روشنی کا ہالہ
افسانہ از، بلال مختار (سڈنی، آسٹریلیا)
یہ سب بالکل غیر متوقع تھا۔ میں ذہنی طور پہ ایسے منظر کو تیار نہیں تھی۔ یقیناً ہماری زندگیوں کی مسافتیں طے کرتے ہوئے چند ایسے واقعات نمو دار ہوتے رہتے ہیں کہ آپ انگشت بدنداں ہو کر رہ جاتے ہیں، مگر اس شام کا واقعہ میرے اعصاب کو ہلا کر رکھنے کو کافی تھا۔
میں ابھی سکولنگ سینٹر سے چند قدم دور تھی کہ درختوں کے بیچ میں سے اسکول کی عمارت میرے قدموں کے ساتھ ساتھ واضح ہونے لگی۔ اسکول کی بالکنی کے بالکل آخری کنارے پہ ایک معصوم سا چہرہ کھڑا رو رہا تھا، اس بچی کی آنکھوں کے روزن سے آنسو بہاؤ کے ساتھ رخساروں پہ لینڈ کر رہے تھے۔ جیسے ہی اس نے بالکنی کے سامنے لگے بانس کے اوپر چڑھنے کی کوشش کی تو مجھے معاملہ سمجھنے میں دیر نہ لگی۔
اس کے بہتے آنسو اس کے غم و مایوسی کے خبر دیتے تھے اور اب زیست کے دھاگے کو توڑنے کے درپے تھی۔ ہاں، وہ شدید مایوسی کے عالم میں خود کشی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ سب آن کی آن میں ہوا؛ میں اپنے طویل سفر کی تھکاوٹ بھول چکی تھی اور اپنے اوسان کو بحال کرنے کی از حد کوشش کر رہی تھی۔
پہلے تو مجھے خیال آیا کہ اس کو چیخ کر کہوں کہ ایسا نہ کرو، اسے ڈرا دھمکا کے موت کے پنجوں سے واپس لوٹا دوں پر ایسے نازک موقع پہ مجھے محسوس ہوا کہ میرے جذباتی رد عمل سے اس کا دماغ منتشر ہو کر کہیں وہ سمجھنے کی مکمل صلاحیت کھو نہ دے۔ ہاں! ابھی اس کا ارتکاز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے پہ تھا، جسے مجھے بہتر رستہ دکھانا تھا۔
میں اس کے بالکل سامنے دھیرے سے سامنے آئی اور یک دم دوستانہ لہجہ میں کہا:
”رکو پیاری لڑکی! تم رو کیوں رہی ہو؟ تم روتے ہوئے بالکل اچھی نہیں لگتی۔” یہ ایک نفسیاتی چال تھی۔ وہ روتے روتے رکی تو اس کی ہچکی سی بندھ گئی، مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا اور میرے جذبات کسی پینڈولم کی طر ح ایک حد سے دوسری حد کو چھو رہے تھے۔
”کیا تم بتانا پسند کرو گی کہ تمھاری آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟”
”مجھے کوئی پسند نہیں کرتا، سبھی مجھے کوستے ہیں اور برے برے ناموں سے پکارتے ہیں۔ میں بہت بری ہوں۔”
میں نے اس کی بات سننے کے ساتھ ساتھ نیچے جھک کر اپنا بیگ زمین پہ رکھا مگر میری نظریں اس کے ایک ایک لفظ اور اس سے بڑھ کے اس کی باریک ترین حرکات پہ تھیں، اندھیرے کی وجہ سے دور دور تک کوئی ذی روح نہیں تھا۔ رات کا اندھیرا اور دو زندگی سے مایوس ترین انسان آمنے سامنے تھے۔
ہاں دوسرا مایوس انسان میں خود تھی۔ بنیادی طور پہ میں پیدا اور بڑھی پلی تو ویتنام میں تھی مگر پھر گزشتہ چار سال سے سڈنی میں تعلیم اور روزگار کے سلسلہ میں رہ رہی تھی۔ ویتنام اور آسٹریلیا کے لائف سٹائل میں تو بہت سا فرق ہے مگر اس سے بڑھ کے یہاں پر نئے طلباء کے لیے بہت سے کٹھن حالات و واقعات سے گزرنا پڑتا ہے۔ کئی بار ٹرین پہ ہی سو گئی اور رات کے دوسرے پہر شہر کے دوسرے کنارے کے آخری پلیٹ فارم پہ ٹرین رکی تو دیر ہو جانے کا احساس ہوتا، کام کی فکر میں امتحانات کی تاریخیں گڈ مڈ سی ہوجاتیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ”لسانیات اور انسانی نفسیات” کے کورس کے تحریری امتحان کے لیے کمرۂِ امتحان میں بیٹھی تو ایک مختلف پرچہ دیکھ کر ممتحن سے سوال کیا تو آشکار ہوا کہ ”لسانیات اور انسانی نفسیات” کا امتحان تو اسی وقت اور جگہ میں گزشتہ روز ہو چکا تھا۔ خیر جیسے تیسے تین سال کا پروگرام مکمل ہو ہی گیا۔
