سعادت حسن منٹو
از، نعیم بیگ
آج دنیائے اردو ادب میں سعادت حسن منٹو کی تریسٹھویں برسی منائی جا رہی ہے۔ منٹو کے فن پر راقم کے چند حروف بطور خراجِ عقیدت
منٹو کے افسانوں میں زندگی کی قبا اترتی ہوئی ضرور محسوس ہوتی ہے لیکن اندر سے نمودار ہونے والی سماجی برائیاں ہی اس کا مطمعِ نظر ہیں۔ منٹو کے ہاں لفاظی اور اسی کی طلسم کاریاں نہیں بلکہ حقائق کی وہ اندھیری گلیاں ہیں جہاں منٹو قاری کو ساتھ لیکر چلتا ہے۔
اس کے افسانے زندہ سچائیاں ہیں، ایسی سچائیاں جس کا تعلق افراد و معاشرہ کی سنگدلی سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں اظہارو بیان کی دلکشی و چاشنی کے ساتھ ساتھ حقائق کی تلخی اور کسیلا پن بھی ہے۔ اپنے افسانوں میں وہ ایک نفسیاتی معالج معلوم ہوتا ہے ایسا معالج وہ صرف لفظوں کی کھٹی میٹھی گولیوں سے ہی علاج نہیں کرتا ضرورت محسوس ہونے پر نہایت بے تکلفی سے اپریشن بھی شروع کر دیتا ہے۔
اس کا اپریشن کچھ اس انداز کا ہے کہ اس کے اچانک ہو جانے پر بعض اوقات قارئین گھبرا اور سٹپٹا بھی جاتے ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب منٹو جنس کے مسائل کو سامنے لاتا ہے۔ جنس کے متعلق اکثر لوگ بے حد شرمیلے ہوتے ہیں بعض شرم کی بجائے احتیاط کو پیشِ نظر رکھتے ہیں اور کچھ لوگ کھُلے ڈلُے ہوتے ہیں اور بعض فحش گوئی اپنا لیتے ہیں۔ منٹو ایک کھُلا ڈُلا انسان ہے لیکن اس پر فحاشی کا الزام دھر دیا گیا ہے۔
وہ تحت الشعور اور لاشعور کی ان سفلی خواہشات اور محرکات کو ہمارے شعوری علم کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے جنہیں ہم بالعموم ضمیر کے دبیز پردے میں ڈھانپ کر رکھتے ہیں۔
درحقیقت منٹوتخلیق کے میدان میں یکتا ہے۔ منٹو نے کہا تھا۔ ” سعادت حسن مر جائے گا لیکن منٹو زندہ رہے گا “