ریاستوں کی اکثریت میں تو خیر عوامی اکثریت کو بھی بنیادی سہولتیں میسر نہیں لیکن جو فلاحی ریاستیں ہونے کی دعوے دار ہیں وہاں بھی کوئی نہ کوئی طبقہ یا علاقہ بنیادی سہولتوں سے باہر رہ جاتا ہے۔مثلاً میں نے معیارِ زندگی کے عالمی جائزوں میں ہمیشہ اول یا دوم آنے والے کینیڈا میں ٹورنٹو یونیورسٹی کے باہر نیٹیو انڈینز کو فٹ پاتھ پر سوتے یا کسی ستون کے سہارے بے سہارا بیٹھے دیکھا۔
مگر اس میں ریاست کا بھی کوئی قصور نہیں۔ریاست بھلے جتنی بھی ایماندار ، دلدار اور جذبہِ فلاح سے مالامال ہو اس کا ڈھانچہ کچھ اس طرح کا ہے کہ سو فیصد لوگوں کو آسودہ رکھنا ممکن نہیں۔ جو ریاستیں اپنے نوے فیصد تک لوگوں کو بھی آسودہ رکھ پا رہی ہیں اس کے پیچھے بھی کروڑوں لوگوں کی ایماندارانہ محنت ہے۔
ویسے بھی ریاست لوگوں کے اجتماعی فخر کے اظہار کے سمبل کے سوا اور کیا ہے۔یہ الگ بات کہ جب کسی ریاست کو کوئی استحصالی اقلیت یا سوٹڈ بوٹڈ چور یا ڈاکو ہائی جیک کرلیں تو وہی ریاست ایک مراعات یافتہ اقلیت کی جنت کے سوا کچھ نہیں رہتی۔ایسے حالات میں لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے ریاست کا انتظار کرنے کے بجائے اپنی زندگی میں خود کوئی بہتری لانے کے لیے سوچنا چاہیے۔
جہاں ریاست کسی بھی خامی، غفلت یا کم مائیگی کے سبب نہ پہنچ سکے وہاں سے انفرادی ذمے داری کا سفر شروع ہوتا ہے۔مگر یہ بات کبھی اکثریت کی سمجھ میں نہیں آتی۔اکثریت بیشتر وقت کسی معجزے ، کرامت یا نجات دھندہ کا انتظار کرنے میں مرتی کھپتی رہتی ہے۔البتہ اسی ریوڑ میں سے کچھ لوگ ذرا الگ ہٹ کر سوچتے ہیں تو پہلے پہل پاگل ، سنکی اور پھر نجات دھندہ اور دیوتا کہلانے لگتے ہیں۔یہ دنیا شائد ایسے ہی پاگلوں کے بل پر چل رہی ہے جنہوں نے کبھی ریاست یا غیبی مدد کا انتظار نہیں کیا اور بساط بھر کر گذرے۔
آپ پہیے ، چھاپے خانے ، سلائی مشین، دخانی انجن ، بلب ، اینٹی بائیوٹک ، ریڈیو ، ٹی وی ، کمپیوٹر ، انٹرنیٹ ، موبائیل فون ، مصنوعی کھاد سمیت انسانی ارتقا و ترقی کا دھارا موڑنے والی ایک بھی ایسی ایجاد بتا دیں جو ریاستی سرپرستی میں ہوئی ہو۔ریاست ایجادات و تحقیق کو اپنے اچھے برے مقاصد کے لیے استعمال تو کر سکتی ہے مگر خود سوائے ستم و کرم کے کچھ ایجاد نہیں کر سکتی۔
اس لایعنی اور طویل تمہید کے بعد آتے ہیں فرد کی طاقت کی جانب۔یعنی ایک فرد جس کے پاس کوئی وسیلہ یا بہت زیادہ تعلیم بھی نہ ہو وہ کیسے تبدیلی لا سکتا ہے۔اپنے اندر چھپے ہوئے ایدھی ، مدر ٹریسا اور روتھ فاؤ کو کیسے دریافت کر سکتا ہے۔اب میں بات نہیں کروں گا ایمبولینس دادا کی کہانی سناؤں گا۔
کریم الحق عرف ایمبولینس دادا مغربی بنگال کے ضلع جلپائی گڑی کے دھالا باری گاؤں میں رہتا ہے۔علاقے کی آبادی کا گذارہ چائے کے باغات میں مزدوری یا چھوٹی موٹی کسانیت پر ہے۔کریم بھی چائے باغ میں مزدوری کرتا ہے۔اس کی تنخواہ پانچ ہزار روپے ہے۔ گاؤں سے بنیادی مرکزِ صحت آٹھ کلومیٹر اور جلپائی گڑی ڈسٹرکٹ اسپتال پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔شہر تک رسائی کے تمام راستے یا تو کچے یا پتھریلے یا جو پختہ ہیں ان میں بھی بڑے بڑے گڑھے ہیں۔ کسی حاملہ عورت کے لیے ایمبولینس کا شہر سے آنا ایک خواب ہے۔آ بھی جائے تو پورا ایک دن لگتا ہے۔لہذا اس کا آنا نہ آنا برابر ہے۔
