رومانوی غریب پرستی : ایک مکالمہ
از۔ نصیر احمد
نادیہ: جب سے میں نے فلاکت فلاح مرکز میں شمولیت اختیار کی تب سے مجھے غریبوں سے انتہائی پیار ہے۔پیار تو بہت چھوٹا لفظ ہے، عشق کہیں عشق، ہاں مجھے غریبوں سے عشق ہے اور عشق بھی کہاں، جنون کہو جنون۔
جب بھی میں ٹی وی پر غریبوں کو تھپڑ، لاتیں، گھونسےکھاتے دیکھتی ہوں تو میری آنکھوں میں سمندر امڈ آتے ہیں اور بادل سمٹ جاتے ہیں اورمیرا دل چلا اٹھتا ہے، ان بے چاروں کو اور مارو، اتنا مارو، کہ میری آنکھوں کے سمندر غریبوں کے ساتھ ،غربت کو بہا لے جائیں اور اس قدر جل تھل ہو کہ سیلاب میں پسماندہ اور پسماندگی بہہ جائیں اور میرے دل کی ہمدردانہ بے تابی کو کچھ قرار آئے اور میں کوئی مہنگا سا برگر اطمینان سے کھا سکوں۔
پلیز کھانے کے دوران غریبوں کا ذکر جاری رکھنا اور کوڑا کرکٹ چنتے ہوئے بچوں کے ذکر سے پرہیز کرو تو بہتر ہے اور کوڑے کرکٹ کی تفصیلات میں جانے کی کو شش نہ کرنا کہ عشق کتنا بھی گہرا کیوں نہ ہو جنون بے کراں سہی لیکن کچھ ساعتیں تسکین کی بھی درکار ہیں۔
کھانے کے بعد کافی نوشی کے دوران تمھارے پاس بہت وقت اس وقت تم غریبوں کے ساتھ ہونے والی سب گھناؤنی زیادتیوں کا اتنا زیادہ چرچا کرو کہ میرے دماغ میں غریب علاقوں کے گلی کوچوں کے تعفن کے سوا کچھ نہ رہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ سب نو دولتیےصبح کے اخبار پڑھنے کے بعد الٹیاں کرتے پائے جائیں گے اور یہ غربت کے خلاف ہماری جدوجہد کی کامیابی کا ایک ایسا سنگ میل ہو گا جس کی کامیابی اس انقلاب کی طرف بڑھنے کے رستے ہموار کر دے گی،جس میں سب غریب مل کر امیروں کی ادبار پر بیٹھے تاج اچھال کر مجھے پہنا دیں گے اور تخت گرا کر میرے لیے ایک نیا تخت تعمیر کریں گے۔
لیکن تم جیسے دولت پرست غریبوں کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں، تمھیں کیا پتا جب کسی کی پیٹھ پر کوڑے پڑ رہے ہوں،غریب اس وقت موسم کی خوشگواری پر نظمیں لکھ رہا ہوتا ہے۔غریب عظیم ہے، غریب معصوم ہے، غریب ،انسانیت کا روشن چراغ ہے، غریب، میر کا شعر ہے، غالب کا ایا غ ہے،اور ساغر کی داستان ہے۔ او ذلیل سرمایہ دار، استعمار کے وفادار، سامراج کے نعلین بردار، غریب سے اس کی عظمت نہ چھین، اس کی معصومیت نہ لوٹ، غربت کا چراغ مت بجھا، میر کے شعروں پر تنقید نہ کر، غالب کا جام مت توڑ اور ساغر کی داستان مت بند کر کہ یہ سب کچھ ہوا تو میری تنخواہ بند ہو جائے گی۔ سوری یار تمھیں نہیں کہہ رہی، کل کی کانفرنس کے لیے اپنی تقریر تیار کر رہی ہوں۔ ہائے یہ بھیک مانگتے بچے، اور گھر پر کام کرنے والی کے سماجی مسئلے، وہ دودھ والے کے آنسو
اکرم: اور وہ دودھ سے نکلتے مینڈک؟
کیا؟ کل ہی اکی بھائی کو کہہ کر حرامزادے کو پکڑوا دوں گی۔ یہ حرامزادہ جھوٹ موٹ غریب بنا ہوا ہے ، ضرور کوئی سامراجی ایجنٹ ہے یا خفیہ والوں کا بندہ، لیکن سامراج اور خفیہ والے جو بھی کرلیں، مجھے غریبوں کی غربت سے عشق ہے اور عشق وہ راستہ ہے جس سے بے وفائی کرنے سے مر جانا بہتر ہے۔
اکرم: بنیادی طور پر تم غربت کو اپنے مفادات کے لیے برقرار رکھنا چاہتی ہو۔ یہی تو سرمایہ دار کرتے ہیں۔
نادیہ: یہی تو مسئلہ ہے، غریبوں کے لیے دو لفظ کیا کہے، تم مجھے طعنے دینے لگے۔میں غربت کی عظمت کی بات کر رہی ہوں، اسی میں انسانیت کی نجات ہے۔ تم جسے میلے میلے کپڑوں کی بدبو سمجھتے ہو، وہ ادب کا عطر دلپذیر ہے، مصوری، شاعری، ناول اور دوسری صنفوں کے سب شاہکار ایسی ہی بدبو کا عطیہ ہیں۔جہاں جہاں غربت کم ہوتی ہے وہاں تصنیف و تالیف کا معیار بھی گر جاتا ہے۔ اس سے کچھ غلط نہ سمجھ لینا، میں صرف غربت کی عظمت کا ذکر کر رہی ہوں۔
اکرم: کسی نے کہا تھا، ایک اچھا غلاظت کش نظام دنیا بھر کی شاعری سے بہتر ہے۔
نادیہ: تمھاری طرح وہ کوئی ٹھیکیدار ہو گا، جس نے ادب لطیف کے خاتمے کو ایک معمولی سے ٹھیکے پر ترجیح دی۔ تمھاری سوچ کتنی گھٹیا اور پست ہے، اسی لیے تو کہتے ہیں بھرے ہوئے پیٹ سے اخلاقی زوال کا گہرا تعلق ہے۔
اکرم: جیسے کامریڈ سٹالن، کامریڈ ماؤ اور کامریڈ انورخواجہ کی کھانوں کے بوجھ سے ٹوٹتی میزیں اورکولیما( روس میں ایک قید خانہ) میں روٹی کے ایک ٹکڑے کے لیے ایک دوسرے کو قتل کرتے غریب۔
نادیہ: یہ سب سرمایہ داروں کا پروہپیگنڈا ہے، جتنا غریب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، اتنا تمھارے رئیس سامراجیوں کے تصور سے ہی باہر ہے۔ وہ تو سب انقلاب دشمن جرائم پیشہ جنونی تھے۔
اکرم: ھاھاھا، تو پھر لگی رہو جولی، غربت کی عظمت کو بھی برقرار رکھو، پیسے بھی کماؤ اور امیروں کو جی بھر کے گالیاں بھی دو