گاؤں میں جگنو اور تتلیاں کیوں مر گئیں
وہ گاؤں جس کی مٹی میں، ہماری آنول نال گڑی ہے، گاؤں کی وہ کچی مٹی جب کبھی ہمارے پاؤں کے تلوے چومتی ہے تو مضافات ایک مَن بھاتی خوش بُو کی سرشاری ہمارے وجود میں داخل کر دیتے ہیں۔ یہ وہی مٹی ہے جس میں ہم لڑکپن کی عمروں تک خوب کھیلے کودے موسموں اور بارشوں سے دوستیاں نبھائیں اور سائیکلوں پر سوار ہو کر دھرتی ماپتے ہوئے دنوں اور چاندنی راتوں میں لُک چھپ کھیلتے ہوئے دھنک رنگوں سے ہم کلام رہے۔
یہ وہ خواب آور اور خوب صورت بچپنا تھا جب ساتھ کے گاؤں میں کسی مر جانے والے کی قل خوانی میں پکنے والے چنوں والے چاول بھی ہمیں سکول سے بھاگنے کی راہ دکھاتے تھے۔ اور ہم بستہ تختی سمیت قل خوانی والے گاؤں سے ہو کر اپنے گاؤں کی طرف جانے والے راستے پر سیدھے ہو جایا کرتے تھے۔
گاؤں در گاؤں دیہی آبادیات کا بھی ایک اپنا فطری و قدرتی حسن ہوا کرتا ہے جو دیہات والوں کی سماجی رُسُوم اور حدود و قیود کا ایک ایسا منظر نامہ ترتیب دیتا ہے جس میں زراعت، آبی اور خشکی میں سانس لیتی ہوئی حیاتیات اور جیون دھارا کی اپنی ایک الگ ماحولیات ہوتی ہے جسے ہم سماجی ماحولیات کا نام دیتے ہیں۔
جو شہری دستور اور رُسُوم سے ہٹ کر جس دیسی ثقافت کو جنم دیتا ہے وہ روایت بن کر دیہات در دیہات اگلی نسلوں تک بَہ حیثیتِ وراثت منتقل ہوتا رہتا ہے۔
جیسا کہ کچی مٹی۔ دودھ دہی اور اس کی مصنوعات یعنی لسی، ادھ ولوڑیا (اَدھ بلوئی ہوئی لسی، مکھن، دیسی گھی، کچا اور کڑھا ہوا دودھ، دودھ کا کھویا، سوہن حلوہ، مٹی سے بنائے گئے پختہ برتن، نقش گری، بیل بوٹے) ہماری ماحولیات سے مطابقت رکھنے والے جان دار اور غیر جان دار اجزاء و اجسام، ہمارا رہن سہن اور ہمارا لباس۔ ہمارے رُسوم و رواج، ہماری زبان، مقامیت اور علاقائی اشیاء و عناصر کے رنگ ڈھنگ یا اسلوب، دھوتی لنگی اور چولا، کڑھائی سلائی، بیل بوٹے، دیہات کا اولگی نائی، موچی اور دیہات کا لوہار جس کی دھونکنی کی کسی گوری کی سانسوں کی طرح سے اوزار تیز کرتی اور گاؤں کے منظر نامے کی تراش خراش اور کٹائی بٹائی کے کام آتی ہے۔ اوزار سازی اور اوزار کا استعمال ایک دیہاتی سے زیادہ کوئی نہیں جانتا: وہ چرواہا ہے، کسان ہے، مزدور ہے، ہنر کار ہے اور دل کا سخی و دھنوان ہے۔
ہر ایک دو کوس یا ایک دو میل کے فاصلے پر موجود تیس سے چالیس کچے پکے گھروں پر مشتمل گاؤں۔ ہر گاؤں میں ایک مسجد اور گاؤں سے باہر ایک پرانا زیرِ زمین میٹھے پانی کا کنواں کہ جسں کی سو سے ڈیڑھ سو فٹ گہرائی میں موجود پانی سیاہ ہو چکا ہوتا کیوں کہ رہٹ نہ ہونے اور کنواں چلنے کا عمل متروک ہونے کی وجہ سے اب دیہات کے لڑکے بالے آتے جاتے اس میں جھانکا کرتے اور پتھر یا مٹی کے ڈھیلے اس میں ڈال کر گہرائی سے اوپر کی طرف اٹھتا ہوا پُر اسرار شور سنا کرتے تھے۔