تعلیم حاصل کر چکنے کے باوجود مجھے آئندہ کی زندگی کے پلان کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔ ایک غیر یقینی کیفیت کے ساتھ میں نے اپنے کنسلٹنٹ کے ساتھ مشورہ کیا، اس کے مطابق مجھے چھ ماہ کے لیے کسی دور کے علاقے کا تدریسی تجربہ لانا ہو گا۔ چنانچہ میں نے پی این جی اور نیورو میں سے نیورو کی زمین کو منتخب کیا اور مختلف رفاہی اداروں کو ای میلز ڈالیں اور بالآخر شنوائی ہوئی۔
مجھے نیورو کے ایک مقامی اسکول میں مائیکرو ٹیچنگ کی ٹریننگ کے واسطے موقع دیا گیا، اور اس کے بدلے میں مجھے اسکول میں ہی رہائش، کھانا اور صحت کی انشورنس اسکول کی طرف سے تھی۔ سڈنی جیسے رونقوں بھرے شہر سے یوں دور کے جزیرے پہ جانا مشکل معلوم ہوا مگر میرے پاس اس کے سوا کوئی بہتر آپشن بھی نہیں تھا۔
سیارہ زمین پہ سانسیں بھرتے ہوئے مجھے تیس سال ہوچکے تھے، مگر معاشی اور سماجی مشکلات کے بعد سڈنی میں رہتے ہوئے مجھے جذباتی طور پہ کمزوریوں کا احساس ہوتا رہا۔ ایسے ہی ملے جلے تجربات کے بعد اب مجھے مزید چھ مہینے خون کے گھونٹ پینے تھے۔
جب میں اسکول کی عمارت کے سامنے پہنچی تو مایوسی کے بادل مکمل طور پہ میرے خیالات پہ بسیرا کر چکے تھے۔ اس مقام تک پہنچ کر میں خود کو تسلی اور حوصلہ نہیں دے سکتی تھی۔
یہ بڑا عجیب ہوتا ہے کہ بعض اوقات مایوسی کے خشک پربتوں سے امید و یقین کا آبِ زم زم پھوٹ پڑتا ہے، میں بھی کچھ ایسا معجزہ کرنے کے درپے تھی۔
”تمھیں کس نے کہا ہے کہ تم بری لڑکی ہو۔ اتنی پیاری سی گول مول بلوری آنکھیں ہیں، اور تمھارے سیاہ بال کتنے بھلے سے ہیں۔ میں اس شہر میں بالکل نئی ہوں ،کیا تم مجھ سے دوستی کرنا چاہو گی؟”
اس دوران میں ذہنی طور پہ اپنے آپ کو تیار کر رہی تھی اگر اس نے چھلانگ لگا ہی دی تو کیا میں اسے پندرہ سے اٹھارہ فٹ کی بلندی سے آتے ہوئے بچا سکوں گی، کیا وہ میری بات کا جواب بھی دے گی۔۔۔
وہ ابھی بھی رو رہی تھی مگر اچھی بات یہ کہ قدم آگے نہیں بڑھایا۔
”دیکھو معصوم لڑکی! میرا آج اس شہر میں پہلا دن ہے، مجھے تم بہت اچھی لگی ہو۔ پلیز مجھے اپنی دوست بنا لو۔”
اخیر والا جملہ کاری تھا، کیونکہ وہ اب کچھ قدم پیچھے ہو گی۔ مجھے بعد میں اس آخری جملہ کی باریکی اور عین اہمیت کا احساس ہوا۔ اس کی عمر تقریباً تیرہ سے چودہ سال کے درمیان تھی۔ بنیادی طور پہ وہ لڑکی ملک شام سے اپنی ماں اور چند دوسرے لٹے پٹے لوگوں کے ساتھ ہجرت کر کے آئی تھی، چونکہ وہ بذریعہ کشتی اور بغیر ویزہ بمعہ ضروری کاغذات کے نیورو تک پہنچی تھی، اسی لیے آسٹریلوی حکومت کے تعاون سے ان لوگوں کو Regional Processing Centres میں منتقل کر دیا گیا۔
ہم دونوں اب اسکول کے پلے گراؤنڈ کے ایک کنارے بینچ پہ بیٹھے ہوئے تھے۔
”تمھارا نام کیا ہے؟ کچھ اپنے بارے میں مزید بتاؤ، شام میں کیسی زندگی گزری؟” میں نے جاننے کے واسطے پوچھا۔
”میرا نام ہالہ ہے۔ میں مشرقی شام میں پڑھتی تھی، پھر ہمارے ملک میں خانہ جنگی نے یوں جڑ پکڑی کے ہر طرف قتل و غارت، لوٹ مار اور اداروں کو کمزور اور ٹوٹ پُھوٹ کا شکار کرنے کی ہر ممکن کو شش کی جانے لگی۔ لڑکیوں کی عِصمتوں کے ساتھ کھیلا جاتا جبکہ لڑکوں کو جان سے مار دیا جاتا۔ فضائی سٹرائیکس سے کئی کئی بار ہمارے کان گھنٹوں بند سے ہو کر رہ جاتے۔ آہ، وہ کئی کئی دن حملوں کے ڈر سے گھروں میں چھپے رہنا۔۔۔”
اور پھر اس کی آواز بھرا سی گئی۔ میں نے ٹاپک بدلنے کے واسطے کہا:
”اچھا ہالہ! تمھارے نام کا مطلب کی ہےا؟ سنا ہیے کہ نام میں بڑی شے ہوتی ہے۔ ہماری شخصیات اور جسمانی و ذہنی تبدیلیوں میں گہرا اثر ڈالتی ہے؟”
وہ اس بات پہ کچھ کھکھلا اٹھی۔ پھر کہنے لگی:
”ہالہ در اصل چاند کے ارد گرد ایک کمان کا نام ہے۔ جب چاند کی روشنی اپنے آس پاس کے بادلوں میں گزر کے مختلف زاویوں سے لوٹ آئے، اس موقع پہ اندھیرے آسمان پہ چاند کے ارد گرد ہالہ سے بن جاتا ہے۔ اسی سے میرا نام منسوب ہے۔”
