روایت کی تشکیل جدید
(معراج رعنا)
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو
چھتر پتی شاہو جی مہاراج یونیورسٹی
کانپور، بھارت
شعر و اب کے متعلق ہر عہدمیں الگ الگ فکری شیرازہ بندی اور الگ الگ نظریاتی ضابطہ سازی کی گئی ہے۔ کبھی ادب کی تعریف اُس کے موضوعی عناصر کے حوالے سے کی گئی تو کبھی اُس کی معروضی خوبیوں کی بنا پراُسے تمام فنونِ لطائف میں افضل قرار دیا گیا۔ لیکن اگر ہم ان تمام مباحث پر ایک غائر نظر ڈالیں تو ان تمام مباحث کا بنیادی سرا افلاطونی اور ارسطوی شعریات میں پیوست نظر آتا ہے۔
مطلب یہ کہ افلاطونی فلسفے کی سحر آفرینی اور ارسطوئی شعریات کی سیال وجدانیت ادب کے تمام بڑے مباحث میں ایک بڑ ی کلید کے طور پر موجود رہی ہے۔فلسفۂ نقل کی نقل کی بنیاد پر جو فکری عمارت افلاطون نے تعمیر کی تھی، ارسطو اُس میں تھوڑی تھوڑی تبدیلی کر کے اُس عمارت کو ایک عظیم الشان قلعے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یعنی یہ کہ نقل کا جوسیاسی فلسفہ افلاطون کے یہاں اُس کے اپنے زمانے کو اپنے موافق بنانے کا ایک بڑا سبب اور اُس کی مثالی ریاست کا ایک بڑا جواز تھا،اُسے ارسطو اپنے خلاقانہ دلائل سے تطہیرِ نفس کا متصو فانہ ذریعہ بنا دیتا ہے جس سے روح اور مادے کے درمیان ایک واضح خطِ تفریق قائم ہوجاتی ہے۔ اور اس سوال پر ایک مدلل گفتگو کا آغاز بھی ہوتا ہے کہ جوہر پر مادے کو فضیلت حاصل ہے کہ مادہ جوہر کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔
اس طر ح دیکھا جائے تو ارسطوئی شعریات سے شعر و ادب کی مابعد الطبعیاتی شرح علوم الشروح کے طور پر متعا رف ہوتی ہے۔اپنی جاذبیت اور کشش کی وجہ سے افلاطونی فلسفہ سنسکرت اور عربی فلسفہ و فنون پر غیر معمولی طور پر اثر انداز ہوا۔ جس کا نتیجہ سنسکرت اور عربی فلسفہ و فنون میں مختلف تحریکات کی شکل میں سامنے آیا۔ نروان کا تصور ہو یا بھگتی کا نظریہ ،وحدۃ الوجود کی مابعدالطبعیاتی تعبیریں ہوں یا وحدۃالشہود کی روحانی تفسیریں، اُن میں کہیں نہ کہیں افلاطون کی فلسفیانہ طلسم کاری ضرور موجود ہے۔
سنسکرت اور عربی ہی نہیں بلکہ دُنیاکا ہرقدیم ترین ادب اپنی مذہبی قدروں اور اپنے روحانی نظام کے زیرِ اثر تخلیق ہوا ہے اس لیے دنیا کے ہر قدیم ترین ادب کی ایک تہذیبی روایت ہے جو اُس کے جدید اور جدید ترین ادب پاروں میں زیریں لہر کے طور پر دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہے۔جب ہم شعر و ادب کے حوالے سے روایت کی منتقلی کی بات کرتے ہیں تو یہاںیہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا ادب روایت کے بغیر تخلیق نہیں ہو سکتا؟ یہ پھر یہ سوال کہ یہ کیا ضروری ہے کہ روایت کے زیرِ اثر تخلیق ہونے والا ہر ا دب بڑا یا اہم ثابت ہو؟ سوال تو اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم کسی ادب کو اُس کی ادبی روایت سے منہا کرتے ہیں تو ایسا کرنے سے محض ادب روایت سے منہا نہیں ہوتا بلکہ ادب و شعرسے وہ ادبی اور شعری معاشرہ بھی غائب ہو جاتا جو افرا سے نہیں بلکہ شعریات سے تعمیر و تشکیل ہوتا ہے۔ یہ بات اکثر کہنے اور سننے میں آتی ہے کہ ادب انسانی تجربوں اور مشاہدوں کا اظہار ہے۔ لیکن مذکورہ جملے میں تجربے اور مشاہدے کے ساتھ جو مشروط لفظ اظہار ہے اُس پر غور نہیں کیا جاتا۔یہاں لفظ اظہار در اصل ایک اکائی کا نام نہیں بلکہ کلیت کا نام ہے جو ادب کو ادبی روایت سے جوڑتا ہے۔ ادبی روایت سے منحرف ہونے کا مطلب باغی ہونا نہیں بلکہ تہذیب کے ایک بڑے سر چشمے کو بند کرنا ہے۔ تہذیب کے سر چشمے کو بند کرنے کا ایک بڑا مطلب اپنی فکری بنیاد سے الگ ہو کر خلا میں معلق ہو جانا ہے۔ اس لیے ادب کے متعلق یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ اس سے محض مسرت کی تخلیق ہی نہیں ہوتی بلکہ بصیرت کی تخم کاری بھی ہوتی ہے۔