کچھ گاؤں کے کنوئیں مٹی سے بند کر دیے گئے تھے کیوں کہ ان میں کئی جانور اور ایک دو بچے گر کر ہلاک ہو چکے تھے اور اب ویسے بھی کنوؤں کا رواج نہیں رہا تھا۔ ان کنوؤں کو پہلے پہل چاہ کہا جاتا رہا جس کی وجہ سے ہر گاؤں کے نام سے پہلے چاہ لکھنے کا رواج رہا اور بعد میں سرائیکی میں انہیں کھوہ کہا جانے لگا جیسا کہ اگر گاؤں کا نام کپری والا یا آدم والا ہے تو اسے چاہ کپری والا یا چاہ آدم والا کہا جاتا رہا اور ازاں بعد کھوہ کپری والا اور کھوہ آدم والا کہا جانے لگا۔
وقت بدلا تو ان کنوؤں کی جگہ نلکے لگائے گئے اور پھر بجلی کا دور شروع ہوا اور گھر گھر پانی کی موٹر۔ نکاسی کا نظام اور تفریح کے آلات آ موجود ہوئے۔ گھر میں ٹی وی آیا تو تِھیئٹر کی ثقافت بھی 1987 تک ہم سے روٹھ گئی۔ ڈرامہ اور سٹیج تِھیئٹر، ٹیلی ڈرامہ فلم اور ڈاکیومینٹری میں بدل گئے۔
کچے راستوں کی ہیئت بدلنے کا رواج ہوا تو سائیکل کی جگی موٹر سائیکلوں اور بھاری گاڑیوں نے لے لی۔
گاؤں سے دوسرے گاؤں کی طرف جاتی ہوئی کچی پکی اب جو سڑک دیہات میں موجود ہے وہ بارش کے دنوں میں گزرنے والے مسافروں کے لیے مشکلات کا مِحوَر بن جایا کرتی ہے۔ اور اکثر پیدل، یا سوار اس تختے پر پھسلتے گرتے پڑتے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ زرعی اجناس میں آم، امرود، ملٹا، کنو، لیموں، انار، دھنیا، تھوم، پیاز، بنگرے، سرسوں، شلجم، مولی اور گاجریں ہر گھرانے کی اپنی ملکیت ہوا کرتے تھے اور ان میں سے اگر کوئی سبزی یا پھل کوئی ذی نفس کھانا بھی چاہتا تو اجازت لے کر کچھ مقدار میں بنا قیمت یا قیمتاً اسے وہ سبزی یا پھل توڑ کر دے دیا جاتا۔
گھروں کے ساتھ ملحقہ آم کے باغات دو سے چار چار مربع اراضی پر پھیلے ہوئے ہوتے جن کے درمیان کے علاقہ میں کوئی قدیم گھر بھی ہوا کرتا جو باغ کے مالک کی ملکیت میں ہوتا۔ جس کے باہر ایک ترتیب میں کچھ پھل دار درخت، یا آم کے ہی پیڑ ہوتے جن کا سایہ اور جُثّہ ہمارے دل کو اپنی طرف کھینچ لیا کرتا۔
پھر ایک دور آیا جب کپاس کی چاندی بیچ کر منافع کمانے کے لالچ میں کسان اندھے ہو گئے اور روزانہ کی بنیاد پر آموں کے لاشے گرائے جانے لگے۔ دھڑام دھڑام گرتے ہوئے آم اور پھر آموں کی جگہ پر چٹیل میدان ان میدانوں میں ٹریکٹر کی مدد سے ہل چلائے گئے۔ زمین نے احتجاج کیا لیکن اسے انسان کی جبریت کا سامنا تھا انسان جیسے عِفرِیت نے زمین کا خون پینے کے لیے کپاس کاشت کی اور اس پر سپرے کا عمل آغاز ہوا۔
ایک سپرے دوسرا اور پھر تیسرا سپرے۔ یوں اخبار اور ریڈیو پر زرعی دواؤں کی افادیت اور طاقت کے حوالے سے اس طرح کے اشتہارات بھی نشر ہونے لگے:
کپاس کی چاندی کو سونا بنائے
سیبا گائیگی کی پولیٹرین سی
