(تقی سید)
انسان انصاف، امن، محبت اور خوشحالی کا طلب گار ہے۔ ہر فرد نا انصافی، بدامنی، نفرت اور غربت کو برا سمجھتا ہے۔ معاشرے میں تمام قانون، ادارے اور ضابطے اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ انسانوں کو انصاف، امن اور خوشحالی میسر آ سکیں اور بدامنی، نا انصافی اور محرومی کا راستہ روکا جا سکے۔ ایک فلاحی ریاست کا تصور انہی انسانی خواہشات کی عکاس ہوتی ہے۔ انسانی حقوق محض عظیم ہستیوں کے اقوال، آسمانی کتابوں یا چند اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں تک محدود نہیں بلکہ انسانی حقوق انسانیت کے صدیوں پر محیط اجتماعی تجربات کا نچوڑ ہیں۔
بیسویں صدی میں لڑی جانے والی دو خوفناک عالمی جنگوں نے دنیا کو قائل کیا کہ تمام انسانوں کے یکساں تحفظ، دیرپا ترقی اور تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے اداروں کا قیام اور سیاسی ضمانتیں ضروری ہیں۔ 1945میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے تین بنیادی نکات یعنی امن، ترقی اور انسانی حقوق پر رکھی گئی تھی۔ اس چارٹر کی روشنی میں 10 دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ نے متفقہ طور پر انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ منظورکیا۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ رنگ، نسل، مذہب، جنس، زبان، ثقافت، معاشی حیثیت اور سماجی پس منظر سے قطع نظر تمام انسانوں میں بنیادی مساوات اور برابری کا اصول تسلیم کیا گیا۔
انسانی حقوق کی فراہمی ایسے قوانین، اقدار اور اداروں کے باعث ممکن ہے جو تمام انسانوں کا یکساں استحقاق ہیں اور ان حقوق کی تحصیل کی بنیادی شرط صرف انسان ہونا ہے۔ رنگ، نسل، مذہب، جنس، زبان، ثقافت، سماجی مقام، مالی حیثیت اور سیاسی خیالات کے فرق سے کسی فرد کے انسانی حقوق پر کوئی اثر نہی پڑتا۔ انسانی معاشرہ ہر لمحہ جنم لیتی ہوئی نت نئی تبدیلیوں اور کبھی نہ ختم ہونے والے نئے امکانات کا رنگا رنگ مظہر ہے۔ انسان ہونے کے ناطے ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان تبدیلیوں کو اس طرح منظم اور مربوط کیا جائے کہ ہر نیا مرحلہ تحفظ، انسانی ضروریات کی فراہمی اور خوشیوں کے حصول، پائیدار ترقی اوراختیارات کی تقسیم سے اجتماعی معیار زندگی کو بہتر بنائے۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کے نتیجے میں انسانی معاشرے میں بہت سی بنیادی ناانصافیوں نے جنم لیا۔ اس طرح مراعات یافتہ افراد اور گروہوں نے وسائل پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے لوگوں میں اونچ نیچ کے تصورات پیدا کیے۔ رنگ، نسل اور جنس جیسی پیدائشی خصوصیات کو آڑ بنا کر انسانوں کی اکثریت کو بنیادی ضروریات سے محروم کیا گیا اور ترقیاتی عمل اور فیصلہ سازی سے باہر رکھا گیا۔ معاشرے میں ریاستی جبر، معاشی نا انصافی، سماجی اونچ نیچ، فکری پابندیوں اور تشدد کو دور کرنے کےلئے حریت فکر کا اصول بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں نا انصافی اور استحصال کرنے والے افراد، گروہ اور قومیں حریت فکر و عمل کو کچلنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔ کہیں نام نہاد قومی سلامتی کا ہوا کھڑا کیا جاتا ہے، کہیں ثقافتی قدروں کی پامالی کا رونا رویا جاتا ہے، کہیں عقیدے کی آڑ میں انسانی سوچ پر پہرے لگائے جاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فیصلے کا حق کسے حاصل ہے کہ کون سے نظریات، اصول اور ضابطے انسانوں کےلیے مفید ہیں اور کون سے غیر مفید۔ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فکر و عمل کی آزادی کی جائز حدود کیا ہیں؟ جو بھی فرد یا گروہ آج یہ فیصلہ کرنے کا مجاز قرار دیاجائے گا وہ ماضی کے تعصبات اور اپنے مفادات سے بالا تر ہو کر فیصلہ کرنے سے قاصر ہوگا۔اس ضمن میں واحد غیر جانبدار منصف انسانی تاریخ ہے۔ تاریخ میں کوئی ایسامعاشرہ ترقی نہیں کر سکا جہاں سوچ اور عمل کی آزادی کسی خاص طبقے یا گروہ کے پاس رہن رکھ دی جائے-
پاکستان سے متعلق یہ کہنا درست نہیں کہ ہمارے ہاں فکری آزادی کی روایت موجود نہیں۔ لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں انسانی حقوق کی صورت حال بگڑی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق صرف آئین پاکستان تک محدود ہیں، مذہبی شدت پسندی اور تنگ نظری کی وجہ سے عورتوں کو ابھی تک ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، چائلڈ لیبر اور جبری مشقت جیسے مسائل ابھی تک موجود ہیں۔ فرقہ وارانہ ہلاکتیں ہوں یا اقلیتوں کے حقوق کی کھلے عام پامالی، بنیادی وجہ ریاست کا مذہبی منافرت کی سیاست کرنے والوں کے سامنے سر جھکا لینا ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی اہم ہے کہ انسانی حقوق کی حتمی ضمانت صرف ریاستیں فراہم نہی کیا کرتیں، بلکہ ایک فعال سول سوسائٹی اور عالمی برادری بھی انسانی حقوق کی فراہمی کی لازمی شرط ہیں۔ انسانی حقوق ایک آزاد انسان، ذمہ دار شہری، ہمدرد دل اور روشن دماغ کی پکار ہیں۔ انسانی حقوق کے تعین اور فراہمی کے لیے بنیادی اکائی فرد ہے اسی لیے انسانی حقوق کے تحفظ کی کچھ ذمہ داری بھی فرد پر عائد ہوتی ہے۔