زعفرانی بھارت کا ظہور
از، حسین جاوید افروز
ہمیں پسند ہو یا نہ ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ نریندر مودی ایک بار پھر وزارت اعظمیٰ کی مسند پر مسلسل دوسری بار براجمان ہونے میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوچکے ہیں۔ سترویں لوک سبھا کے حالیہ چناؤ میں یہ کھل کر ثابت ہو چکا ہے کہ مودی برانڈ بھارت کے طول و عرض میں خوب بک رہا ہے اور ہندوستانی جنتا فی الوقت کسی اور کو مودی جی کے مقابلے میں ہرگز موقع دینے کو تیار نہیں ہے۔
لوک سبھا کے ان سترویں انتخابات کے بعد کئی دل چسپ پہلو سامنے آئے جن پر آج ہم گفتگو کریں گے۔ علم سیاسیات سے شغف رکھنے والے طالب علم خوب جانتے ہیں کہ بھارت میں الیکشن لوک سبھا کی 543 نشستوں کے گرد گھومتا ہے اور جو پارٹی 272 کا جادوئی فگر چھو لے اس کے لیے دلی کا تخت حاصل کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔
اس بار جب چناؤ کے نتائج سامنے آئے تو مجموعی طور پر بھارتی جنتا پارٹی نے 303 جب کہ این ڈی اے353 سیٹیں بٹورنے میں کامیابی حاصل کی ۔جس کا مطلب یہ تھا کہ رفائل طیارہ ڈیل ،کسانوں کی مشکلات ،نوٹ بندی ،جی ایس ٹی اور بے روز گاری جیسے گھمبیر ایشوز کے باوجود عوام نے مودی کو اگلے پانچ برس کے لیے ایک بار پھر کھل کر کھیلنے کا موقع دیا ہے۔
جب کہ اس کے برعکس تمام تر دعوؤں کے با وجو د راہول گاندھی کی سربراہی میں انڈین نیشنل کانگرس محض 52 نشستیں ہی لے سکی اور یوپی اے اتحاد کا آنکڑہ محض 91 تک ہی پہنچ سکا۔ اس کے علاوہ دیگر جماعتیں88 سیٹیں ہی حاصل کر پائیں۔
ہم نے دیکھا تھا کہ 2014 کے چناؤ میں جب کانگرس محض 44 سیٹوں تک سمٹ گئی تو یہ کہا جانے لگا تھا کہ شاید کانگرسیوں کی سیاسی زندگی پوری ہو چکی ہے مگر پھر حالیہ برسوں میں ہندی بیلٹ کی اہم ریاستوں میں کانگرس نے جس طرح بھارتی جنتا پارٹی کو دھول چٹائی اس کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ شاید راہول نے کانگرس کے تن مردہ میں جان ڈال دی ہے۔
تاہم حالیہ نتائج نے ایک بار پھر کانگرس کو بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے۔ اس سے پہلے ہم کانگرس اور راہول کی نا کامیوں پر تبصرہ کریں پہلے ذرا مودی کی زور دار فتح پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مجموعی طور پر نریندر مودی نے ہندوستان بھر میں 142 ریلیاں کیں اور دوران مہم میڈیا کو بھی ایک اہم ہتھیار کے طور پر نہایت موثر انداز سے استعمال کیا۔ مودی کے قد آدم پورٹریٹ، مختلف چینلز پر چلے مودی کے کرشماتی پروموز، مودی کی پشت پر کھڑے کارپوریٹ سیکٹر جس نے مودی کی انتخابی مہم پر پانی کی طرح پیسہ بہایا اور اربوں روپے بھارتی جنتا پارٹی کی تشہیر پر بے دریغ طریقے سے لوٹائے۔
ملک کا صفِ اول کا میڈیا جیسے مودی کا بغل بچہ سا بن گیا اور سب کے سامنے عیاں ہے کہ کیسے مودی کو دوسری جماعتوں اور لیڈران کے مقابل کئی گنا زیادہ اےئر ٹائم دیا گیا ؟ یوگندر یادیو نے بالکل درست نشان دہی کی کہ اب بھارتی جنتا پارٹی مکمل طور پر مودی کے سحر میں گم ہو چکی ہے۔ اور شاید اب مودی اندرا گاندھی کا نیا روپ ثابت ہو سکتا ہے اور مزید الیکشنز تک بھی اثر دار رہ سکتا ہے۔
