رادھرم میں بچوں کا جنسی استحصال

Naseer Ahmed
نصیر احمد

رادھرم میں بچوں کا جنسی استحصال

از، نصیر احمد

رادھرم ساؤتھ یارکشائر میں جانم قشنگ شیفیلڈ کے قریب ہی ایک ٹاؤن ہے۔ اس شہر نا مراد میں میں ستر کی دھائی سے بچوں کے جنسی استحصال کا ایک گھناؤنا سلسلہ جاری ہے۔ بعد میں جب برطانیہ عظیم میں فلاحی ریاست کا زوال ہوا اور کار و بار کا عروج تو یہ سلسلہ با قاعدہ  کار و بار بن گیا اور جب یہ سلسلہ با قاعدہ کار و بار بنا تو یہ استحصال بڑے پیمانے پر ہونے لگا۔ اور اس سنگ سرد و سنگ سیاہ و سخت خارا جیسے کار و بار میں ایشیائی برطانویوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے اور اس کار و بار کی ستم زدہ بچیوں میں سفید فام بچیوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ اور جو ایشیائی برطانوی یہ ستم کرتے ہیں ان میں پاکستانی نژاد مردوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے۔

برطانیہ عظیم کی نیشنل کرائم ایجنسی کے مطابق انیس سو ستانوے سے لے کر دو ہزار تیرہ تک چودہ سو بچے اس جنسی استحصال کا شکار بنے۔ اور اس بربریت کے ذمہ داروں میں اسی فیصد پاکستانی نژاد ہیں۔ اس معاملے پر کافی عرصے سے رپورٹیں لکھی جا رہی ہیں، تفتیشیں کی جا رہی ہیں، معاملے کے حل کے لیے سفارشات مرتب کی جا رہی ہیں اور ان سفارشات پر عمل در آمد کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سارے مقدمے بھی عدالت میں موجود ہیں اور کچھ کے فیصلے بھی ہو چکے ہیں۔

ایک ایسے ہی فیصلے کی خبر سنتے ہوئے ہم نے سنا کہ مجرموں کے چہروں پر کہیں ندامت کے آثار نہیں نظر آئے۔ ایک اور مقدمے کے بارے میں پڑھا کہ سزا کے بعد راہ داریوں سے گزرتے ہوئے مجرموں نے صدائے تکبیر بھی بلند کی کہ جیسے کوئی بڑا کار نامہ انجام دیا ہوا۔ اس اچھے سے لڑکے نے بھی فون پر خبر دی کہ ان جیسوں کے گھروں پر اپنے لوگ اظہارِ افسوس کے لیے بھی پہنچ جاتے ہیں۔

یہ سفاک مرد دس دس سال کی بچیوں کو ورغلانے کے لیے دوستی اور محبت کو استعمال کرتے تھے۔ کارپوریشنوں نے اپنی اشیاء فروخت کرنے کے لیے لوگوں کو تنہا کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ لوگ اس تنہائی سے فائدہ اٹھاتے تھے اور تنہائی دور کرنے کے بہانے ان بچیوں کو اپنی سازشوں سے ترتیب دی ہوئی سیاہوں کی اذیت میں مبتلا کر دیتے۔

کبھی غربت اور گھروں میں برپا خرابیوں کا فائدہ اٹھاتے۔ کبھی شراب، منشیات، اچھے کھانے اور چاکلیٹوں کو ان بچیوں کو پھنسانے کے لیے استعمال کرتے۔ ان سب چیزوں کو وہ قرض کہتے او جس کی ادائیگی ان بچیوں کا جنسی استحصال تھا۔ کبھی ڈراتے دھمکاتے کہ اگر تم یہ سب کچھ نہ کرو گی تو کل یہاں تمھاری بہن ہو گی یا تمھاری ماں۔ اور یہ بچیاں اپنی ماؤں بہنوں کے تحفظ کے لیے یہ سب کچھ سہتی رہتیں۔


