(حُر ثقلین)
کوئی بھی ریاست از خود اپنا نظم و نسق نہیں چلا سکتی ہے۔ریاست کا نظام چلانے کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جن کا تعلق اسی ریاست سے
ہوتا ہے۔دنیا بھر میں ہر ریاست کا اپنا دستور اور طریقہ کار ہے۔اس کے عوام ایک مخصوص طریقہ کار کے ذریعے چند لوگوں کو منتخب کر کے ایک مخصوص عرصہ کے لیے ریاست کی ذمہ داریاں سونپتے ہیں۔دورِ جدید میں جمہوریت کو ہی بہترین نظام مانا جاتا ہے۔جمہوری ریاستوں میں لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دیانتدار اور اعلیٰ اخلاق کے حامل لوگوں کو منتخب کریں اور انہیں اپنی ریاست کا امین مقرر کریں۔منتخب شدہ افراد بھی اس بات کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے عوام کی توقعات پر پورا اتریں اور جو امانت ان کے سپرد کی گئی ہے اس میں کسی قسم کی خیانت نہ ہو۔اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ طاقت ور اور با اثر ریاست امریکہ کی ہے۔اس کی پالیسیاں پوری دنیا کو متاثر کرتی ہیں۔عالمی سیاست میں اس کا پر اثر کردار ہے۔دنیا کے ہر مسلے میں اس کی اہمیت اور شرکت موجود ہے۔امریکی عوام کو بھی اس کا بخوبی اندازہ ہے۔اسی لیے امریکہ میں ہونے والے انتخابات میں دنیا بھر کو دلچسپی ہوتی ہے۔ان انتخابات میں عالمی سرمایہ داراپنا بھر پور اثر ورسوخ اور سرمایہ استعمال کرتے ہیں۔ رائے عامہ کے تجزیوں پر بھی بے دریغ پیسہ صرف کیا جاتا ہے۔عوامی خیالات اور رائے کو بدلنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔اسرائیل اور یہودیوں کی دلچسپی سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں روس کے اثر انداز ہونے کی بھی خبریں گرم ہیں۔یہ امر طے شدہ ہے کہ امریکی انتخابات میں سرمایہ اور بیرونی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں ۔اہم عہدوں پر تعیناتیاں بھی کسی نہ کسی اثر کے تحت کی جاتی ہیں۔اس سب کے باوجود امریکی صدر اور اس کی ٹیم پر کرپشن یا بد دیانتی کے الزامات نہیں لگتے ہیں۔مالی بدعنوانیوں میں ان کا نام نہیں آتا ہے۔وہ ہر قسم کے دباؤ کو بالائے طاق میں رکھتے ہوئے اپنے عوام کی توقعات پر پورا اترتے ہیں اور ان اعلیٰ اخلاقی قدروں کا پاس رکھتے ہیں جو امریکی عوام نے ان کے لیے مختص کر رکھی ہیں۔اوباما دور کے نائب صدر جو بائیڈن نے دیانت کی عمدہ مثال قائم کی ہے۔2014میں بائیڈن کو کینسر کے مرض میں مبتلا اپنے بیٹے کے علاج کے لیے خطیر رقم کی ضرورت تھی۔ان کے مالی وسائل یہ رقم مہیاکرنے سے قاصر تھے۔ بینک سے قرضہ لینے کی شرائط سخت تھی۔ وہ چاہتے تو کسی بھی سرمایہ دار سے باآسانی رقم لے سکتے تھے مگر انہوں نے اپنا گھر بیچنے کا ارادہ کیا ۔جب اوباما کو اس کی خبر ہوئی تو امریکی صدر نے اپنے ذاتی سرمائے سے بائیڈن کی مدد کی ۔بعد ازاں 2015میں بائیڈن کا بیٹا فوت ہو گیا۔نائب صدر نے اس مشکل دور میں بھی ریاست اور اس کے وسائل پر بوجھ بننامناسب نہ سمجھا اور ان تمام قانونی اور اخلاقی قدروں کا خیال رکھا جو ریاست اور عوام نے ان پر لاگو کر رکھی تھی۔
