آئین اور عدلیہ کے مطابق صادق اور امین کون؟
اسد چوہدری بی بی سی اردو ڈاٹ کام
آئین میں کیا تعریف درج ہے
سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تمام درخواستوں میں عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ فیصلہ کرے کہ وزیر اعظم نواز شریف آئین کی شق باسٹھ (ایک)(ف) کے تحت’صادق’ اور ‘امین’ نہیں ہیں۔ اس شق کے مطابق
(1)(62): کوئی بھی شخص رکن پارلیمان منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہوگا جب تک کہ
(ف) وہ ذی فہم، راست باز، نیک چلن، صادق اور امین، اس کے خلاف اس ضمن میں۔۔۔۔: عدالتی فیصلہ نہ ہو
صادق اور امین ہونے کی شرط ملک کے سابق فوجی صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں متعارف کروائی گئی تھی، لیکن ہم ان شقوں کی تاریخ اور ان سے متعلق تنازعے کی بات کیے بغیر دیکھیں گے کہ آئین میں یہ کس صورت میں موجود ہیں۔
‘صادق’ اور ‘امین’ عدلیہ کی نظرمیں
اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہم سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کی مدد لیں گے جو پاکستان کی سب سے اعلیٰ عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور دیگر سیاستدانوں کی وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دلوانے کے لیے دائر کی گئی درخواستوں پر دیا تھا۔
ہم فریقین کے دلائل اور ان پر سپریم کورٹ کی ان دلائل پر رائے میں جائے بغیر صرف یہ دیکھیں گے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ درخواست گزار نے اپنے موقف کے حق میں آئین کی شق باسٹھ (ایک) (ف) کا سہارا لیا تھا۔
مذکورہ مقدمے کے لیے سپریم کورٹ کا بنچ ججوں پر مشتمل تھا اور سبھی نے آئین کی اس شق پر بات کی۔
جسٹس عظمت سعید کا شمار پانچ میں سے ان تین ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے جے آئی ٹی کے ذریعے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف شکایات کی تفتیش کا حکم دیا تھا اور جو اب اس بنچ میں شامل ہیں جو جے آئی ٹی کی رپورٹ پر فیصلہ محفوظ کر چکا ہے۔
انھوں نے فیصلے میں شق باسٹھ کے بارے میں لکھا کہ اس شق کی بنیاد پر کسی کو پرکھنے سے پہلے اس ضمن میں کوئی عدالتی فیصلہ ہونا ضروری ہے۔
اسی تین رکنی بنچ کے ایک اور رکن جسٹس اعجاز افضل خان نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ شق کی موجودہ صورت میں ہر شخص کو اس وقت تک ذی فہم، پارسا، نیک، صادق اور امین سمجھا جائے گا جب تک اس ضمن میں اس کے خلاف کوئی عدالت فیصلہ نہیں دے دیتی۔
پانچ رکنی بنچ کے ایک رکن جسٹس آصف سعید کھوسہ جنہوں نے جسٹس گلزار احمد کے ساتھ مل کر اقلیتی فیصلہ لکھا تھا اور وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کی سفارش کی تھی آئین کی شق باسٹھ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ یہ درست ہے کہ کسی امیدوار کی صداقت کا فیصلہ کرتے ہوئے کسی عدالت کی طرف سے اس ضمن میں فیصلہ موجود ہونا چاہیے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل میں اب رجحان پیدا ہو چکا ہے کہ عدالت پہلے اس کے سامنے پیش کیے گئے شواہد کی روشنی میں امیدوار کے ایماندار ہونے کا فیصلہ کرتی ہے اور پھر اسی دوران اس کے اہل یا نااہل ہونے کا بھی فیصلہ کر دیتی ہیں۔
جسٹس کھوسہ نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے پاس نااہلی کے معاملے میں حقائق کی جانچ پڑتال کرنے کا اختیار ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے پاناما لیکس کی مقدمے میں لکھا کہ 18 ویں ترمیم سے پہلے کسی بھی رکن پارلیمان کے خلاف شکایت کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد کسی کے خلاف عدالتی فیصلہ ہونے کی شرط شامل ہو گئی۔
وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خِانہ کے خلاف مقدمے میں یہ بھی معاملہ زیر بحث آیا ہے کہ آیا سپریم کورٹ خود بھی ان کے خلاف الزامات پر فیصلہ دے سکتی ہے، یا اس کے لیے معاملہ ٹرائل کورٹ میں بھیجا جائے گا۔
اخلاقی اور قانونی تقاضوں میں فرق اور عدالتی مشکلات
جسٹس عظمت سعید نے واضح کیا کہ عدالتیں قانون کی بنیاد پر کام کرتی ہیں اور اخلاقی سوالات ان کے دائرے سے باہر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شق باسٹھ میں جب لفظ ‘صادق’ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد قانونی لحاظ سے سچا ہونا ہے۔ یہ اخلاقیات کا سوال نہیں بلکہ اس صداقت کی قانونی حیثیت ہے۔ یہ ایک ‘آبجیکٹو’ تقاضا ہے نہ کہ ‘سبجیکٹو’۔
