سچ تک کیسے پہنچیں ؟
بلال الرشید
گزشتہ دنوں مختلف جانداروں اور سائنسی موضوعات پر کچھ اہم دستاویزی فلمیں دیکھنے کو ملیں۔ ان میں سے کچھ نوٹس آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر لیکن سب سے پہلے قرآن کی ایک بہت اہم آیت پہ نظر ڈالیے ۔ بار بار خدا یہ کہتاہے کہ تمہیں زمین سے بنایا، مٹی سے بنایا۔” وہ (خدا) تمہیں اس وقت بھی جانتا تھا ، جب تمہیں زمین سے پیدا کیا اور تب بھی ، جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں تھے۔ اس لیے اپنی بڑائی بیان نہ کرو۔‘‘ سورۃ النجم: 32۔ دو دفعہ انسان تخلیق ہوا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ خدا یہ بھی کہتاہے : اور ہم نے پانی سے ہر زندہ شے کو پیدا کیا ۔ ان دونوں آیات کو ملا کر دیکھنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ داتا گنج بخش حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ کا یہ قول اپنے ذہن میں رکھیے : ہر علم میں سے اتنا حاصل کرتے جاؤ، جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے ۔ اگر آپ زمین پر زندگی کی ابتدااور پھر ہر طرف اس کے پھیل جانے اور حتیٰ کہ انسان جیسے انتہائی ذہین جاندار پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو یہ دو علوم کے بغیر ہرگز ممکن نہیں ۔ ایک فاسلز کی سائنس اور دوسرا ان فاسلز کے ڈی این اے اور جینز کا مشاہدہ۔ پھر آپ کو بتدریج اس قابل ہونا چاہیے کہ آپ ایک متنازع تحقیق کو اس تحقیق سے الگ کر سکیں ، جس پر ساری سائنسی دنیا متفق ہے۔ مثلاً زمین گول ہے، چوکور نہیں ، اس پر کسی سائنسدان کوکوئی شبہ نہیں۔ کائنات کی ابتدا میں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا تھا، اس پر کسی کو کوئی شبہ نہیں ۔کششِ ثقل کے بنیادی تصور پر کسی کو کوئی شبہ نہیں۔ ڈائنا سار نامی کچھ جاندار اس زمین پر زندگی گزار چکے ہیں ، اس پر کسی کو کوئی شبہ نہیں ۔انسان غور کرتا رہے اور بتدریج سیکھتا رہے تو وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ سازشی تھیوریز کا تجزیہ کر کے انہیں رد کر سکے۔
ایک انتہائی غلط مفروضہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو فاسلز، ڈی این اے اور ایسے دیگر علوم سے دور رہنا چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر آپ ان سائنسز کو پڑھیں گے ہی نہیں تو ایسی statements، جو آپ کے نزدیک غلط ہیں، انہیں کس بنیاد پر رد کریں گے؟ آج جو علوم انسان کے پاس ہیں ، ان میں کسی کروڑوں برس پرانے کسی فاسل کی عمر کا پتہ چلاناانتہائی اہم ہے ۔اسے ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کہتے ہیں۔ ڈی این اے اور جینز کے مطالعہ سے تو ایک ایک چیز کھل کے سامنے آجاتی ہے کہ اس جاندار کی خصوصیات کیا تھیں ۔ یہ وہ چیزیں ہیں، جو سچ کی تلاش میں انسان کی مدد کرتی ہیں ۔ یہ مجموعی انسانی علم ہے ، جو ہزاروں برسوں میں اکھٹا ہوتا رہا اور اب خیرہ کن حد تک پھیل گیا ہے ۔بالکل اسی طرح جیسے کہ طب میں مجموعی انسانی علوم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنی ہڈیوں کا ایکسرے شعاؤں کے ذریعے جائزہ لیتے ہیں ۔ ہم لہروں کی مدد سے echo ٹیسٹ کے ذریعے اپنے دل کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اب اگر کوئی بیماری کے باوجود ان ایجادات سے فائدہ نہ اٹھائے تو کیا آپ اسے عقلمند کہیں گے ؟ اب ایسی دوربینیں ایجاد ہو چکی ہیں، جو خلا میں محوِ پرواز ہیں اور ان کی مدد سے آپ کائنات پہ ایک نظر ڈال سکتے ہیں لیکن اگر آپ اسی بات پہ پکے ہو کر بیٹھے رہیں کہ چاند پر ایک بڑھیا چرخہ کات رہی ہے تو دنیا آپ پر ہنسے گی ہی ۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ایک غلط مفروضہ یہ ہے کہ فاسلز اور فلکیات کے ماہرین عام لوگوں کو بیو قوف بناتے ہیں اور غلط مفروضے بیان کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق چاند پہ انسان کا اترنا ایسا ہی ایک ڈرامہ تھا ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص یا گروہ یا ریاست ساری دنیا کو بیو قوف بنانا شروع کر دے اور کسی کو حقیقت کا پتہ نہ چلے۔ امریکہ کے سائنسدان اگر کوئی غلط دعویٰ کریں گے تو سوویت یونین کے سائنسدان ان کے اس دعوے کے پرخچے اڑا کر رکھ دیں گے ۔ امریکہ والوں کے پاس اگر دماغ ہے تو جاپان والوں کے پاس بھی ہے ۔ جیسے کوئی زمیندار اگر یہ کہے کہ اس کی ایک بھینس روزانہ سو کلو دودھ دے رہی ہے تو پڑوسی زمیندار اس کے اِس دعوے کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے ۔ ہم خود سائنسدان نہیں ہیں لیکن مختلف ممالک ، مذاہب اور اقوام سے تعلق رکھنے والے بڑے سائنسدانوں کو پڑھ کر حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان چاند پر اترنے کی کتنی خوفناک دوڑ تھی ۔ اس دوڑ میں سوویت یونین کا ایک خلاباز انتہائی بلندی سے گر کر مر گیا تھا ۔دونوں سالانہ پانچ پانچ ، چھ چھ میزائل چاند کی طرف روانہ کر رہے تھے ۔ اب اچانک امریکہ والے ہائی ووڈ کے ایک سیٹ پر چاند پر اترنے کے مناظر فلم بند کر کے یہ دعویٰ دنیا کے سامنے کر دیں تو کیا خیال ہے کہ سوویت یونین والے آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کر لیں گے ؟ ایک عام شخص جو باربار چاند پر جھنڈا گاڑنے کی وڈیو پر اعتراض کر رہا ہے کہ چاند پر ہوا نہیں ہے تو امریکی جھنڈا لہرا کیسے رہا ہے ، کیا سویت یونین کے سائنس دان اس قدر بنیادی بات پر غور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟
مختلف دستاویزی فلموں میں سے کچھ نوٹس: کششِ ثقل ہی وہ چیز ہے ، جس کی وجہ سے یہ کائنات اور یہ کرّہِ ارض ہمیں موجودہ حالت میں نظر آتی ہے ۔ یہ انتہائی بڑے اور انتہائی چھوٹے ، دونوں پیمانوں پر کام کرتی ہے ۔ it acts on everything with mass(that have mass)including us 24/7 ۔ اس وقت بھی کام کررہی ہوتی ہے ، جب ہم سو رہے ہوتے ہیں یا جب ہم کھڑے ہوتے ہیں ۔کششِ ثقل ہمیشہ ہمیں زمین کے مرکز کی طرف کھینچتی رہتی ہے ۔
ہر وہ جسم جو مادہ یا توانائی کا حامل ہے ۔ چاہے وہ ایٹم کے ذرات ہوں ، انسان ہوں ،سیارے ہوں ، ستارے یا گلیکسیز، سب gravity پیدا کرتے ہیں ۔ gravity attracts, governs, warps, shapes, makes and takes all matter and mass in the universe so its pervasive. it acts on all things۔کششِ ثقل ہی کی وجہ ہی سے ہم کرّہ ء ارض سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ its the cosmic glue that binds all matter in the universe together۔ extremely large distanceپر بھی کششِ ثقل کام کر رہی ہوتی ہے ۔
الاسکا کے جنوب میں پانی کی عظیم الشان لہر (tide)، 12میٹر تک اوپر اور نیچے جاتی ہے ۔ یہ دنیا میںدوسری بڑی پانی کی لہر ہے ۔ اس کے ساتھ بہت ساری خوراک آتی ہے ۔ اسے کھانے کے لیے پرندے آجاتے ہیں ۔ 140ملین sea birdsگرمیوں میں الاسکا کے ساحل پر آتے ہیں۔
نیشنل جیوگرافک کی ڈاکو منٹری animal world of Camchatkaسے ایک اقتباس: red fox dont hibernate. they grow thicker seasonal fur to survive minus 15 degrees celsius coastal temperatures۔ ریچھ اور کچھ دیگر جاندار سردی میں اپنے آپ کو نیم مردہ حالت میں سلا لیتے ہیں اور چھ ماہ تک اسی حالت میں رہتے ہیں ۔ سرخ لومڑی ایسا نہیں کرتی بلکہ اس کے جسم پر موسمِ سرما میں خاص قسم کے بال نکل آتے ہیں اور اسے منجمد نہیں ہونے دیتے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا