ترکی کی صورت حال، اورحان پامک اور سفید قلعہ
از، ڈاکٹر ضیاء الحسن
جب مجھے بتایا گیا کہ ترکی میں اور بھی ناول نگار ہیں جو اورحان پامک سے بھی اچھا لکھتے ہیں تو میں حیرت میں ڈوب گیا کیوں کہ اس بات کا مطلب یہ تھا کہ ترکی زبان میں عظیم افسانوی ادب کا ایک بہت بڑا خزانہ پوشیدہ ہے۔ ترکی کے افسانوی ادب سے اُردو والوں کی پہلی شناسائی سجاد حیدر یلدرم کے نیم ترجمہ، نیم ماخوذ افسانوں کے ذریعے ہوئی۔ علاوہ ازیں ہمارے ہاں ترکی فکشن کے مربوط تعارف کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی، ویسی مربوط جیسی روسی، جرمن، فرانسیسی، چیک، انگریزی، امریکی، لاطینی امریکی، کسی حد تک عربی، فارسی فکشن کے تراجم کی صورت میں ہوئی۔
۲۰۰۶ء میں جب اورحان پامک کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا تو کراچی سے شایع ہونے والے وقیع اردو مجلے ’’آج‘‘ نے ان کے ناول کے نصف حصے کا ترجمہ ’’سفید قلعہ‘‘ کے نام سے اپنے شمارہ نمبر۵۱، جنوری۲۰۰۶ء میں شایع کیا۔ گویا ’’آج‘‘ کے مدیر نے اورحان پامک کے نوبل انعام کے حوالے سے تعارف کے فوراً بعد ہی ان کے ناول کا ترجمہ شایع کر دیا۔ ایک سال بعد اپنے شمارہ نمبر۵۵، فروری ۲۰۰۷ء میں انھوں نے ناول کا دوسرا حصہ اور پامک کے نوبل انعام دیے جانے کے موقع پر پڑھا جانے والا خطبہ ’’ابا کا سوٹ کیس‘‘ کے عنوان سے شایع کر دیے۔ اسی سال کراچی کے ایک اور وقیع اشاعتی ادارے ’’شہرزاد‘‘ نے یہ ناول مکمل صورت میں شایع کر دیا۔ یوں اردو پڑھنے والے طبقے کی اورحان پامک کی تحریروں تک رسائی ہوئی۔ کتاب کا سرورق نہایت دیدہ زیب اور بامعنی ہے۔ پشت پر پامک کی تصویر دی گئی ہے جس کے ذریعے کسی حد تک مصنف سے روشناسی بھی ہوتی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد پاکستان کے ادبی حلقوں میں پامک کی ناول نگاری زیرِبحث آئی۔ ان کے فنِ ناول نگاری پر مضامین لکھے جانے کے علاوہ ادبی حلقوں میں زبانی گفتگوؤں کا بھی آغاز ہوا۔
پامک کے ناول پر بات شروع کرنے سے پیشتر اس کے نظریہ فن پر چند معروضات پیش کرنا مفید ہو گا۔ انھوں نے اپنے نوبل خطبے میں اپنے والد اور اپنے فرق سے تخلیق، تخلیق کار اور تخلیقی رویوں کی وضاحت کی ہے۔ تخلیق ادب چند دنوں کی کارگزاری نہیں بلکہ اس کے لیے ایک ادیب کو برسوں کمرے میں بند رہ کر اپنے باطن پر صبر، ضد اور سرخوشی سے غور و فکر کرنا ہوتا ہے۔
’’لکھنے کا مطلب اس اندر کی سمت دیکھنے والی نگاہ کو لفظوں میں ڈھالنا اور گوشہ نشین ہونے کے بعد اپنے اندر کی دنیا کا مطالعہ کرنا ہے اور یہ عمل صبر، ضد اور سرخوشی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘‘
پامک کے نزدیک ناول نگاری ایک آہستہ روعمل ہے جس میں ناول نگار اپنی کہانی کو دوسروں کی کہانی اور دوسروں کی کہانی کو اپنی کہانی بنا کر پیش کرنے کی صلاحیت کا اظہار کرتا ہے۔ ناول نگاری ایک آہستہ رو بیان اور اس بیان کو باطن میں محسوس کرنے کی قوت ہے۔ جس خصوصیت کو پامک آہستہ آہستہ بیان کرنا کہتا ہے، میں اسے تمکنت کہتا ہوں۔ اپنے ایک مضمون میں، میں نے لکھا تھا کہ یہ تمکنت محض ناول نگاری یا کسی اور ادبی صنف کے لیے ہی ضروری نہیں ہوتی بلکہ دنیا کے ہر فن کا بنیادی خاصّا ہے، حتیٰ کہ وہ فنون جس میں برق رفتار حرکت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، ان میں بھی یہ آہستہ روی یا تمکنت ناگزیر ہے جسے پیلے یا میراڈونا کے فٹ بال میں، سمیع اللہ یا حسن سردار کی ہاکی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ناول نگار باہر کی تیز رفتار دنیا کو بھول کر اپنی ایک دنیا تعمیر کرتا ہے۔ وہ اس کی ایک ایک گلی، ایک ایک کوچے، ایک ایک مکان کی تعمیر ویسے ہی کرتا ہے جیسے کوئی حقیقی دنیا تعمیر کی جا سکتی ہے۔ وہ ایک اینٹ پر دوسری اینٹ رکھتے ہوئے ہر مکان تعمیر کرتا ہے، ہر کردار تخلیق کرتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ ایک کردار کی تعمیر میں کتنا وقت لگا یا کتنے صفحات صرف ہوئے۔ وہ زماں و مکان کو بھول کر زمان و مکان کی تعمیر کرتا ہے۔
’’بے چینی وہ پہلی خصوصیت ہے جو کسی شخص کو ادیب بناتی ہے۔ ادیب بننے کے لیے صرف صبر اور ریاضت ہی کافی نہیں: سب سے پہلے ہمیں ہجوم، رفاقت اور روزمرہ کی عام زندگی سے فرار ہونے اور خود کو کمرے میں بند کر لینے کی زبردست خواہش محسوس ہونی چاہیے۔ ہم صبر اور اُمید کی تمنا کرتے ہیں تاکہ اپنی تحریر میں ایک عمیق دنیا تخلیق کر سکیں لیکن خود کو کمرے میں بند کر لینے کی خواہش ہی وہ شے ہے جو ہمیں عمل پر اُکساتی ہے۔ کتابوں کے مطالعے سے کیف حاصل کرنے والے، صرف اپنے ضمیر کی آواز پر کان دھر کر دوسروں کے کہے ہوئے لفظوں سے اختلاف کرنے والے، کتابوں سے مکالمہ کرنے کے ذریعے اپنے خیالات اور اپنی دنیا کو وضع کرنے والے آزاد ادیب‘‘ ہی اس قابل ہو سکتے ہیں کہ وہ ’’اپنی کہانیاں یوں بیان کر سکے جیسے وہ دوسروں کی کہانیاں ہوں اور دوسروں کی کہانیاں اس طرح سنا سکے جیسے وہ اس کی اپنی کہانیاں ہوں۔‘‘
ترکی میں ادب اور ادیب کی صورتِ حال بالکل پاکستان جیسی ہے۔ اس بات کا انداز بھی اس خطبے سے ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی پرانی کتابیں بیچنے والے مفلس ہیں، فٹ پاتھوں پر کتابیں بیچنے کے لیے سخت کوشی کے باوجود مفلس ہیں جب کہ نئی کتابیں شایع کرنے والے بے ایمان، لٹیرے اور ناجائز منافع خور ہیں۔ جب وہ کسی ادیب کی کتاب شایع کرتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ وہ ادیب ان کا ممنونِ احسان بھی ہو اور رائلٹی کے بارے میں بھی بات نہ کرے۔ کتابوں کی قیمتیں اس قدر زیادہ رکھی جاتی ہیں کہ عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہوتی ہیں۔ ان ظالم پبلشروں کی کتابیں سرکاری سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، پبلک لائبریریوں اور دیگر سرکاری اداروں کی لائبریریوں میں کمیشن کے عوض محبوس کر دی جاتی ہیں جہاں انھیں قاری شاذ ہی میسر آتا ہے۔ شاعروں کو مسخرا اور گوّیا، ناول نگاروں کو جھوٹی کہانیاں لکھنے والا، گانے والوں کو تحقیر سے مراثی کہا جاتا ہے۔ دیگر فنون غیراسلامی قرار دے کر ممنوع کر دیے گئے ہیں۔ اس طرح کی بات اورحان پامک نے بھی لکھی ہے:
’’مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ایک ایسے ملک میں رہتا ہوں جسے فن کاروں سے___ خواہ وہ مصور ہوں یا ادیب___ کچھ زیادہ دل چسپی نہیں ہے۔‘‘
