مہناز رحمن، روسی عورت اور انقلاب (حصہ اول)
شاداب مرتضی
یہ سال روس میں اکتوبر 1917 کے سوشلسٹ انقلاب کا سواں سال ہے۔ اس سال دنیا بھر میں اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کے صد سالہ جشن کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں جاری تاریخ کے بدترین بحران کے دوران اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کا یہ صد سالہ جشن سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف دنیا بھر میں مزاحمتی اور انقلابی قوتوں اور تحریکوں کو مہمیز دے رہا ہے اور دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کے مدافعین کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اس کہن زدہ نظام کے دفاع کے لیے اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی عظیم الشان تاریخی کامیابیوں کو کسی بھی طرح متنازع بنائیں تاکہ سرمایہ دارنہ نظام کے خلاف جاری تحریک کو گمراہ کیا جا سکے۔
اسی سلسلے کی ایک کوشش مہناز رحمن صاحبہ نے “روسی عورت اور انقلاب” کے عنوان سے اپنے ایک تازہ آرٹیکل میں کی ہے جس میں انہوں نے روس کے اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کے حوالے سے روسی خواتین کے حالات پر تبصرہ کیا ہے۔ عام روایت کے تحت انہوں نے اپنے آرٹیکل میں یہ تو تسلیم کیا ہے کہ اکتوبر سوشلسٹ انقلاب سے روسی عورتوں کے حالات میں کافی بہتری آئی کیونکہ، ظاہر ہے، اس سے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن ساتھ ہی انہوں نے اپنا سوشلزم مخالف “دانشورانہ” فریضہ نبھاتے ہوئے اکتوبر انقلاب کی سیاسی قائد “بالشویک پارٹی” پر یہ تنقید کی ہے کہ اکتوبر انقلاب سے پہلے اور بعد میں بھی بالشویک پارٹی نے عورتوں کے حقوق اور نسوانی مسائل سے خود کو دور رکھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خود ہی یہ حقیقت بھی تسلیم کرتی ہیں کہ جولائی 1917 میں روسی عورتوں کو حق رائے دہی اور سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کا جو حق ملا اس حق کو وہ نومبر 1917 میں یعنی اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہی استعمال کر سکیں۔ یہی نہیں بلکہ مہناز رحمن صاحبہ آرٹیکل میں مزید فرماتی ہیں کہ “۔۔بالشویک اقتدار کے ابتدائی برسوں میں عورتوں کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔۔” اور “..1918 کے فیملی کوڈ نے عورتوں کو مردوں کے مساوی مقام و مرتبہ دیا۔۔۔”. چنانچہ ایک جانب تو وہ یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ بالشویک پارٹی عورتوں کے مسائل میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی اور دوسری جانب وہ خود یہ اقرار کرتی ہیں کہ بالشویک پارٹی نے عورتوں کی فلاح و بہود اور صنفی امتیاز کے خاتمے کے اقدامات اٹھائے۔ تعجب یہ ہے کہ آرٹیکل لکھتے وقت انہیں اپنی اس تضاد بیانی کا احساس نہیں ہوا!
خیر۔ وہ اپنی فکر کے اس تضاد کو حل کرنے کے لیے روایتی سوشلزم مخالف دانشورانہ تیکنیک استعمال کرتی ہیں اور فرماتی ہیں کہ “عورتوں کی زندگی میں بہتری لانے والے اقدامات زیادہ دیر نہ چل سکے اور جوزف اسٹالن نے ان اصلاحات کا خاتمہ کر دیا۔ اسٹالن نے (بالشویک) پارٹی کا ویمن بیورو (عورتوں کی فلاح و بہبود کا ادارہ) بھی ختم کردیا..” اور اس طرح ان کے بقول
سوشلسٹ روس میں “عورتوں کی آزادی اور مساوات کا اشتراکی خواب” پورا نہ ہو سکا اور روسی خواتین کو پھر سے “گھر اور باہر کے کاموں کا دوہرا بوجھ اٹھانا پڑا”. سوشلسٹ روس کی عورتوں کے حوالے سے یہ تنقید سرمایہ دارانہ زرائع ابلاغ، نام نہاد سوشلسٹ “ٹراٹسکائیٹ”، سابقہ “کمیونسٹ” اور ترمیم پسند حلقوں کو بہت مرغوب ہے۔
