صحیح اور غلط کے غاصبانہ تصورات
از، یاسر چٹھہ
“صحیح” اور “غلط” کے دو زُمروں (categories) میں سوچنا انتہائی غیر جمہوری، عصر کی روح اور انسانی آزادی کے تصور کی نفی ہے۔ انسانی تخلیقیت کے امکانات پر عدم یقین سے عبارت ہے۔
“غلط” اور “صحیح” میں الجھائے رکھنا بد ترین علمی (نیم علمی) اشرافیائی حربے ہیں۔ راقم کو بہ طور سندوں اور ڈگریوں کے حصول کے برسوں کی تعلیم، جسے رسمی تعلیم بھی کہتے ہیں، میں غلط/صحیح یعنی true/false کی جکڑن میں جکڑے سوالات از حد بودے لگتے تھے۔
اپنی زبان کو پرکھتے رہیے، خاص کر ہمارے جیسے ادب و احترام اور تقدیس و توہین کے تصورات کی اندھیری گنجلکوں میں قید معاشروں میں۔
دیکھتے رہیے کہ زبان آپ کی آزادی اور اور ارد گرد کے تنوع کا احترام کر رہی ہے، یا اس کے پروہِِیت اس کے دُرُست و نا درست استعمال پر آپ کو احساسِ گناہ میں مبتلا کر رہے ہیں۔ آپ کے خیال کو قید و بند میں ڈال رہے ہیں۔
آپ اپنے حلقہ میں آزاد ہیں۔
وہ جسے اردو کی علمی ثقافت کہتے ہیں اس کے مشاہدے و مطالعے سے دیکھنے میں آیا ہے کہ مجموعی طو پر یہ اپنے مزاج میں شرف پرست، مولویانہ، اور صحیح/ غلط کی اضداد سے باہر نہیں دیکھ پاتی۔ (جملۂِ معترضہ: کم از کم وقتِ موجود تک۔ یہ چیلنج بھی ہے، اور متبادل امکانات کی زرخیز کھیت بھی۔) اس میں اپنے آپ کو جدید لسانیات کے ماہرین جاننے والے بھی در حقیقت زبان کے تھانے دار ہی سمجھتے ہیں۔ وہ خود کو معیار بندی کرنے اور اس معیار بندی کو لاگو کرنے کا کوتوال جانتے ہیں۔ بغیر لفظ ضائع کیے عرض کرنا ہے کہ ہمیں بہتر اور کھلے علمی ماحول کی اشد ضروت ہے۔
مزید دیکھیے: تعلیم پر ایک نظر از، پروفیسر شیو وسوناتھن
صحیح اور غلط کے غاصبانہ تصورات سے پہلے، بیچ میں، بعد میں، اوپر، نیچے، آس پاس اور ہاں درمیان، بہت تنوع اور بو قلمونیاں ہیں۔
آزاد رہیے، آزادی کو معتبر جانیے، دوسروں کی آزادی کا حق مقدس جانیے۔
استبدادیت اور شرف پرستی کئی رنگوں میں آتی ہے۔ اس کے ہر رنگ کو پہچاننا، یا اس پہچان کی امکانی کوشش کرنا، اپنے وجود کی استواریت کی پہلی کڑی ہے۔