ترکی اور پاکستان میں ایک مماثلت دونوں ملکوں کے عوام کا مغربی دنیا سے مرعوبیت کا روّیہ ہے۔ ہمارا ہر آدمی پیرس، لندن یا نیویارک میں منتقل ہو جانا چاہتا ہے، وہ مغربی ممالک کے تہذیب و تمدن، زبان و ادب، سائنس و ٹیکنالوجی، ہر شے سے متاثر و مرعوب ہے اور اپنی ہر شے کے بارے میں احساسِ کم تری کا شکار ہے۔ اسی طرح مغربی قومیں ایشیائیوں، افریقیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو وحشی، اجڈ، غیرمہذب، دہشت گرد، غریب، جاہل اور گداگر سمجھ کر حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور وہاں سے جو کچھ ہمارے لیے ارسال کرتی ہیں، اسے احسانِ عظیم اور ہمارے لیے ناگزیر سمجھتی ہیں۔
’’میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مغرب میں۔۔۔ قومیں اور عوام اپنی مالی خوش حالی پر ضرورت سے زیادہ ناز کرتے ہیں اور اس بات پر کہ انھوں نے ہمیشہ نشاۃِ ثانیہ، روشن خیالی اور جدیدیت کا تحفہ دیا اور وقتاً فوقتاً وہ ایک ایسی خود اطمینانی کا شکار ہو جاتے ہیں جو اتنی ہی احمقانہ ہوتی ہے۔‘‘
اورحان پامک کے ناول کی بنیاد ان کا یہ ایمان ہے کہ دنیا کے تمام انسان ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ان کے دکھ درد، زخم، آرزو، تمنا، امید، ناامیدی، یقین، بے یقینی، سب کچھ یک ساں ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سمجھ لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک پاکستانی، ایک ترک اورحان پامک کے ناول ’’سفید قلعہ‘‘ کو سمجھ لیتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہو پاتا ہے۔ اس وجہ سے وہ روسی، جرمن، فرانسیسی، چیک، برطانوی، لاطینی امریکی، ہندو، عیسائی، یہودی___ غرض ہر خطے، ہر زبان اور ہر مذہب کے ادب اور ادیب کو بلاتعصب پڑھ سکتا ہے، لطف اندوز ہو سکتا ہے، محسوس کر سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے۔
’’جب کوئی ادیب خود کو برسوں کے لیے اپنے کمرے میں بند کر لیتا ہے تاکہ اپنے ہنر کو بہتر بنا سکے___ ایک دنیا تخلیق کر سکے___ تب، اپنے ان پوشیدہ زخموں کو اپنے نقطۂ آغاز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، وہ، دانستہ یا نادانستہ، انسانیت پر گہرائی سے یقین کر رہا ہوتا ہے۔ میرے اعتماد کا منبع میرا یہ یقین ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے سے مشابہ ہوتے ہیں، کہ دوسروں کے وجود میں بھی ویسے ہی زخم ہیں جیسے میرے وجود میں___ اور یہ کہ یہی وجہ ہے کہ وہ میری بات سمجھ جائیں گے۔ تمام ادب اسی بچگانہ اُمید کا سہارا لیتا ہے کہ سارے انسان ایک دوسرے سے مشابہ ہوتے ہیں۔‘‘
ناول کے موضوع کا آغاز اس سوال سے ہوتا ہے جو خوجہ کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ: ’’میں وہ کیوں ہوں، جو ہوں۔‘‘