”ارے واہ! یہ تو بہت پیارا نام ہے، ایک دم مست سا۔ پتا ہے میرا نام ٹرنن ہے، ویتنامی زبان میں اس کا مطلب کنواری اور پاک صاف کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔۔۔”
یوں ایک آدھ گھنٹے کے بعد ہم دونوں کے درمیان خوب کیمسٹری بننے لگی۔ کچھ اندھیرا گہرا ہوا تو ہم واپس اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ اگلے دن ہیڈ مسٹریس کو اپنی آمد کے اطلاع دی۔ انہوں نے بتایا کہ میں دو دن کے بعد کلاسیز لینا شروع کر دوں گی، تب تک ہم تمھارا ٹائم ٹیبل بقیہ کلاسیز کے ساتھ ایڈجسٹ کر لیں۔ اس دن میں اسکول کے مختلف حصوں کا دورہ کرتی رہی اور اسکول میں قائم ماحول اور نظم و نسق کو سمجھنے کی کوشش کی۔ طلباء تفریح کے دوران بات بات پہ اونچا بولنا شروع ہو جاتے جبکہ سبھی کھیلوں کا دار و مدار جسمانی طاقت و زور پہ تھا، اسی سبب اکثر لڑکیاں ایک طرف بیٹھی ہوئیں، لنچ باکس اور اسکول ورک مکمل کر رہی تھیں۔
اگلے دن کلاسیز ختم ہونے کے بعد کیفے میں ایک کولیگ سے ملاقات ہوئی، اس کا نام اسٹیفن تھا۔ وہ یارن میں پلا بڑھا اور وہیں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب یہاں پر گذشتہ دو سالوں سے پڑھا رہا تھا۔ اسٹیفن کا اصرار تھا کہ مجھے شہر لازمی دیکھنا چاہیے مگر میں نے دوستانہ انداز میں انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ کچھ دنیائیں سمجھنے کے لیے اپنے قدموں سے چل کر جانا ضروری ہوتا ہے۔ جہاز، اونچی اور فلک بوس عمارتوں سے گزریں تو بات سمجھ لگتی ہے، تیز رفتار گاڑیاں ہائی ویز اور عام شاہراہوں سے چلیں تو فائدہ ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں ہم دونوں کوبائی سائیکل کے ذریعے چکر لگانا چاہیے۔
آخر کار اس نے مجھے آمادہ کر ہی دیا۔ سڑکوں کی حالت خستہ و بد حال تھی، ایک جگہ پہ دو گروہ آپس میں متصادم ہو گئے مگر پاس سے گزرتے لوگ بنا کوئی ری ایکشن دیے چلتے بنے۔ پھر ہم ساحل سمندر کے کنارے گیلی ریت پہ پُر زور کوشش کے ساتھ سائیکلنگ کرنے لگے۔ مگر ایک بات قابل غور تھی کہ جا بجا زمین کھودی ہوئی سی معلوم ہوتی تھی، چٹانوں کو جیسے اندر سے کھود کھود کر کھوکھلا کر دیا گیا تھا۔ گھاس پھوس واجبی سی تھی اور ہریالی اور باقاعدہ سبزہ کہیں کہیں دیکھنے کو مل رہا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور پوچھ ہی ڈالا۔ا سٹیفن نے میری بات کا بلا واسطہ جواب تو نہ دیا مگر کہنے لگا۔
”تم جانتی ہو زندگی میں پلان بنانا کتنا ضروری ہے؟ منصوبہ بندی کتنے دور رس اثرات دکھا سکتی ہے!”
”ہاں! منصوبہ بندی تو ہمیں اپنے مقاصد کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، ایک طرح ہم عمومی سطح پہ فکر کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ اسباق کی منصوبہ بندی ہی لے لو، ہم کلاس شروع کرنے سے لے کر اختتام تک بہت کچھ پلاننگ کر کے چلتے ہیں۔ کون سا ٹاپک پڑھانا ہے،کس حد تک بچوں کو روشناس کروانا ہے، کن مغالطوں کو سامنے لانا ہے، کلاس ورک سے ہوم اسائمنٹ کی رہنمائی اور حاضری کس وقت لینی ہے۔۔۔”
اس نے سائیکل کا ٹائر گیلی مٹی میں نیم کمان کی شکل بناتے ہوئے کہا: ”اور اگر پلاننگ نہ ہو تو کیا کچھ ہو سکتا ہے؟”
”وقت کی بربادی، ذمے داریوں سے انحراف، بچوں کے حقوق کی تلفی اور تن آسانیاں۔۔۔”
”اب میں تمھارے سوال کی طرف آتا ہوں۔” اس دوران ہم دونوں ساحل سمندر کے کنارے بیٹھ کر لہروں کو اپنے قریب تک آتے دیکھنے لگے۔ ”تمھیں پتہ ہے کہ نیورو ایک وقت میں دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار کیا جاتا تھا۔ اس کے پیچھے ایک دل چسپ سائنسی سوچ ہے، کہتے ہیں کہ آزادی کے عین بعد یہاں پر فاسفیٹ کے ذخائر برآمد ہونا شروع ہو گئے اورماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے لیے پوری دنیا میں شجر کاری مہم زوروں پہ تھی، اب درختوں کو پھلنے پھولنے، ہریالی اور بالخصوص زمینوں کو زرخیز کرنے کے لیے فاسفیٹ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
چنانچہ اپنی آزادی کے چند سال بعد ہی نیورو میں کان کنی کا کام زوروں پہ شروع ہو گی۔ پوری دنیا سے ڈیمانڈ بڑھنے لگی اور حیران کن طور پہ نیورو دنیا بھر میں فاسفیٹ برآمد کرنے لگا۔ 70ء کی دھائی میں ایکسپورٹ کا کام زوروں پہ تھا، چنانچہ ان سالوں میں دولت کسی بارش کی طرح نیورو کے لوگوں پہ برسی۔ خوش حالی ہر اور، اس پہ اہم بات کہ نہ کوئی ٹیکس نہ کوئی صحت و تعلیم کے اخراجات۔ عوام کے لیے سب کچھ مکمل فری کر دیا گیا۔ مگر بڑے پیمانے پہ حکومتی منصوبہ بندی اور کمزور پالیسیوں کے سبب 2011ء کے آس پاس ملک میں بدحالی اور غربت نے جنم لینا شروع کر دیا۔ آج نیورو اپنے ڈیٹنشن سینٹرز کی وجہ سے دنیا میں جانا جاتا ہے۔”
ہم دونوں ایک بار پھر سے سائیکلوں پہ سوار ہو کر پیڈل پہ پاؤں دبانے ہی لگے تھے کہ میرے ذہن میں سوال کھٹکا۔
”مگر یہ سب اچانک فاسفیٹ کے ذخائر کیونکر برآمد ہو گئے اور وہ بھی چالیس پچاس سالوں تک پوری دنیا میں بھیجتے رہنا۔ یہ تو جیسے زمین نے سونا اگل دیا ہو۔۔۔”
اسٹیفن پیڈل پہ پاؤں رکھ چکا تھا پر میرا سوال سن کر لمحہ بھر کو رکا اور گویا ہوا:
”اس کے بارے میں عجیب توجیہ دی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ سمندری پرندوں اور بالخصوص بگلوں کا اپنی موسمی ہجرت کے دوران اس راستے سے گزر ہوتا تھا۔ خاص طور پہ جب وہ جنوبی کرہ کی جانب جا رہے ہوتے تھے۔ چونکہ نیورو ایک جزیرہ ہے اور سمندر کے بیچوں بیچ واقع ہے، اسی سبب مہاجر پرندے اپنے وقتی پڑاؤ کے واسطے یہاں کی زمین کو منتخب کرتے تھے۔ اپنے قیام کے دوران بگلے بھی خشکی پہ چکراتے رہتے اور ان کی بیٹ سے یہاں کی زمین ہریالی سے بھر گئی، زرخیزی کے ساتھ ساتھ بگلوں نے اس زمین کو فاسفیٹ کے کماحقہ مقدار سے بھر دیا تھا۔”
یقیناً اس نے صحیح کہا تھا، چھوٹے سے چھوٹے پیمانے کے کام سے لے کر ملکی اور بین الاقوامی سطح کے لیے بہترین اور جامع منصوبہ بندی کا ہونا از حد لازم و ملزوم ہے۔
اگلے روز میری پہلی کلاس تھی، مجھے ثقافتوں اور ان کی قربتوں کے تھیم پہ ایک کورس دیا گیا، جسے Understanding Acculturation کا عنوان دیا گیا۔ میں جب بطور ٹیچر ہالہ ہی کی کلاس میں داخل ہوئی تو اسے انگشت بدنداں پایا۔ خیر سے میں نے کورس آؤٹ لائن کے عین مطابق طلباء کو ثقافت کے بنیادی تعارف اور ایک سے زائد ثقافتوں کے میلاپ کے حوالے سے بحث و مباحثہ بھی کروایا، طلباء کا ایکٹیوٹی میں حصہ ڈالنا قابل دید تھا۔ لنچ بریک کے دوران ہالہ تیر کی سی سیدھ میری طرف آن پہنچی، اور آتے ہی سوال غیر متوقع نہیں تھا۔
”آپ نے مجھے نہیں بتایا کہ آپ اس اسکول میں ٹیچر کے طور پہ آئی ہو؟ میں تو آپ کو اپنی دوست بنا بیٹھی تھی۔” میں لمحہ بھر کو مسکرا دی اور کہنے لگی:
”دیکھو! کیا ٹیچر اور طالب علم میں دوستی نہیں ہو سکتی؟ ہم ابھی بھی دوست ہیں۔”
میرا یہ کہنا تھا، اس نے اپنا لنچ باکس چھوڑ کر مجھ سے لپٹ گئی اور میں نے اس کے چہرے کو بغور نہیں دیکھا۔ میں جانتی تھی اس پردیس میں اس کو اس کی توقع سے بڑھ کے سہارا مل گیا تھا۔ مجھے اپنے آپ پہ ذمے داری کا بار بڑھتا محسوس ہوا۔ میں نے غور کیا کہ اس کے ساتھ تین اور غیر ملکی فیلوز بھی اسی طرح تقسیم تقسیم سی پھرا کرتی تھیں، دو کا تعلق عراق سے تھا جبکہ ایک انڈونیشیا سے تھی۔ حالانکہ ایسے موقع پہ ان چاروں کا ایک ساتھ ہو جانا فطری عمل سا ہوتا مگر بریک میں بھی وہ باقیوں کے ساتھ کھیل نہ پاتیں۔ ان کے ہاں ثقافتوں کا نمایاں فرق تھا، اسی امتیاز کے سبب ائیر نائن مکمل طورپہ بٹی بٹی سے تھی۔
