زعفرانی ہندوستان اور اسد الدین اویسی کا بیانیہ
از، حسین جاوید افروز
مئی 2014 میں لوک سبھا کے سولہویں انتخابات میں بھارتی جنتا پارٹی، نریندرا مودی کی قیادت میں بھاری اکثریت سے الیکشن جیت گئی۔ مودی کی جیت کی اس جیت کے پیچھے انڈین کارپوریٹ سیکٹر اور بنیاد پرست ہندوستانی سیاسی عناصر بھی خاصے سرگرم رہے۔ کیونکہ اس سے قبل نریندرا مودی تین بار گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا چکے تھے اورجس طرح سے انہوں نے گجرات کو سرمایہ کاری کا مرکز بنا کر پیش کیا اس سے ان کے سیاسی قد کاٹھ میں بھی بیحد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جبکہ ایک شعلہ بیان مقرر کے طور پروہ پہلے ہی میں بھارتی جنتا پارٹی کے لیے ٹرمپ کارڈثابت ہورہے تھے۔
جہاں ایک طرف مودی نے بی جے پی کے سیاسی قلعہ میں نیا جذبہ پیدا کردیا تھا وہاں مودی کی دلی فتح کرنے کی مہم کے پیچھے کانگرس اتحاد یو پی اے کی بدترین اور کرپشن سے لھٹری ہوئی گورننس بھی ایسا عنصر ثابت ہوا جس کی بدولت بھارتی عوام نے ایک چائے والے کو اقتدار کی مسند تک پہنچا دیا۔ اچھے دنوں کی آمد کا دلفریب نعرہ دینے والے مودی سے اب یہی توقع کی جارہی تھی۔ کہ وہ گجرات ماڈل جیسی لامثال ترقی کو بنیاد بناتے ہوئے ہندوستان کو تیر رفتار ترقی کے راستے پر گامزن کریں گے تاکہ غریب عوام کے اچھے دن بھی حقیقت کا روپ دھار سکیں۔
لیکن گزشتہ چار سالوں میں ہم نے دیکھا کہ کیسے آن کی آن ہندوستان جیسا سیکولر ملک کیسے ایک ہندو راشٹر میں ڈھلنے لگا اور جے ہند سے زیادہ ہر ہر مہا دیو کے نعرے نے ہندوستانی سماج کو زعفرانی رنگ میں کشید کرنا شروع کردیا۔ ہندوستان میں زعفرانی نظریات کی آمیزش نے گویا بھارتی سماج کے تارپور کوبکھیر کر رکھ دیا۔ اگرچہ مودی نے میک ان انڈیا، صفائی بیداری کی مہم چلانے میں بھی خاصے جوش خروش سے کام کیا۔ مگر جو عمومی تصویر سامنے آئی وہ یہی تھی کہ جیسے بی جے پی، راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کے ہندوتوا ایجنڈے کو شدت سے نافذ کرنے پر کمر بستہ ہوچکی ہے۔
اگر تاریخ سے آگاہی حاصل کی جائے تو یہ وینائک دامودر ساورکر جیسا ہندو انتہاپسند رہنماء ہی تھا جس نے ہندو قومیت کی بنیاد رکھی۔ اور سب سے پہلے ہندو کون ہے؟ کے عنوان سے کتابچہ تحریر کیا جس میں ہندو قومیت و کلچر کے خدوخال اور جذبے کو پوری طاقت سے بیان کیا گیا۔ نیز یہ بھی لکھا گیا کہ ہندوستانی مسلمان اگرہندو بن کر ہندوستان میں رہیں گے تو ہی وہ یہاں رہ سکیں گے۔ اس مہاسبھائی سوچ نے جہاں ہندوؤں میں انتہاپسندی کو فروغ دیا وہاں اس وسیع ملک میں رہنے والی دوسری قومیتوں میں بھی شدید عدم تحفظ کو جنم دیا۔ یہاں اس فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ راشٹریہ سیوک سنگھ ہمیشہ سے ہی ہندو کلچر کو بڑھاوا دینے اور اس کے نفاذ کے لیے کوشاں رہی جبکہ سنگھ پریوار کا دوسرا ونگ وشوا ہندو پریشد ہندوستان کو سیاسی حوالے سے ایک ہندو ریاست بنانے کے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے جدوجہد کرتا رہا ہے۔
