دیہی زندگی اور گم شدہ پانی کا بیانیہ: خالد فتح محمد کا ناول کوہ گراں
تبصرۂِ کتاب از، حفیظ تبسم
ادب اور سماج کے درمیان بڑا مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔ مذہب، معاشرت اور معشیت سے سماج متاثر ہوتا ہے اور سماج سے ادب۔ جس طرح معاشرے میں تبدیلیوں کا عمل جاری رہتا ہے، اسی طرح ادب کے موضوعات،اسلوب اور مقاصد بھی بدلتے ہیں۔ آج کا اردو ناول اپنے اندر تکنیکی اور موضوعاتی تبدیلیاں لے کر پچھلی صدی کے ناول سے دو قدم آگے نکل چکا ہے۔ ناول کی اس ترقی میں کئی معاصر ادیبوں کا بڑا ہاتھ ہے اور ان میں ایک نام خالد فتح محمد کا ہے۔ جن کے آٹھ ناول شائع ہو چکے ہیں، اور ہمارے ناقدین ہمشیہ کی طرح جینوئن ادیب سے بُغض رکھتے ہوئے خاموش ہیں۔ شاید، اس نقاد کو مزید تقویت ملتی ہے کہ ہمارے بیش تر نقاد پڑھتے نہیں، بَل کِہ لکھتے ہیں۔
کوہ گراں خالد فتح محمد کا قدرے نیا ناول ہے جو 2017 میں شائع ہوا تھا، جس کا بنیادی موضوع ایک گاؤں ہے جو قحط سالی کی وجہ سے اجڑ چکا ہے۔ دور دور تک پانی ملنے کے امکانات نہیں۔ ایسے میں گاؤں کے چودھریوں کا ایک فرد حلیم گاؤں میں واپس لوٹتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی تین لوگ موجود ہیں جو گاؤں کی محبت میں کہیں ہجرت کرنے کو تیار نہیں۔ حلیم کی آمد سے انھیں حوصلہ ملتا ہے اور یہیں سے ناول کا آغاز ہوتا ہے۔
میں پورے 250 صفحات کے ناول کی تشریح تو بیان نہیں کر سکتا، لیکن چند ایک نکات ضرور گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جس سے شاید قارئین متوجہ ہوں اور ناول پڑھنے پر خود کو آمادہ کر سکیں۔
خالد فتح محمد نے اجڑے ہوئے گاؤں کی منظر کشی کی ہے اور اہم پہلو کہ گاؤں اجڑتے کو کئی ناولوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن اس گاؤں کو آباد کرنے کا منصوبہ صرف کوہ گراں میں دکھائی دیتا ہے۔ بنیادی کردار حلیم کے ذریعے بتایا ہے کہ قحط سالی سے گاؤں، دیہات اُجڑ جاتے ہیں تو دو بارہ آباد بھی کیے جا سکتے ہیں، یعنی مصنوعی طریقے قدرتی پانی لایا بھی جا سکتا ہے۔
جی بالکل! چودھری حلیم اپنے تینوں ساتھیوں کو جو اسی طرح کے بوڑھے ہیں، پانی لانے کے منصوبے بتاتا ہے اور آمادہ کرتا ہے کہ ہم گاؤں آباد کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے، بَل کہ، گاؤں آباد کر کے اس کے بینادی نظام میں بھی تبدیلیاں کریں گے۔
خالد فتح محمد اپنے ناول میں دیہی زندگی کو جس انداز میں پیش کیا ہے اس سے ان کی دیہی زندگی کے متعلق گہرے مشاہدے کی نشان دَہی ہوتی ہے۔ وہ کسان، مزدور وغیرہ سے وابستہ مختلف طبقوں کے لوگوں کی خوبیوں اور خامیوں سے صرف آشنا ہی نہیں، بَل کہ، ان کی ذہنی الجھنوں اور خواہشات وغیرہ کو بھی خوب سمجھتے ہیں۔