چند ہفتے یونہی کلاسیز لینے میں بیت گئے، اس کے ساتھ ہالہ سے اکثر ملتی رہتی اور اس کی داد رسی کے ساتھ اس کو موجودہ زندگی کا ڈٹ کر سامنا کرنے کے لیے پُش کرتی رہتی۔ حیرت انگیز طور پہ میں اپنے آپ کو بھی امید سے بھرپور محسوس کرنے لگی، اس کے نینوں میں امید کے نئے دیے جلتے دیکھ کر مجھے خود بھی زندگی کی جانب رخ کرنے میں آسانی ہو رہی تھی۔ اب میری کلاسیز پہلے سے بڑھ کے پُر جوش ہو رہی تھیں۔ اسی دوران ہالہ نے اپنے نام کی طرح باقی تینوں تارکین وطن فیلوز کو ایک ساتھ کر کے کھیلنا شروع کر دیا،۔
اب وہ چاروں قریب قریب بیٹھ کر کلاس میں بہترین انداز میں حصہ لے رہی تھیں۔ مگر ایک بات جو مجھے چبھ رہی تھی، وہ کلاس کو بہت سی تقسیموں سے ایک طرف رکھ کر دو بڑی تقسیموں کی حد تک محسوس کرنے لگی۔ ایک طرف ہالہ کا گروپ تھا، جو صرف چار ہی تھیں، تو دوسری جانب نیورو کے مقامی طلباء بھی تھے۔ اب ان کے ہاں ایک مقابلہ کی سی فضاء پیدا ہو گئی، کلاس اور کلاس سے ہٹ کر بھی ایک دوسرے سے پرفارمنس میں بڑھنے کی کوشش کرنے لگے۔
”اوکے سٹوڈنٹس! آج ہمارا تھیم ہو گا کہ کیسے ہم دوسری ثقافتوں کے لوگوں کو اپنے قریب لا سکتے ہیں۔ کیسے ہم مل کر زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ کیا کوئی بتائے گا کہ ثقافتوں کے میلاپ کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟”
ایک طالب علم نے ہاتھ اٹھایا اور کہنے لگا:
”تیسری دنیا کے لوگوں کے آنے سے ہماری اقتصادی پوزیشن کمزور ہوتی ہے، ہماری گورنمنٹ کو ان کے لیے علیحدہ سے فنڈز رکھنے پڑتے ہیں۔ ان کے آنے سے بہت سے جرائم بھی ہماری دنیا میں چلے آتے ہیں؟ یہ ایک طرح سے وائرس ہیں، جس کا کوئی اینٹی وائرس نہیں ہے۔”
اس بچے کے آخری جملہ نے مجھے ہلا کر چھوڑ دیا، ایک دو بچوں نے ہاتھ اٹھا کر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، مگر کہیں نہ کہیں تعصب اور نفرت ایک دوسرے کے لیے تھی۔ میں نے سینے میں سانس بھری اور کہنا شروع کیا:
”پیارے بچو! دیکھو تو زندگی میں خوب صورتی کس شے سے ہے؟ چلیں اس سوال کا جواب جانتے ہیں۔ آپ کا کون س فیورٹ کلر کون س ہے؟” میں نے مختلف بچوں سے پوچھنا شروع کیا۔ وائلٹ،پنک، گہرا سبزی مائل، نیلگوں، سفید اور مختلف طرح کے جوابات ملتے گئے۔
”اچھا اگر آپ کے روم کو مکمل طور پہ گلابی کر دیا جائے تو کس کس کو اچھا لگے گا؟”
کلاس میں چار طلباء نے ہی ہاتھ اٹھایا۔
”اچھا اگر بلیو کلر کا کمرہ بنا دیا جائے، آپ کی ٹیبل، کرسی، دیواریں، بیڈ شیٹس۔۔۔ سبھی کچھ۔۔۔پھر۔۔۔؟” اب کی بار چھ طلباء نے ہاتھ اٹھایا۔ سارے بچے ایک دوسرے پہ غور و فکر کر رہے ہیں۔ کلاس میں پہلی بار اس درجے کی تقسیم دیکھنے کو مل رہی تھی۔ یہ تقسیم دراصل اپنی اپنی پسندکی تھی۔ وہ کہیں نہ کہیں میری بات کو سمجھ رہے تھے۔
”اچھا اب دیکھو! دنیا میں اس وقت رنگوں کی کل تعداد کا تعین نہیں ہو سکا، قیاس ہے کہ ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ آپ میں سے ہر ایک کا ڈی این اے کی کوڈنگ ایک دوسرے سے مختلف ہے، ہماری انگلیوں کی پوروں کی چھاپ سے لے کر زبان کا پرنٹ ہر دوسرے سے مختلف ہے۔ اسے علمی دنیا میں تنوع کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ پوری دنیا کو ہم ایک ہی رنگ میں رنگ دیں تو کیسا رہے گا، یہ پربت، دریا، درخت، سبزہ، چرند پرند۔۔۔”
میرا آخری جملہ سنتے ہی اکثر بچے کھل کھلا اٹھے۔ میرے اندر کی مدفن روشنی اور پھوٹ کر بکھرنے لگی۔
”گلدستہ دیکھو بچو! کون س سب سے اچھا معلوم ہوتا ہے، گلابی، سرخ اور بہت سے رنگوں کے پھولوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے سے۔۔۔۔ آپ سب بچے بھی مختلف دنیا سے مختلف ثقافتوں اور لسانی امتیازات کے ساتھ اکٹھے ہو، یہی خوب صورتی ہے، نائن ایئر ایک طرح سے گلدستہ ہے۔”