زرعی دواؤں نے حقیقی زندگی کو بے رنگ پھیکا اور مریل بنا دیا۔ بہت سی نباتات اور چھوٹے پھول مرے تو ان کے ساتھ ہی ساتھ وہ گھاس بھی مر گئی جس میں کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے تھے اور وہ جگنو اور چھوٹی چھوٹی ہلکلی گلابی، ارغوانی اور سفید تتلیاں بھی مر گئیں۔ باغات، فصلوں اور اجناس دار کھیتیوں کے بیج کھانے والے پرندے بھی وہاں سے جنگلوں اور دریاؤں کی طرف ہجرت کر گئے یا پھر زہریلے بیج کھا کھا کر مر گئے۔ ہزاروں اقسام کے صحت افزا اور فصل آوری میں مددگار حشرات فاضل اور متعفن ماحولیاتی اجزاء ہضم کرنے والے مَثبت عمل بیکٹیریا اور پرندے یا جانور بھی موت کے ہاتھوں ہمارے ماحول سے رخصت ہونے میں ذرہ بھی دیر نہ ہوئی۔
دھوپ اور چھاؤں کا تناسب بگڑا۔ بچوں کے لکڑ ڈاٹ اور گُلّی ڈنڈا کھیلنے کا ماحول ویران ہوا۔ کھلے میدانوں کی جگہ فصل کاشت ہوئی تو دیہات میں موجود خالی قطعاتِ اراضی بھی ختم ہو گئے، نو جوان کھیل کے میدان نہ پا کر روایتی کھیل کشتی، کبڈی، ورلی، باندر کِلّہ اور بہت سی دوسری تفریحی سر گرمیاں بھول گئے۔ بے کاری، اداسی، انتشار، ڈپریشن جیسے امراض بڑھتے گئے اور رہی سہی کسر کلاشنکوف کلچر منشیات اور افغانستان امریکہ جنگ میں پاکستانی شمولیت نے پوری کر دی۔
سماجی ماحول جہاں مصروف ہوا وہاں نظام ِحیات ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں سرمایہ داروں کی گود میں جگہ لینے لگا اور نفسا نفسی کی کیفیت پیدا ہوتی چلی گئی۔ شہروں کا گند نکاسیِ آب کے بہانے سے ان نہروں کا مقدر بنادیا گیا جن کا پانی دور دراز دیہات کے کھیتیوں کو شفا بخشتا تھا۔ اب وہ پانی زہر بخشنے اور بیماریاں اگانے لگا۔ سبزیات اور مقامی پھلوں میں زہر اور کیمیکلز شامل ہوئے تو لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر کینسر زدہ ہوتے چلے گئے۔
سرمایہ، پیسہ، خود غرضی اور جھوٹ کی کالی چادروں نے صبحوں اور شاموں کے نور کو دھندلا کر دیا۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد سارا ماحول بے کیف، زندگی سے ڈرا سہما اور بیمار زدہ اور مفلوج دکھائی دینے لگا اور پھر آبادی بڑھی تو اس کے مُضر اثرات نے بھی زندگی پر دباؤ کو کچھ اور بڑھاوا دیا۔
نان ہائی جِینَک فوڈز اور مصنوعی مشروبات بازار میں بکنے لگے جن کی وجہ سے اوسط عمر کم ہوتی گئی اور بیماریاں بڑھتی چلی گئیں، جن پر قابو پانے کے لیے لوگ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی طرف بھاگے۔ بازار ہسپتال اور تعلیمی ادارے کارپوریٹ کلچر میں بدلتے چلے گئے جب کہ کھیل کے میدان اور گھروں کا سکون برباد ہوتا چلا گیا۔ سماجی ماحولیات میں منفی اسباب نے جو نقب لگائی اس میں ابھی تک میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کا حصہ شامل ہونا باقی تھا۔
