داستانِ سیرِ بلتستان (پہلی قسط)
پچھلی دفعہ ہم اس وعدہ پر جنت سے نکلے تھے کہ اعمال اچھے ہوئے تو دوبارہ بلائے جائیں گے ۔ اعمال کی تو خبر نہیں مگر بلائے ضرور گئے اور اب کے بار تو پورے سامان سے بلائے گئے۔ ۔یعنی سکردو کا موسم جوانی کا اور ہمارا قیام تا دیر ۔ یہاں خوبصورت اور مہمان نواز دوستوں اور شاگردوں کی کمی نہیں ۔ پچھلی دفعہ تہذیب الحسن نے مارچ کے پھولوں میں پھرایا تھا اور ہوا کی پریوں کے منڈل پر اُڑایا تھا ، اس بار دلاور عباس نے دوستوں کے ساتھ مل کر ہماری ڈولی اٹھائی ، کبھی خوبانی اور شہتوت کے باغوں میں پھرائی ، کبھی چیری اور اخروٹ کے سبز سایوں میں گھمائی ، کبھی بادام اور چنارکے چھتنار درختوں میں بٹھائی اور کبھی نیلے آسمان کے سفید بادلوں میں اڑائی۔ اس جنت کے ہزاروں ہی گوشے ہیں، جن کی سیر ہم کرتے پھرتے ہیں اور نہیں تھکتے ۔ تھکیں بھی تو کیسے کہ ایک سے بڑھ کر ایک طلسم ہماری آوارہ اور بے چین روح کو شوق کے پر لگا کر اُڑائے پھرتا ہے۔ آبشاروں کا طلسم الگ ہے ، چشموں کا الگ ، جھیلوں کا طلسم الگ ہے ،باغوں کا الگ، دریاوں کا طلسم الگ ہے ،ندیوں کا الگ ، پھولوں اور میدانوں کا طلسم الگ ہے اورسرسبز میدانوں کا الگ ۔ قیام ہمارا دلاور عباس کے گھر میں ہے ۔ دلاور عباس میرا شاگردِ خاص ہے ، دوست ہے اور آرٹسٹ دل و دماغ کا حسین لڑکا ہے ۔ ضرور ایک دن افسانہ نگار بنے گا اور بے مثال بنے گا ، اُس کی والدہ جو اب ہماری بڑی بہن بن چکی ہیں ، ہمیں مسلسل ڈانٹتی ہیں کہ روٹی کم کھاتا ہوں۔
اُنھیں کیا سمجھائیں کہ خوبانی اور چیری کے دامِ فریب میں آئے ہوئے ہیں ،وہاں سے نکلیں تو اس طرف دھیان دیں ۔ ویسے بھی ہم بابا آدم کی گندم والی غلطی دوبارہ کرکے اس جنت سے نکلنے کےحق میں نہیں ۔ یہ بات تو ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ سکردو میں ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی ندیاں ،پھل دار درختوں کے سائے اور اچھے لوگ وافر ہیں مگر اُن کی تفصیل پچھلی بار بیان نہیں کر پائے ۔ آئیے ذرا آپ کو اس نگر کے آب و رنگ اپنی عینک سے دکھاتے جائیں ۔ ہرگسا ندی ،، یہ ندی مٹھل گاوں کی طرف سے نکل کر شہر میں داخل ہوتی ہے اور شہر کے بیچوں بیچ سے ہو کر دریا کے گلے ملتی ہے ۔ پگھلتی ہوئی برف اور پھوٹتےہوئے چشموں کا پانی اس کا دامن بھرتا ہے ۔ اتنی شفاف اور ٹھنڈی اور رواں ہے جیسے چاندی اور پارے کی ندی جاری ہو ۔ موجیں اس نہر کی سورج کی کرنوں کو چندھیاتی ہیں اور نیلے آسمان کو آنکھیں دکھاتی ہیں۔ لہریں مارتی ہوئی جاتی ہے ۔ اور پورے شہر کا دامن اپنے پاک پانی کے موتیوں سے بھرتی جاتی ہے ۔ نظارا اس کا آنکھوں میں طراوت ، دل میں طاقت اور دماغ میں بصیرت لاتا ہے ۔ خوبانی ،شہتوت ،چیری اور سہانجنے کے فردوسی درختوں کے سائے سائے اتنے صاف ،مصفا اور سبز پانیوں کی نہر ہم نے آج تک نہ دیکھی تھی ۔ درختوں کی شاخیں کبھی جُھک کر نہر کے پانی میں منہ دھوتی ہیں اور کبھی اِس کے آئینے میں منہ دیکھتی ہیں ، بس دو ہاتھ گہری ہوگی ۔ آپ اس کے کنارے کنارے جائیے اور حسین نظارے پائیے۔
گاہے عورتیں کپڑے دھوتی ملیں گی ، گا ہے شہر کے حسین بالکے نہاتے پائیں گے اور گاہے بطخوں کی ٹولیاں تیرتی جائیں گی اور خوشی سے ٹیں ٹیں بولتی جائیں گی ۔ کہیں ٹراوٹ مچھلیاں ہوں گی ۔ اس کی تہہ میں آئینوں کی طرح چمکتے ہوئے نیلے ، سرخ ،نیلئی ، سبز اور زرد رنگوں کے پتھروں پر یاقوت و نیلم و مرجان اور زمرد اور ہیروں کا گمان ہوتا ہے ۔ نہر کے کناروں پر سبز گھاس کے قطعے گویا زمرد کے قالین ہیں کہ دُور تک بچھے ہیں اور کوئی جگہ اِن سے خالی نہیں ۔ میں روز صبح پہلے اسی کی سیر کرتا ہوں اور اپنی جھولی خدا کی حسین نعمتوں سے بھرتا ہوں ۔ پہلے دن میرا ساتھ دلاور کے دوست ذی جاہ نے دیا ، ہم اس کے کنارے کنارے چلتے گئے اور نظارے دیکھتے گئے ، چار کوس کا سفر ہم نے بغیر تکان کہ طے کر لیا ۔ رستے میں خوبانیاں اور چیر ی اور شہتوت توڑ توڑ کر کھاتے جاتے تھے اور چلتے جاتے تھے ۔ ذری پیاس لگی تو نہر کے مصفا پانی سے چلو بھر کر پی لیا ۔ تھوڑی دیر میں پھل سب ہضم ہو جاتا تھا ۔ سیر سے اور پھل سے ہمارا جی نہ بھرتا تھا ۔ حتیٰ کہ سہ پہر ہو گئی اور ہم نے واپسی کی ٹھانی۔ دلاور کو فون کیا ،وہ موٹر سائکل لے کر آ گیا اور ہمیں بٹھا کر واپس گھر لے گیا ۔ اتنے میں شام ہو گئی ۔ اب اگلے دن کی سنیے ، ہم نے ضد کی کہ ہم تو اسی ندی کے کنارے پھر جائیں گے ، اب ہمارے سب شاگرد جو سکردو میں موجود تھے ،آ گئے، اِن میں سلیم ، وقار شگری ، سدیف جعفر ، صلو ، حسنین ، وزیر علی اور دلاور سب ہی شامل تھے ۔ اب کے ہم نے بھی نہر میں نہانے کی ٹھانی ،مگر ٹھنڈے پانی نے ٹانگوں سے اُوپر کا حصہ بگھونے کی اجازت نہ دی ۔ لیکن یہ ضرور ہوا کہ دُور صحرا تک ہم نہر کے پانی کے بیچ بیچ ہی سے گئے۔
یوں بطخوں کی ہمراہی کا فیض پایا اور نہر سے لُطف اُٹھایا ۔یہ سیر بھی ہم نے عصر تک جاری رکھی اور پھر چُمک ایک جگہ ہے جہاں دریا زوروں پر بہتا ہے اور دیکھنے سے علاقہ رکھتا ہے، وہاں آگئے۔یہاں دریا کا پانی اور اُس کا بہاو دیکھ کر دل ڈہلتا تھا ۔ ندی کی حور کے مقابلے میں یہ دریا اسرافیل کا صور معلوم ہوتا تھا ۔ اس کی ہیبت دلوں کو لرزاتی تھی اور دماغ کو برفاتی تھی ۔ ہم زیادہ دیر اس کا نظارا نہ کر سکے اور لوٹ آئے