اس ’’کیوں‘‘ میں ناول نگار نے تفریق کے تضاد کو حل کرنے کی کوشش کی ہے کیوں کہ خوجہ اپنی معاشرت سے مختلف ہے، ’’اُس‘‘ سے بھی مختلف ہے لیکن اس کے باوجود سب جیسا بھی ہے۔ بہ ظاہر خوجہ آقا ہے اور ’’وہ‘‘ غلام لیکن اپنے وجود کے لیے ’’اُس‘‘ کا اسیر ہے۔ دونوں قربت کی جو زندگی گزارتے ہیں اس کی وجہ سے یک جان دو قالب ہو جاتے ہیں، اس حد تک کہ ایک دوسرے کی جگہ بدل لیتے ہیں اور اردگرد کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ کردار تبدیل ہو گئے ہیں۔ نہ استبول اور گیبزے میں اور نہ ہی اطالیہ میں کوئی دوسرا، اس فرق کو جان پاتا ہے اور یہی اس ناول کی تخلیق کا مقصود ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ناول نگار مذہب، تہذیب، ثقافت، معاشرت اور معاش کی پیداکردہ تفریقات کے باوجود انسانی باطن کے اشتراک کو اہمیت دیتا ہے اور اشتراک کو تفریق پر فوقیت دیتا ہے۔ اگرچہ انفرادی اور اجتماعی طور پر تفریق کو زیادہ اہم گردانا جاتا ہے:
’’ان دنوں شاید ہمارے پاس ایک دوسرے کو سمجھنے کا یہی طریقہ تھا: ہم میں سے ہر ایک، دوسرے کو کم تر خیال کرتا۔‘‘
ہر مذہب، ہر نظریہ، ہر خیال اور ہر فرد، ہر معاشرہ اپنے تئیں دوسروں سے برتر خیال کرتا ہے اور یہی فساد کی بنیاد ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں، باطن کے عُمق کا مشاہدہ کرتے ہیں تو وہ تعلق استوار ہوتا ہے جو: ’’من تو شدی، تو من شدم‘‘ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ صوفیانہ نقطۂ نظر ہے لیکن یہ تصوف روایتی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا تعلق الٰہیات سے۔ اس کا تعلق مابعدالطبیعیات سے ضرور ہے لیکن اس مابعدالطبیعیات کا تعلق مذہب کے بجائے خالص روحانیت یعنی باطن پر تفکر کے ساتھ ہے۔ فی الاصل یہ اس دنیا کا زایدہ ہے جس کی بنیاد تہذیبوں کے تصادم پر رکھی جا رہی ہے۔ مصنف کو اس نقطۂ نظر سے اختلاف ہے اور وہ اسے نوعِ انسان کے لیے مضر خیال کرتا ہے۔ اس نے اپنے نقطۂ نظر کے بیان کے لیے تبلیغی پیرایہ اختیار نہیں کیا بلکہ ایک سادہ کہانی میں اس پیچیدہ انسانی صورتِ حال کو بیان کر دیا ہے۔ اس کا اصرار بھی نہیں کہ آپ اس کے نقطۂ نظر سے اتفاق کریں۔ ناول نگار نے اس باطنی اشتراک کی تفہیم کی بنیاد ظاہری تضاد پر رکھی ہے۔ یہ تضاد مشرق و مغرب، عیسائی اور مسلمان، آقا اور غلام، قدیم و جدید، خلافت و جمہوریت، عالم اور متعلم کی صورت میں ظاہر کیا گیا ہے لیکن ہر تضاد آخر میں اس اشتراک پر منتج ہوتا ہے جہاں خوجہ اور ’’اس‘‘ کا فرق مٹ جاتا ہے، اس قدر کہ خود ان دونوں کے لیے بھی اسے باور کرنے میں سولہ سال بیت جاتے ہیں اور قاری مسلسل مخمصے میں رہتا ہے کہ حقیقت کیا ہے؟
ناول کی کامیابی اسی تجسس میں ہے کہ اصل کون ہے؟ خوجہ کون ہے اور ’’وہ‘‘ کون ہے؟ گیبزے میں کون ہے؟ اور اطالیہ میں کون ہے؟ جس کی زبان اطالوی نہیں ہے، وہ اس زبان میں کتب تصنیف کرتا ہے اور جو جانتا ہے، لاعلمی کا اظہار کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اطالیہ میں خوجہ ہے اور گیبزے میں ’’وہ‘‘ ہے لیکن مصنف کے نزدیک یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت ہے کہ خوجہ ’’وہ‘‘ ہو سکتا ہے اور ’’وہ‘‘ خوجہ اور ایسا ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہر شخص اپنی اپنی سطح پر مطمئن ہے اور ہر شے اپنے مقام پر ہے لیکن اگر مذہب کو، نسل پرستی یا لسان پرستی کو خبر ہو جائے تو دونوں کردار انٹرپول کو مطلوب ہو سکتے ہیں۔ اس ناول سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ فنون؍ادب کے علاوہ باقی تمام بہ شمول مذہب، ملت، جغرافیہ انسان کو تقسیم کرتے ہیں جب کہ ادب انسان کو انسان سے منسلک کرتا ہے اور ان کے اختلافات و افتراقات کو اشتراکات میں تبدیل کرتا ہے اور اسی بنا پر الیگزینڈر سولزے نتسن نے مذہب کے بجائے انسان کے مستقبل کو ادب کے ساتھ مشروط کیا تھا۔
اورحان پامک نے اس موضوع کے بیان کے لیے قدیم دور کا انتخاب کیا ہے۔ انھوں نے خلافتِ عثمانیہ کے آخری سلطان کے دور کو منتخب کیا ہے جس میں قدیم زندگی کے زوال کے تمام اسباب اور تمام نشانات واضح ہو چکے ہیں۔ یہ قدیم دور اپنی اختتامی منزل میں ہے جہاں بادشاہ قرونِ اولیٰ کے بادشاہوں کی طرح سائنس اور علم کی ترقی کے بجائے شیر، چیتے اور جانور پالنے کا شوقین ہے، نجومیوں اور خوشامدیوں کا اسیر ہے اور جس کی نہ کوئی منزل ہے اور نہ کسی منزل کے حصول کی تمنا اور وسائل۔ وہ طفل تسلیوں سے بہل سکتا ہے۔ عوام تقدیرپرستی کا شکار ہیں اور فطرت پر مافوق الفطرت کو ترجیح دیتے ہیں۔ طاعون کا علاج کرنے کے بجائے اسے نوشتہ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور ان خیرخواہوں کو دشمن گردانتے ہیں جو اس عذاب سے ان کی نجات کے خواہاں ہیں۔ علم کے بجائے فرشتوں اور جنوں کی حکایات کو اہم سمجھتے ہیں اور توہمات کا شکار ہیں۔ ایک یورپی باشندہ نئے تصورات و نظریات لاتا ہے تو وہ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ یہ ناول تاریخی کہانی پر مشتمل نہیں ہے اور نہ ہی اس کے وقوع کی بنیاد تاریخ پر ہے۔ یہ محض تاریخی دور کی فضا کی بازیافت ہے۔ یہی فضا ناول کے بیانیے کو آگے بڑھاتی ہے۔ ناول نگار کو نہ تو تاریخ سے سروکار ہے اور نہ ہی عہد قدیم کے اندازِ حکومت اور اندازِ زیست سے کوئی مناسبت۔ اس کا مقصود ایک خاص فضا کی تشکیل ہے جس میں وہ اپنا مدعا پیش کر سکے۔ اس نیم تاریخی، نیم اساطیری ماحول سے ناول نگار نے حقیقت نگاری کا وہ اسلوب اختیار کیا ہے جسے ’’سرّی حقیقت نگاری(Magical Realism)‘‘ کہا جاتا ہے۔ ناول نگار کا مقصود نہ تاریخ بیان کرنا ہے، نہ تاریخی ماحول کی تخلیق کرنا ہے، نہ ماضی کی بازیافت ہے اور نہ ہی کوئی اساطیری فضا قائم کرنا ہے بلکہ وہ اس کے ذریعے اپنے عہد کے سب سے اہم سوال سے نبردآزما ہے کہ انسان کون ہے؟ کیا ہے؟ اور کیسے ہے؟ یہ سوال موجودہ عالمی صارفیت کے دور میں کہ جب انسان کو اپنے شرف سے محروم کر کے محض شے میں تبدیل کیا جا رہا ہے، بنیادی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔ اس دور میں انسان کا سب سے اہم مسئلہ اپنی گم شدہ معنویت کی تلاش ہے۔
ناول اپنی رفتار میں ویسا ہی آہستہ رو ہے جیسا ناول نگاری کی فکری گہرائی، موضوع کی سنجیدگی اور زندگی کا تقاضا ہے۔ ناول نگار کا نظرےۂ فن بھی یہی ہے کہ ناول نگار اپنی زندگی کو، دوسرے انسانوں کی کہانی کی طرح آہستہ آہستہ صبر، ضد، اُمید اور سرخوشی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہ آہستہ روی بوریت پیدا نہیں کرتی بلکہ زیادہ دل چسپ اور زیادہ دِل رُبا ہے۔ یہ گویا زندگی کو قطرہ قطرہ پینے، لمحہ لمحہ محسوس کرنے اور سمجھنے کے مترادف ہے۔
