سفرِ حج کی سنہری یادیں
انعم حمید
ذوالحج سے چار ماہ قبل حج درخواستیں جمع ہونے کی تاریخ کا اعلان ہوا تو میرے والدین بھی بے تابی سے حج درخواستیں جمع کروانے کا انتظار کرنے لگے۔ میرا تو یہی خیال تھا کہ اگر عمرے کی سعادت بھی نصیب ہو جائے تو بڑی بات ہے۔۔ حج کا تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ قسمت کبھی یوں بھی مہربان ہوسکتی ہے البتہ اپنے لاشعور میں دبی ہوئی یہ خواہش کبھی نہ کبھی دعاؤں کی صورت میں ضرور ظاہر ہوتی تھی۔
جس دن قرعہ اندازی کا اعلان ہونا تھا اس دن بالکل امید نہیں تھی کہ قرعہ فال ہمارے نام بھی نکلے گا اورہمارے قدم بھی اس مقدس سفر سے آشنا ہوں گے۔
حج کا پورا سفر ایک سہانا خواب لگتا ہے۔ اللہ نے ہمیں چالیس دن سے زیادہ اپنے گھر کا مہمان بنایا۔ ہمارا سب سے پہلا قیام مدینہ شریف میں تھا۔ سفر مدینہ کے لئیے جب جہاز پر سوار ہوئے تو یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم اس وقت زندگی کے خوشگوار ترین سفر پر گامزن ہیں۔ مدینہ ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد ہوٹل جانے کے لئیے جب بس پر سوار ہوئے تو تھکن سے چور بدن نیند کے مارے بس میں ہی ہچکولے کھانے لگا۔
اسی دوران اچانک میرے والد جو کہ پچھلی سیٹ پر والدہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، انہوں نے اچانک میرے کندھے کو زورسے ہلایا۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی بڑی بہن نے بھی اسی طرح مجھے ہلا کر اٹھایا، جیسے ہی بیدار ہوئی سامنے مسجد نبوی کے سبز گنبد کی صورت میں ایک روح پرور نظارہ میری آنکھوں کا منتظر تھا۔۔۔ساتھ ہی آنسو بھی شاید اسی انتظار میں قطار بنائے کھڑے تھے کہ ایک جھڑی کی صورت میں جاری ہوگئے کیونکہ آج سے پہلے یہ نظارہ صرف ٹی وی سکرین پر ہی دیکھا تھا۔
خوش نصیبی سے جس ہوٹل میں قیام کا موقع ملا وہ مسجد نبوی سے دو منٹ کی دوری پرتھا۔۔۔مسجد نبوی سے آنے والی اذان کی دلکش صدا جوں ہی کانوں کے پردےسے ٹکراتی۔۔۔میرے قدم بے ساختہ مسجد نبوی کی طرف اٹھنے لگتے۔گنبد خضریٰ کا دیدار بے چین دل کے لیے قرار کا ذریعہ بن گیا۔معطر فضاؤں میں لب پر درود وسلام ہوتا یا دعائیں۔۔۔دل کویہاں ایسا سکون ملا جیسے دنیا کی ہرنعمت مل گئی ہو۔۔۔ بے قرار دل میں ایک ٹھہراؤ سا آگیا۔
ریاض الجنۃ
ریاض الجنۃ میں دو نوافل پڑھنے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے، لیکن خواتین کے لیے یہاں داخل ہونے اور نوافل ادا کرنے کے مخصوص اوقات ہیں جسکے لیے انہیں فجر، ظہر اور عشاء کی نماز کے بعد تقریبا آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑتا ہے اور گروپ کی شکل میں انہیں ریاض الجنۃ لے جایا جاتا ہے۔ لیکن اس مقصد کے لیے صدیوں کا انتظار بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔
آبِ زم زم
مسجد النبوی میں جگہ جگہ آب زم زم کے کولر اور نلکے لگے ہوئے ہیں۔ جہاں ہر وقت ٹھنڈا اور گرم آب زم زم موجود ہوتا ہے۔ انسان جتنا بھی تھکا ہوا ہو، جسم جتنا بے جان ہو، آب زم زم پیتے ہی جسم میں جیسے اچانک ہی طاقت سی آجاتی ہے۔
مکہ روانگی
مدینہ میں آٹھ دن قیام کے بعد مکہ روانگی کا وقت آگیا۔ پیارے نبی کے شہر سے رخصت لینا بہت دشوار تھا۔ راستے میں مختلف جگہوں پر قیام اور تقریبا نو گھنٹے کی مسافت کے بعد بالآخر میقات پر قیام کر کے دو نوافل پڑھ کر احرام کی نیت کی۔ مکہ پہنچتے ہی ہوٹل میں سامان رکھ کر عمرہ کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوگئے۔ حرم جاتے ہوئے ہر فرد کی زبان پر لبیک اللہم لبیک کی صدائیں تھیں۔