ادب میں مسرت و بصیرت کی افزائش اتباعِ روایت کے بغیر ممکن نہیں۔رہا سوال کسی فن پارے کی عظمت کا تو یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ کسی فن پارے کی عظمت اُس وقت تک متعین نہیں ہوتی جب تک اُس کا لسانی نظام ماضی کے لسانی نظام سے اپنے خلقی رشتے کی توثیق نہ کر دے۔ یہاں خلقی رشتے کی توثیق سے مراد ادبی تہذیب کی تشکیلِ نو ہے جو روایت کی شکل میں ماضی کے ادب سے وارد ہوتی ہے۔ اس لیے ادبی تنقید میں ایک بڑے شاعرکی ایک بڑی تعریف یہ بھی متعین کی گئی ہے کہ اُس کی تخلیقی فکر کا ایک سرا روایت میں پیوست ہوتا ہے۔ یہاں روایت سے مراد وہ ادبی یا شعری سرمایہ ہے جو ایک بہترین ماضی کی شاندار امانت ہوتا ہے۔ لہٰذا اس تعریف کی رو سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کوئی شاعر اپنی نو طرزِ مرصع میں اُس وقت تک جدید نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ قدیم ادب سے اپنی تخلیقی نسبت قائم نہ کر لے۔
لیکن جب تخلیقی نسبت کی بات کی جاتی ہے تو اس ہمارے بدیعی نظام میں ایک بڑی گڑ بڑی کے پیدا ہونے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے ۔اور یہ گڑ بڑی اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ تقلیدِ معنی اور توسیعِ معنی کے بیچ کی حدِتفریق ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔اوسط درجے کے شاعر عام طور سے تقلیدی اور توسعی معنی کا فرق نہیں سمجھتے اور اگر سمجھتے بھی ہیں تو وہ اپنی قوتِ متخیلہ سے اُسے اتنا ارتفاع نہیں بخش پاتے کہ وہ معنی ،توسیعِ معنی کی منزل میں داخل ہو جائے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کے یہاں معنی کی افزائش کا عمل تقلید سے آگے نہیں بڑھتا۔ لیکن جو شاعر اپنی ذہانت و فطانت کی انتہا پر ہوتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ پرانے معنی میں نئے معنی کی ایک لا محدود دنیا آباد کر دیتا ہے بلکہ اُسے اپنی تخلیقی قوت سے کچھ اس طرح ہم آہنگ کرتا ہے کہ اُس کے آگے سابقہ معنی کی چمک دمک پھیکی سی معلوم ہونے لگتی ہے۔
اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: ایک فکری مثلث ، تحریر ، محرر اور تخیل
لہٰذا بڑا شاعر اپنے ماضی کی شعری روایت سے جب کسبِ فیض کرتا ہے تو اُس کے کسبِ فیض میں اتباعی قبح کے بجائے اختراعی حُسن کی جلوہ نمائی نظر آنے لگتی ہے جس کی وجہ سے اُس کے کلام کا معنوی جہان حد درجہ کشاد و بسیط ہو جاتا ہے۔ اور پھر اُس کے کلام کے وسیلے سے سابقہ کلام کے معنی کی توسیعی ہنر مندی ایک نئی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ معنی کی نئی شکل کا ظہور ہی در اصل نئے شعری اسلوب کا ظہور ہوتا ہے جو صرف اور صرف ایک بڑے شاعر کا اختصاص ہوتا ہے:
ما در پیالہ عکسِ رخِ یار دیدہ ایم
ای بے خبر ز لذتِ شربِ مدام ما
(حافظ )
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
( غالب )
حافظ کے مذکورہ شعر میں جامِ شراب میں محبوب کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ یعنی شاعر کے ہاتھ میں جو جامِ مئے ہے اُس میں محبوب کا چہرہ نظر آتا ہے،اس لیے وہ اپنے ساغر بہ دست ہونے کے عمل کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ یہاں شراب کی لذت یا نشے کی کیفیت کا سبب محبوب کے عارض و رخسار کو بتایا گیا ہے۔شعر خوب ہے لیکن حافظ کے دوسرے شعروں کی طرح خوب ترین نہیں۔کیوں کی علت کی جو صورت یہاں نکالی گئی ہے وہ بہت زیادہ مناسب نہیں۔محبوب کے چہرے اور شراب میں سرخی کی ایک مناسبت کے علاوہ دوسری مناسبتیں تقریبا معدوم ہیں۔ شراب اور نشے کی جو فطری نسبت محبوب کی آنکھ سے ہے وہ اُس کے روئے شگفتہ سے نہیں۔روئے شگفتہ یا روئے سُرخ سے گُل کی تشبیہاتی یا استعاراتی نسبت ہماری فارسی شاعری میں احسن طریقے سے بیان کی گئی ہے۔
