مادیت بھی روحانیت کا حصہ ہے

aik Rozan writer picture
ارشد محمود

مادیت بھی روحانیت کا حصہ ہے

از، ارشد محمود  

روحانیت اور مذہبیت کیا ہے، ان دونوں میں کوئی فرق ہے، آج کے دور میں جسے age of reasoning کہتے ہیں، وہاں زندگی اور کائنات کے بارے سائنسی حقائق سامنے آنے کے بعد یہ دونوں کہاں کھڑے ہیں۔

مذہبی میکانیات مخصوص عقائد، رسومات، تقدیسی شخصیات اور علامات کا مجموعہ ہوتا ہے، جن پر بے چوں و چرا ایمان لانا ہوتا ہے۔ ان کا عقلیات، معروضی حقائق یا تجزیے سے کوئی تعلق نہیں۔ ایمان پہلے لایا جاتا ہے، اور سوال بعد میں اٹھایا جاتا ہے جس کا مطلب اور مقصد اپنے نظریاتی فریم میں موجود میکانیات کو جائز ’’ثابت‘‘ کرکے اپنے آپ کو خوش کرنا یا خود کو دوسروں پر فوقیت دینا ہوتا ہے۔ ہر ایک عقیدے کے ماننے والے اپنے اپنے عقائد پر خوش اور مطمئن ہیں کہ ان کا عقیدہ ہی اس دنیا کی آخری سچائی ہے! اور ان کی نجات اسی میں ہے۔

عقیدہ انسانی تہذیب میں اس وقت شروع ہوا، جب انسان اپنے شعور کی ابتدائی حالت سے گزر رہا تھا۔ وہ اس کی ’’سادہ لوحی‘‘ کا زمانہ تھا، اسے فطرت کی ناموافق زور آور قوتوں کا سامنا تھا اور وہ ان کے سامنے بے بس اور کمزور تھا۔ چناں چہ اسے نفسیاتی سہارے کی ضرورت تھی۔ مذہب نے انسان کا ایک اور نفسیاتی مسئلہ حل کیا۔ عملی زندگی کو درپیش مسائل اور چیلنجوں کا تقاضا ہوتا ہے کہ انسان کو سو طرح کی ناانصافیاں اور ظلم روا رکھے۔ عقیدوں سے انسان نے اپنے اس ’’احساسِ گناہ‘‘ سے بھی نجات حاصل کر لی۔

جرم کریں، گناہ کریں، ان سب کو دھونے کے لیے سو طرح کے حیلوں اور طریقوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ چناں چہ انسان کو guilty ہونے کے احساس سے بھی نجات مل گئی، انسان کا moral question بھی حل ہو گیا۔ اسی طرح ساری عمر کے مجموعی گناہ بھی بالآخر کسی نہ کسی طریقے سے معاف ہوجائیں گے۔ گویا عملاً ماورائی قوت انسان کے اپنے مفاد میں ’استعمال‘ ہونے والی ہستی ہو گئی جو ماحول اور حالات کو انسان کے تابعِ مرضی کر سکنے میں اس کی مدد کرتی۔ پھر مذہب نے انسان کا ایک اور نفسیاتی مسئلہ بھی حل کرنے میں مدد کی، وہ تھا موت۔

مزید ملاحظہ کیجیے: سائنس کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے

انسان بہرحال موت کو قبول نہیں کرسکا۔ یہ زندگی ختم ہوجائے گی، میں نہیں رہوں گا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد میری یہ سب مادی، جذباتی رشتے اور لگاؤ attachments کیا بالآخر سب فنا ہو جائیں گے۔ کیا زندگی کو ابدی شکل نہیں دی جا سکتی۔ چناں چہ اس نے عقیدوں سے یہ بھی اپنا مسئلہ حل کروایا۔ اسے بعد از حیات ایک اور زندگی کسی نہ کسی شکل میں دینے کی ایک تصوراتی راہ نکالی۔۔۔

