بے قرار و مضطرب روح قائد
از، ملک تنویر احمد
ڈھلتی شام کے سائے جب دراز ہونا شروع ہوئے تو ڈوبتے سورج کی سنہر ی کرنیں شہر کراچی کے وسط میں واقع مزار قائد کے گنبد کو بھی منور کر رہی تھیں۔ وسیع و عریض قطعہ زمین پر پھیلا ہوئے اس مزار کا اونچا چبوترہ بابائے قوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آنے والے افراد سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مرد و زن، بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں کا جم غفیر اتوار کے روز مزار قائد پر کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں سے امڈ آتا ہے۔
لوگوں کی اس بھیڑ سے مزار قائد اور اس کا احاطہ بھانت بھانت کی آوازوں سے گونجتا رہتا ہے۔ اس مزار کے اندر مدفون وہ شخص سکون و آسودگی کی نیند سو تا ہے جو خدا کی بے پایاں رحمت کا مستحق ٹھہرا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کے الگ خطہ ارضی کے لیے انتھک محنت و جدوجہد کے وہ نقوش تاریخ عالم پر ثبت کیے کہ جو اسٹینلے والپرٹ کے مطابق آج تک دنیانے نہیں دیکھے۔
مزار قائد اور اس کا احاطہ بظاہر چہل پہل اور رونق سے بھرپور دکھائی دیتا ہے لیکن اس پورے قطعہ زمین پر ایک ان دیکھی یاسیت اور اداسی کی چادر تنی ہوئی سی محسوس کی جا سکتی ہے۔
ایک عرصہ بیت جانے کے بعد جب مزار قائد پر جانے کا اتفاق ہوا تو یہ احساس جا گزیں ہوا کہ اس مزار اور اس کے احاطے پر اداسی، افسردگی، دکھ، اضطراب، بے یقینی اور بے قراری اپنے بال کھولے کھڑی ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس مزار کے اندر مدفون شخص بے قرار و مضطرب ہو کر کروٹیں لے رہا ہے۔ اس کی روح بے چین و بے آرام ہو کر اس ملک کے بدحال ماضی، درماندہ حال اور انجانے خدشوں میں گھرے ہوئے مستقبل پر نوحہ کناں ہے۔ اس کے پرشکوہ مزار میں اپنی تخلیق کے ساتھ رکھے جانے والے ناروا سلوک پر ماتم کی آوازیں چار سو گونجتی پھرتی ہیں۔ اس مزار سے برآمد ہونے والی آوازیں اس قوم کے حکمرانوں سے پوچھتی پھرتی ہیں کہ قانون کی سربلندی، آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی آبیاری و پائیداری کے وہ سارے اونچے آدرش کیوں تحلیل ہو گئے جو میرا وژن تھے اور جس تکون کے اندر سارے رموز مملکت نمٹائے جانے تھے۔
آج قانون کیوں شرمسار و نادم ہے کہ اس کی سربلندی کا تصور اب متروکہ شے بن چکا ہے۔ بالادست طبقات اس قانون کے ساتھ کیوں وہ کھلواڑ کر رہے ہیں کہ جہاں زیر دستوں کے لیے اس خطہ ارضی میں کوئی جائے پناہ نہیں بچتی۔
یہ قانون کیوں اتنا بے بس و مجبور ہو چکا ہے کہ یہ قوم کے بچوں و بچیوں کی زندگیوں ا ور عصمتوں کو زندہ درگو ر ہونے کے سامنے مزاحم ہو سکے۔
یہاں کیوں قانون کی سربلندی ایک ناقابل عمل تصور بن چکا ہے کہ جہاں انصاف خریدنا پڑ جائے۔ یہاں عدالتوں میں کیوں کر اس ملک کے عوام دھکے کھاتے پھرتے ہیں لیکن نسلیں گزر جانے کے بعد بھی ان کی جھولی انصاف کے موتیوں سے تہی دامن رہتی ہے۔
روح قائد پوچھتی پھرتی ہے ان منصفوں میں سے جو انصاف کی مسندوں پر فروک ش ہو کر میزان عدل اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہیں کہ کیونکر لاکھوں کیسز اس ملک کی اعلیٰ عدالت سے لے کر نچلی سطح تک عدالتوں میں خاک چاٹ رہے ہیں لیکن سائلین انصاف نہیں پا رہے۔ روح قائد بے قرار و مضطرب ہے آئین کے سربلند نہ ہونے پر کہ کیونکر اس ملک میں آئین کی حکمرانی کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر ہے۔