اس ساری انتخابی مہم میں مودی کی مائیکرو منجمنٹ بھی خاصی کامیاب رہی۔ یہ پلواما کے بعد سرجیکل سڑائک کا نقطہ ہی تھا جس نے مودی کو انتخابی میدان میں گہرائی سے استحکام عطا کیا اور اپوزیشن بکھر سی رہ گئی۔ جب کہ مودی کا ”سنکلپ پتر“ کہلایا جانے والا منشور بھی عوام کو بھا گیا جس کے تحت 60 سال کی عمر سے زیادہ چھوٹے اور سرحدی کسانوں کے لیے پنشن کا اعلان،قرض معافی کا وعدہ، بارہ کروڑ کسانوں کے لیے چھ ہزار سالانہ جاری کرنا، چھوٹے دکانداروں کو پنشن کا اجرا، آیوشمان بھارت، اجولا یوجنا، سوجھ بھارت جیسے نعروں اور اسکیموں نے بھارتی عوام کو خاصا لبھایا اور کہیں نہ کہیں عوام اس بیانیے کو تسلیم کرتے نظر آئے کہ مودی ایک چائے والا جو کہ وزارت اعظمیٰ کے منصب تک پہنچ گیا وہ چور ہرگز نہیں ہے بل کہ وہ ایک ایسا چوکیدار ہے جو اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا بخوبی جانتا ہے۔
قوم پرستی اور ہندتوا کے اجزاء پر مشتمل مودی نے اپنی انتخابی مصنوعات کچھ ایسی مہارت سے فروخت کیں کہ عوام کانگرس کے سیاسی پکوان کا رخ کرنا ہی بھول گئے۔ جب کہ مودی کے نائب امیت شاہ بھی مودی کے لیے ترپ کا پتہ ثابت ہوئے جن کی ماہرانہ انتخابی سیاست کی حرکیات نے مخالفین کے قدموں سے جیسے قالین کھینچ لیا ہو۔ امیت شاہ نے بھارتی جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے منظم تنظیمی نیٹ ورک کو عمدگی سے مہم میں استعمال کیا جس کے نتائج نہایت سودمند ثابت ہوئے۔
یوں تعلقہ سے ضلع اور بوتھ کی سطع تک ووٹروں پر گہرائی سے سٹڈی کی گئی اور کارکنان کی ٹولیاں عوام کی غمی خوشی میں دل جمعی سے مشغول رہی۔ اس طرح ملک بھر میں مسلم اکثریتی 92 حلقوں پر 45 پر بھاجپا کو کامیابی ملی جس کے ساتھ مودی نے کنبہ اور ذات پات کی سیاست کا ہی جلوس نکال دیا اور یوں اپوزیشن کے پرانے آزمودہ انتخابی حربے متروکیت کی جانب چلے گئے۔
بھارتی سیاست کے چانکیہ امیت شاہ میں بھانت بھانت کے علاقوں کے علاقائی لیڈروں سے معاملہ فہمی کی غضب کی صلاحیت موجود ہے ایک جانب جہاں آسام گنا پریشد سے اتحاد قائم کیا تو دوسری طرف شیو سینا کو بھی مہاراشٹر میں لبھا لیا۔جب کہ اس کے ساتھ پہلی بار مغربی بنگال میں18 اور اڑیسہ میں8 سیٹ بھارتی جنتا پارٹی کے حصے میں آئیں جس نے نوین پٹنائک اور ممتا بینرجی کو ہلا کر رکھ دیا۔ جب کہ اترپردیش سے پہلے ہی 64 سیٹیں لے کر مودی دلی تک رسائی کا راستہ بنا چکا تھا۔
البتہ جنوبی بھارت میں آندھرا پردیش،کیرل اور تامل ناڈو میں مودی کا مصالحہ بالکل بھی بک نہ سکا۔ جہاں تک کانگرس پارٹی کا سوال ہے تو اپنے تمام تر دعوؤں اوردسمبر میں ہندی بیلٹ میں فقید المثال کامیابیوں کے باوجود وہ لوک سبھا کے چناؤ میں ایک بار پھر اوندھے مُنھ گر پڑی اور راہول گاندھی کی قائدانہ صلاحیتوں پر کئی سوالات و خدشات کھڑے ہو گئے۔