لیکن حافظ کا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے اس شعر میں صنعتِ تعلیل کو اس طرح برتا ہے کہ وہ پہلی نظر میں صنعتِ تعلیل معلوم نہیں ہوتی۔مطلب یہ کہ مئے نوشی کے جبلی عمل کا سبب عکسِ رخِ یار کو قرار دیا گیا ہے جو شعر کی پہلی قرات سے واضح نہیں ہوتا۔کم و بیش حافظ ہی کی طرح غالب کے یہاں بھی مئے نوشی کے مضمون پر شعر کی بنیاد قائم کی گئی ہے۔ مگریہاں حافظ کی سی تعلیل ہے اور نہ ہی عکسِ رخِ یار کی جلوہ سامانی۔
یہاں اگر کچھ ہے تو وہ شاعرانہ اظہار کی غیر معمولی حشر سامانی جو براہِ راست طریقِ عشق سے تعلق رکھتی ہے وہ عشق جو محبوب کے ساتھ ساتھ مشروب سے بھی ممکن ہے۔ ہاتھ میں جنبش کا نہ ہونا جہاں ایک طرف شاعر کی ناتوانی بیان کرتا ہے وہیں آنکھوں کی حرکت اُس کے حواس کے فعال ہونے کی دلیل بن جاتی ہے۔ یہاں ہاتھ کی ناتوانی ساغر بکف ہونے میں جب مانع بنی تو آنکھ سے مئے نوشی کا جواز پیدا کر کے غالب شعر کی معنویت کو ایک جست میں زمین سے آسمان پر لے گئے۔ پھر مناسباتِ الفاظ پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی ایک مربوط تسلسل کا احساس ہوتا ہے۔
ہاتھ کی مناسبت سے ساغر و مینا اور ساغر و مینا کی رعایت سے آنکھ کی نسبت قیامت ہے۔ یہی نہیں بلکہ جنبش اور دم میں بھی تحرک کی مشترکہ خوبی موجود ہے ۔جس سے پورا شعر حرکیات کی صفت سے متصف ہو گیا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ غالب کے شعر کا ہر پیکر اپنا ایک الگ پیکر خلق کرتا ہے جو مکمل طور پر خود مکتفی معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کی توسیعِ معنی کی ہنر مندی غالب کو اس لیے میسر آئی کی وہ روایت کی تشکیلِ جدید پر قادر تھے۔جدید شاعروں میں ناصرکاظمی ،سلیم احمد ،منیر نیازی، شہریار،عرفان صدیقی،احمد مشتاق اور ظفر اقبال کے یہاں شعری روایت کی تحلیل و تشکیل کی خوبی ایک بالکل نئی صورت میں نمایاں ہے جو انبوہِ سخن گویاں میں اُنھیں الگ الگ انفرادی حیثیتیں عطا کرتی ہے۔ لیکن جدید ترین شاعری کی روایت سے تخلیقی وابستگی دامنِ دل می کشید کی کیفیت پیدا نہیں کرتی۔
تاریخِ ادبیاتِ عالم میں شاعری کی متعدد تعریفیں موجود ہیں۔ اُن تعریفوں سے اتفاق اور اختلاف کی آوازیں بھی صاف سُنی جا سکتی ہیں۔ لیکن اُن میں سے کسی ایک آواز کو سرے سے درست اور دوسری کو نا درست سمجھنا یا سمجھانا کسی طور پر درست نہیں۔ چونکہ ادبی معاشرہ اپنی تعمیری ساخت کے اعتبار سے یکجہت نہیں ہوتااس لیے وہاں آرا میں تنوعات کا پایا جاناعین فطرت کے موافق ہے۔ اس سلسلے میں دیکھنے اور غور کرنے کی اصل بات یہ ہے کہ جو شاعری معرضِ ظہور میں آئی وہ اپنے اندر کتنی جاذبیت رکھتی ہے۔ یہاں جاذبیت سے مراد خارجی کشش نہیں بلکہ داخلی نظامِ حُسن ہے جو کسی شعر یا شاعری میں معنی کی افزائش کا سبب ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ شعر کے داخلی نظامِِ حُسن کی تعمیر الفاظِ محض سے ممکن نہیں ہوتی بلکہ الفاظ کے صفاتی پیکر در پیکر کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ در اصل شاعری میں لفظ سے پیکر کی تخلیق ہی معنی کی تخلیق ہے۔ اور جس شاعری میں معنی کا وفور ہوگو وہ شاعری اہم ہوگی۔
میرے نزدیک شاعری اظہارِ ذات کا وسیلہ ہے جس کی جڑیں روایت میں پیوست ہوتی ہیں لیکن وہ روایت سے من و عن معاملہ نہیں کرتی بلکہ وہ اُس کی تشکیلِ نو پر قادر ہوتی ہے۔ تشکیلِ نو کی ہنر مندی خلقی ذات کو اتنا ارتفاع بخشتی ہے کہ وہ ایک عظیم الشان کائنات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ذات کی کائنات میں تبدلی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ شاعر لفظ سے اُس کے مختلف صفاتی پیکر خلق کرنے پر قادر نہ ہو جائے۔