بالشویک پارٹی کی جانب سے عورتوں کی مساوات اور ترقی کے بارے میں اقدامات کے حوالے سے مہناز رحمن صاحبہ کی متضاد سوچ تو واضح ہے۔ ہم بس یہاں یہ مزید اضافہ کریں گے کہ 1905 کے انقلاب اور فروری 1917 کے انقلاب کے حوالے سے انہوں نے روسی عورتوں کی جدوجہد کا جو زکر کیا ہے اس میں وہ یہ بتانا بھول گئی ہیں کہ اس جدوجہد میں بالشویک پارٹی نے مزدور اور محنت کش عورتوں کی تنظیم کاری، سوشلسٹ تعلیم اور انقلابی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ بالشویک پارٹی روسی عورتوں کے حقوق و مسائل کو انتہائی اہمیت دیتی تھی۔ چونکہ سوشلزم مزدور طبقے کی آمریت (سوشلسٹ جمہوریت) کا نظریہ ہے اس لیے یہ عورت کے مسائل کو بھی مزدور طبقے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ حکمران اشرافیہ طبقے کی بیگمات کے مسائل یعنی سرمایہ دارانہ لبرل فیمنزم کے مسائل سے یہ مکمل انکاری نہیں ہے البتہ سوشلسٹ انقلاب کے لیے یہ مزدور اور محنت کش طبقوں کی عورتوں کو انقلابی تحریک کا حصہ بنانے کو ترجیح دیتا ہے۔
فروری 1917 کے انقلاب میں عورتوں کے بنیادی کردار کا زکر کرتے ہوئے مہناز رحمن صاحبہ اس تحریک کو روایتی چلن کے مطابق “خود رو” قرار دیتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فروری 1917 کا انقلاب روسی دارالحکومت پیٹروگراڈ کی ٹیکسٹائل فیکٹریوں کی جن عورتوں کی ہڑتال سے شروع ہوا وہ بالشویک پارٹی کا ہی حصہ تھیں۔ مہناز رحمن صاحبہ جب یہ کہتی ہیں کہ بالشویک پارٹی نے روسی عورتوں کے مسائل سے خود کو دور رکھا تو دراصل ان کا اعتراض یہ ہے کہ بالشویک پارٹی نے روس کی اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کی بیگمات کے مسائل سے خود کو کیوں دور رکھا؟ لیکن وہ اس بات کو عمومی بنا کر اس طرح پیش کرتی ہیں کہ گویا بالشویک پارٹی نے روس کی تمام عورتوں کے مسائل سے صرفِ نظر کیا حالانکہ بالشویک پارٹی نے مٹھی بھر طبقہِ امراء کی بیگمات کے مسائل کے بجائے یعنی روس کے لبرل فیمنزم کے بجائے سوشلسٹ انقلاب کی تحریک میں روس کی دسیوں ہزاروں مزدور اور محنت کش عورتوں کے مسائل کو تحریک کا حصہ بنایا اور انہیں انقلابی تحریک سے جوڑا۔ یہ کام بہت مشکل ہوتا اگر بالشویک پارٹی روسی لبرل فیمنزم کے خیالات کو مزدور اور محنت کش عورتوں کی تحریک پر حاوی ہو جانے دیتی۔ وہ 1905 اور فروری 1917 کے روسی انقلابوں میں عورتوں کی زبردست شمولیت کے بارے میں یہ حقیقت بھی چھپاتی ہیں کہ شہنشاہیت، جاگیرداریت اور سرمایہ داروں کے جبر کے خلاف اس انقلابی تحریک میں جن روسی عورتوں نے زبردست کردار ادا کیا وہ روسی اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقوں کی مٹھی بھر بیگمات نہیں بلکہ فیکٹریوں اور کھیتوں میں خون پسینہ بہانے والی محنت کش عورتیں، خصوصا فیکٹری مزدور عورتیں تھیں جو روس کے مجموعی صنعتی مزدوروں کا تقریبا 40 فیصد تھیں اور بدترین استحصال کا شکار تھیں۔
بالشویک پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی رکن اور عورتوں کی فلاح و بہبود کے ادارے کی پہلی سربراہ الیکزنڈر کولونتائی روسی لبرل فیمنزم تحریک کی محدودیت اور مقصد کے بارے میں لکھتی ہیں کہ “بیلٹ بکس اور نمائندے کی کرسی تک رسائی فیمنسٹ تحریک کا اصل مقصد ہے۔ اور سیاسی طور پر زیادہ باشعور مزدور عورتیں جانتی ہیں کہ نہ ہی سیاسی اور نہ قانونی برابری “عورت کا سوال” حل کر سکتی ہے۔ جب تک عورت محنت کی قوت بیچنے اور سرمایہ دارانہ غلامی کا عذاب سہنے پر مجبور ہے وہ آزاد و خودمختار فرد نہیں ہوگی۔۔۔”