اس دن میں نے کلاس میں بہت حد تک مثبت فضا محسوس کی۔ قریب دو دنوں کے بعد بریک کے دوران میں نے نائن ایئر کو ایک ساتھ رگبی کا میچ کھیلتے ہوئے دیکھا۔ سب اسکول کے یونیفارم میں بھاگے جا رہے تھے، کیا غیر ملکی اور ملکی۔ ان میں ایک دوسرے کو قبول کرنے کی صلاحیت اب ابھر کے سامنے آ رہی تھی۔ یہ بہت خوب صورت اور دل کش تھا۔
چونکہ میرے کورس کا بنیادی ارتکاز ثقافتوں کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کے تھیم پہ تھا، چنانچہ روز اس موضوع پہ بھرپور معلومات اور سوچ کو مجتمع کر کے کلاس کو ڈرائیو کرتی۔ ایک دوپہر کی بات ہیے کہ ساتواں پیریڈ ختم ہو چکا اور میں قریب کے ایک کیفے میں کھانا کھانے کو چل دی۔ ابھی راستے میں ہی تھی کہ ایک جگہ پہ چند مہاجرین کو کسی بات پہ لڑتے دیکھا، وہ کسی بات پہ گتھم گتھا تھے۔ میں سوچنے لگی کہ اضطراب تقریباً ہر ایک بستی کے باسی میں ہے، کوئی اس اضطراب کو frustration کی صورت میں خارج کرتا ہے تو کوئی خوابوں کی تکمیل میں مزید ریاضت و کوشش میں صرف کرتا ہے۔
مجھے پڑھاتے ہوئے تقریبا سال ہونے والا تھا، اس دوران کئی اتار چڑھاؤ نمو دار ہوتے رہے مگر میں نے ان سبھی نشیب والی راہوں سے ایک طرح سے راہِ فرار اختیار کر رکھی تھی۔ مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ باہر کی دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ ان ایام میں صرف مقامی اخبار تک ناتہ جوڑے رکھا۔ نیورو اور اس کی نوجوان نسل میرے خیالات کا محور رہی؛ اکثر سوچتی رہتی کہ فلاں بچے کو کیسے یقینِ محکم کے درجے پہ لا سکوں، فلاں کو کیسے اچھا لکھنے پہ مائل کروں اور ایسے درجنوں خیالات میں پلتی ہوئی ایک سال مکمل کرنے والی تھی۔
ایئرنائن میں کرکٹ کافی پاپولر ہوتا جا رہا تھا۔ ایک دن سبھی بچے کھیل کھیل رہے تھے تو میں میدان کی ایک طرف درختوں کی سایہ میں بیٹھ کر انہیں دیکھنے لگی۔ کلاس دو حصوں میں تقسیم ہو کر باقاعدہ ٹیموں کی صورت میں کھیل رہی تھی۔ اکثر اسپورٹس انچارج امپائرنگ کے امور سر انجام دیتے مگر اس دن وہ موجود نہ تھے۔ کھیل خود بخود چل رہا تھا۔ ایک موقع پہ بیٹسمن نے رن لینے کی کوشش کی، اسی دوران دوسرا رن لیتے ہوئے بال وکٹ کیپر کے پاس جا پہنچی اور اس نے گلیاں اڑا دیں۔
کچھ ہی دیر میں دونوں ٹیم کے کھلاڑیوں میں ٹھن گئی، آؤٹ یا کہ ناٹ آؤٹ۔ پہلے تو میرے دل میں آیا کہ مداخلت کر کے مسئلہ حل کر دیا جائے مگر پھر یہ سوچ کر رہ گئی کہ آج انہیں خود فیصلہ کرنے دیا جائے۔ کیا وہ conflict management کے دیے گئے اسباق کو سمجھ چکے ہیں یا ابھی اس پہ مزید محنت کی ضرورت ہے۔
کچھ ہی دیر بعد آپس کی کُھسر پُھسر سے سب ایک طرف دیکھنے لگے، ہالہ ایکسٹرا کوور کی پوزیشن پہ بیٹھی ان کے مسئلہ کے سلجھنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ایک بچے نے کہا:
”ہالہ ! ادھر آؤ۔۔۔۔جلدی سے ہمارے پاس آؤ۔”
ہالہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ان کے پاس کرکٹ کیپ اتار کے کہنے لگی کہ مسئلہ کیا ہے۔کچھ باز و پرس کے بعد ناٹ آؤٹ تجویز کیا، جسے سب نے مِن و عَن قبول کر لیا۔ حالانکہ رن آؤٹ ہونے پہ ہالہ کی ٹیم کو فائدہ پہنچتا۔ ایک جگہ پہ چوکے اور چھکے کے درمیان اٹک گئے تو نظریں ہالہ کی طرف تھیں، اسی طرح ایل بی ڈبلیو کے موقع پہ بھی سبھی نے ہالہ کی طرف دیکھا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت انگیز مسرت و خوشی کا احساس تھا، ہالہ کھلاڑی ہونے کے باوجود نیوٹرل رہ کر امپائرنگ کر رہی تھی اور اس سے بڑھ کر سب اس کی بات کی تائید کر رہے تھے۔ یہ کافی عجیب و مسرور کرنے والا تھا۔