اس شکست کے بعد گویا کانگرس کے وجود کو گہرے خطرات لاحق ہو چکے ہیں جب کہ یہ بات بھی سامنے آئی کی مودی کی طوفانی کامرانیوں نے ذات پات اور کنبے کی سیاست کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ راہول نے ملک بھر میں اپنی طویل انتخابی مہم میں 128ریلیاں کیں مگر کہیں نہ کہیں وہ عوام کو یہ احساس دلانے میں یکسر ناکام رہے کہ وہ مودی کا بہترین متبادل بن سکتے ہیں اور یہی ان کی سب سے بڑی ناکامی ثابت ہوئی۔
اس کے ساتھ ساتھ پریانکاگاندھی کی 26 ریلیاں بھی اپنا اثر جمانے میں بری طرح ناکام رہی ۔مجموعی طور پر تقریباً 23 ریاستوں میں کانگرس صاف ہو گئی اور14 ریاستوں میں بھارتی جنتا پارٹی نے سویپ کیا۔ سب سے بڑا مسئلہ کانگرس کے ساتھ یہ رہا کہ ایسا کیا ہوا کہ لوک سبھا چناؤ میں مودی لہران ریاستوں میں سب کچھ بہا کرلے گئی جہاں کانگرس کا جوڑ سیدھا بھارتی جنتا پارٹی سے پڑا؟ کانگرس اتنی نکمی رہی کہ آپ پارٹی سے دلی میں معاملات طے نہ کرپائی اور یوں دلی مودی کو تحفے میں پیش کردیا۔ جب کہ کانگرس اپنی اسی اکڑ کی بدولت بدرالدین جمال سے آسام، دمہاراشٹر میں اویسی اور دلت لیڈر پرکاش ایمبیڈکر سے بھی اتحاد نہ کر پائی۔
شاید اب نیا انڈین ووٹر فیملی سیاست سے نالاں ہو چکا ہے دوسری طرف پریانکا نے گویا کانگرس کے لیے جیسے اس چناؤ میں مہمان اداکارہ کا سا رول کیا اور حقیقی اثاثہ نہ بن پائی۔ لگتا ہے جیسے کانگرس اب 1998 کی پوزیشن پر واپسی کرچکی ہیں جب سونیا کو بکھری ہوئی جماعت کی کمان سنبھالنا پڑی تھی۔ یوں بھی گمان ہوتا ہے راہول اپنا نظریہ ڈھنگ سے انتخابی مارکیٹ میں فروخت نہیں کرپائے اور ان کی جانب سے نیائے(انصاف) اسکیم کا اجراء بھی خاصی تاخیر سے کیا گیا جس کی بدولت اس کے ثمرات و فوائد سے آگاہی میں عوام کو دیر لگی۔ شاید وہ وقت آ چکا ہے کہ اب پریانکا کو فرنٹ سیٹ سونپ دی جائے کیونکہ یہ تو ثابت ہوچکا کہ راہول کسی بھی طرح کے سیاسی کرشمے سے عاری ہیں۔کانگرس نے ان کی قیادت میں حالیہ الیکشن میں کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔
یوں راہل بابا عوام کو لبھا نہیں پائے اور ان کو مودی کے مقابل ایک سست اور اشرافیہ کے نمائندے کے طور پر عوام میں لیا گیا۔ راہول کے گرتے امیج اور کانگرس کو پاتال کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچانے میں سمرتی ایرانی کی امیٹھی میں کامیابی نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا اور راہول کو کیرل کی وائناڈ سیٹ کے سہارے ہی لوک سبھا میں پہنچنا پڑا۔ یاد رہے کہ امیٹھی کو گاندھی فیملی کے لاڑکانہ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ جہاں کانگرس ایک بار پھر نڈھال ہو کر ڈھے گئی وہاں بھارت کی ریجنل سیاست کے صوبیداروں کو بھی مودی لہر کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔
مہا گٹھ بندھن اور جاتی کی سیاست کے کارڈ اتر پردیش میں مایا وتی اور اکھلیش یادیو اور بہار میں لالو فیملی کے کسی کام نہیں آ سکے اور ان کو اپنی اپنی ریاستوں میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔اسی طرح بنگال کی آئرن لیڈی ممتا بینر جی بھی اپنا قلعہ بچاتے بچاتے جہاں 18 سیٹیں گنوا بیٹھیں وہاں آندھرا میں چندرا بابو نائیڈو بھی جگن موہن ریڈی کے ہاتھوں سب کچھ ہار بیٹھے۔ یہ راہول اور دیگر علاقائی صوبیداروں کے لیے نوشتہ دیوار بن چکا ہے کہ وہ اس الیکشن میں مودی کے تین ہتھیاروں سرکار، میڈیا اور سرمائے کا بالکل بھی مقابلہ نہیں کر پائے۔ اسی طرح کمیونسٹوں کا بھی بنگال میں نام و نشان مٹ گیا اور ان کی موجودگی محض تامل ناڈو یا کیرل تک ہی محدود رہ گئی۔