اس وقت پانی ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ ہے کہ دریا سوکھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے نہروں میں پانی نہیں ہے۔ بارشیں کم ہونے کی وجہ سے زیرِ زمین پانی گہرائی میں جاتا جا رہا ہے، بَل کہ بہت ساری جگہوں پر تو بورنگ سسٹم ہی نا کام ہو چکا ہے۔ زمینیں بنجر ہو رہی ہیں اور کاشت کاری سے وابستہ لوگ دیہاتوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس ناول میں پاکستان کے دیہی زندگی کے الم ناک ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ناول کے بینادی کردار حلیم کا گاؤں میں لوٹنے کا واحد مقصد گاؤں میں پانی لانا اور گاؤں آباد کرنا ہے۔ یہیں پر مصنف ہمیں دکھاتا ہے کہ ہر مقصد کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں اور حلیم کی راہ میں شِیدَو کا جسم ایک رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے۔
شِیدَو کا کردار بھی خاصے مزے کا ہے۔ بَد بُو دار، مَیل چڑھی عورت، جس کی ماں فاطمہ کے ساتھ جوانی کے دنوں میں حلیم کے تعلقات قائم رہے تھے۔ پانی نہ ہونے کے باعث شِیدَو کو نہائے ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں اس کے با وُجود اس کے جسم میں کشش موجود ہے۔ ہے ناں مزے کی بات کہ جنسی خواہش کچھ نہیں دیکھتی بھلے بد بو دار عورت ہی کیوں نہ ہو، بس جسمانی طور پر پوری عورت ہونی چاہیے۔
شِیدَو کئی بار اسے ہم بستری کرنے کا اشارہ دیتی ہے اور پھر تنگ آ کر جادُو ٹونے کرتی ہے، جو اس نے اپنی ماں سے سیکھے تھے۔ ایک رات شیدو اس کی چار پائی کے قریب ننگی بیٹھی کوئی عمل کرتی ہے اور اس کی آنکھ کھل جاتی ہے وہ صاف لفظوں میں کہہ دیتا ہے، ’’شیدو! جو تم چاہتی ہو وہ میں بھی چاہتا ہوں۔ لیکن پانی لانے کا مقصد پورا ہونے کے بعد… ۔‘‘
اس حصے میں مصنف کے رواں دواں قلم پر عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے کیا کمال کی جنسی حقیقت نگاری اور کئی اہم پہلوؤں کے ساتھ۔
ناول کا ایک اور اہم حصہ گاؤں سے ہجرت کرنے والے لوگ کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ این جی او کے لوگ سامان بانٹنے آتے ہیں۔ وہاں پر بھی غذائی ضروریات کے لیے حسن کے پیمانے مقرر ہیں۔ لڑکیاں اِغوا بھی ہو رہی ہیں، ریپ بھی ہو رہے ہیں اور بِالرَّضا جنسی ضرویات بھی پوری کی جا رہی ہیں۔ یہاں پر نچلے طبقے سے وابستہ لوگوں کی تصویر کشی بڑی فن کاری سے کی گئی ہے۔
خالد فتح محمد نے پہلی بار پانی کے موضوع کو اس انداز میں لکھا ہے کہ اجڑے گاؤں کی گلیوں میں اڑتی دھول مٹی، گرے ہوئے مکانوں کی دیواروں کے اندر باہر کی فضا قاری کے ذہن پر نقش ہو جاتی ہے۔
آخر میں ایک دن آتا ہے جب مرالہ ہیڈ ورکس کو ڈائنامائٹ سے تباہ کر دیا گیا ہے اور پانی کا ریلا گاؤں کی طرف بڑھ رہا ہے جس کے ساتھ فوجی بھی ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں کہ پانی کے حصول کے لیے کس نے ہیڈ کو تباہ کیا ہے۔ حلیم نہر کے کنارے کھڑا دیکھ رہا ہے یکا یَک دور سے بادلوں کی گرج سنائی دیتی ہے، بجلی چمکتی ہے اور مُوسلا دھار بارش برسنے لگتی ہے یعنی پانی ہی پانی۔
کوہ گراں ایک بہت پھیلا ہوا اور اپنے موضوع کے لحاظ سے بہت اہم ناول ہے جسے اردو ناول کے سنجیدہ قارئین اور غیر سنجیدہ ناقدین کو ضرور پڑھنا چاہیے، اور دیکھنا چاہیے کہ ناول نگاری کی دوڑ میں خالد فتح محمد کہاں کھڑے ہیں۔
کوہ گراں، الحمد پبلیکیشنز، لاہور نے شائع کیا ہے۔ قیمت انتہائی معقول ہے، یعنی صرف چار سو روپے اور الحمد پبلیکیشنز والے کتاب بیچنے کے معاملے میں خاصے اچھے بندے ہیں کم از کم 40 فیصد رعایت پر دے دیتے ہیں۔