ممبئی کا خواب آلود البم : “روحزِن”، ناول از، رحمٰن عباس
تبصرہ نگار: شیخ نوید
‘روحزن’ بھارت کے ممتاز فکشن نگار رحمٰن عباس کا چوتھا ناول ہے۔ اِس سے قبل ان کے تین ناول ‘نخلستان کی تلاش‘، ‘ایک ممنوعہ محبت کی کہانی’ اور ‘خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘ شائع ہوکر ادبی حلقوں میں داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ رحمٰن عباس کو رواں سال مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے روحزن پر بہترین فکشن کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔
اردو زبان کے نامور نقاد گوپی چند نارنگ نے ‘ایک ممنوعہ محبت کی کہانی’ کو کثیر الجہات ناول قرار دیا جبکہ وارث علوی نے مذکورہ ناول میں موجود سینس آف ہیومر کو سراہا ہے۔ مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے ‘خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘ کو فکشن کی بہترین کتاب کے انعام سے بھی نوازا گیا۔ رحمٰن عباس نے یہ انعام ادیبوں کے قتل پر سرد حکومتی رویے کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے 2015 میں واپس کردیا تھا۔
رحمٰن عباس کے پہلے تین ناولوں کے مرکزی موضوعات فرد کے شناختی اور ثقافتی بحران، معاشرے میں پھیلی مذہبی سخت گیری اور قدامت پرست سماج میں لبرل سوچ کے حامل افراد کی نفسیاتی الجھنوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ چوتھا ناول کامیابی سے اسی سلسلے کو آگے بڑھاتا نظر آتا ہے۔
روحزن کا پہلا باب ہی قاری پر سِحر طاری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ممبئی شہر میں بارش کی مُنھ زوریوں اور ہولناکی کا جتنا جاندار اور تخیل سے بھرپور امیج رحمٰن عباس نے تخلیق کیا ہے وہ کسی بھی قاری کو فرطِ مسرت سے جھومنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
ناول کے آغاز سے قبل گابریئل گارسیا مارکیز کے ناول ‘وبا کے دنوں میں محبت‘ سے اقتباس پیش کیا گیا۔ شاید مصنف نے طلسمی حقیقت نگاری کے امام کا قول نقل کرکے ناول کے ٹرینڈ کو سیٹ کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔
درحقیقت، روحزن بھی مارکیز کے مذکورہ بے مثل ناول کی طرح محبت کی ایک انوکھی اور اچھوتی داستان کو بیان کرتا ہے لیکن روحزن کا آغاز مارکیز کے ایک دوسرے شہرہ آفاق ناول ‘ایک پیش گفتہ موت کی روداد‘ کے طرز پر ہوتا ہے۔
مارکیز نے اپنے ناول کا آغاز درج ذیل جملے سے کیا:
جس دن اُسے قتل کیا جانے والا تھا، سانیتاگونصر ساڑھے پانچ بجے اُس کشتی کا انتظار کرنے کے لیے بیدار ہوا جس پر بشپ آرہا تھا۔
جبکہ “اسرار اور حنا کی زندگی کا وہ آخری دن تھا”، روحزن کا ابتدائی جملہ ہے۔
مارکیز سے جملوں کی یہ مناسبت صرف ابتداء تک محدود نہیں ہے بلکہ روحزن میں میجک ریئلزم کا عکس بھی جا بہ جا بکھرا نظر آتا ہے۔ مارکیز کی طرح رحمٰن عباس نے بھی پہلے جملے میں ہی اپنے ناول کا انجام دھڑلے سے آشکار کردیا اور پھر ایک جینوئن فکشن نگار کی طرح پرت پرت کھول کر اپنے قارئین کو ممبئی کا جیتا جاگتا خواب آلود البم دکھایا۔ تھوڑا لبھایا، تھوڑا ڈرایا اور پھر تھپکیاں دے کر خوابوں کی دہشت ناک سرزمین میں دیومالائی قوتوں سے پنجہ آزمائی کے لئے دھکیل دیا۔
روحزن بظاہر دو انسانوں اسرار اور حنا کی داستان محبت ہے، لیکن ممبادیوی، جنات، ارواح، شیاطین اور چرند پرند اپنے مجسم وجود کے ساتھ معاون کرداروں کی شکل میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ زندگی کی حقیقت کہاں خواب کا روپ دھارتی ہے اور خواب کب حقیقت کا جامہ پہن کر جلوہ نما ہوتا ہے؟ سرسری طور پر ناول پڑھنے والا ایسے نازک موقعوں پر باآسانی اپنی راہ گم کرسکتا ہے۔
