ہمارے ذہن صدارتی نظام کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں؟
نصرت جاوید
روایتی الفاظ و تراکیب کے استعمال سے خوف آتا ہے اور علم میرا کافی محدود ہے۔ اپنی کوتاہ علمی کی وجہ سے قیامِ پاکستان کے محرکات کے حوالے سے کوئی نیا زاویہ بھی نہیں ڈھونڈ پایا۔
تجارت کے بہانے برصغیر میں داخل ہونے کے بعد اس پر سوسالوں تک حکمرانی کرتے ہوئے برطانوی سامراج نے جن تضادات کو پروان چڑھایا ان کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کی جدوجہد کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں بچا تھا۔ میرے ذہن میں اس جدوجہد کے جواز کے بارے میں شک وشبہات کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے۔ واعظوں کے انداز میں ان وجوہات کو دہرانے کی لہذا میں نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
بھارت میں نریندر مودی اور امریکہ میں ٹرمپ کی نموداری اور عروج نے مجھے البتہ اس شے کو سمجھنے میں بہت مدد دی ہے جسے انگریزی زبان میں majoritarianism کہا جاتا ہے۔ کاش میں اس لفظ کا اُردو زبان میں کوئی متبادل ڈھونڈ سکتا۔ جو حقیقت مگراس ترکیب کی بدولت سمجھ میں آجاتی ہے وہ کسی بھی معاشرے کے اکثریتی طبقات کے ذہنوں اور دلوں میں نسلوں سے جبلی طورپر گھسے تعصبات ہیں۔ ان تعصبات کو جب کھوکھلے ذہن کا کوئی متعصب سیاستدان انتہائی ڈھٹائی سے اپناتے ہوئے لوگوں سے ووٹ مانگنے جاتا ہے تو جمہوریت کی آڑ میں ریاست سرکاری سطح پر ایک ایسا رویہ اپنا لیتی ہے جو اکثریتی سوچ سے اتفاق نہ کرنے والوں کو سانس لینے کی مہلت بھی نہیں دیتا۔
گزشتہ ہفتے امریکہ کے ایک شہر میں نسل پرست کافی وحشت کے ساتھ کھل کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ بھارت میں جو کئی برسوں تک سیکولرازم کا بڑھک باز اجارہ دار رہا تھا، مودی سرکار کے قیام کے بعد گائے کی ”حرمت“ کو بچانے کے لئے مسلمان ذبح کیے جارہے ہیں۔ ہندو اکثریت کی طاقت کے نشے میں چور انسان بھیڑیوں کے غول کی طرح شہروں کو ایک دوسرے سے ملانے والی شاہراہوں پر دندناتے پائے جاتے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی نگاہ دوربین نے ایسے غول کو ابھرتے ہوئے آج سے کئی دہائیاں قبل دیکھ لیا تھا۔ ہندو اکثریت کے تعصبات کو سرسید احمد خان نے بھی بر وقت بھانپ لیا تھا۔ حقیقت مگر یہ بھی رہی کہ وہ انگریزی حکومت کے وفادار تھے۔ مسلمانوں کو سیاست سے دور رکھتے ہوئے انہیں صرف تعلیم پر توجہ دیتے ہوئے برطانوی سرکار سے تحفظ کے طالب گار بنائے رکھنے پر مجبور تھے۔
جدید دُنیا کے تقاضوں کو خوب سمجھتے ہوئے قائدِ اعظم کو مگر پورا یقین تھا کہ برصغیر پاک و ہند کو ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنائے رکھنا برطانوی سامراج کے لئے ممکن ہی نہیں۔ اسے اسی خطے سے اپنے وطن ہر صورت واپس لوٹنا ہوگا۔ سوال یہ اٹھا کہ سامراج کی گھر واپسی کے بعد کس سیاسی بندوبست سے کام چلایا جائے۔
اس بندوبست کی تلاش ہی نے قائداعظم کو اس امر پر قائل کیا کہ جدید ریاست کو موثر انداز میں چلانے کے لئے ایک منتخب پارلیمان کی ضرورت ہے۔ اس نظام کی اہمیت انہوں نے خود کو تحریک خلافت سے قطعاََ دور رکھتے ہوئے بہت موثر انداز میں اجاگر کی۔ اگرچہ ترکی میں خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لیے برصغیر کے مسلمان بہت جذباتی ہوچکے تھے۔ خود کو ”مہاتما“ کہلواتے گاندھی نے بھی اس تحریک کی منافقانہ حمایت سے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہا۔ گاندھی کی اس مکاری کو قائدِ اعظم نے بہت حقارت سے بے نقاب کیا۔ مہاتما کو گھاس میں چھپا ہوا سانپ کہا۔ سیاست کے لیے مذہبی جذبات سے کھیلنے کو ایک فعل بد ٹھہرایا۔
برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کی خواہش قائد اعظم کی جمہوری نظام سے بے لچک لگاﺅ پر مبنی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ برطانیہ کی رخصتی کے بعد برصغیر پاک و ہند ، سامراج کے بنائے ”برٹش انڈیا“ کی صورت بدستور ایک ملک رہا تو ووٹ کی بنیاد پر چلائے سیاسی بندوبست کو بالآخر اس خطے کی ہندو اکثریت اپنے تعصبات کا اسیر بنالے گی۔
جمہوری نظام پر گامزن رہتے ہوئے اس خطے کے مسلمانوں نے اگر ایک جدید تر اور خوش حال معاشرہ قائم کرنا ہے تو انہیں ایک جدا وطن کی ضرورت ہوگی۔ قیامِ پاکستان کی تحریک میری نظر میں majoritarianism کے خلاف اپنے وقت کے اعتبار سے ایک وجدانی اور تخلیقی جدوجہد تھی۔
پاکستان کے 70 ویں یومِ آزادی کی صبح اُٹھ کر البتہ میں بہت پریشان ہوں۔ انتہائی دُکھ کے ساتھ میں یہ بات بلاخوف و خطرہ کہنے پر مجبور ہوں کہ قیامِ پاکستان کی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرنے والی حقیقتوں کو ہماری اکثریت آج بھی بھرپور انداز میں سمجھ نہیں پائی۔ اسے محض majoritarianism کو رد کرنے والی تحریک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ پہلو قطعاََ نظرانداز کردیا گیا ہے کہ اکثریتی تعصبات کے خدشات کی بدولت ایک نئے ملک کا قیام اور اسے مستحکم اور خوش حال بنانے کا بندوبست صرف جمہوری نظام کے ذریعے ہی ہمارے سامنے آنا تھا۔
بلاشبہ جمہوریت کے نام پر مسلط ہوئے سیاستدانوں نے قیام پاکستان کی تحریک کے اس اہم ترین پہلو کو ہماری نگاہوں سے اوجھل رکھنے میں اہم ترین اور کئی صورتوں میں مجرمانہ کردار ادا کیا ہے۔ ان کی کوتاہ نظری اور ہوس اقتدار مگر جمہوری بندوبست کی اہمیت کو جھٹلا نہیں سکتی۔ جمہوری نظام کی ناقابلِ برداشت خامیاں اس نظام کو برقرار رکھتے ہوئے ہی تلاش کی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کسی جدید ریاست کو مستحکم و خوشحال بنانے کا اور کوئی بندوبست دُنیا میں موجود ہی نہیں۔
بجائے اس بندوبست کو توانا تر کرنے کے ہماری ریاست کے چند دائمی اداروں میں اب ایک خطرناک سوچ پنپ رہی ہے جو کسی نہ کسی صورت غیر منتخب اداروں کو سیاسی بندوبست میں ملوث کرتے ہوئے ”صاف ستھرے ٹیکنوکریٹس“ کی حکومت کو قائم کرنے کے بعد اس ملک پر ایک بار پھر ایک نیا ”آئین“ مسلط کرنا چاہ رہی ہے۔
آئین کی 18 ویں ترمیم کی بدولت صوبوں کو ملی خودمختاری کو ریاستی عدم استحکام کی وجہ بتاتے ہوئے انتہائی سادگی اور ہوشیاری سے ہمارے ذہنوں کو صدارتی نظام کے لئے تیار کیا جارہا ہے جس کے لاگو ہونے کے بعد صوبوں کی بجائے ملک میں ڈویژن کی سطح پر ”انتظامی اکائیاں“ تشکیل دی جاسکیں گی۔
ون یونٹ کی صورت اس سے ملتا جلتا تجربہ ہم 1956 میں بھی کرچکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جنرل ایوب کا ”اکتوبر(1958والا) انقلاب“ آیا تھا۔ اس کے عین دس سال بعد ایوب مخالف تحریک چلی۔ اس کے نتیجے میں یحییٰ خان کا مارشل لاء آیا۔ اس کے تحت پاکستان میں پہلی بار لوگوں کو حق رائے دہی نصیب ہوا تو اس کے نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کی ہم سے جدائی کا اصل سبب عوام کی اجتماعی رائے کو حقارت سے ٹھکرانا تھا۔ اس جھٹکے کے بعد بھی ہم نے سبق مگر اب تک نہیں سیکھا ہے۔ اسی لئے اپنے عزیز وطن کی 70 ویں سالگرہ کی صبح اُٹھ کر میں کافی پریشان محسوس کر رہا ہوں۔
بشکریہ: nawaiwaqt.com.pk