صدقہ و خیرات کے ذریعے مزدوروں کا استحصال
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
ہمارے ایک دوست بڑے کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ صدقہ و خیرات بہت کیا کرتے تھے۔ ان کی فیکڑی کے مزدوروں کو جب اپنے بچوں کی فیس، علاج، شادی بیاہ وغیرہ جیسی ضروریات کے لیے مالی مدد درکار ہوتی تو وہ ان کی مدد بھی کر دیا کرتے تھے۔ غریب مزدوروں کی گردن ان کے احسانات کے آگے جھکی ہی رہتی تھی۔ اپنے محسن کے احسانات کا بدلہ چکانے کے لیے وہ اور بھی تند دہی سے کام کرتے، اپنا خون پسینہ ایک کرتے۔ یوں ہمارے دوست کے ثواب کا اکاؤنٹ اور ان کی فیکٹری دونوں خوب ترقی کر رہے تھے۔
میں نے ایک بار ان سے عرض کیا کہ جتنے پیسے آپ مزدوروں پر صدقہ کرتے ہیں، ان کے برابر ہی سہی، اگر آپ اپنے مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیں تو وہ صدقہ و خیرات کے محتاج ہی نہ رہیں گے، ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہوگی اور اپنی بنیادی ضروریات کے لیے انہیں آپ سے مانگنا بھی نہیں پڑے گا۔ یہ سن کر میرے اس دیندار دوست کے اندر کا سرمایہ دار یک دم باہر نکل آیا۔ اس نے فوراً انکار کر دیا کہ اس طرح مارکیٹ میں مزدوری کا ریٹ خراب ہو جائے گا، مزدور خود سر ہو جائیں گے، احسان مند نہیں رہیں گے اور جب احسان مند نہیں رہیں گے تو وفادار بھی نہیں رہیں گے، وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے دوست کی اس بات پر آپ غور کریں تو اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ بنتا ہے کہ سرمایہ داروں نے آپس میں مل کر یہ طے کر رکھا کہ مزدوروں کو ایک خاص سطح سے زیادہ مزدوری نہیں دینی، ان کو کم مزدوری پر کام کرنے پر مجبور بنائے رکھنا ہے، پھر جب ان بے چاروں کو اپنے یا اپنے بچوں کے علاج، تعلیم یا شادی وغیرہ کے لیے پیسے درکار ہوں تو ان کو بھیک میں کچھ پیسے دے کر ان کو اپنا احسان مند بھی بنا لینا ہے اور پھر اس احسان مندی کے عوض ان کی وفاداری بھی خرید لینی ہے اور یوں اپنے صدقہ اور خیرات کے ذریعے بھی اپنے کاروبار کی ترقی ہی ان کے پیشِ نظر ہوتی ہے۔
پاکستان دنیا کا کم ترین مزدوری دینے والا ملک ہے، اور پاکستان ہی دنیا کا سب زیادہ خیرات کرنے والا ملک بھی ہے۔ ہمارے معاشرے کا یہ تضاد ایک بہت بڑی معاشرتی کجی کا اظہار ہے۔ ہم نے مزدوروں کے استحصال کو ایک معاشرتی قدر بنا دیا ہے۔ ہم پہلے ان کو کم مزدوری دے کر محتاج بناتے ہیں، صرف ان کو نہیں بلکہ ان کے خاندان کو بھی محتاج بنا دیتے ہیں، پھر ان کی محتاجیوں سے مزید محتاجیاں جنم لیتی ہیں، اور پھر ہم صدقہ و خیرات سے ان محتاجوں کی مدد کر کے ان کو اپنا احسان مند بھی بنا لیتے ہیں اور پھر اس احسان مندی سے ایک طرف ہم اپنا کاروبار چمکاتے ہیں اور دوسری طرف ان کی دعاؤں سے جنت کے محل الگ تعمیر کرا لیتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم مزدوروں کی مزدوری سے پیسے بچا کر وہی