کعبہ پر پہلی نظر
نگاہیں نیچی، زبان پر لبیک کی صدائیں، قدم بے خود کعبہ کی طرف بڑھ رہے تھے مگرجسم پر کپکپی طاری تھی۔ دل میں خوف کی لہر تھی کہ گناہوں سے بھرا ہوا دامن کس طرح پروردگارکے سامنے پھیلائیں گے۔انہی سوچوں میں گم تھی۔ اچانک نظر اٹھی اور سامنے کعبہ شریف تھا۔الفاظ حلق میں اٹک گئے۔ اس پاک زمین کا حصہ بننے کے لیے آنسوؤں نے ایک بار پھر آنکھوں سے بغاوت کردی
کعبہ شریف میں ایسی کشش ہے کہ جی چاہتا ہے کہ انسان کعبہ کو دیکھتا چلا جائے۔گڑگڑا کر رب کے حضور دعائیں کرنے کے بعد طواف کی نیت کی اور بسم اللہ اللہ اکبر و للہ الحمدکہتے ہوئے طواف شروع کیا۔ مطاف میں چوبیس گھنٹے طواف جاری رہتا ہے۔ ہر قوم، نسل اور رنگ کے لوگ جگہ جگہ گروہوں کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔ طواف کے بعد صحن حرم میں ہی واجب طواف کے نوافل ادا کئیے اور زم زم پینے کے بعدصفا مروا کی طرف سعی کے لیے چلے گئے جو کہ کعبہ کے بالکل سامنے ہے۔ سعی کے دوران آنکھوں کے سامنے حضرت حاجرہ کا قصہ گھوم رہا تھا کہ کس طرح آپ نے پانی کی تلاش میں صفا ومرویٰ کے پھیرے لگائے ہونگے۔ سعی مکمل ہونے کے بعد آخری رکن حلق یا قصر یعنی بال کٹوانا یا منڈوانا تھا، یہ کرتے ہی عمرہ مکمل ہو گیا۔
7 ذوالحج: منٰی روانگی
ہجوم اتنا تھا کہ 7 ذالحج کو ہی قافلوں کی منیٰ روانگی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔آدھے گھنٹے کا سفر تین چار گھنٹے میں طے ہوا۔ منی میں جہاں دیکھتے، ہر طرف ایک سے خیمے موجود تھے جن پر مختلف نمبرز دئیے گئے تھے ۔ 7،8 ذالحج منی میں قیام کے بعد عرفات کے لیے روانگی تھی۔
9 ذالحج، یوم العرفہ
میدان عرفات کی رونقیں الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں۔ قدم قدم پر خیمے لگے تھے۔۔۔دنیا کی کون سی نعمت ہے کہ یہاں موجود نہ تھی۔۔۔کنٹینرز کے کنٹینرز اشیائے خوردونوش سے بھرے تھے اور لوگوں میں کھانا تقسیم کیا جارہا تھا۔ اس دن قبلہ رخ ہو کر خوب دعائیں کیں۔ اسے وقوف عرفات کہتے ہیں۔ یہی اس دن کی اصل عبادت ہوتی ہے۔
مزدلفہ میں قیام
مزدلفہ میں رات سو کر گزارنا مسنون ہے۔ مزدلفہ میں ایک رات کھلے آسمان تلے اور پتھروں کے اوپر صرف ایک چٹائی ڈال کر گزاری۔ یہاں سے ہی شیطان کو مارنے کے لیے کنکریاں بھی اکٹھی کیں۔
رمی جمرہ
مذدلفہ میں ایک رات قیام کے بعد رمی جمرہ یعنی شیطان کو کنکریاں مارنے کے لیے جانا تھا جسکے لیے بہت لمبا سفر پیدل طے کرنا تھا۔ شدت کی دھوپ تھی، بھوک بھی زوروں پر تھی اور تھکاوٹ سے برا حال تھا۔ تقریبا دو گھنٹے پیدل چلنے کے بعد بالآخر جمرہ تک پہنچے تو حالت غیر ہوگئی اور بےہوشی طاری ہونے لگی۔والدہ نے آب زم زم پلایا تو جسم میں چلنے کی طاقت آئی اور میں اپنا یہ رکن پورا کر پائی۔
اب واپسی پر دوبارہ اپنے خیمے میں لوٹنا تھا۔ لیکن خیمہ تھا جو ملنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔تقریبا ایک گھنٹے کی دشواری اور راستے میں کھڑے پاکستانی معاونین کی مدد کے بعد ہم اپنا خیمہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئے۔ منی، مزدلفہ اور عرفات میں قیام اور حج کے تمام اراکین پورے کرنے کے بعد مکہ روانگی کا وقت تھا۔
طوافِ وداع
حج کے پورے سفر کے دوران یہ مرحلہ سب سے زیادہ کٹھن تھا کیونکہ یہ وقت کعبہ سے بچھڑنے کا تھا۔ جدائی کے خیال سے طواف کے دوران آنکھوں میں آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہ لیتے تھے۔ پاکستان آئے ہوئے کئی ہفتے ہوگئے مگر دل ہے کہ وہیں کہیں رہ گیا۔