مصور صادقین کے ساتھ کیا ہورہا ہے
کشور ناہید
گزشتہ دنوں صادقین کی ایک پینٹنگ ڈیڑھ کروڑ ڈالر میں فروخت ہوئی۔ صادقین دل کے فقیر اور بادشاہ تھے۔ جس نے بھی کبھی اپنی تصویر، کبھی غالب کا کوئی شعر یا کچھ اوربنوانا چاہا۔ اس درویش نےنا ہر گز نا کہا۔ بخوشی آدھے گھنٹے میں بناکر دے دیا۔ میرے جیسے لوگوں سے جب وہ اور شاکر علی کہتے کہ تمہیں کون سی پینٹنگ لینی ہے۔ تو میں ہنس کر کہتی ’’ آپ کے گرد مانگنے والے بہت ہیں، پہلے ان کی غرض پوری کریں۔
میں جب اقبال ٹاؤن میں گھر بنارہی تھی تو صادقین نے کہا ’’تم مجھے ڈرائنگ روم کی ایک دیوار دے دو، میں اسے پینٹ کروں گا، میں نے اس کی بات اس لیے نہیں مانی کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میں بھی ساری دنیا کی طرح ہو جاؤں میرا غرور غلط تھا اس لیے کہ ہر اردگرد بیٹھے شخص کی طرح نہیں ہوناچاہتی تھی۔ صادقین لاہور کوئی چھ برس تک رہے۔ اور ہر خاتون ومرد کو جس نے جوچاہا، سرابرت لگاتے رہے۔ پھر وہ سال بھر کے لیے انڈیا چلے گئے۔
حیدرآباد دکن سے لے کر دلی کی جتنی مذہبی اور علمی درسگاہ ہیں، انہیں ملیں، ان کو اپنے فن مصوری سے بشاشت کے ساتھ آراستہ کرتے رہے۔ اب پھر کراچی آگئے، کراچی میں فرئیر ہال سے لیکر مختلف عمارتوں کو اپنے فن سے نوازا۔ لاہور کا تو آپ کو علم ہی ہوگا کہ میوزیم کی چھت سے لے کر، میوزیم کے اندر، اندر کے حاشیوں میں سورۃ رحمن اس سلیقے سے لکھی کہ کافر بھی ایمان لے آئے۔
اب آگے کا فسانہ سنئے۔ صادقین کی وفات کے بعد، جن لوگوں نے، ان سے تصویریں بنوائی تھیں۔ ان کو اعلیٰ قیمت پر فروخت کرنے کے لیے، اپنے بلوں سے نکل کر آرٹ گیلریوں کا رخ کیا اس میں ضرورت مند یا امیر کبیروں کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ البتہ یہ چیک کرا لیتے تھے کہ یہ اصل ہے کہ کاپی، کہ ان کا شاگرد، ایک مدت تک، ان کی نقل، اصل کے برابر بناکر بیچتا رہا۔ جب یہ منظر دیکھا تو صادقین کے رشتہ دار پیسہ کمانے کے لیے سامنے آگئے، ویسے وہ پہلے بھی صادقین کے لیے آرٹ گیلری بنانے کو جوزمین ملی تھی۔ اس پر ایک مدت تک شادی ہال بنا کر، زرکثیر جمع کرتے رہے۔ جب سرکار کو ذرا ہوش آیا تواب خطاطی سینٹر اور کوئی اسکول بنادیا گیا ہے۔
اب انہوں نے صادقین کی مصوری کی کافی بک لاکھوں روپے میں بنائی اور فروخت کی اب جو کچھ میں لکھ رہی ہوں، وہ آنکھوں دیکھا ہے، سنا سنایا نہیں ہے۔ ہر گھر سے صادقین کی دوتین پینٹنگز نکلنے لگیں اور فروخت ہونے لگیں۔ یہی حال احمد پرویز کی پینٹنگز کا اس کے انتقال کے بعد ہوا۔ گل جی بھی چغتائی صاحب کی طرح اپنی پینٹنگز کی نقل بالکل اس طرح بناتے تھے جیسا کہ پکاسونے کہا تھا کہ اپنی پینٹنگ کی نقل بھی میں خود ہی بناتا ہوں۔
صادقین کو یہ کہنے کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں سے تئیس گھنٹےکام کرتا، کھانے میں دو لقمے زبردستی کھا لیتا تھا۔ ہرچند اپنا پورٹریٹ بنوانے والی خواتین طرح طرح کے پراٹھے ب ناکر لاتیں۔ صادقین ہم سب کو فون کردیتا آ جاؤ غریب خانے پہ پلاؤ کھاؤ۔ وہ سب نازنین، کبھی خود تو نہیں، ان کی اولادوں نے بھی وہ پورٹریٹ بیچ کر مال کھرا کیا۔ بہت سے لوگوں کو بکرے کی کھال پر کبھی شو اور کبھی خطاطی کرکے دی تھی۔
انہوں نے بھی ریٹائرمنٹ اور صادقین کے مرنے کے بعد ، سکون عاقبت کا اہتمام کیا ۔ ا ب بتاؤں سرکاری ادارے PNCA کا احوال ، وہاں کوئی سو کے قریب صادقین کی پینٹنگرز تھیں کہ اسلام آباد جب وہ رہے توایک گھر انہیں کرائے پر لے کر دیاگیا تھا۔ وہ جب یہاں سے گئے تو ساری پینٹنگز ادارے ہی کو دے گئے تھے۔ جو لوگ گیلری کے مہتمم مقرر ہوتے گئے۔ صادقین کے علاوہ امرتہ شیر گل کی نابغہ روزگار پینٹنگز، کئی توسرحد پار اور کئی سمندر پار، فروخت کرکے، اپنی انتظامی سہولت سے کام لیتے رہے۔ وہاں یعنی گیلری میں صادقین کی اب کتنی پینٹنگز باقی ہیں۔ شاید جمال شاہ گنتی کریں تو خبر ہوجائے خبر ہوکے بھی کیا ہوگا، کف افسوس ملنے کے سوا۔
لاہور میں شاکر علی کی چند پینٹنگز، ان کی گیلری ہی میں ہیں۔
چونکہ اس زمانے میں، پینٹنگ بنانے سے پہلے base نہیں بنائی جاتی تھی۔ اس لیے وہ پینٹنگز جگہ جگہ سے اکھڑ رہی ہیں۔ اب جب ان مقامات پر افسر بیٹھ جائیں گے توانہیں کیا خبر، پینٹنگز کو ایک ماحول، کیسا ٹمپریچر اور کیسا رکھ رکھاؤ چاہیے۔ یہی حال ہر طرف ہے کہ اسلام آباد میں تودکان کی جگہ، لوگوں نے گیلریاں کھول لی ہیں۔ نمائش کرتے ہیں۔غیر ملکی مندوبین کوبلا کر اور فروخت کرکے، اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرلیتے ہیں۔ یہ کام کراچی اور اسلام آباد میں بہت زوروں پر ہے۔ میرا ان سے اختلاف نہیں، مگر نورجہاں کے بقول، کم بخت میری نقل میں گائیں، مگر سر تو ٹھیک لگائیں۔