پیسے ان کو صدقہ اور مدد کے نام پر دے کران کی عزت نفس بھی کچلتے ہیں اور اس پر خود کو شاباش بھی دیتے ہیں اور خدا کے رجسٹر میں خود کو نیک ناموں کی فہرست میں شمار بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مزدور سارا دن محنت کرنے کے بعد اپنی اور اپنے خاندان کی غذائی ضروریات تک مکمل طور پر پورا کرنے سے بھی قاصر رہتاہے، علاج معالجے اور دیگر غیر معمولی اخراجات کے لیے بھیک مانگنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ ہم لوگ بھیک دینے کو تو تیار ہیں لیکن اتنی مزدوری دینے کو تیار نہیں کہ اسے بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہونے پڑے۔
لوگوں کو اپنے محتاج بنائے رکھنے اور پھر ان کی محتاجی کو صدقے و خیرات سے پورا کر کے ان کو اپنا احسان مند دیکھنے میں جو فرعونی لطف ملتا ہے وہ کسی کو خود کفیل بنا دینے میں نہیں ملتا۔ پیسے کو کسی کا حق بنا کر اس کو دینے میں وہ مزا نہیں جو کسی پھیلے ہوئے ہاتھ پر چند روپے رکھنے، اور پائے شفقت سے اس کی عزتِ نفس کچلنے میں ہے۔ ایسے صدقہ و خیرات جس کی قیمت احسان مندی اور خدمات کی صورت میں وصول کر لی گئی ہو، اس کے اجر کی امید آخرت میں بھی رکھنا محض خود فریبی ہے۔ ایسی نیکیوں کے لیے تو الٹا جواب دہی کی فکر کرنی چاہیے۔
اور تو چھوڑیے، جو طبی سہولیات نچلے گریڈ کے سول ملازمین کو بعض فوجی اداروں میں حاصل تھیں وہ بھی ان سے چھینی جا رہی ہیں۔ انھوں نے اپنے محکمے کے نچلے طبقے کے ملازمین کو علاج معالجے خصوصا مہنگےعلاج کی سہولت دینے سے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ گویا وہ بے چارے ساری عمر خدمت تو اپنے محکمے کی کریں، لیکن بیمار ہو جائیں تو علاج اپنے خرچے پر کرائیں اور جب صحت یاب ہو جائیں تو واپس کام پر آ کر جُت جائیں۔ جب کہ انہی محکمہ جات کے اعلی افسران کا بیرونِ ملک علاج بھی مفت ہے۔
بدقسمتی یہ کہ بیماریاں رینک دیکھ کر نہیں لگتیں، لیکن افسوس کہ علاج رینک دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ سرکاری محکمہ جات کا یہ غیر انسانی رویہ قانونی طور طے کیا گیا ہے۔ گویا ہم لوگ اب تک قانونی اور کاغذی طور پر بھی انسانیت اختیار نہیں کر سکے، اخلاقی منزل تو اس سے بھی آگے ہے۔
ایک سروے کے مطابق پانچ افراد پر مشتمل ایک غیر ہنرمند مزدور کے خاندان کو ماہانہ قریبًا 36،000 سے 40،000 ہزارروپے درکار ہیں۔ جب کہ حکومت نے کمال مہربانی سے موجودہ بجٹ میں مزدور کی کم از کم اجرت سے 13 سے 14 ہزار مقرر کی ہے۔ بقول شخصے، حکومت ایک مہربانی اب یہ بھی کر دے کہ ان غریبوں کو اتنے پیسوں میں پورے مہینے کا بجٹ بھی بنا کر دے دے۔
اُدھر انگلینڈ ہے، جہان ایک گھنٹے کی مزدوری، پاکستان کےمزدور کی سارا دن کی آمدنی سے زیادہ ہے۔ یورپی ممالک میں مزدور کی مزدوری ہی اتنی زیادہ ہے کہ اسے بنیادی انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑتی، سوائے یہ کہ کوئی غیر معمولی ضرورت آ پڑے۔