چناں چہ روائتی مذہب نے انسان کے تین بے حد بڑے اور اہم کام کیے۔ فطرت کی قوتوں سے مقابلے کی سکت، guilt کے احساس سے نجات، اور موت کے خوف پر قابو، survival کی جنگ میں انسان کا یہ ایک ٹریک تھا۔ انسان بیک وقت ایک دوسرے ٹریک پر بھی کام کر رہا تھا، وہ تھا تسخیرِ فطرت کی مادی سطح پر کوششیں اور فطرت کی قوتوں کے قوانین کو سمجھنے کا ذہنی عمل۔ یہ فلسفے، سائنس اور اوزار و ہتھیار بنانے کا عمل تھا۔ اور آج اکیسویں صدی میں انسان اس مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ اسے پہلے ٹریک کی اتنی ضرورت باقی نہیں رہی۔

فطرت کی قوتوں سے اب وہ مقابلہ انجینئرنگ کے ذریعے کر سکتا ہے۔ اسے اس کے لیے معجزوں، کرتبوں اور ہستیوں کی ضرورت نہیں رہی۔ زندگی اور موت کے سارے پراسس کو بھی وہ اچھی طرح سمجھ رہا ہے۔ اَنا کے مسائل بھی حل ہورہے ہیں جو اِس کائنات اور زندگی کے عمل کو سمجھنے میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ مورال ایشو بھی سماجی اور نفسیاتی سائنسیں حل کررہی ہیں۔ ان پر بھی انسان اپنی یونیورسٹیوں میں بے بہا کام کر رہا ہے۔ علم طب نے انسانی زندگی کی fragility کا مسئلہ بھی کافی حد تک حل کر لیا ہے، اور ظاہر ہے ان تمام علوم میں نہ صرف مزید fine tuning ہوتی چلی جائے گی بلکہ انسان اپنے تمام طرح کے مادی، سماجی اور نفسیاتی مسائل پر بہتر سے بہترعلم اور کنٹرول حاصل کرتا جائے گا۔

اس کے لیے اب اسے کسی مابعد الطبیعیات کی ضرورت ہے اور نہ کسی مابعدالطبیعیاتی نظام کی۔ وہ اس بات کو سمجھ گیا ہے، اس نے دونوں کام تاریخ کے ایک لمحے میں خود ایجاد کیے تھے۔ عقاید زیادہ تر اب صرف وہی ہیں، جہاں علمی اور معاشی ترقی ابھی نوزائیدہ ہے۔ عقاید نے کسی زمانے میں انسان پر بادشاہت کی ہے۔

اب یہ ملاؤں، پادریوں اور پنڈتوں اور سیاست دانوں تک محدود ہے۔ عقیدوں کو محض ایک نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب اپنے پسماندہ، کمزور، غریب اور کم علم عوام کو بے وقوف بنانا رہ گیا ہے۔ جو درمیانہ اور تجارتی طبقہ عقیدوں پر عمل پیرا نظر آتا ہے، اس کا سراسر مقصد اپنے استحصالی اور لوٹ مار کے عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے guilt کا خاتمہ کرناہوتا ہے۔ انہیں موت کا خوف ہوتا ہے۔ وہ اپنی اکٹھی کی ہوئی دنیاوی دولت کی ملکیت کو عقیدوں کے ذریعے ابدی شکل دینا چاہتے ہیں۔ ورنہ ہر ماورائیت پر ایمان رکھنے والا آدمی مادی دولت اور وسائل کے حصول میں اتنا ہی پاگل ہے، جتنا کوئی بھی دنیاوی آدمی ہو سکتا ہے۔

اب ہم آتے ہیں روحانیت کی طرف۔ مادہ اور روح کی بے حد پرانی لڑائی ابھی تک جاری ہے۔ اس پر کچھ کام صوفیا کرام نے کیا ہے۔ کچھ فلسفہ اور نفسیات دانوں نے اور کچھ اب کام علم طبیعیات (فزکس) کی سطح پر بھی سامنے آرہا ہے۔ انسانی ذہن نے یہ ماننے سے انکار کیا ہے کہ وہ محض ایک اینٹ، پتھر کی طرح ہے۔ انسان کو یہ احساس رہا ہے کہ وہ اپنے جسمانی وجود اور جسمانی نظام کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ یہ سوالات اسے ستاتے ہیں، وہ کیا ہے، کیوں آیا ہے، کہاں ختم ہوجاتا ہے۔ یہ جذبات، محسوسات، لگاؤ کا سارا کھیل کیا ہے۔