لیکن زندگی اب سے ہی داؤ پر لگ چکی تھی، کیوں کہ روس کی شکست کے بعد امریکہ نے اب سپر پاور ہونے کا اعلان کر کے نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ سماج اور سماجی ماحولیات میں تیز تر تبدیلیوں نے زندگی کا مزاج، رخ اور ذائقہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ لوگ شخصی اور سماجی حیثیت کمانے کے چکر میں زیادہ سماجی اور مصنوعی ہم دردی کی نقلی جذباتی اور لفظی سیاسیات کے منفعت بخش استعمال کے عادی ہونے کے ساتھ ساتھ نسلی اور درجہ بندی کی عصبیت اور مفاداتی منافقت کو بَہ طورِ اوزار استعمال کرنے کے ماہر ہو گئے۔
زمینی جان دار انواع اور اجزاء و عناصر زمینی حیاتیاتی مسائل کا شکار ہونے لگے۔ جس کی وجہ سے زندگی میں پہلے سے موجود رونق اور رعنائی کم سے کم ہوتی چلی گئی جس نے دیسی ثقافت اور سادگی جیسے اوصاف کو لوگوں کے اندر سے محو کرتے ہوئے ہر شخص کو تشکیک زدہ اور تنہا بنا دیا۔ مگر ایک چیز تھی وہ یہ کہ دیہاتوں کا چہرہ مُہرہ اور مُرَوّجہ سماجی روایات ابھی کچھ حد تک باقی تھیں۔
جیسے ہی بیسویں صدی جس کا اختتام ہوا اکیسویں صدی کے آغاز میں تیز تر سماجی تبدیلی دیکھنے میں آئی اور آ رہی ہے۔ ہمارے دیہات کے پکے گھر کی کچی حویلی اب بھی ماں کے مقدس روپ کی چھاؤں میں ہمارے بچپنے کی لوریاں سنبھالے ہماری یاد داشت کو ان مناظر کی دستاویز تک لے جاتی ہے؛ جب ہم نے اس حویلی میں رال بہاتے ہوئے پہلی بار اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر خوشی سے چیختے چلاتے اپنی ماں کو اپنے اس انوکھے ہنر سے آشنا کر دیا تھا۔
بابا کا بیمار جسم جب جوان تھا تو ان کی بائیسِکل کے کیرئیر پر بیٹھے ہوئے ہم بائیسکل کی گدی کو اپنے مستقبل کی طرح سے تھامے ہوئے اس اعتماد کے ساتھ بائیسِکل پر بیٹھتے تھے کہ ہمارا بابا ہمیں کبھی نہیں گرنے دے گا۔
پورے چاند کی چاندنی میں نہائی ہوئی رومان بھری راتیں اور چھپن چھپائی کے مزے، سیاہ راتوں کے سینے میں سرسوں کے تیل میں جلتے ہوئے چراغوں کی تھرتھراتی ہوئی لوئیں، رائی کی فصل کو دھوپ میں خشک کر کے کوٹنے اور بیج اکٹھا کرنے، دھان کو لکڑی کے میڑے یا لوہے کے ڈرم پر جھٹکا کر دھان کو پرالی سے الگ کرنے اور خشک کرنے کے لیے کچے گھر کے ویہڑے میں پھاوڑے کی مدد سے پھیلا کر خشک کرنے، مٹی کےدورے میں کنک ڈال کر لکڑی کے مولہے سے چھڑنے اور کانے (سرکنڈے) یا گندم کے ناڑ سے بنے ہوئے چھاج میں ڈال کر ہوا کے رخ پر ہوارنے اور پھر صاف شدہ گندم کو بوری میں بھرنے، کھار کا پیپا آگ پر رکھ کر کھار والے پانی میں گھر کے کھیس اور دوہریں یا رضائیاں دھونے، جانوروں کو کھونٹوں پر باندھنے کھولنے اور انہیں ہاتھ والا پانی کا نلکا چلا کر بڑے سارے برتن میں پانی پلانے، جانوروں کا چارہ کاٹ کر گٹھڑی سر پر اٹھا لانےاور ہاتھ سے چلنے والی مشین میں سے گزار کر چارہ تیار کرنے، اور اپنے ہاتھوں کی مدد سے ان کے تھنوں سے دودھ دوہنے، کماد کاٹ کر چھڑیوں کے آخر والے حصوں کی سبز گھاس کو درانتی کی مدد سے الگ کرنے، گنے کو بیلنے سے گزار کر رس نکالنے اور گڑ یا ککوں تیار کرنے، گنے کا رس پینے والوں کو مذاق میں دھتورا ملا کر پلا دینے جیسے مناظر اب بھی ہیں۔