پندرہ برس پہلے کریم الحق کی ماں بیمار ہوئی اور اس سے پہلے کہ کریم اسے لے کر اسپتال پہنچ پاتا وہ راستے میں ہی دم توڑ گئی۔اس دن کریم الحق نے عہد کیا کہ اب وہ کسی کو اس لیے نہیں مرنے دے گا کہ وہ اسپتال نہ پہنچ پایا۔کچھ دن بعد چائے کے کھیت میں اس کا ساتھی مزدور عزیز اچانک چکرا کے گر پڑا۔کریم نے باغ کے مینیجر سے کہا کہ اگر وہ اپنی موٹر سائیکل کی چابی دے دے تو میں عزیز کو اسپتال پہنچا سکتا ہوں۔
مینیجر نے پس و پیش کے بعد چابی دے دی اور کریم اپنے ساتھی کو بقول ڈاکٹروں کے بروقت اسپتال پہنچانے میں کامیاب ہوگیا۔یہاں سے کریم الحق کو خیال آیا کہ موٹرسائیکل کو بھی تو بطور ایمبولینس استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس نے قرضے پر ایک موٹر سائیکل خریدی ، فیصلہ کیا کہ آدھی تنخواہ اپنے اخراجات کے لیے اور آدھی ایمبولینس کے پٹرول کے لیے وقف کرے گا۔
آج تک کریم الحق اپنی موٹرسائیکل ایمبولینس سروس کے ذریعے اپنے اور اردگرد کے بیس دیہاتوں کے لگ بھگ پانچ ہزار مریضوں اور زخمیوں کو اسپتال تک پہنچا چکا ہے۔ضلعی حکومت نے ایک بار اسے چند ہزار روپے دیے اس کے سوا کوئی سرکاری امداد نہیں ملی۔البتہ ریاست نے اسے بھارت کے اصلی ہیروؤں کی صف میں ضرور شامل کر لیا ہے۔اربوں روپے کا کاروبار کرنے والے بجاج موٹرز نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے کریم الحق کی موٹرسائیکل ایمبولینس پر بارش سے بچاؤ کا کور اور دائیں بائیں دو آکسیجن سلنڈرز رکھنے کے پائیدان بنوا دیے ہیں۔
کریم الحق نے اس دوران ایک ڈاکٹر سے فرسٹ ایڈ کی ٹریننگ بھی لے لی تاکہ راستے میں یا کسی گھر میں ایمرجنسی کی صورت میں وہ بروقت مدد کر سکے۔اپنی سالانہ چھٹی کریم الحق اردگرد کے جنگلوں میں بسنے والے قبائلیوں کے ساتھ گذارتا ہے اور جو فرسٹ ایڈ کی تربیت لینا چاہے اسے تربیت دیتا ہے۔
کریم الحق آج بھی موٹر سائیکل کی قسطیں ادا کر رہا ہے۔لیکن گلوکارہ نیہا ککڑ نے اسے تین دن پہلے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ وہ اب نئی موٹرسائیکل لے سکے گا۔ایک مخیر نے اسے باقاعدہ ایمبولینس عطیہ کرنے کی بھی پیش کش کی مگر کریم الحق کا کہنا ہے کہ چار پہیوں والی گاڑی کی اس علاقے کے ٹوٹے پھوٹے راستوں پر ہر جگہ رسائی نہیں ہو سکتی لہذا موٹرسائیکل ایمبولینس ہی زیادہ کارآمد ہے۔
یہ بتائیے کہ اگر کریم الحق بھی کروڑوں دیگر کی طرح ریاست کا انتظار کرتا رہتا تو پانچ ہزار میں سے کتنے مریض بروقت اسپتال پہنچ پاتے۔آپ کا جو بھی پیشہ ہو ، آپ کی جتنی بھی آمدنی ہو ، آپ کے جتنے بھی ذاتی مسائل ہوں۔ آپ چاہیں تو اس بوجھ کے باوجود اپنی اور دوسروں کی زندگی میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ بات ہے آئیڈیے کی ، بات ہے جذبے کی۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے ’’اندھیرے کو بیٹھے بیٹھے کوسنے سے کہیں بہتر ہے کہ ایک شمع روشن کر دو اور اس سے بھی زیادہ اتم کام یہ ہوگا کہ اس شمع کو مسلسل روشن رکھنے کے بارے میں سوچو‘‘۔
بشکریہ: express.pk