روہنگیا سے یہ ازالے کا صحیح وقت ہے
نصرت امین
تقسیم کے وقت دنیا کی نظریں نقشے پر اُبھرتے ہوئے پاکستان پر تھیں۔ کمیونسٹ، سرمایہ دارانہ نظام کے حامی، سیکولر، جمہوری اور خاص طور پر مسلم اکثریتی ممالک پاکستان کے ساتھ سفارت کاری کے خواہاں تھے۔ ملک کے مغربی حصے سے سینکڑوں میل دور مشرقی بنگال کا پاکستان میں شامل ہونا دنیا کے لیے نا قابل یقین بات تھی۔ کم و بیش اِنہی دنوں میں مشرقی بنگال کی جنوب مغربی سرحد پار انتہائی کسمپرسی کی حالات میں زندگی بسر کرنے والی ایک چھوٹی سی کمیونٹی بھی پاکستان میں شمولیت کی شدید خواہش مند تھی۔ آج دنیا اس کمیونٹی کو روہنگیا کے نام سے جانتی ہے۔
یہ بین الاقوامی سیاست میں ہلچل اور تبدیلیوں کا دور تھا۔ برما کے شمال مغربی حصے میں ریاستی جبر کا شکار روہنگیا تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ وسائل کی عدم دستیابی اور محدود سیاسی رسائی کے باوجود وہ مشرقی پاکستان کے سیاسی رہنماؤں سے ملنے کی کوششیں کررہے تھے۔
ہمارے لیے مرتّب کی گئی تاریخ کی کتابوں میں حقائق صرف ذہانت کے ذریعے ہی ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ یہ ذہانت ہربار کام آجائے۔ لہٰذا روہنگیا اور پاکستانی رہنماؤں کے درمیان رابطوں سے متعلق تفصیل شاید کسی مصدقہ دستاویز کی صورت میں بآسانی دستیاب نہ ہو۔ لیکن کہیں نہ کہیں کچھ سچے اور صحیح لوگوں کی لکھی اور کہی گئی باتوں سے نئی نسلیں فیضیاب ہو ہی جاتی ہیں۔ اِسی طرح اس معاملے میں مزید کہا جاتا ہے کہ ایک بار روہنگیاؤں کا وفد قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ وفد نے قائداعظم سے اپنے علاقے ’’اراکان‘‘ کو پاکستان میں شامل کرنے کی درخواست کی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین اورسیاسی رواداری کے تناظر میں یہ ممکن نہ تھا۔ قائداعظم جانتے تھے کہ یہ تجویزبرما کے داخلی معاملات میں براہ راست مداخلت تھی۔ سو یوں جنوب مشرقی ایشیا کے سیاسی جغرافیہ سے جڑی ایک اہم تاریخ اپنے جنم سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔
کہتے ہیں کہ تاریخ میں ’’اگر‘‘ اور’’لیکن‘‘ لگا کر بہت کچھ سوچا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پراگر روہنگیاؤں کا علاقہ ’’اراکان‘‘ پاکستان میں شامل ہوجاتا تو وہ بنگلہ دیش کے وجود میں آنے پر ممکنہ طور پر پاکستان سے الگ ہوجاتا۔ یوں روہنگیا قوم کے حالات شایداُنکے بدستور بنگلہ دیش کا حصہ ہونے کے سبب دورِ حاضر میں تعلیمی، اقتصادی، جمہوری اور نظریاتی پہلوؤں سے نسبتاً بہتر ہوتے۔
تقسیم ہند سے پہلے سابقہ برمی ریاست ’’اراکان‘‘ اور مشرقی بنگال کے درمیان سرحد کے آر پار لوگوں کا آنا جانا عام بات تھی۔ کہتے ہیں کہ روہنگیاؤں اور چٹاگانگ کے باسیوں کی زبان اور ثقافت بھی ملتی جلتی ہیں۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ دنیا کے زیادہ تر مسلمانوں کی طرح روہنگیا بھی عرب النسل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میانمار میں اِنہیں سرکاری سطح پر بنگالی مانا جاتا ہے اور اِس بنیاد پر انہیں 1982میں نافذ کردہ شہری قوانین کے تحت غیرملکی قرار دیا جا چکا ہے۔ اِن قوانین کے تحت 1824میں برمیوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ کے بعد راج کی زیرنگرانی بنگال سے برما ہجرت کرنے والا ہر شخص غیرملکی ہے۔ لہٰذا ملک میں موجود کوئی ایک ملین سے زائد روہنگیاؤں پر سرکاری نوکریوں، تعلیم اور شہری حقوق کے تمام دروازے بند ہیں۔