وہاں کے مزدور کے چہرے پر عام طور پر مسکینیت بھی دکھائی نہیں دیتی، لیکن یہاں اگر مزدور کے چہرے پر مسکینیت نظر نہ آئے تو اسے مزدوری کے لیے مناسب ہی نہیں سمجھا جاتا، کہ اسے شاید کام کی زیادہ ضرورت نہیں اس لیے کام میں سنجیدہ نہیں ہوگا، غلاموں کی طرح محنت نہیں کرے گا، یا اپنی عزت نفس پر سمجھوتہ نہیں کرے گا، یا پھر اسے باغی سمجھا جاتا ہے یا ناسمجھ، جسے ابھی زمانے کی ہوا نہیں لگی۔ ہمارے ہاں اپنے باس کے آگے عاجزی دکھانا، اس سے ڈرا سہما نظر آنا کام کرنے سے بھی زیادہ ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
ایک فرق اور بھی دیکھیے کہ ہمارے ہاں نجی تعلیمی ادارے، تعلیم یافتہ مزدوروں کی ڈگریاں رہن رکھوا کر ان کی وفاداری گروی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ سیکنڈے نیوین ممالک میں مزدور کو منافع میں حصہ دار بنا کر اسے ادارے کے ساتھ وفادار بنایا جاتا ہے۔ پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ بد ترین استحصال کا شکارہیں۔ ایک ایک استاد سے دو یاتین اساتذہ کا کام لیا جاتاہے۔ بلکہ تدریس سے ہٹ کر پی ٹی آئی، گیٹ کیپر، اور گارڈ تک کے کام ان سے لیے جاتے ہیں۔ اور ملازمت کا تحفظ صفر ہے۔
مزدور کی حالت بہتر بنانے کے لیے حکومت سے کیا فریاد کی جائے کہ وہ خود استحصالی سرمایہ داروں پر مشتمل ہے۔ ویسے بھی اسے اور بہت سے ‘اہم’ کام درپیش ہیں، غرباء کے لیے فرصت اسے اگلے سو سال نہیں ملنے والی۔ البتہ، قارئین سے گزارش ہے اگر صدقہ و خیرات کرنے اور مزدوری دینے میں سے کسی ایک انتخاب کرنا پڑے تو التجا ہے کہ آپ بھلے صدقہ مت کریں لیکن مزدوری اپنی استطاعت کے مطابق اچھی دیجیے، مزدوری کم کرانے کے لیے بحث مت کیجیے، ہمارے ہاں پہلے ہی مزدوری انتہائی کم ہے، اس پر مزید کم کرانا بد اخلاقی اور خود غرضی ہے۔
جن مزدوروں، مثلاً گھریلو ملازم، فیکٹری کے ملازم، ڈرائیور، پلمبر، الکٹریشین، مکینک، وغیرہ سے آپ کام لیں تو ان کی مزدوری حسبِ استطاعت زیادہ طے کریں، یعنی کہ مزدوری طے ہی زیادہ کریں نہ کہ بعد میں ان کو زیادہ دے کر احسان مند کریں۔ کوشش کریں کہ وہ آپ کے احسان مند نہ ہوں۔ لوگوں پر احسان کر کے بھی انہیں احسان مند نہ کرنا ہی اصل نیکی ہے۔ دیکھیے تو شاید قرآن مجید یہی بات احسان کرنے والوں کو بتا رہا ہے لیکن ہمیں قرآن کی بے سمجھ تلاوت سے فرصت ملے تو اس کی بات سنیں:
ایک اچھا بول اور (ناگواری کا موقع ہو تو) ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے جس کے ساتھ اذیت لگی ہو ئی ہو۔ اور (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اِس طرح کی خیرات سے) اللہ بے نیاز ہے۔ (اِس رویے پر وہ تمھیں محروم کر دیتا، لیکن اُس کا معاملہ یہ ہے کہ اِس کے ساتھ) وہ بڑا بردبار بھی ہے۔ (سورہ بقرہ، 263)
” ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکر گزاری۔ (سورہ انسان آیت 9)
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.