لیکن یہ منظر شہر داروں اور سرمایہ داروں کی آنکھ سے بہت حد تک اوجھل ہیں یہ سب دیہاتوں کا حسن ہے مگر یہ دریائی تہذیب بھی اب سکڑ رہی ہے۔ شہر میں پیدا ہو کر شہر کے قبرستان میں قبر خریدنے والوں کو یہ تجربہ کہاں کہ سرسوں کا ساگ اور مکھن، چاول، یا مکئی یا پھر باجرے کی روٹی کتنی سوادی ہوا کرتی ہے۔
رات گئے کوئی بِین ونجھلی یا بنسری بجا کر کسی من موہنے محبوب تک دل کا پیغام کیسے پہنچاتا ہے۔ لڑکیوں کا ہاتھ کی مدد سے سویٹر، ازار بند اور ہاتھ کے رومال بُننا، اور ان تحائف کا کسی چاہنے والے تک پہنچانا دیہی زندگی کی ایک منفرد ثقافت تھی جسے جدیدیت، مشین اور ٹیکنالوجی کے تیز تر انقلاب کی چکا چوند نے یا تو سست تر، کم زور تر اور معدوم کر دیا، یا پھر سادگی متروکہ وقف جدیدیت ہو کر دم توڑنے لگی۔
میرے سکول کے روشن اور اجلی صبحوں کی خوش بو سے مہکتے ہوئے وہ دن مجھے کبھی نہیں بھولتے جن کی ڈھلتی دو پہروں میں ہم خشک کھالیوں میں زیرِ زمین جمع شدہ آکسیجن یا پانی کمی کی وجہ سے بے ہوش ہوتے ہوئے یا مرتے ہوئے مینڈکوں کو ہاتھوں میں اٹھا کر وہاں جا کر چھوڑ آیا کرتے تھے جہاں پانی کا نظام موجود ہوتا تھا؛ یا پھر پرندوں اور جانوروں کو تنگ کرنے والے لڑکوں کو ہم یہ کہہ کر ڈرایا کرتے تھے کہ مینڈکوں کو پتھر مارنے والے بچوں کی ماؤں کے جسم پر پھوڑے نکل آتے ہیں، یا پھر پتھر مارنے والے بچوں کی بغلوں سے پیپ بہنے لگ جاتی ہے۔ ہندو اور بدھ مت ثقافت کے مشترک اثرات ہمیں جانوروں، پودوں اور فصلوں کے احترام کے لیے قائل یا پا بند کرتے تھے۔
چڑیا، کبوتر، لالی، کوا، طوطا، مرغیاں اور بلبل بھی کبھی انسان کی اپنی ذات کی طرح سے انتہائی اہم تھے۔ مگر انسان نے خود کو ہی اہم اور دھرتی مہان سمجھ کر دھرتی کو تباہ کرنا شروع کر دیا۔
سماجی ماحولیاتی اصول ہمیں پرندوں جانوروں اور پودوں پر رحم کرنے اور ان کے زخمی ہونے، یا اپنے گھر کا راستہ بھول جانے پر بَہ ہر صورت ان کی ہر سطح پر مدد کرنے کا سبق دیتے تھے۔ کیا خوب دن ہوا کرتے تھے جب کالج جاتا ہوا ہمارا بڑا بھائی ہمیں سائیکل پر ساتھ لے جا کر سکول تک چھوڑ آتا اور پھر وہاں سے کالج روانہ ہو جایا کرتا تھا۔
تندور میں روٹیاں لگاتی ہوئی بڑی بہن، اپلوں کی آگ سے جلتے ہوئے تندور نما دوکھلے میں بھینسوں کا دودھ نکالتی ہوئی اماں، اور سکول جانے والے بھائی کے ساتھ ایک ہی چارپائی پر بیٹھے مکھن سے چوپڑی ہوئیاں روٹیاں اور ادھ بلوئی ہوئی لسی کے گلاس کے ایک گھونٹ اور ایک نوالے کی ترکیب سے ناشتہ کرنے سلیقہ، صحن میں کھیلتی ہوئی چھوٹی بہن اور چھوٹا بھائی، گھر کے صحن کو چچا کے گھر سے جدا کرتی ہوئی چھوٹی سی برائے نام کچی دیوار، چچا کی بیل ریہڑی اور ناشتہ کرنے کے بعد مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا پہلوان نما چچا، حویلی میں کچی اینٹوں سے بنایا ہوا دیسی مرغیوں کا دڑبہ، مرغیوں کے انڈے اور کنک دکان پر دے کر ٹانگری مرُونڈا اور کھچڑی کھانے کے مزے۔