یہاں یہ ذکر د لچسپی سے خالی نہیں کہ ہندوستان کے قائد موہن داس کرم چند گاندھی بھی 30 جنوری 48 کو ایک ہندو انتہا پسند نتھو رام گوڈسے نے ہی موت کے گھات اتر کر ہندو انتہاپسندی کا شکار بنے۔ لیکن مودی دور میں ہونے والی انتہاپسندی پر چرچا کرنے سے پہلے یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں پر ابتلاء و آزمائش صرف بھارتی جنتا پارٹی کے دور میں ہی نہیں آئی بلکہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے دور میں بھی مسلمانوں کامعاشی مقاطعہ کیا گیا۔ جیسے :علی گڑھ میں تالے کی صنعت، فیروز آباد میں چوڑیوں کی صنعت تباہ، میرٹھ میں قینچیوں چھریوں کی صنعت اورمراد آباد میں برتنوں کی صنعت کو بھی خاطر خواہ نقصان پہنچایا گیا اور یوں ہزاروں مسلمان بے روزگار ہوگئے۔
لیکن پنڈت نہرو نے ہمیشہ ہندوستان میں سیکولر اپروچ کو ہی بڑھاوا دیا۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ اگر بھارت کو سیکولر بنانا ہے تو اقلیتیوں کو انصاف دو۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سماجی تنوع سے مالا مال اس وسیع عریض ملک کی بقاء کے لیے سیکولر سٹم ہی سازگار رہے گا۔ نہرو جی کی ا سی اپروچ پر ان کی کابینہ کے وزیر شیاما پرساد مکر جی نے بھی استیغفیٰ دیا کیونکہ وہ نہرو کی مسلم نوازی سے بہت نالاں تھے۔ پنڈت نہرو کے بعد بھی 1969کے احمدآباد بلوے، آسام میں 1983 کے نیلی کے مقام پر فسادات اور 1989 کے بھاگل پور تصادم نے بھی مزید کشیدگی کو جنم دیا۔ لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کو سب سے بڑا جھٹکا ہندو انتہا پسندی کے ہاتھوں اس وقت لگا جب دسمبر 92 تاریخی بابری مسجد, رام مندر کی تعمیر کے لیے نکالی گئی رتھ یاترا کے نتیجے میں شہید کر دی گئی۔
اس دلدوز سانحے نے ہندی مسلمان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ یہ وہ دور تھا جہاں ایک طرف مسلمانوں میں کو کھلے عام کہا جاتا کہ یہاں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہو ورنہ پاکستان چلے جاؤ۔ بابری مسجد سا نحہ ہندوستانی معاشرے میں نفرت کے انمٹ گھاؤ چھوڑ گیا ہے جس سے ہندوبھگوا دہشت گردی کا عنصر تیزی سے ابھر کرسامنے آیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سانحہ کے ردعمل کے طور پر فوراٰ بعد مارچ 93 میں بمبئی میں خوفناک دھماکوں سے ڈھائی سو افراد جان سے گئے۔ جبکہ ہندومسلم فسادات کی بدترین شکل ہمیں 2002 میں بھارتی ریاست گجرات میں دیکھنے کو ملی جہاں ایک ریل پر حملے کے واقعے کو بنیاد بنا کر انتہاپسند ہندؤوں نے وجے واڑہ سے راجکوٹ، گاندھی نگر سے سورت اور احمد آباد تک مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ جس کے نتیجے میں ڈھائی ہزار سے زائد افراد بے رحمی سے شہید کیے گئے۔
یہاں تک کہ بنیاد پرست ہندوؤں نے بچوں تک کو تربیت دی کہ کیسے مسلمانوں کو قتل، ریپ اور زندہ جلانا ہے؟ گجرات کی کاروباری فضا کو مسلم نسل کشی کا مرکز بنانے میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندرا مودی کا بہت گہرا کردار رہا ہے۔ ایک بار جب ان سے ایک شو کے دوران پوچھا گیا کہ آپ کو مسلمانوں کی موت پر افسوس ہوا؟ تو مودی نے تمکنت بھرے لہجے میں کہا اگر آپ کی گاڑی کے نیچے کتا بھی کچلا جائے تو افسوس تو ہوتا ہی ہے؟ جبکہ بعد ازاں اس واقعے کے بارہ برس بعد مودی بھارت کے وزیر اعظم بن کر ابھرے تو گزرے چار برسوں میں مسلمانوں پر آلام و مصائب کے بادل ایک بارپھر چھا گئے۔