اصل میں ہم جس دنیا اور کائنات میں رہ ہیں اور جس کا ہم لاینفک حصہ ہیں، وہ بے حد و حساب پیچیدہ ہے۔ Fluidہے، ایک ہی لمحے کی ایک ہی ذرے کی لاتعداد جہتیں ہیں۔ ہم ایک ہی لمحے میں سب جہتوں اور پرتوں کو ایک ہی وقت میں اپنی گرفت میں نہیں لے سکتے۔ وہ ایک ہی وقت میں مختلف دنیاوں میں رہتا ہے۔ اس کی ایک دنیا عقل سے متعلق ہے، دوسری نفسیاتی، تیسری جذباتی، چوتھی مفاداتی اور سماجی۔

ہم ایک وقت میں صرف ایک یا کچھ تھوڑی سی جہتیں ہی پکڑ سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ بھی آتا ہے کہ ایک لمحہ، ایک ذرہ جو تھوڑی سی جہتیں کسی ایک لمحہ میں پکڑ رہا ہے، ساتھ والا لمحہ، ساتھ والا ذرہ عین اسی لمحے کسی اور جہتوں کی پکڑ میں ہے۔ پھر یہ بھی بات ہے جس وقت ہم لمحہ کہتے ہیں، لمحہ تو گزر بھی چکا ہوتا ہے۔ بات کیسے کریں؟ اور ایک مستحکم بات کا دعویٰ تو بلکہ ہی فضول ہو جاتا ہے۔ ایک بے حدود مسلسل عمل اور ردّعمل، عمل کے عواقب کو ہم نہیں پکڑ سکتے۔ ہم اور ہماری توانائیاں زمانی اور مکانی حدود میں مقیّد ہیں۔ جب کہ ہمارا سامنا infinity کے ساتھ ہے۔ چناں چہ سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ہمیں کچھ parameters بنانے پڑتے ہیں۔

ہر دم وجود میں آتے اور پیدا ہوتے تضادات کی سائنس کو جاننا ہے اور انسان کے اس سفر کو بھی جو حقیقتاً ابھی ابھی شروع ہوا ہے، اس زمین کی عمر کو سامنے رکھتے ہوئے، انسان کو تو وجود میں آئے ہوئے ابھی فقط چند منٹ ہی ہوئے ہیں لیکن وہ کہاں کہاں سے گزر گیا ہے۔۔۔ اور کیا کچھ کر گیا ہے۔ ہمارے لیے یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ مزید وہ کیا کچھ نہیں کرجائے گاآنے والے وقت میں۔ ٹھیک ہے، عاشقی صبر طلب ہے اور تمنا ئیں بے تاب۔۔۔

ہم پورا سچ فوری طور پر جان جانا چاہتے ہیں یا پورا سچ جان جاننے کے دعویدار بن کر اپنی انا کو خداکے سنگاسن پر بٹھا کر اپنے آپ کو خوش کر نا چاہتے ہیں۔ ہم پورا جیون ایک ہی لمحے میں جی جانا چاہتے ہیں۔ ہم بہت سہولت سے بھول جاتے ہیں کہ ہم نامکمل ہیں اور ہمیشہ نامکمل رہیں گے، اس لیے جو Whole ہے وہ الگ سے کوئی وجود نہیں، وہ انہی لامحدود ناقصات (imperfections) کا مجموعہ ہے۔ اس کے خمیر میں نامکمل رہنا لکھا ہے۔ وہ محوِ حرکت ہے، ایک ازلی اور ابدی حرکت میں۔۔۔ ہمیں ’حرکت‘ میں ہی رہنا ہے۔ ہم ’حرکت‘ میں ہی رہیں گے۔۔۔ اس سے کوئی مفر نہیں۔۔۔ مطلق تعریف (definition) کسی ساکت چیز ہی کی ممکن تھی۔ مطلقیت کا وہم ہمیں کٹرپن کی طرف لے جاتا ہے۔، اپنی انا کو fluid کرنا ہے۔

ہم کائنات کے بہاؤ میں ہیں، ہمارے آس پاس جو کچھ بھی ہے، بہاؤ میں ہے۔ زمان اور مکاں کے اسی بہاؤ میں تیرنے کو روحانیت کہا جا سکتاہے۔ آج کے دور میں روحانیت کسی مابعدالطبیعیاتی شعبدہ بازی کا نام نہیں۔ جبلتوں سے آگے انسان کی جو بھی سرگرمیاں ہیں وہ انسان کی ذات کا روحانی حصہ ہے۔ اس کا مابعد الطبیعیات سے کوئی تعلق نہیں۔ طبیعیات سے ماوراء کچھ بھی نہیں، جو کچھ بھی ہے طبیعیات کے اندر ہے اورایک طبیعیاتی عمل کی پیداوار ہے، اصل میں یہ مذہب تھا جس نے مادہ اور روحانیت میں دوئی پیدا کی اور ان دونوں کو متصادم صورت میں دیکھا جب کہ مادہ اور روح ایک ہی چیز ہیں۔