انھوں نے کہا کہ عدالتوں نے اس معاملے میں کبھی اخلاقی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ وکلا کی طرف سے سپریم کورٹ کے کسی ایک بھی ایسے فیصلہ کا حوالہ نہیں دیا گیا جس میں جسی کو صرف اس بنیاد پر شق باسٹھ کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہو کہ وہ بے ایمان تھا اور یہ مبینہ بے ایمانی کسی قانون کی خلاف ورزی یا قانونی ذمہ داری کی عدم ادائیگی نہیں تھی۔
تاہم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے شق باسٹھ تریسٹھ کے بارے میں اپنے نوٹ میں لکھا کہ آئین میں دی گئی اصطلاحات میں ‘صادق’ اور ‘امین’ کی تشریح واضح نہیں ہے، اور یہ بھی کہ کسی ایک مقدمے کے شواہد اور واقعات پر ان کا کس طرح اطلاق ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ یہ ابہام عدالتوں کو ان شقوں کی تشریح اور نفاذ کے معاملے میں کافی گنجائش اور لچک فراہم کرتا ہے اور عدالت کے پاس نتیجے تک پہنچنے کے لیے مختلف راستے اختیار کرنے کا امکان بھی موجود رہتا ہے۔
آئین کے تقاضے
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ شق باسٹھ کی حقیقت یہی ہے اور جو کہ ملک کی سپریم کورٹ نے بار بار واضح کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ باسٹھ ایک ف کو ‘سیاسی انجنیئرنگ ‘ کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ایسے اختیارات اپنے آپ کو تفویض کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے کہ وہ امیدواروں کی اخلاقی بنیادوں پر چھانٹی کر سکیں جیسا کہ ایک ‘ہمسایہ ملک میں بزرگوں کی مجلس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔’
‘ہمارے آئینی نظام میں پاکستان میں حکومت کا حق عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو ہے نہ کہ چند افراد یا کسی ادارے کے منتخب کردہ افراد کو۔’
‘صادق’ اور ‘امین’ اور اسلامی حوالے
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے فیصلہ میں آئین کی شقوں باسٹھ اور تریسٹھ اور امیدواروں کے لیے قرآن سے حوالے دیتے ہوئے ‘صادق’ اور ‘امین’ ہونے کے تقاضوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
انھوں نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ ان شقوں کو آئین کا حصہ بناتے ہوئے قرآن سے رہنمائی لی گئی ہے، جہاں انھوں نے لکھا کہ گھریلو ملازم کے لیے ‘قوی الامین’ اور وسائل کی حفاظت پر معمور کیے جانے والے افراد کے لیے ‘حفیظ الامین’ کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔
جسٹس کھوسہ نے لکھا کہ غالباً ‘صادق’ اور ‘امین’ کے بارے میں شقوں کو بھی اسی تناظر میں سمجھنا اور نافذ کرنا چاہیے۔ انھوں نے اپنے ہی ایک پرانے فیصلہ( اسحاق خان خاکوانی اور دیگر بنام میاں محمد نواز شریف اور دیگر) کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ آئین میں اتنی سخت شرائط کیوں رکھی گئی اور ان پر عملدر آمد میں کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
جسٹس کھوسہ نے اپنے پرانے فیصلے میں لکھا ہے کہ کسی کے ذی فہم اور نیک اور پارسا ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے اس شخص کی پوری زندگی کا احاطہ کرنا اور اس کی ذہنی کیفیت سمجھنا ضروری ہے۔
جسٹس کھوسہ نے لکھا کہ ‘صادق’ اور ‘آمین’ کی شرط تو ظاہر ہے پیغمبر اسلام کی صفات تھیں۔ انھوں نے کہا کہ آئین میں ان شرائط کا مطلب یہ یقینی بنانا تھا کہ بہترین صرف اچھے اور نیک مسلمان ہی اسمبلیوں تک پہنچیں اور وہ لوگ ریاست پاکستان میں اللہ کی حاکمیت ایک امانت کے طور پر نافذ کر سکیں۔
‘لیکن ملک کے آئین کو مثالی ہونے کی بجائے عملی ہونا چاہیے’، انھوں نے مزید لکھا۔ انھوں نے کہا کہ پیغمبر آنا بند ہو گئے ہیں اور اب ہمارے سامنے صرف گناہ گار انسان ہیں۔
جسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ اللہ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں تفریق کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حقوق اللہ میں عبادات شامل ہیں جیسے کہ روزہ اور حج اور ان کا معاملہ خالق اور مخلوق کے درمیان ہے۔
جسٹس کھوسہ نے لکھا کہ ان کے مطابق شق باسٹھ کا اطلاق کسی شخص کے ذاتی کردار کے مقابلے میں عوامی کردار تک محدود رکھنا جس سے دوسرے لوگ متاثر ہوتے ہوں فائدہ مند اور قابل عمل ہے۔