یہاں دلی کی سیاست میں تاریخی کامیابی حاصل کرنے والے اروند کیجری وال کی عام آدمی پارٹی بھی مودی لہر کے آگے دلی کی ساتوں نشستیں گنوا کر چاروں شانے چت ہو گئی اور ان کا تبدیلی کا دعویٰ لرزہ براندام ہوکر گر پڑا۔ بہرحال اب 2024 تک مودی بلا شرکت غیرے بھارت کے حکمران بن چکے ہیں اور ان کو ماسوائے خود ساختہ حماقتوں کے اپوزیشن سے کسی قسم کا خطرہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں مودی کے سامنے بڑی جیت کے ہمراہ بڑے ہمالیائی چیلنجز بھی موجود ہیں جیسے ان کو ملک میں 80 کروڑ غربا کو جو کہ شدید غربت کی زد میں ہیں بہتری کی جانب لانا ہو گا جو کہ دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔
بھارت کو نئی تعلیمی پالیسی دینا ہو گی جو وہ گزشتہ پانچ برس میں نہیں دے سکے۔ یاد رہے دنیا کی تین سو بہترین جامعات میں بھارت کی کوئی جامعہ موجود نہیں ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ ان 12 کروڑ بھارتی نوجوانوں کو کیسے روزگار فراہم کریں گے جو ہر سال ڈگری لیے لدھیانہ سے چنائے تک سٹرکیں ناپتے پھرتے ہیں کیونکہ اس وقت بیروزگاری گزشتہ 45 سالوں میں سب سے بلند شرح پر ہے۔ جب کہ اس وقت رجسٹرڈ بیروزگاروں کی تعداد 8 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
معیشت کے میدان میں کیسے مودی گروتھ ریٹ کو دس فیصدتک لائیں گے یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے ۔ ایسا مانا جارہا ہے کہ مودی اب طاقت کے نشے میں مست اندرا گاندھی کی مانند زیادہ آمرانہ انداز میں کام کرتے دکھائی دیں گے اور یہی غرور اور تمکنت مودی کے بڑھتے قدم روک سکتے ہیں کیونکہ اب ان کو بھارت کی سیاسی تاریخ میں نہرو اور اندرا گاندھی کے بعد بھارت کا مستحکم ترین وزیر اعظم قرار دیا جارہا ہے۔
لیکن میں آج اس سیکولر اور لبرل بھارتی کے لیے ضرور فکر مند ہوں جو ہندتوا کے گھوڑے پر سوار زعفرانی لباس میں ملبوس ہر ہر مہادیو کے نعرے لگاتے ہوئے جنونیوں کو ہندوستان کے طول و عرض میں دندناتے ہوئے تشویش سے دیکھ رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ کیسے ایک خود مختار سوشلٹ جمہوری ہندوستان کو زعفرانی بھارت میں بدلا جارہا ہے؟ وہ دیکھ رہا ہے کہ کیسے موہن داس کرم چند گاندھی کا عدم تشدد کا نظریہ لوک سبھا میں آج اپنی چمک دمک کھو چکا ہے کیو نکہ اب اسی لوک سبھا میں گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کے پرستار بھی تشدد آمیز رویوں کے ساتھ براجمان ہوچکے ہیں جن کی بدولت آج کے ہندوستان کا دلت اور مسلمان بھی خوف کے ماحول میں سانس لے رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی کے زعفرانی بھارت نے نہرو کے سوشلٹ سیکولر ہندوستان کو 23 مئی کو دفنا دیا ہے۔