روح مادے کی ہی خصوصیت ہے چناں چہ یہ دونوں کسی تصادم کے بغیر بلکہ بے حد ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ انسان ایک spiritual being ہے، لیکن اس کا ایک مادی جسم بھی ہے، ان میں کوئی تصادم نہیں ہے۔ یہ بھی نہیں دیکھا جا سکتا کہ جسم کہاں ختم ہو رہا ہے اور روح کہاں شروع ہو رہی ہے۔ وہ تو whole ہیں۔ روحانیت کے لفظ کو پیری فقیری سے پراگندگی منتقل ہوئی ہے بلکہ یہ انسان کی وہ لطیف حسیات ہیں جس میں ’میں‘ ’تو‘ میں گھلا محسوس ہوتا ہے۔ روحانیت اس آگہی (awareness) اور احساس کا نام ہے کہ کائنات کے سارے کا سارا وجود ایک ہی سلسلے میں چل رہا ہے اور ہر جزو اس کائناتی سلسلے میں ایک دوسرے سے منسلک اس کائناتی بہاؤ میں محو سفر ہے۔

سوچ، فکر، دکھ، خوشی، امید، پیار، انتظار، حسن۔۔۔ نشہ کیا ہے؟ انسان کو کیوں ضرورت پڑی کہ وہ mind کے علاوہ ایک ’’دل‘‘ اپنے آپ کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ایجاد کرے۔ حالاں کہ جسم کے اندر جو دل نام کی گوشت اور خون سے بنی چیز ہے، اس کا اس دل سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔ جسے ہم روزمرّہ محاورے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ روحانیت مادی انسان کا اور ہمار ی مادی دنیا کا وہ حصہ ہے، جو بے حد soft ہے، subtle ہے، جیسے پھول مٹی سے ہی بنا ہوتا ہے۔ لیکن پھول کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ مٹی کے سوا کچھ نہیں۔ اور اگر ہم یہ ہر وقت کہنے پر مصر ہوں کہ پھول صرف مٹی ہے اور کچھ نہیں تو پھول کی ساری لطافت برباد ہو کر رہ جائے گی حالاں کہ اس کی صداقت سے کوئی انکار نہیں۔

یہی حال اس دنیا میں ’’روحانیت‘‘ کا ہے۔ یہ جو ہمارا وجود ہے اور ہم جس دنیا میں رہ رہیں اس کے سارے کا سارا مادی ہونے پر کوئی شبہ نہیں۔ اصل مادہ ہی ہے، پہل مادہ ہی ہے، روح مادے کی ثانوی خصوصیت ہے۔ اگر ہم انسانی وجود کے soft اور subtle حصے کو روح اور روحانیت سے تعبیر کر لیں تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ روح اور روحانیت میں عقیدوں نے جو مفہوم پیدا کر رکھا ہے، اسے صرف اس سے پاک کرنا ہے۔ ورنہ روح اور روح کے الفاظ، خیال اور مفہوم اپنی جگہ انسانی وجود کا اہم جزو ہے جسے رَد نہیں کیا جا سکتا ہے۔

جب تک زبان ابھی روح کے متبادل الفاظ ایجاد نہیں کر تی۔ جب ہم سارے انسانوں کے بارے میں اپنے ہونے کا احساس پاتے ہیں، جب یہ ساری زمین، تمام مخلوقا ت، آسمان، چاند تارے۔۔۔ سب اپنے لگنے لگتے ہیں۔۔۔ سب پر پیار آنے لگتا ہے۔۔۔ میں کا تُو میں شامل ہونے کا احساس، جزو کا کل ہو جانے کا احساس۔۔۔ یہ سب روحانیت کی کرشمہ سازی ہے۔ طبیعیات کی ایک اپنی مابعد طبیعیات ہے، جو انسان کے اندر بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔

لیکن یہ وہ روحانیت ہے جس کا اوّل و آخر مادہ ہے۔ مادہ ہے تو روح بھی ہے، مادہ نہیں تو روح بھی نہیں۔ توانائی کی وہ تمام اشکال جو مادے کے اندر پائی جاتی ہیں وہ انسان کے اندر محسوسات کی دنیامیں پائی جاتی ہیں۔ سب احساسات، سب نازک خیالیاں، سب فسانہ گریاں اس وقت تک ہیں، جب انسان زندہ ہے۔ مادے کے زوال اور بکھراؤ کے بعد کچھ نہیں۔ سوائے اس میٹریل نے کچھ اور شکل اختیار کر لی۔ اب وہ جانے اور اس کا کام۔۔۔ کہ وہ کن کن شکلوں میں transform ہوتا ہے۔

روحانی ہونے کے لیے عقیدوں کی پیروی ضروری نہیں۔ بلکہ عقیدوں تک محدود آدمی روحانی ہو نہیں سکتا۔ روحانی ہونے کے لیے infinite ہونا ضروری ہے۔ عقیدوں میں پھنسا آدمی اپنے عقیدے کے متعصب یک طرفہ تنگ دائروں سے نہیں نکل سکتا۔۔۔ نہ وہ کسی کو اپنے میں سمو سکتا، نہ اپنے آپ کو کسی دوسرے کے اندر۔۔۔ محبت بھی ایک روحانی عمل ہے۔ سمونا اور سمو جانا روحانیت اور محبت کے بنیادی فنگشن ہے۔

انسان کی ایک خارجی (outer) سطح ہے، اور ایک اس کی داخلی (inner) سطح ہے۔ ہمارے ہاں مشرق میں یہ ہوا کہ خارجی سطح (مادی حصے) کی مذمت کی گئی اور اس کے صرف داخلی حصے کو اہمیت دی گئی۔ انہوں نے دنیا سے راہِ فرار کیا تاکہ وہ اپنے اندر کے سفر کی تکمیل کر سکیں۔ مغرب میں اس کے الٹ ہوا۔ انہوں نے اندر کی دنیا کو خیرباد کہہ دیا، تاکہ وہ ساری توانائی اپنی باہر کی دنیا کو تسخیر اور سنوارنے میں صرف کر سکیں۔ دونوں ہی آدھے رہ گے۔

ایک حصہ بڑا ہو گیا اور دوسرا حصہ کچل کر رہ گیا۔ ہمارے مشرق میں اتنی غربت، اتنی بیماری، اتنی جہالت، اتنا ظلم، جس کا اندازہ نہیں، لیکن لوگ پھر بھی مطمئن پھرتے ہیں، ہر آن اللہ کا ’’شکر‘‘ بجا لاتے رہے۔ بغیر مزاحمت اور تبدیلی کی خواہش کے، صدیوں سے غربت، بیماری، غلامی اور موت کو قبول کر رکھا ہے اور سارا زور ’’اندر‘‘ پر دیے رکھا۔ ادھر مغرب نے بیماری اور غربت پر قابو پا لیا، انہوں نے انسان کے جسم اور اس کی بیرونی دنیا کو خوب صورت اور آرام دہ کر دیا۔ مگر انسان کا خود اپنا آپ غائب ہو گیا۔۔۔ وہ مشین کی ہی توسیعی شکل اختیار کر گیا۔

وہ یہ بھول گئے کہ یہ سب مادی آسائش اور تعیش کس کے لیے کی تھی۔ باہر سب کچھ ہے مگر اندر سے کھوکھلا اور خالی پن پیدا ہو گیا۔ اب تیسرا نظریہ یہ آ رہا ہے، کہ انسان کو پوری مجموعی حالت totality میں لیا جائے اور اس کی اندر اور باہر کی نشو و نما مساوی طور پر ہو۔ روحانی آدمی اصل میں وہی ہو سکتا ہے جو مادی لحاظ سے خوشحال اور بھرپور زندگی گزارنے کے نظریے پر چلتا ہو، کیوں کہ وہی زندگی کی سطحیت کو سمجھ سکتا ہے اور روحانی ہو سکتا ہے۔ صرف مہاتما بدھ بننا، زندگی کا خاتمہ ہے اور صرف تعیش کی زندگی گزارنا، اپنے اندر کی گہرائی اور وسعت کا خاتمہ ہے۔