حویلی میں بچھی ہوئی آٹھ دس چارپائیاں اور صحن کے ایک کونے میں رکھے ہوئے کیکر کے چھاپے اور ڈھینگر جن پر سینکڑوں چڑیوں کے قافلے رقص کرتے ہوئے اترتے اور خوب لڑتے رہتے۔
گھر کے باہر سایہ دار درخت اور آموں کے باغات، لوگ سادہ اور کم پڑھے لکھے مگر دیانت دار اور محبت کرنے والے، بانٹ کر کھانے والے، چور اچکوں سے مل کر نپٹنے والے، نہر سے آنے والے پانی سے چاہے مُنھ دھو لو، صاف پانی صاف فضا، صاف ہوا اور شمال کی طرف سے آسمان پر بلند ہوتا ہوا بکروال، شمال مغرب سے کبھی شام سے ذرا پہلے
گھنگھور گھٹائیں آتیں تو کیکر اور ٹاہلی کے درخت بارش میں نہا جاتے۔
سرسبز درختوں کی الہڑ اور شوخ ٹہنیاں فضا میں خوب رقص کرتی رہتیں جب کہ ٹھنڈی ہوائیں بدن پر اُگے ہوئے گھاس نما سیاہ بال کھڑے کر دیتیں۔
کوئی گاؤں سے شہر جاتا تو پانچ سات گھروں کا سودا سلف لے کر آتا، سب عورتیں اور مرد مل کر بیٹھتے ایک دوسرے کی عزت کی جاتی اور بزرگوں کے سامنے مجال ہے کہ کوئی حقے کو ہاتھ لگائے، اونچا بولے یا پھر کوئی فضول بات کرے، کبھی موسم بدلتا اور سرد راتوں میں خشک برف کے برادے کی ہلکی ہلکی برسات ہوتی تو صبح یہ پالا خشک وَتّر گھاس پھوس، دھان کی پرالی اور کھال کے پانی کے اوپر جما ہوا ہوتا، گھروں کے جانور اکثر کھال کا رکا ہوا پانی پورا ہفتہ پینے کے لیے استعمال کیا کرتے، مجال ہے کوئی یہ پانی خراب یا گندا کرے، فصل کی برداشت کے بعد پکنے تک سب کی یہی سانجھی فصل ہوتی پک جانے کے بعد سب مل کر اس فصل کی کٹائی یا چنائی کرتے، ہر طرف رحمت، برکت اور صاف پانی وافر مقدار میں موجود، گھنے درختوں کی شاخوں میں شہد کی چھوٹی مکھیوں کے بنائے ہوئے چھتے۔
کچنار، سوہانجنے، لیموں اور سیریس پر آتے ہوئے خوش بُو بکھیرتے پھول اور دور دور تک لہلہاتی ہوئی ساوی کچُ فصلوں کی لہلہاتی ہوئی چادریں۔ دیہات کے سبھی لوگ ایک دوسرے کی بات کا بھرم رکھتے اور مان بڑھاتے تھے۔
چوری، چغلی، بہتان، اور غیبت نہ ہونے کے برابر تھی، مرد عورت کی بات سن کر بھی اس مرد یا عورت سے تصدیق کرتے تھے جس کے بارے میں بات کی گئی ہوتی، تا کِہ فساد نہ پھیلے۔
دیسی گھی، خشک میووں کو کوٹ چھان کر بنائی گئی کسار، گھی شکر اور دودھ کی تَریَوڑ، چھنے اور دورے کی کوٹی ہوئی بھور والی چوری، گھر میں بنایا ہوا گاجر، لیموں، لسُوڑے، یا پھر کچے آموں کی پھاکوں کا سرسوں کے تیل میں ڈالا گیا اچار، مزے کے دیسی، کھانے اور حکیمی ٹوٹکے، بی بی سی سے نشر ہوتا ہوا پروگرام سیربین اور تازہ خبریں، گولان کی پہاڑیوں پر لبنانی اور اسرائیلی فوجیوں کی ہلکی مشین گنوں سے کی گئی فائرنگ،،مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر بھارتی فوجیوں کا لاٹھی چارج، اور … پاکستان میں صدر ضیاء الحق کے لیے ہونے والے 1984 کے ریفرنڈم کی خبریں۔