۔ روس کی فیمنسٹ تحریک کے پاس روس کی مزدور اور کسان عورتوں کے مسائل کا جو نہ صرف روس کی بلکہ روسی عورتوں کی آبادی کا اکثریتی حصہ تھیں کوئی پروگرام نہیں تھا۔ روسی لبرل فیمنزم کی نمائندہ تنظیم “عورتوں کی مساوات کی یونین” کی جانب سے 1908 میں منعقد کی گئی کانفرنس میں مزدور اور محنت کش عورتوں کے نمائندوں کی شرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس کے برعکس بالشویک پارٹی نے روسی مزدور اور کسان عورتوں کے مسائل کی حقیقی نمائندگی کرتے ہوئے محنت کے اوقات 8 گھنٹے یومیہ، مناسب اور مرد کے مساوی اجرت، حالاتِ کار کی بہتری، گھریلو ملازم عورتوں کے حقوق اور کسان عورتوں کے زمینی ملکیت کے مساوی حق کے مطالبات کو مقدم رکھا۔ آج اگر ہم پاکستان کی لبرل فیمنسٹ تحریک پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان میں عورتوں کے عمومی حقوق کے مطالبے تو نظر آتے ہیں لیکن پاکستان کی مزدور اور محنت کش عورتوں کے حقیقی مسائل کی نمائندگی نہیں دکھتی۔
اکتوبر 1917 کے سوشلسٹ انقلاب سے قبل روسی عورتوں کے مسائل میں بالشویک پارٹی کس قدر دلچسپی رکھتی تھی اور عورتوں میں اس کا کام کس قدر منظم تھا اس کی کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔
لینن کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے اپنے سیاسی پروگرام میں ابتدا سے ہی مرد و عورت کی مکمل مساوات کا مطالبہ شامل کیا تھا۔ بالشویک پارٹی کی خاتون رہنما اور لینن کی بیوی کروپسکایا جو 1898 میں بالشویک گروپ میں شامل ہوئیں لکھتی ہیں کہ “…1899 میں جب لینن جلاوطنی میں تھے انہوں نے پارٹی سے خط و کتابت میں ان موضوعات کا زکر کیا تھا جن پر وہ غیر قانونی پریس میں لکھنا چاہتے تھے۔ ان میں سے ایک موضوع “عورت اور مزدور تحریک” پر کتابچہ بھی شامل تھا۔۔۔”۔ خود کرپسکایا نے روسی مزدور عورتوں کے حالات پر 1902 میں ایک تحقیقی کتابچہ شائع کیا تھا۔ 1905 کے انقلاب میں روس میں مزدوروں کی انجمنوں (سوویت) کی تشکیل ہونے کا آغاز ہوا۔ پہلی مزدور انجمن ایوانوو وزنیسینسک میں مئی 1905 میں بنی جس میں مزدوروں کے 151 نمائندے منتخب ہوئے۔ ان میں سے 40 فیصد سے زائد کا تعلق بالشویک پارٹی سے تھا جبکہ ان میں خواتین بالشویکوں کا تناسب 62 فیصد سے زائد تھا۔ 1907 میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی 7ویں کانگریس کے مندوبین میں منشویکوں کے مقابلے میں بالشویک خاتون نمائندوں کا تناسب ایک کے مقابلے میں پانچ تھا۔ اکتوبر انقلاب سے قبل بالشویک پارٹی مزدور اور محنت کش عورتوں کے لیے علیحدہ اخبار “ربوتنستا (مزدور عورتیں)” نکالتی تھی. اکتوبر انقلاب سے ایک ماہ پہلے بالشویک پارٹی کے خواتین بیورو کی جانب سے پیٹروگراڈ میں خواتین مزدوروں کی کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں فیکٹریوں، ورکشاپوں اور ٹریڈ یونیوں کی 80 ہزار مزدور عورتوں کی 500 نمائندہ عورتوں نے شرکت کی تھی۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ فروری یا اکتوبر 1917 کے انقلابوں سے قبل روس کی انقلابی تحریک میں خواتین کے مسائل پر بالشویک پارٹی کے کام کے حوالے سے موجود تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ بالشویک پارٹی روسی مزدوروں اور محنت کشوں کے ساتھ ساتھ مزدور اور محنت کش عورتوں کی بھی سب سے توانا سیاسی قیادت تھی۔
اگلے حصے میں ہم مہناز رحمن صاحبہ کے اس دعوے کا جائزہ لیں گے کہ عورتوں کی فلاح و بہبود کے ادارے کو جوزف اسٹالن نے ختم کیا اور روسی عورت کی آزادی اور مساوات کا خواب پورا نہ ہو سکا۔