اب اگر ہم پاکستانی ریاست کا بغورجائزہ لیں تو صورت حال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔حکمران تو ایک طرف یہاں کا ایک عام چھوٹے درجے کا سرکاری ملازم بھی ریاست کے وسائل کو اپنے تصرف میں لانا اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ریاستی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے اور اس پر بجائے شرمندہ ہونے کے فخر کیا جاتا ہے۔ہر سطح پر کرپشن معمول بن چکی ہے۔پکڑے جانے پر پلی بار گین کے بعد باعزت زندگی بھی گزاری جاتی ہے۔ملک میں پاناما سیکنڈل کا بہت شور ہے۔اس میں جن لوگوں کے نام ہیں وہ شرمندہ ہونے کی بجائے اس پر فخر کرتے ہیں ناجائز دولت کے حق میں بولنے والوں کی ایک فوج بھی موجود ہے۔بد عنوانی،بد دیانتی اور کرپشن کا دفاع کیا جاتا ہے۔ قوم کو باور کرایا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنے پر حکمران نااہل نہیں ہو سکتے ہیں۔ہسپتالوں میں ادویات نہیں ملتی ہیں۔ملک میں جو سینکڑوں منصوبے شروع کیے گئے ہیں ان میں بدعنوانیوں کی داستانیں زبان زدِ عام ہیں۔ یوں پاکستانی معاشرے میں اخلاقی قدروں کو پامال کیا گیا ہے۔بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ریاست میں جن لوگوں کو اس کا امین بنایا جاتا ہے وہی سب سے بڑے خائن بن کر سامنے آتے ہیں۔اس پر مزید افسوس یہ کہ وہ اپنی بددیانتی پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے ہیں۔اس پر مزید ستم یہ کہ اگر پاکستانی قوم کو یہ بتایا جائے کہ ریاست کے امین کیسے ہوتے ہیں تو مثال جو بائیڈن یا دیگر یورپی ملکوں کی دینی پڑتی ہے۔پاکستانی قوم کو اس بارے میں سوچنا ہو گا اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا ہو گا جو ان کی ریاست کے وسائل کی حفاظت کر سکیں اور مثالی معنوں میں امین ہوں اور دنیا ان کی امانت داری اور اعلیٰ کردار کی مثال دے سکے۔
اب اگر ہم پاکستانی ریاست کا بغورجائزہ لیں تو صورت حال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔حکمران تو ایک طرف یہاں کا ایک عام چھوٹے درجے کا سرکاری ملازم بھی ریاست کے وسائل کو اپنے تصرف میں لانا اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ریاستی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے اور اس پر بجائے شرمندہ ہونے کے فخر کیا جاتا ہے۔ہر سطح پر کرپشن معمول بن چکی ہے۔پکڑے جانے پر پلی بار گین کے بعد باعزت زندگی بھی گزاری جاتی ہے۔ملک میں پاناما سیکنڈل کا بہت شور ہے۔اس میں جن لوگوں کے نام ہیں وہ شرمندہ ہونے کی بجائے اس پر فخر کرتے ہیں ناجائز دولت کے حق میں بولنے والوں کی ایک فوج بھی موجود ہے۔بد عنوانی،بد دیانتی اور کرپشن کا دفاع کیا جاتا ہے۔ قوم کو باور کرایا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنے پر حکمران نااہل نہیں ہو سکتے ہیں۔ہسپتالوں میں ادویات نہیں ملتی ہیں۔ملک میں جو سینکڑوں منصوبے شروع کیے گئے ہیں ان میں بدعنوانیوں کی داستانیں زبان زدِ عام ہیں۔ یوں پاکستانی معاشرے میں اخلاقی قدروں کو پامال کیا گیا ہے۔بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ریاست میں جن لوگوں کو اس کا امین بنایا جاتا ہے وہی سب سے بڑے خائن بن کر سامنے آتے ہیں۔اس پر مزید افسوس یہ کہ وہ اپنی بددیانتی پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے ہیں۔اس پر مزید ستم یہ کہ اگر پاکستانی قوم کو یہ بتایا جائے کہ ریاست کے امین کیسے ہوتے ہیں تو مثال جو بائیڈن یا دیگر یورپی ملکوں کی دینی پڑتی ہے۔پاکستانی قوم کو اس بارے میں سوچنا ہو گا اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا ہو گا جو ان کی ریاست کے وسائل کی حفاظت کر سکیں اور مثالی معنوں میں امین ہوں اور دنیا ان کی امانت داری اور اعلیٰ کردار کی مثال دے سکے۔