یہ آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے کیونکر قانون کے لمبے ہاتھوں سے محفوظ ہیں۔ یہ کھلواڑ کرنے والے فوجی جرنیل ہوں یا سیاسی رہنما روح قائد ان سب کا احتساب چاہتی ہے۔ اس ملک کے آئین کو توڑنے والا جب دبئی میں بیٹھ کر داد عیش دیتا ہے تو وہ فقط اس ملک کے آئین کا منھ ہی نہیں چڑاتا بلکہ روح قائد کو بھی چرکے لگاتا ہے۔
یہ وہی قائد تھے جنہوں نے فوج کو اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ آپ کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ناکہ امور مملکت چلانا ہے۔
یہ بے قرار و مضطرب روح ان سیاسی رہنماؤں سے بھی سوال کرتی ہے کہ جو اپنی مقصد براری کی ترامیم تو جھٹ سے پارلیمان سے پاس کروا لیتے ہیں لیکن اس ملک کے زخموں پر پھاہا رکھنے اور اس کے عوام کی زندگیوں کو آسود ہ کرنے کے لیے اپنی آئینی ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہونے میں جنہیں تامل ہے۔
یہ مضطرب روح قائد آئین کی سربلندی کے ناپید ہونے پر بہت زیادہ رنجیدہ خاطر ہے کہ جس نے اس ملک کو طبقات میں کچھ ایسے تقسیم کر دیا کہ اب پاکستانیت کا تصور فقط درسی کتابوں میں پایا جاتا ہے لیکن برسر زمین اس کا کوئی وجود نہیں۔
یہ بے قرار روح قائد ان جمہوری حکمرانوں سے بھی شکوہ کناں ہے جو مالا تو جمہوریت کی جپتے ہیں لیکن ان کے طور طریقے کسی طور بھی جمہوریت پسندوں والے نہیں۔
یہ روح قائد اس ملک پر قابض اس سیاسی طبقے کی حرکات پر افسردہ ہے جو ہرتقریر میں ان کا ذکر کرتے ہیں لیکن اپنے عمل سے کبھی ایک رتی بھی ثابت نہیں کرتے کہ وہ بابائے قوم کی جمہوریت پسندی پر عمل پیرا ہیں۔
یہ نام نہاد جمہوری حکمران قوم کے بچوں کی بجائے اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوانے پر جتے ہوئے ہیں۔ ان کی اولادیں منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتی ہیں اور پھر انہیں مسیحائے قوم کی صورت میں پیش کر کے قوم کی گردنوں پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔
یہ روح قائد پوچھتی پھرتی ہے ان جمہوری افراد سے جوجمہوریت پسندی کی ڈینگیں مارتے پھرتے ہیں لیکن اپنی جماعتوں میں جمہوریت کو رواج نہیں دے سکے۔ یہ روح قائد ان اہل دانش و علم سے بھی پوچھتی ہے کہ تم نے اپنا حق کتنا
ادا کیا؟ تم کیونکر کبھی ایک حکمران کا تو کبھی دوسرے کا کاسہ لیس بن گئے اور ان کے دسترخوانوں سے مراعات و انعامات کے چند لقمے اٹھانے کے لیے تم نے کیوں اپنے ضمیروں کے سودے کیے اور اپنے قلم اتنے سستے بیچ دیے۔
روح قائد ہر روز اپنے احاطے میں گارڈ کی تبدیلیchange of guard ملاحظہ کرتی ہے کہ کس شاندار طریقے سے یہ کام انجام دیا جاتا ہے لیکن وہ بڑی حسرت سے منتظر ہے اس دن کی جب اس ملک میں پر امن طریقے سے تبدیلی اقتدار بھی ہو۔
اس ملک کے عوام نے اپنی تاریخ میں فقط 2013 میں پر امن طریقے سے انتقال اقتدار دیکھا۔ اب 2018 میں یہ پر امن طریقے سے ہوتا ہے یا نہیں روح قائد اس کی منتظر ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ روح قائد اس کی بھی منتظر ہے کہ پاکستان کے عوام اس برس ہونے والے انتخابات میں اس کے آدرشوں اور نظریات کے صحیح پیروکاروں کو منتخب کرتے ہیں یا پھر انہی رہزنوں، لیٹروں، خائنوں، چوروں، بھتہ خوروں کو منتخب کرتے ہیں جو عرصہ دراز سے جونکوں کی طرح اس ملک کے جسم و جاں سے چمٹ کر اس کے وجود کو کھوکھلا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