مزید دیکھیے: بچہ کند ذہن ہوتا نہیں، ہم بنا دیتے ہیں  از، عرفانہ یاسر

سخت گیر والدین کے بچوں کی تعلیم پر برے اثرات


کبھی بد ترین قسم کا جنسی تشدد کرتے اور کبھی ان بچیوں کو اس تشدد کے مناظر بھی دکھا کر ڈراتے کہ اس کے بعد تمھاری باری ہے۔ کبھی ان بچیوں کے جسم پر پٹرول چھڑک کر جلانے کی دھمکیاں دیتے کہ اگر ہماری بات نہ بنی یعنی مردوں کے ہاتھوں اپنا جنسی استحصال نہ ہونے دیا تو ہم تمھاری جان لے لیں گے۔

سال ہا سال یہ ظلم جاری رہا اور رادھرم کونسل نے یہ سب روکنے کے لیے کچھ خاص نہیں کیا۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان بچوں کی اکثریت غریبوں سے تعلق رکھتی تھی اور غریبوں سے نفرت کی ایک ثقافت کار و بار کی برین واشنگ کی وجہ سے عام ہونے لگی۔ نا کام کنبوں کے غریب بچے زینہ در زینہ امیر ہوتےلوگوں کی ترجیح نہ تھے۔

درمیان میں اچھے ریسرچر شور کرتے رہے، میڈیا میں شور بھی اٹھتا رہا مگر کونسل نے نہ سنی۔ کونسل ایک وجہ یہ بھی بتاتی ہے لوگ پاکستانی نژاد شہریوں اور رہائشیوں کی طرف سے نسل پرستی کے خوف میں بھی مبتلا تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نسل پرستی کا الزام دھرنے میں کافی تعداد میں پاکستانی نژاد کچھ زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ بہ ہر حال، کونسل کے پاس اداروں، قوانین اور قوانین کے نفاذ کے ذرائع موجود تھے، پاکستانی نژاد کمیونٹی سے رادھرم میں گفتگو کی جا سکتی تھی کہ یہ معاملہ رنگ و نسل کا نہیں ہے بچوں کا ہے اور بچے قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، مستقبل کے معمار ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر انسان ہوتے ہیں۔ لیکن چوں کہ یہ نا کام کنبوں کے غریب بچے تھے، اس لیے کونسل اپنے فرائض ادا کرنے میں نا کام ہو گئی۔

سب سے بڑی وجہ ہمارے حساب سے یہ طرز زندگی ہے جسے کار و بار نے فروغ دیا ہے جس کے نتیجے میں کسی کو دوست بنانے کے لیے بھی فارم بھرنے پڑتے ہیں۔ جب عوامی جگہ بھی گوشۂِ تنہائی بن جائے جس میں آپ یا تو کسی کتاب میں گم ہو جائیں اور اپنے موبائل سے کھیلنے لگیں، آپ کو کیا خبر ہو گی کہ معاشرے میں کیا ہو رہا ہے؟ اور جو باتیں دکھیا کریں ان سے فرار کو روزانہ کسی نہ کسی کامیاب  کار و باری کی دانائی کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان حالات میں نا کام کنبوں کے غریب بچوں کے حالات سے آگاہ ہونے کے لیے کون کوشش کرتا۔ اور پھر مصروفیتیں، کام پہ جانا ہے، ورزش بھی کرنی ہے، تھیٹر دیکھنا ہے، کنسرٹ پر پہنچنا ہے، کتے کو ٹہلانا ہے، سیر کرنی ہے، گھر کے کام کاج پڑے ہیں، کنبے کے ساتھ وقت گزارنا ہے، دوستوں سے ملنا ہے، ایسے میں اچھائی کے جذبات کی موجودی کے با وجود اچھائی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ٹیکنالوجی کا وعدہ تو یہی تھا کہ بہت سارا وقت بچ جائے گا اور یہ وقت انسانی زندگی کی بہتری کی کوششوں میں صرف کریں گے، لیکن بڑے  کار و باریوں نے معاشروں پر قبضہ کر لیا اور انسانی زندگی کی بہتری پر وقت صرف نہیں ہو سکا۔