پھر وقت کی نبضیں تیز ہوتی گئیں اور سماج کا پہیہ زندگی سے بھی زیادہ تیز چلنے لگا۔ جدیدیت، انقلابیت، تیز رفتار ٹیکنالوجی، جدید سفری سہولیات، آن لائن کار و بار، گلوبلائزیشن، ثقافتی اور معاشی استعمار، مصنوعی جنگیں، اسلحہ کی کھپت کے نئے فارمولے، ملٹی نیشنلز کار و باری طریقے اور ان کا ایک ہی قبیل کے برانڈز کے نام پر پھیلاؤ، فرنچائزڈ کار و بار، ہر طاقت ور سماج چھوٹے سماج اور چھوٹی ثقافت کو اپنے آپ میں ضم کرنے کی کوشش کرتا ہوا دکھائی دینے لگا۔
سرمایہ داری منڈی اور مال کی کھپت کے لیے بڑے ملکوں کے درمیان رسہ کشی شروع ہوئی جو طول پکڑتی جارہی ہے۔ جس میں اب دو بلاک بننے جا رہے ہیں ایک چائنا کا معاشی اور اقتصادی زون اور دوسرا امریکہ کا زون۔
جدیدیت نے زندگی کی کایا پلٹ دی ہے۔ زندگی تیز تر ہے لیکن اس کا فضلہ اور اس کی ری سائیکلنگ بھی کسی آزمائش سے کم نہیں۔ اس جدیت کے بعد جو پروڈکشن ہو رہی ہے اس کی پیدائش اور کھپت کے بعد سب سے بڑا مسئلہ آلودگی ہے جو دنیا کو نگلنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ دیکھیے اب کیا نتیجہ ہو!
دو طریقے ہیں جن کی مدد سے ہم زندگی کو اَز سرِ نو بَہ حال کر سکتے ہیں:
1۔ ایک سماجی ماحولیات کو بہتر بنانے کا عہد اور اس مقصد کے لیے اٹھائے جانے والے عملی اقدامات اور،
2۔ دوسرا طریقہ دو بارہ سادہ زندگی اور سادہ ذرائع حیات کا چناؤ۔
اگر ہم یہ سب کر لیتے ہیں تو کام یابی ہے ورنہ ہم دھرتی واسوں کے ہاتھوں بنائے گئے ایٹم بم ہی ہمارے خاتمے کے لیے کافی ہیں۔
میں ایک عرصہ سے شہر میں ہوں۔ دیہات کا چکر بھی لگتا رہتا ہے، مگر اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اب مجھے دیہات کی پکی سڑکوں پر گلہریاں اور مینڈک مرے ہوئے ملتے ہیں۔ گاڑیوں کے نیچے دے کر یا چوٹ کا صدمہ پہنچا کر کتے اور بلیاں مارنا تو ہمارے معمولات میں شامل ہے ہی، مگر اب ہم بے رحم اور منافع خور ہوگئے ہیں۔ نا حائز مفادات کے لیے ہم اپنے ہم نفسوں کو تکلیف پہنچانے، یا پھر قتل و غارت سے بھی گریز نہیں کرتے۔
ہر کام میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔ سپرے کیڑے مار ادویات اور کیمیکلز کا استعمال ہماری زندگی کا لازمہ ہے؛ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ سرمایہ داری اور خود غرضانہ سوچ نے ہمارے سماج کے بزرگوں کو یکہ و تنہا کر دیا ہے۔ کچھ دن پہلے میں یہی بات سوچ رہا تھا۔ اب اکثر گھروں کی بڑی حویلیاں بٹواروں کے بعد چھوٹی ہو گئی ہیں۔ اب میرے گاؤں کا تازہ نقشہ بھی یہی ہے کہ حویلی میں اماں اور بابا جان اکیلے بیٹھے ہیں، بیٹوں اور بیٹیوں کواپنے اپنے گھروں سے فرصت ہی نہیں۔