ناول کی سب بڑی خوبی دوڑتے بھاگتے، چیختے دھاڑتے، گنگناتے اور جگمگاتے ممبئی کو لفظوں کی تجسیم دینا ہے۔ کوچہ بدنام کی شہوت انگیز رنگین راتیں، مشینی انسانوں کے تھکے تھکے دن، جرائم سے سہمی سنسان گلیاں، زندہ آدمیوں سے چہکتے بازار، زندہ دلی سے لشکارے مارتی روشن سڑکیں، جینے اور آگے بڑھنے کی امنگ سے بھرپور نوجوانوں کے شب و روز جگہ جگہ قاری کو خوشگوار حیرت اور مسرت سے ہمکنار کرتے ہیں۔
کہانی کے ساتھ ساتھ پس منظر میں فسادات اور ممبئی بم دھماکوں کے واقعات و اثرات کو فنکاری کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے۔ خودکش حملہ آور بھی بعض مقامات پر اپنی بطور کردار اپنی جھلک دکھا جاتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر تیکنیکی لحاظ سے سلمان رشدی اور مارکیز کی یاد شدت سے آتی ہے۔
ماضی کو حال سے جوڑنا، حال کو مستقبل کا پیش خیمہ بنانا، مستقبل کی ماضی اور حال سے بِھڑانا، تینوں زمانوں کو وقت کی رفتار سے محروم کرکے زمان و مکان کی وسعتوں میں پھیلانا اور پھر ممبا دیوی جیسی دیومالائی قوتوں سے کرداروں کی قسمتوں کے فیصلے کرانا رحمٰن عباس کی فکشن رائٹنگ پر مضبوط گرفت کی صفحہ بہ صفحہ گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔
ناول کی پوری فضا میں خواب ناکی کی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔ اسرار، حنا اور یوسف کے بالخصوص اور دیگر افراد کے مختلف خوابوں نے مکمل کہانی کی فضا کو قدرے خواب آلود کردیا۔ خوابوں نے ناول میں موجود حقیقت اور طلسم کو آپس میں ایسے منفرد انداز میں گُندھ کر رکھ دیا کہ قاری کے لیے بسا اوقات یہ فرق کرنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ خواب میں چل رہا ہے یا حقیقت کی تلخیوں میں جل رہا ہے۔
ممبئی کی بولی ٹھولی جسے ‘ٹپوریوں کی زبان’ بھی کہا جاتا ہے، ناول میں اس کا استعمال کرداروں کی زبان میں فراوانی سے نظر آتا ہے، اور یہی ’سلینگ زبان‘ ناول کو زمینی حقیقتوں کے ساتھ مضبوطی سے جوڑتی ہے۔
حیرت انگیز طور پر جنسی معاملات میں کرداروں کے مکالمے نہایت بے باکی سے ادا کیے گئے ہیں، ناول نگار کا نڈر پن پڑھنے والے کو خوشگوار سرشاری عطا کرتا ہے لیکن ساتھ ہی جنسی وقوعوں کے موقع پر رحمٰن عباس کا قلم فلسفیانہ جھٹکوں، دور از کار تشبیہوں اور پیچیدہ استعاروں کی اوٹ لے کر قاری کی چھوٹی موٹی تفریح کا خون کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہتا۔
حنا کے والد یوسف کی شیطان کی عبادت کرنے والے الومیناٹیز کی خفیہ تنظیم میں شمولیت، شخصیت میں شکست و ریخت اور کایا پلٹ اور پھر زندگی اور سیکس سے متعلق مروجہ تصورات کے رد میں نفسیاتی کشمکش میرے نزدیک ناول کا لذیذ ترین حصہ ہے۔ بعض مواقع پر یوسف اپنے بھرپور اور جاندار کردار کی وجہ سے حنا اور اسرار کو بھی پیچھے چھوڑ کر مرکزی کردار کا علم تھام لیتا ہے۔
ہندو مذہب کی اسطوروں اور حکایتوں سے کردار مستعار لے ناول کی فضا کو بعض مقامات پر آسیبی بنانے کی کوشش سے روحزن میں طلسمی حقیقت نگاری کا ٹچ مزید گہرا ہوگیا۔
محمد حسن عسکری نے کہا تھا کہ ہر دور میں پڑھنے والوں کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہم عصر لکھنے والوں سے برابر سخت مطالبے کرتے رہیں۔ چنانچہ میں بھی رحمٰن عباس سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ عمدہ ناولوں کو ترستی اردو ادب کی کھیتی کو اپنے منفرد اور توانا تخیل سے مزید سیراب کریں، مجھ جیسے قارئین کو مزید حیران کریں اور مکتبی نقادوں کو قدم قدم پر پریشان کریں۔