ناول نگار نے ہر قسم کے بیرونی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے نہایت انہماک سے واقعات کو ترتیب دیا ہے۔ چھیاسٹھ صفحات تک اس نے محض اپنے مدّعا تک کے لیے واقعات ترتیب دینے میں محنت و کاوش سے کام لیا ہے۔ اس نے موضوع کے بیان میں کسی قسم کی جلدبازی سے کام نہیں لیا بلکہ بے حد اطمینان کے ساتھ، ایک لحاظ سے اپنے مدعا کو فراموش کرتے ہوئے کہانی بُننے پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے بنیادی مسئلے سے کسی لمحے بھی غافل نہیں ہوئے۔ کئی مقامات پر بیان کنندہ کی شمولیت نے ناول میں زندگی کی لہر پیدا کی ہے اور قاری کو یوں محسوس ہوا جیسے یہ واقعات کی امکانی ترتیب نہیں ہے بلکہ تاریخ کے کسی دورانیے میں یہ واقعات فی الاصل رونما ہوئے ہیں۔
اس ناول کو محمد عمر میمن نے ترجمہ کیا ہے۔ کسی ترجمے کی تعریف کے لیے یہ ایک جملہ کافی ہے۔ کیوں غیرملکی ادب کے تراجم پڑھنے والے قاری تک ترجمے کے تمام کمالات اس ایک جملے سے منتقل ہو جاتے ہیں۔ محمد عمر میمن اردو میں تخلیقی تراجم کے حوالے سے مستحکم شناخت رکھتے ہیں۔ ان کے تراجم کی سب سے اہم خوبی اس فضا کی ازسرنو تخلیق ہے جو مصنف کا منشا ہوتی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ناول کو بارِ دگر تخلیق کرتے ہیں۔ انھوں نے اس ناول کو بھی انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔ اس ترجمے کا اصل سے تو موازنہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ہو ہی نہیں سکتا لیکن انگریزی ترجمے سے یقیناً بہتر ہے۔
اس کی وجہ اردو اور ترکی کے لسانی و ثقافتی روابط ہیں جن کی وجہ سے ترکی زبان کے کسی فن پارے کا جن زبانوں میں بہترین ترجمہ ممکن ہے، ان میں ایک زبان یقیناًاردو بھی ہے۔ اس ناول کے ترجمے کی بنیادی خوبی بھی اس فضا کی بازیافت ہے جو مصنف کہانی بیان کرتے ہوئے قائم کرتا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ترکی زبان میں اس ناول کو پڑھنے والا قاری کس درجہ تخلیقی مسرت سے ہم کنار ہوا لیکن یہ ضرور بتایا جا سکتا ہے کہ اردو ترجمہ پڑھتے ہوئے مسلسل یہ احساس غالب رہا ہے کہ ترجمہ نگار نے ناول کی تخلیقی فضا کو نہایت خوبی سے اپنی گرفت میں لیا ہے۔ درج بالا تمام معروضات اسی اردو ترجمہ سے اخذ کی گئی ہیں۔
اس ترجمے کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بار وہ رائے یاد آتی ہے کہ ترکی میں اس سے بھی زیادہ تخلیقی ناول نگاروں کا کام مل جاتا ہے۔ یہ رائے شوق کو بھڑکانے والی ہے کہ دوسرے عظیم ترک ناول نگاروں کے ناولوں اور خود اورحان پامک کے دیگر ناولوں کے اردو تراجم، اردو قاری کے لیے کس قدر مسرت افزا ہو سکتے ہیں۔ کاش ایسا ہو کہ کوئی اردودان ترک، ان کے براہِ راست ترکی زبان سے اردو میں تراجم کی طرف متوجہ ہوں، خاص طور پر خلیل طوق اَر اگر یہ کام کریں تو کتنا ہی اچھا ہو کہ وہ ترکی زبان کے ساتھ اردو زبان پر بھی کافی مہارت رکھتے ہیں اور تخلیقی عمل سے بھی آشنا ہیں۔ یہ مضمون جہاں اورحان پامک کے ناول ’’سفید قلعہ‘‘ کو سمجھنے کی ایک کاوش ہے، وہاں اس مضمون کے ذریعے ترجمہ نگاروں سے اس درخواست کا ذریعہ بھی ہے کہ ترکی کے افسانوی ادب سے مزید تراجم میرے جیسے بے شمار قارئین ممنونِ احسان کر سکتے ہیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.