ہر کوئی کارِ معیشت میں الجھا ہوا ہے یا سماج میں اپنے جیسے دوسرے لوگوں کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ہر گھر لوہے کے بڑے دروازے میں بند ہو چکا اور ساتھ میں چچا جان کے گھر کی دیوار بھی اتنی اونچی ہو گئی کہ آواز دیوار کے پار جائے بھی تو کوئی نہ سن پائے، چچا جان دنیا میں نہیں رہے۔ چچی جان اور اس کے بیٹوں کی ڈھیر ساری اولادیں، ہم آٹھ بہن بھائیوں میں سے صرف ایک چھوٹا بھائی ہمارے آبائی گھر کا وارث، اور وہ بھی سرکاری نوکری سے بندھا ہوا، بھابھی اور اس کے بچے، بھائی اور بھابھی نے اماں اور بابا کو سنبھالا ہوا۔
میں اصرار کرتا رہتا ہوں مگر سو سال کے نزدیک تک کا عہد دیہات میں گزارنے والے اماں بابا شہر آنے پر راضی نہیں۔ میں پہلی فرصت میں اور ترجیحاً ان کی خدمت کے لیے حاضر ہوتا رہتا ہوں۔ آس پاس بہت سے گھرانے، بیسیوں لوگ، زندگی کی سبھی بنیادی سہولیات مگر ہر شخص یکہ و تنہا۔
وقت نہیں بدلا زندگی کے معیارات بدل گئے ہیں۔ اب نہر کا پانی سیوریج اور بو زَدہ ہے، نلکے نا پید ہیں، زیرِ زمین پانی میں گندھک کی بہتات ہے، رشتہ داروں میں تعصبات، بہتان، جھوٹ، غلط بیانی اور فساد جُوئی بڑھ گئی ہے، لوگ بہت کم ملتے ہیں،موبائل اور ٹی وی ہی زندگی قرار پا گئے ہیں۔ اچھی قدریں اور اچھے رویے قدرے فرار پا گئے ہیں:
اب بارشیں پہلے جیسی نہیں ہوتیں،
ہوا بھی صاف نہیں رہی،
لوگ بہت ہیں،
ہاں روگ بہت ہیں،
اور زندگی کہیں زیر زمین بہہ رہی ہے۔
گذشتہ رات وجدان کی سان پر چڑھ کر دیکھا، دیہات کی کچی حویلی میں چارپائی پر بیٹھی ہوئی اماں جان بہت اداس ہیں، سفید کپڑے پہنے کھلی حویلی میں بجھے ہوئے مَن کے ساتھ اماں پر نظر گئی تو، سو نہ سکا۔ پہلو بدلتے ہوئے رات گزری، اگلی دو پہر کو ہی میں شہر سے دیہات روانہ ہو گیا تھا۔
اماں سفید کپڑوں میں عین اسی جگہ اداس بیٹھ تھیں جہاں رات میں نے تصور کی آنکھ سے دیکھا تھا۔ اندر کمرے میں کھاٹ پر بابا بخار میں تپ رہے تھے۔
مجھے مل کر دھاڑیں مار کر رونے لگے، مجھے سینے سے لگایا، پیار کیا، میں نے تسلی دی، ہمت بندھائی، پوری کوشش کی کہ شہر کے کلینک لے جا کر انہیں ڈاکٹر کو دکھا آؤں۔ لیکن نقاہت بہت تھی، گاؤں سے شہر جا کر ڈاکٹر کو بلا لایا۔ انجکشن، دوا، اور دعائیں۔ ابھی آدھی رات کو گاؤں سے شہر آ یا ہوں۔ نیند نہیں آرہی۔
وقت 1984 سے چل کر 29 اپریل 2019 تک آن پہنچا ہے، زندگی بہت کٹھن مگر کمال کے تجربات و تجزیات سے مزین ہے؛ رب آباد رکھے، سدا آباد، میرے گاؤں کے لوگوں کو، مراجعت کر کے شہرمیں آن کر بس جانے والے پردیسیوں کو، اور زندگی کے ان سبھی رنگوں کو جو ہم میں سے ہماری وجہ سے اور ہمارے لیے ہیں۔
از، اشرف جاوید ملک
پی ایچ ڈی سکالر، بہاءالدین زکریا یونی ورسٹی، ملتان