مودی دور میں ملک بھر میں کمیونل تشدد میں 17 فیصد اضافہ رہا۔ سنگھ پریوارمکمل آزادی سے اپنے ایجنڈے پر گامزن ہے چاہے لو جہاد کے نام پر مسلم نوجوانوں کو ہراساں کرنا ہو یا غریب مسلمانوں کو جبر کے تحت گھر واپسی کے نام پر ہندو بنانا ہو یا گائے ماتا کے تحفظ کے نام پر دادری میں غریب اخلاق کا قتل ہو۔ یہاں تک کہ مہاراشٹر میں گوشت کی تجارت پر پابندی عائد کی گئی جس سے مسلم قصاب بڑی تعداد میں بے روزگار ہوئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مودی جی نے ان بے کس اور بے قصور مسلمانوں کے قتل پر مذمت تک نہیں کی۔ یہاں ہمارے سامنے اترپردیش کی مثال آتی ہے جہاں اس وقت آدیتہ یوگی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہے۔ یاد رہے الیکشن میں بی جے پی نے کسی مسلمان کو پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اب ریاست میں بسے تین کروڑ پچیس لاکھ مسلمان اپنے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ اس بنیاد پرست ہندو لہر نے تاج محل جیسے شاہکار کو بھی نہیں بخشا۔ اور اسے غداروں کی تعمیر قرار دیا۔ اس کے ساتھ سنگھ پریوار کے ونگ دھرم جاگرن سمیتی نے کھلا اعلان کیا ہے کہ تمام عیسائیوں اور مسلمانوں کو جبراٰ ہندو بنا کر2021 تک ہندو ریاست کے خواب کو تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ جبکہ ڈاکٹر سبرا منیم سوامی کے مطابق مساجد مقدس نہیں ہوتی لہذا ان کو گرایا جاسکتا ہے اوربھگوت گیتا کو لازمی تعلیم کا درجہ ملنا چاہیے۔ ایسے اقدامات سے مسلمانوں کو مزید معتوب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
حال ہی میں بھارت کے نائب صدرحامد انصاری بھی اپنے خدشات کا واشگاف اظہار کیاکہ اب بہت ضروری ہے کہ ہندوستانی مسلم کے حقوق کی نگہبانی کی جائے اور ان کو نوکریوں اورتعلیمی اداروں میں کوٹہ دیا جائے۔ ہم کہاں جا رہے ہیں کہ اپنے ہی شہریوں سے ان کی ہندوستانیت کا سوال کیا جارہا ہے۔ یقیناٰسیکولرازم کی تجدید اب ایک چیلنج بن چکا ہے اورمسلمان غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔ سماج میں بڑھتی اسی فرقہ ورانہ منافرت کے سبب اب تک پچاس سے زائد رائٹرز فلم میکرز نے بھی اپنے ایوارڈز سرکار کو بطور احتجاج واپس لوٹادئیے ہیں۔ ہندی مسلمانوں کی پسماندگی کی وجوہات جانچنے کے لیے 2006 میں راجندر سچر رپورٹ ہمارے سامنے تلخ حقائق کو واضح کرتی ہے۔
اس کے مطا بق 17کروڑ آبادی میں ۱۱کروڑ مسلمان غربت کی سطع سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ بھارت کے دیو ہیکل انتظامی ڈھانچے میں محض 5 فیصد اہلکار ہی مسلم ہیں جن میں ریلوے میں چار فیصد، نوکر شاہی میں 3 فیصد، وزارت خارجہ میں 2 فیصدپولیس میں 4 فیصد، عدلیہ میں 7 فیصدہیں۔ جبکہ مسلم شرح خواندگی محض60 فیصد ہے جن میں50 فیصد خواتین ہی خواندہ ہیں۔ تاہم جنوبی ہند میں مسلم تناسب کچھ بہتر ہے جہاں آندھرا میں 68 فیصد اور کیرالا اور تامل ناڈو میں 90 فیصد مسلم خواندگی ہے۔ راجندر سچر رپورٹ کے علاوہ رحمن کمیٹی، مشرا کمیٹی رپور ٹ اورکندو رپورٹس بھی مسلم زبوں حالی کے متعلق حقائق بیان کرتی ہیں۔ دوسری جانب ہندو انتہاپسند لیڈر جیسے ساکشی مہاراج اور موہن بھگوت رقمطراز ہیں کہ ہم ایک ہندو راشٹر بنا کر رہیں گے اور مسلم مدارس ہی دہشگردی کو پروان چڑھاتے ہیں۔ جبکہ نامور محقق سوامی سبرامنیم کے مطابق مسلمانوں کو پسماندہ ہونے کے سبب کوٹہ کیوں دیا جائے جنہوں نے ایک وقت میں ملک پر راج کیا وہ کسی کوٹے کے مستحق نہیں۔ ہر ہندی مسلمان کا ڈی این اے ہندو ہے۔
اس شدید متنفر فضا میں مشہور اداکار پرکاش راج بھی پیچھے نہیں رہے جو اب مودی حکومت کے اقدامات کو آڑے ہاتھ لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے بقول ہمارے ملک کا ڈرائیور درست نہیں ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی کسی جماعت کا نام نہیں کیونکہ یہ کسی اورکے نظریے پر چلتی ہے۔ جبکہ معروف ہندوستانی مورخ عرفان حبیب کے مطابق راشٹریہ سیوک سنگھ اور گوالکر نے ہماریخ کو من گھڑت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ہندوستان میں نازیوں کی سی اپروچ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ جب یہ کہتے ہیں کہ پلاسٹک سرجری اور جہاز اڑانے کا تصور سب سے پہلے قدیم بھارت میں متعارف کرایا گیا تھا تو ایسی باتوں سے ہندوستان بیرونی دنیا میں بدنام ہوتا ہے۔
انہوں نے ہر چیز کو مقدس قرار دینے کا فتویٰ لے رکھا ہے۔ اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں وہ یہ بتانے سے گریزاں ہیں۔ یہ موہنجو ڈارو اور ہڑپا کے خلاف ہیں مگر ذات پات کا زہر بھی انہوں نے ہی دیا۔ یہ ہمیشہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ برہمن ہی اچھے محب الوطن شہری ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں کوئی دلیل دینے سے عاری ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ راشٹریہ سیوک سنگھ کا کوئی ہیرو نہیں ہے۔ یہ سبھاش چندربوس اور بھگت سنگھ کے گرویدہ ہیں مگر وہ ان کے نظریات سے مطابقت ہی نہیں رکھتے تھے۔ یہ برٹش راج کے ساتھ مسلم دور حکومت کو بھی بیرونی حملہ آوروں کا دور کہتے ہیں۔ اسی لیے دلی کی اورنگزیب روڈ کا نام بدل کر سمجھتے ہیں کہ بڑا تیر مار لیا۔ ایسے عناصر ہر چیز میں فرقہ ورانہ انارکی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
جبکہ حال ہی میں علی گڑھ یونیورسٹی میں قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر پر جو ہنگامہ ملک بھر میں برپا ہے وہ ہندو انتہا پسندی کا تازہ ترین ثبوت ہے۔ یاد رہے یہ قائد اعظم ہی تھے جن کی بدولت بال گنگا دھر تلک جیسے متعصب ہندو لیڈر کو انڈمان کی قید سے چھٹکارہ نصیب ہوا۔ 1938 میں محمد علی جناح کی خدمات کے اعتراف میں ان کو علی گڑھ کے طلبا نے اپنی یونین کی تاحیات رکنیت عطا کی تھی۔