لیکن اس بھی اہم وجہ ہمارے خیال میں دوسرے انسانوں کو صرف اوزار، ہتھیار اور آلات سمجھنا ہے جن کا اپنے طاقت، دولت اور شہرت، سیکس اور انا کے مفادات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر یہ آلات قابل استعمال نہ ہوں تو پھینکے بھی جا سکتے اور توڑے بھی جا سکتے ہیں۔ اور ان کا بے دردی اور بے رحمی سے استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

یہ تو ہوئی نظریاتی  کار و باری طرز حیات کی نا کامی، رادھرم کونسل کی نا کامی، پولیس کی نا کامی، رادھرم کے لوگوں کی نا کامی، اور برطانوی معاشرے کی نا کامی۔ لیکن سب سے بڑی نا کامی تو ان پاکستانی نژاد مردوں کی نا کامی ہے جنھوں نے طاقت، ہوس اور پیسے کے لیے اپنی بنیادی انسانیت ہی معطل کر دی اور ان بچیوں کو اپنی سازشوں، شقاوتوں اور سفاکیوں کا شکار بنایا۔

پاکستان بَل کہ پورے جنوبی ایشیا میں بھی ایک طرز زندگی رائج ہے جس کے مطابق دوسرے لوگوں کی انسانیت سے انکار کو نیکی سمجھا جاتا ہے۔ اور جن خیالات پر اس طرز زندگی کی اساس قائم ہے ان کے مطابق انسانی حقوق کے تحفظ کی دلوں اور ذہنوں میں جگہ ہی نہیں بچتی۔ خود ہی بتائیں کیا انا، دولت، طاقت اور سیکس کے لیے قانون، اخلاقیات اور انسانیت کی معطلی عام نہیں ہے؟ یقین نہیں آتا تو انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان اور جنوبی ایشیا کی عالمی رپورٹوں میں کار کردگی دیکھ لیں۔ مسئلہ یہی ہے جب دوسرے لوگ آپ کی نظروں میں انسان ہی نہیں ہیں تو پھر کہاں کے انسانی حقوق؟ ابھی ایک پوسٹ آئی ہے کہ اپنے لوگ جہاں بھی چلے جائیں، بدلیں گے نہیں۔

یہی بات ہے وضع قطع تو بدل جاتی ہے مگر ایک شہر میں جنسی استحصال کے مجرموں میں اسی فیصد موجودگی یہی بتاتی ہے کہ جو زندگی کے بارے میں بنیادی خیالات ہیں، وہ نہیں بدل پا رہے۔ اور وہ خیالات صدیوں پرانے ہیں اور فرد کو حقوق دینے کے حق میں نہیں ہیں اور شہریت کے رواج کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہیں۔

اس معاملے میں معاملات اس لیے خراب ہوئے کہ دو دنیاؤں کی بدی اپنی انتہاؤں میں ان افراد کے شخصیات میں ایسے متحد ہوئی کہ ان کے احساسات کی دنیا میں انسانیت کے مستقبل کے لیے محبت کے، خرد کے، انسانی ہمدردی کے، شہری جذبات کے سب دریچے، سب روزن بند ہو گئے۔

ایک ستم زدہ نے یوں شکوہ کیا جس کا مفہوم کچھ یوں تھا بچپن کے دو تین سالوں میں ان لوگوں نے اس کے جنسی استحصال کے لیے اسےسو مردوں کے حوالے کیا۔

بڑی ہی تکلیف دہ بات ہے اور اس بات کی اذیت تبھی ہی کم کی جا سکتی ہے کہ زندگی کے بارے میں ان سب خیالات کے خاتمے کی کوشش کی جائے جو اس طرح کے ظلم کی افزائش کریں۔