اس شام میں نے ساحل پہ چہل قدمی کرتے ہوئے دن کی سرگرمی پہ غور و خوض کیا۔ ہالہ کے ہاں کافی مثبت خوبیاں تھیں مگر اس کی ایک خامی بھی تھی۔ وہ سوشل بٹر فلائی نہیں تھی، پہلے اس کا کوئی دوست نہیں بننا چاہتا تھا مگر اب تو کلاس میں ایک بہتر اکیڈیمکس اور ہم جماعتوں کااعتماد حاصل کر چکی تھی، اس کے باوجود وہ اپنے شیل میں رہتی۔ کوئی اس کے پاس آ گیا تو صد بسم اللہ اور اگر نہیں تو وہ بھی اپنی ہی دنیا میں گُم صُم۔
ایک بریک دوران کی بات ہو گی کہ ہم ٹیچرز کافی پی رہے تھے تو اسٹاف روم کے سامنے سے ہالہ گزری، اس کے ہاتھوں میں کچھ کتابیں تھیں۔ میں نے کافی کے کپ کے ساتھ دو عدد بسکٹ اٹھائے اور ہالہ کو گیلری میں جا لیا۔
”ہالہ! میری بچی۔۔۔کدھر جا رہی ہے۔۔۔؟”
”میم! میں لائبریری جا رہی ہوں، چند کتابوں کی آخری تاریخ سر پہ ہے۔ جبکہ چند اور کتابیں بھی لینا ہیں۔”
”ارے ہاں! یہ تو بہت اچھا ہے۔” اس دوران میں نے ٹائٹل پہ نظریں دوڑائیں تو وہ دیومالائی کہانیوں والی کتب تھی۔ میں اندر ہی اندر بولی:
”اس عمر میں ایسی کتب سے تخیل کی پرواز خوب اٹھان بھرے گی۔”
ہم دونوں لائبریری کو چل دیے، لائبریرین سارہ مجھے اچھی طرح سے جانتی تھی۔ میں نے اس سے کتب کو ایشو کرنے کا ریکارڈ مانگا، اس دوران ہالہ نئی کتب تلاش رہی تھی۔ دراصل میں جاننا چاہ رہی تھی کہ ائیرنائن میں کون کون کتابوں کا شوقین ہے۔ رجسٹر پہ نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ ہالہ کے علاوہ کیلب کو کتابوں کا شوق ہے اور وہ متواتر کتابیں مستعار لیتے رہتے ہیں،جبکہ الیکس کبھی کبھار کتابیں لینے آ جاتا ہے۔
ہالہ ایک ٹیبل کے پاس کھڑی کسی نئی کتاب میں کشش تلاش رہی تھی کہ جا پہنچی۔ اسے پاس بٹھایا۔
”ہالہ! تمھیں یہ کتابیں کیسی لگتی ہیں۔۔۔۔؟”
”مس! میرا دل تو کرتا رہتا ہے کہ سبھی کتابوں کا رس ایک ساتھ گھول کے پی لوں، پتا ہے رات کو لیمپ کی روشنی میں یہ کتابیں مجھے پوری دنیا کی سیر کراتی ہیں۔ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔”
”دیکھو ہالہ! یہ جو کتابیں ہیں ناں لوگوں کے تجربات و خیالات کی عکاس ہیں۔ انہوں نے اپنے تجربات سے جو کچھ سیکھا، وہ لکھتے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں خیال ہوتا ہے کہ جو مشکلیں جن situations کا انہیں سامنا رہا، کل کوئی اور ان سے گزرے تو مزید اچھے انداز سے گزرے اور بہت سا لطف لے کر چلے۔ اب جو بھی نئی کارٹون سیریز آتی ہے تو آپ سب فیلوز آپس میں ڈسکس کرتے ہوں گے اور شیئرنگ بھی کرتے ہو گے،اسی طرح کتابوں کوایک دوسرے سے شیئر کرنا چاہیے۔”
”ارے مس! اس پہ تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ یہ میری اپنی سی تصوراتی دنیا ہے۔ میں اپنی مرضی کے رنگوں سے ان تخیلات میں رنگ بھرتی ہوں اور بہت دور اڑتی چلی جاتی ہوں۔ اتنا دور کہ سمندری سرحدیں اور امیگریشن والے بھی مجھے روک نہیں پاتے۔۔۔”
وہ کہتی ہی چلی گئی اور مجھے اپنی سوچوں سے انگشت بدنداں کر گئی۔
”اچھا! تمھیں مزا کب آتا ہے؟ جب تم کسی لطیفے یا مزاح وغیرہ پہ اکیلی ہنسو یا ساری کلاس ایک ساتھ مل کر ہنسے۔۔۔۔اور اس لطیفے کوا نجوائے کرے؟”
”جب ساری کلاس یا میری سہیلیاں میرے ساتھ ہوں۔”
”بھلا کیوں؟” میں نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
”کیوں کہ اس میں لطیفہ کے ساتھ بہت سی مسکراہٹیں شامل ہو جاتی ہیں۔ آپ ٹرن یا ہوننگ کو کبھی ہنستے دیکھیں، کوئی ہنسی کی بات ہو یا نہ ہو تو ان کے چہروں کو دیکھ کر ہنسی آجاتی ہے۔”
میں نے اس کے خیال میں اضافہ کرتے ہوئے کہا:
”اور اس پہ جب تم سہیلیاں کمنٹ پاس کرتی ہوں گی۔ تو وہ ایک لطیفہ اک پورا خوشی کا ماحول بنا لیتا ہے۔ ایسے ہی شیئرنگ میں بہت efficiency ہے،آپ کم input دے کر زیادہ output سمیٹ سکتے ہو۔ یونہی تم اپنی کتابیں، پسندیدہ پھول، گفٹ، لطیفے اور خوشیاں اپنی کلاس اور دوستوں میں شیئر کیا کرو۔”
ہالہ کچھ دیر تو ہاتھوں کے پیالے میں مُنھ ایستادہ کیے سوچتی رہی، پھر یک بارگی مسکرا دی۔ اس نے کچھ نہیں کہا، مگر اس کے چہرے کے تاثرات سے مجھے لگا کہ وہ میری تجویز کو کسی حد تک سمجھ چکی ہے۔