نامور بھارتی صحافی کرن تھاپر کے مطابق ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلائے جانے والے جناح پر تنقید بلاجواز ہے۔ جہاں ہم نے ہندی مسلمان کی پسماندگی اور ہندو بنیاد پرستی سیر حاصل گفتگو کی وہاں اب ہم ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کے دعویدار اسد الدین اویسی کا بیانیہ بھی اس بحث میں شامل کرتے ہیں جو کہ اپنے دو ٹوک موقف کی بدولت ہندی مسلمانوں میں تیزی سے مقبول ہورہے ہیں۔ حیدر دکن سے تعلق رکھنے والے اویسی ایک سیاسی جماعت آل انڈیا اتحاد المسلمین کے سربراہ بھی ہیں اور ہندوستانی دستور کے اندر رہتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق پر دبنگ انداز میں بات کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں نیو یارک ٹائمز کی جانب سے ہندوستان کا نیا جناح بھی قرار دیا گیا ہے۔
اویسی کے مطابق سچر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں الگ کوٹہ ہر قیمت پر ملنا چاہیے۔ آج مسلمانوں کو بات بات پر پاکستانی کہہ کر کیوں پکارا جاتا ہے؟ کیوں ہماری وفاداری کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؟ گائے کے تحفظ کے نام پر پندرہ لاکھ مسلم قصاب بے روزگار ہوچکے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ حالت یہ ہے کہ کہ گجرات میں مسلمان کے لیے اپنا گھر فروخت کرنے کے لیے بھی سرکار کو بتانا پڑتا ہے۔ مسلمانوں کو سیاسی طور پر اپنے حقوق کی حفاظت خود کرنا ہوگی۔ گجرات فسادات میں مسلم متاثرین کو کیا انصاف ملا؟ مودی سمیت سنگھ پریوار کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ہندو نیشنلزم کے بجائے انڈین قومیت کو پروان چڑھایا جائے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ ہندو کلچر کی آبیاری کرتا ہے میں پوچھتا ہوں کہ بھارتی دستور کہاں کھڑا ہے؟ میں مسلم لیڈر بننے کا مشتاق نہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی نہیں ہے اس وقت ہندوستان میں سیاسی اور معاشرتی پولرائزیشن بری طرح پھیل چکی ہے۔ حالت یہ ہے کہ مسلم نمائندگی لوک سبھا میں محض 4 فیصد رہ گئی ہے۔ ہماری ہندوستانی جمہوریت اکثریتی اثرات کا شکار ہے۔ مودی مسلم برابری کے خلاف ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی ملک گیر جماعت نہیں محض ہندوؤں کی جماعت ہے جس میں کسی مسلم کو ٹکٹ نہیں دیا جاتا۔ ہم مسلم کوٹہ کا مطالبہ پسماندگی کی بنیاد پر کرتے ہیں نہ کہ مذہب پر۔ سیکولر لیڈران اور کانگرسی رہنماؤں نے ہمیشہ مسلم ووٹ بینک استعمال کیا۔ مسلم قیادت نہ ابھری نہ ہی اسے ہندوستان میں ابھرنے دیا گیا۔ جو لوگ ملک میں خوف کا ماحول بنا کر سوشل فیبرک تباہ کرتے ہیں ہم ان کا مقابلہ لڑیں گے۔
اسد الدین اویسی اپنے محدود پلیٹ فارم سے ہندی مسلمانوں کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ ایک نئے جناح ثابت ہوں گے یا نہیں یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا بیانیہ مسلمانوں میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ اور وقت آگیا ہے کہ اب مسلمان اپنے ووٹ بینک کی اہمیت سمجھتے ہوئے خود اپنے سیاسی لڑائی لڑیں اور مسلم حقوق کے تحفظ کے نام پر چلنے والی سیاسی دکانوں سے مُنھ موڑ لیں جو ان کو سوائے مایوسی اور آہ و بکاہ کے سوا کچھ نہیں دے سکیں۔ کیونکہ اب ہندوستان ایک اور بابری مسجد کے انہدام یا گجرات جیسے خون آشام اور مسلم کش دنگوں کا متعمل نہیں ہوسکے گا۔