مادیت بھی روحانیت کا حصہ ہے

چناں چہ ایک روحانی گہرائی بھی ہونی چاہیے اور زندگی میں لہو لعب کا رَس بھی۔ اسے ہی انسانی اور کامل زندگی کہا جا سکتا ہے۔
انسان کی ذات ان دونوں جہتوں کے فروغ کے لیے میسر ہو۔ سائنس اور ٹیکنالوجی بھی اس دنیا کو بہتر سے بہتر طور پر ملتی رہے اور اس دنیا کو بہتر سے بہتر انسان بھی میسر آتے رہیں۔ یہ بھی بات اہم ہے کہ بہتر انسانوں کے پاس ہی بہتر ٹیکنالوجی ہو سکتی ہے ورنہ آج امریکہ کے’’نیو قدامت پرستوں‘‘ کی طرح کے انسان دنیا کے وجود کے لیے ہی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

ٹیکنالوجی انسان کی مادی اور جسمانی ضرورتیں تو آسانی سے پورا کر سکتی ہے لیکن یہ اسے فرحت اور روحانی مسرت نہیں دی سکتی اور سرمایہ دارانہ بے لگام مقابلے کی دوڑ میں تو ایسا بالکل نہیں ہو سکتا۔ آپ کے پاس دنیا کا سب کچھ ہے مگر دل کا سکون نہیں، ایک اندر کی فرحت اور مسرت نہیں ہے۔ کچھ تھوڑا ٹھہراؤ، کچھ سکوت، ایک بے خلل، بے اضطراب خوبصورت ماحول اور اوقات میسر نہیں تو انسان تمام تر آسائش کے بعد بھی خود کو محروم ہی محسوس کرے گا، بلکہ غربت کا احساس اور بڑھ جائے گا۔۔۔ آپ ایک سونے کے محل میں رہ رہے ہیں اور خود کو اندر سے خالی محسوس کر رہے ہیں۔ آپ کو اپنا وجود، اپنی ساری سرگرمیاں بالآخر فضول، بیکار اور بے معنی سی لگنے لگیں۔۔۔ تو کیا باقی رہ جائے گا۔

اصل میں روحانیت کا مطلب بیرونی ثروت کے ساتھ ساتھ انسان کو اندر سے با ثروت (rich) کرنا ہے، اسے ایک سکون، اطمینان، اور احساسِ آسودگی دینا ہے۔ تاکہ انسان کو ایک مہذب وحشی یا ایک بظاہر خوشحال لیکن کھوکھلا پن اور بے معنویت کا شکار بننے سے روکا جائے۔۔۔ وہ اپنے آپ کو ذاتی زمان و مکان میں دیکھنے کی بجائے خود کو اس کائنات کی ابدیت کا حصہ سمجھیں۔ آج کے جدید انسان کو ایک طرف افسانوی کردار یونانی *Zorba (جو دنیاوی آسائش، رقص و سرور میں ہی خوش رہتا ہے) کا حامل اور دوسری طرف اس کے اندر ایک Buddha کا روپ ہونا چاہیے۔ جو اپنے اندر اتنا ہی پر شکوہ اور ٹھاٹھ سا محسوس کرے۔ جتنا اپنی ظاہری مادی دولت سے۔ اگر آج اور کل کے انسان کو اور اس کی دنیا کو خوب صورت دیکھنا اور بنانا ہے جس میں عقائد کی نفرتیں، نسلی و قومی امتیازیات، جنگیں، اسلحہ سازیاں، غربت اور جہالت کے سمندروں میں خوشحالی کے جزیرے نہ ہوں تو اندر اور باہر کی تونگری میں توازن ضروری ہے۔

انسان کو materialist ہونا چاہیے، یہاں پر materialist کا مطلب ہے، scientific ہونا، یعنی اپنے معروض میں موجود سماجی و فطرت کی حرکات کو سمجھنے اور قابو پانے کی صلاحیت۔ اور اسے اتنا ہی روحانی ہونا چاہیے۔ یہاں پر روحانی ہونے کا مطلب ہے، اس کے اندر گہرائی اور وسعت ہو اور وہ ساری کائنات کو محبت کی نگاہ سے دیکھنے والا ہو۔

*Zorba the Greek (originally titled Alexis Zorbas) is a 1964 film based on the novel Zorba the Greek by Nikos Kazantzakis.

About ارشد محمود 14 Articles
asif