اگرچہ روہنگیاؤں پر مستقل عتاب کا کوئی خاص سبب بیان کرنا ممکن نہیں لیکن دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں کی برما پر یلغار کسی حد تک اس پرانی کشیدگی کی بنیاد سمجھی جا سکتی ہے۔ ہوا یوں کہ جاپانی حملوں کے نتیجے میں انگریزوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور یوں مقامی باشندوں اور دیہی علاقوں میں بسے روہنگیا آبادکاروں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ انگریزوں نے ’’اراکان‘‘ میں جاپانیوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے اِن آبادکاروں کو مسلح کردیا۔ کہتے ہیں کہ مسلح ہوتے ہی روہنگیا آبادکاروں نے کوئی بیس ہزار مقامیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے بعد جاپانیوں نے برما میں تشدّد، ریپ اور خونریزی کا بازار گرم کیا تو روہنگیا بڑی تعداد میں بنگال اور ہندوستان ہجرت کرگئے۔ لیکن انگریزوں نے روہنگیاؤں کی واپسی آسان بنانے کے لیے انہیں ایک بار پھر اسلحہ فراہم کرنا شروع کردیا۔ شاید اسی دور میں ایک عام برمی کے دل میں ہر روہنگیا کے لیے غلط فہمی پیدا ہوگئی۔
دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں کے لیے ہمدردی رکھنے والے ایک برمی فوجی افسر جنرل نیوَن نے 1962 میں اقتدار پر قبضہ کیا تو معصوم اور نہتّے روہنگیا طویل عرصے تک اس کے ظلم و ستم کانشانہ بنے رہے۔ اگرچہ اُس دور میں ہزاروں روہنگیا بیرون ملک فرار ہوگئے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ کچھ جنگجو روہنگیا برما کے شمال مغربی حصوں میں اب بھی مسلح ہیں اور گوریلا حملے کرتے رہتے ہیں۔
میانمار سے ملنے والی حالیہ تصاویر میں تباہی کے مناظر ناقابل بیان ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ کارروائیاں میانمار فوج پرمبینہ تازہ حملوں میں ملوّث روہنگیا گوریلوں کو ڈھونڈنے کے لیے کی جارہی ہیں۔ میانمار کی عاقبت نااندیش فوج ان افراد کو مزید تباہی کے بغیر ڈھونڈھ سکے گی یا نہیں لیکن دنیا میں روہنگیاؤں سے یکجہتی کا اظہار کرنے والی اقوام اس مسئلے کا کوئی قابل عمل حل تلاش کرنے میں اب تک ناکام رہی ہیں۔ انڈونیشیا، ملائیشیا، مالدیپ، ترکی اور پاکستان سمیت چند ممالک نے تشویش کا اظہار ضرور کیا ہے لیکن کسی مثبت نتیجے کا آج بھی انتظار ہے۔ اُدھر ویٹی کن میں پوپ فرانسس روہنگیا کے حق میں برملا اپنے ردّعمل کا اظہار کرچکے ہیں لیکن بیشتر مغربی رہنماؤں کے لیے شاید شمالی کوریا کا معاملہ اس وقت زیادہ توجّہ طلب ہے۔
بنگلہ دیش کے باسیوں اور روہنگیا کے درمیان اگرچہ ثقافت، زبان، مذہب، پڑوس، موسم اور ملتے جلتے مسائل کا رشتہ تاریخی ہے لیکن بنگلہ دیش انہیں اپنانے کے لیے آج بھی تیار نہیں۔ البتہ ماضی کے برعکس اس بار بنگلہ دیش نے کم از کم اِن مجبوروں کے لیے اپنی سرحد کھول دی ہے۔
چند ماہ قبل شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور میانمار کے درمیان پاک چین مشترکہ پروجیکٹ کے تحت تیار کردہ جے ایف 17 طیاروں کی خریداری پر بات چیت چل رہی تھی۔ میانمار اپنے فوجی جوانوں کی تربیت کے لیے بھی پاکستان پر خاطر خواہ انحصار کرتا ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں پاکستان میانمار حکومت سے اِن حالات سے متعلق اپنے تحفظات کا موثر طریقے سے اظہار کرسکتا ہے۔ ماضی میں یقیناً روہنگیاؤں کا علاقہ پاکستان میں شامل کرنا ممکن نہ تھا لیکن آج موقع ہے کہ پاکستان روہنگیا کمیونٹی کے بہترین مفاد میں دوطرفہ اور بین الاقوامی سطحوں پر اعلیٰ سفارت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن پر ثابت کردے کہ محبت کا یہ رشتہ اِن ستّر برسو ں میں کسی بھی وقت یک طرفہ نہیں رہا۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