اسی ہفتے میں ہالہ مسلسل دو دن تک اسکول نہیں آئی، جب تیسرے دن آئی تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا، وہ اداس تھی، معلوم ہوتا تھا کہ بہت دیر تک روئی ہو۔کلاس میں جو بھی اس کے پاس گیا، اداس ہی لوٹا۔ میں اپنے طور پہ قیاس کرتی ہوئی مختلف ایکٹیوٹیز گروپ کی شکل میں کرواتی رہی تا وقت یہ کہ کلاس کا وقت ختم ہو گیا۔ بعد از سیشن، میں نے ہالہ کو کلاس سے باہر بلوایا اور استفسار کیا۔
پہلے تو وہ کچھ بول نہ سکی اور آنسوؤں کی ڈوری اس کے معصوم رخساروں سے بہہ سی گئی۔
”میم! میم۔۔۔۔وہ۔۔۔میرے ابو کو بندوق والوں نے مار دیا۔ میرے ابو کو ان بے حس لوگوں نے مار دیا۔۔۔”
مزید تفصیلات سے پتا چلا کہ اس کے ابو شام میں خانہ جنگی کے سبب ایک جگہ گولیوں کی بوچھاڑ میں آگئے، اور اسی وجہ سے وہ دو دن تک نہیں آسکی۔ اس دن میں نے بریک کے وقت تقریباً آدھی کلاس کو ایک طرف سنجیدہ بیٹھے ہوئے دیکھا، وہ ہالہ کے بالکل پاس بھی نہیں تھے، مگر معلوم ہوتا تھا کہ اپنے اس باڈی جسچر سے یہ پیغام دے رہے ہوں کہ وہ ہالہ کی اداسی میں میں شریک ہیں۔
کلاسیز ہوتی رہیں، میں اپنی مشکلات بھول کر ایئر نائن میں کافی توجہ سے پڑھاتی رہی اور ان کی کلاس سے ہٹ کے بھی روٹین کا باریکی سے مشاہدہ کرتی اور یوں وہ کلاس میرے دل کے بہت قریب ہوگئی۔ رفتہ رفتہ اس کلاس میں کوئی کسی بھی طرح کی تفریق معلوم نہیں ہوتی تھی، ہیڈ مسٹریس سے لے کر باقی سٹاف بھی بچوں کی اوور آل پرفارمنس سے خوش تھے۔
با لآخر آخری دن آ گیا، یہ اسکول میں میرا آخری دن تھا، میری براستہ برسبن سڈنی کے لیے بکنگ ہو چکی تھی۔ ایئر نائن نے میرے لیے ایک پر خلوص پارٹی کا خود سے اہتمام کیا اور اس سے بڑھ کر مجھے اخیر لمحوں میں بتا کر حیرت میں بھی مبتلا کر دیا۔
بریک کے دوران اچانک پلے گراؤنڈ میں شور سا برپا ہو گیا، میں اپنی چائے ایک طرف چھوڑ کر باہر نکلی تو بہت سے بچوں کو جمع ہوتے دیکھا، بغور دیکھا تو ہالہ اور ایئر ٹین کے بچے میں کسی بات میں ان بن ہو گئی تھی۔ وہ عمر میں اس سے بڑا تھا اور کچھ تناؤ والے انداز میں کھڑا تھا۔ مجھے لگا کہ وہ ابھی ہالہ کو گھونسا دے مارے گا،اور ایسا ہی ہوا، اس نے ایک زور دار گھونسا اس کے مُنھ پہ دے مارا۔ آن کی آن میں ناک کے بانسے سے خون بہہ نکلا۔ میں نے جلدی سے آگے بڑھنے کا سوچا ہی تھا کہ ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا۔
ائیر نائن کے بچے اِدھر اُدھر سے سامنے آنے لگے اور عین ہالہ اور ائیر ٹین کے بچے کے درمیان آگئے۔ وہ لڑکا، پوری کلاس اور پھر ان کے باقی دوستوں کو یوں جمع ہوتے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس سے پہلے جہاں لڑائی ہوتی تو سبھی تماشا دیکھتے تھے؛ آج پہلی بار ایسا واقعہ ہو رہا تھا۔ گو کہ ہالہ کی ناک سے ابھی بھی خون بہہ رہا تھا مگر مجھے کلاس کو یوں یکجا ہو کر ہالہ کے ارد گرد جمع ہوتے دیکھ کر دل شادگی ہوئی۔
جہاز بادلوں کے بیچ میں رستہ بناتے ہوئے اڑتا جا رہا تھا، میں نیو ساؤتھ ویلز کی فضائی سرحد میں داخل ہو چکی تھی، مگر ہالہ اور اس کی کلاس کے ساتھ گزاریا ایک سال یادوں سے بھرپور تھا اور ان کا بسیرا میرے آس پاس تھا۔ مجھے یاد آنے لگا کہ ہالہ نے اپنے نام کا مطلب بتایا تھا کہ چاند کے ارد گرد روشنی کا ہالہ سا بن جانا، جیسے بارش ہونے والی ہو اور ایسا ہی ہوا، آخری دن کی لڑائی میں ہالہ کے ارد گرد دنیا سے آئے مہاجر اور نیورو کی آبادی نے اس کو اپنی بانہوں میں بھر دیا تھا۔
ہاں! اسے یتیم ہونے سے تو کوئی نہیں بچا سکا مگر وہ اب homeless نہیں رہی، نیورو اب اس کا اپنا گھر تھا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.